مسلم مجاہدِ آزادی مسیح ا لملک حکیم محمد اجمل خان

0
219

حکیم اجمل خان کی ۹۳ ویں برسی کی مناسبت سے

ڈاکٹر جی ۔ایم ۔پٹیل
مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کی شخصیت اطبائے ہند میں ممتاز اور نمایاں ہے۔ اجمل خان نہ صرف معروف طبیب تھے بلکہ ہندوستان کی تحریکِ آزادی میںفرنگیوں سے اپنا لوہا منوا لیا ۔حالانکہ انگریزوں نے حکیم اجمل خاں کی طبی لیاقت اور خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ’’ قیصر ہند ‘‘ اور ’’ حاذق الملک ‘‘ ذی وقار اور معزز اعزازات سے نوازہ۔ آپ نے ان خطابات اور اعزازات کو بطور قوم و ملت و ملک کی یکجہتی اور ہندوستان کی آزادی کے لئے احتجاج کی صور ت ان اعزازات کو انگریزی حکومت کو واپس کئے۔ حکیم اجمل خان کو خدمتِ خلق اور غربا کی فلاح و اصلاح اور جذبۂ قربانی سے متاثر ہو کر عوام اور تحریک ِ ّزادی کے بہادر انقلابی سپاہیوں ، متوالوں نے ’’ مسیح ا لملک ‘‘ کا خطاب عطا کیا جو حکیم صاحب کے حب ّا لوطنی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی سند ہے۔
حکیم اجمل خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مسلم لیگ کے قیام سے کیا۔اپنی طبی اور تعلیمی مصروفیات کے باؤجود مسیح ا لملک نے قومی تحریکوں کو کبھی نظر انداز نہیں کیا اور ہر تحریک کا انہوں نے خیر مقدم کیا جس کابراہ راست تعلق تحر یک ِ آزادی سے تھا ۔تحریک خلافت ہو یا انڈین نیشنل کانگریس، جامیہ ملیہ اسلمامیہ کی جدو جہد ہو یا ندوۃ العلما کی اصلاح حکیم صاحب نے آزاد اور جدید ہندوستان کی تشکیل کے لئے ہر محاذ پر ڈٹے رہے ۔ حکیم صاحب نے ملک کے اتحاد عظیم ، انسان دوستی اور فرقہ وارانہ انصاف اور مساوات پر زور دیا اور ہر پلیٹ فارم پر انہیں عزّت ملی اور اعتماد حاصل ہوا۔ حکیم اجمل خان وہ واحد مسلم لیڈر تھے جنہیں ’انڈین نیشنل کانگریس‘ مسلم لیگ‘ اور آل انڈیا خلافت کمیٹی ان تینوں کے صدر ہونے شرف حاصل ہوا ۔امتحانی اور نازک دور میں جب انگریز حکومت نے مسلم رہنماؤں کو تعصبی اور خوف کی اثنا میں اچانک گرفتا ریاں شروع کردیں تو حکیم اجمل خان نے گاندھی جی سے رابطہ کیا اور اس کے خلاف آواز اُٹھائی ۔ مسلم وفد کی قیادت میں انہوں نے ۱۹۰۶ء میں شملہ میں ہندوستانی وائسرائے کو عرضداشت پیش کی اور انہیں رہا کروانے کی اپنی انتھک کششوں کو لگاتار ڈٹے رہے۔
جامیہ ملیہ اسلامی کے بانی جنہیں ۱۹۲۰ء میں پہلا وائیس چانسلر بننے کا فخر حاصل ہوا۔۲۹ء دسمبر سے ۱۹۲۷ء اپنے انتقال تک وہ وائیس چانسلر رہے
حکیم اجمل خان کے آبا و اجداد جو خاندانی حکیم تھے مغل بادشاہ کے زمانے میں ہندوستان کا رخ کیا او ر اپنی یونانی طبی مہارت کی بدولت شاہی دربار میں اپنی شناخت بنالی اور حکیم اجمل خان کے دادا حکیم شریف خان بادشاہ کے خاندانی شاہی حکیم مقرر ہوئے۔حکیم اجمل خان کی ولادت ۱۱؍ فروری ۱۸۶۸ء میں ہوئی ،انکی ابتدائی بنیادی تعلیم دادا کی رہنمائی میں ہوئی ا ور انہوں نے ہی ’حکمتِ طبی ‘ کے بنیادی اُصول اور طبی نسخوں سے انہیں واقفیت کروائی۔حکیم اجمل خان کے ہاتھوں میں شفا کرشمہ کی صور ت ایک جادو تھا۔۱۸۹۲ء میں رام پورکے نواب کے خصوصی طبیب مقرر ہوئے۔ حکیم اجمل خان ایک با شعور مفکر تھے جو ہر قدم پر اپنی قوم کی اصلاح و فلاح اور تعلیم کے لئے غالباََ ہر ممکن کوشش کرتے رہے ۔فرنگیوں کے دورِ حکمت میں اپنی قوم کے پیچیدہ خستہ حالات سے انہیں نجا ت دلانے اور ہندوستان کو ا نگر یز وں سے آزاد کروانے کے لئے سیاست میں دلچسپی لی۔ حکیم اجمل خان ہندو مسلم دونوں میں کافی مقبول تھے۔ مسیح ا لملک اجمل خان نے ہندوستان کی ّزادی کی تحریک میں کافی سنجیدگی سے شامل رہے ۔ملک کے اتحادِعظیم،انسان باہمی دوستی،فرقہ وارانہ انصاف اور مساوات پر خوب توجہ دیتے اور ہر پلیٹ فارم پر عزت ، اور خود اعتمادی کو ترجیح دی اور بلا کسی تفریق، بھید بھاؤ کے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں کامیاب و آباد رہے ا ور اپنے زمانے کے رئیسِ اعظم ہونے کا رتبہ اللہ و تعلیٰ نے انہیں عطا کیا اس کے باؤجود بلا کسی تکبّر کے حکیم محمد اجمل خان اپنے خدمات ِ انسانی کو ترجیح دیا۔
مسیح ا لملک اجمل خان کو شاعری سے شغف و رغبت رہی اور شیداؔ بطور اپنا تخلص استعمال کرتے ہوئے اپنے ادبی ذوق و شوق کی پیاس بجھانے کے کئے ہفتہ وار’’ اکمل ا لاخبار‘‘ میں اپنے جذبات کی عکاسی کرتے ہوئے اپنے تحریکِ آزادی کے اظہار ِ خیال کو عام کیا۔ ان کے ذہن میں ہندوستانیوں کی غلامی کا ولولہ جاگ گیا اور چنگاری سُلگ گئی اور جب اس سے شعلے لپکنے لگے تو ان کی سیاست گرما گئی اور اجمل خان اپنی پوری توجہ فکر اور شدت سے ہندوستان کے تحریکِ آزادی کا پرچم تھامے مکمل طور سے اپنے آپ کو آزادی کا سپاہی، ایک مجاہدِِ آزدی کے بے پناہ حب ا لوطنی کے جذبے کو اپنے وجود میں سمولیا اور وقت کے ساتھ ساتھ خود اپنے آپ کو اس عزم کیا اور فتح کی دشوار راہوں پر اپنی منزلِ مقصود کی طرف گامزن رہے۔
حکیم اجمل خان صاحب دہلی جامیہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر ہی نہیں تھے بلکہ بڑی حد تک اس کے اخراجات کیلئے خود کفیل بھی تھے۔حکیم اجمل خان جامیہ ملیہ اسلامیہ کے علاوہ مسلم یونیورسٹی‘ ندوۃ ا لعلما ‘دارالمصنفین‘ اعظم گڑھ ، نظار ۃالمعاروف دہلی ،مسلم ایجیوکیشن کانفرنس وغیرہ کی استحکام اور ترقی میںہمیشہ سرگرم رہے۔حکیم اجمل خان نے اپنی نوعیت کے بہترین طبیہ کالیج کی بنیاد رکھی جو اپنے آپ میں ایک مثال تھا، طب ِ یونانی کے فروغ کے لئے دواخانہ تعمیرکروایا جن میں سنٹرل کالج‘ ہندوستانی دوا خانہ‘ اور یونانی طبیہ کالیج‘ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔اجمل خان کا منعقدہ ’اجمل دواخانہ ‘‘ کسی تعارف کا محتاج نہیں آج سارے عالم کے یونانی طبیبوں کے لئے سنگِ میل کی ثابت ہوا ۔
۲۹؍مارچ ۱۹۱۶ء کو مسیح ا لملک نے لارڈ ہارڈنگ کے ذریعہ باضابطہ طور سے’’ آیورویدک اینڈ یونانی طبیہ کالج‘‘ کی عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا، تاکہ انگریزوں کی متعصبانہ سازشیں دیسی طبوں کی باد بہار کو زہر آلود نہ کر پائیں اور یہ سبھی فنون ہمیشہ کے لئے امر ہو جائیں۔ کالج کے سنگِ بنیاد کے ساتھ ہی وہاں طب کی باقائدہ تعلیم کا آغاز ہوا کا لج کے مصارف کے مستقیل انتظام کے لئے انہوں نے ’’ ہندوستانی دوا خانہ دہلی‘‘ اس نام سے ایک شاندار دواخانے کا قیام جسکی خدمات سے آج بھی مریض فیضیاب ہوتے ہیں۔
حکیم اجمل خان نے ’’ادویہ منفردہ و مرکّبہ‘‘ دونوں پر ہی بہت منصوبہ بند طریقے سے ریسر چ و تحقیق کرانے کا آغاز کیا ۔جس کا مقصدیہ تھا کہ یونانی ادویاتی خزانہ کو جدید تحقیقات اور آلات سے کی مدد سے برِِّ صغیر سے مغربی ممالک تک اس کا دائرہ وسیع کرنا اور طبِ یونانی کی اہمیت و افادیت سے سارے عالم کو روشناس کرانا جس کے لئے انہوں نے اپنے زمانے کے معروف کیمیا داں ڈاکٹر سلیم الزمہ صدیقی کو منتخیب کیا۔ حکیم صاحب نے ڈاکٹر سلیم ا لزَّماں صدیقی کو ایک یونانی دوا ’ اسرول‘ یا ’ چندن بوٹی‘ جو ایک عمدہ اور مجرَّب دوا ہے جو فشار الدم قوی ’ہائی بلڈ پریشر‘ کے لئے مستعمل تھی ،کئی برسوں کی ریسرچ و تحقیق کے بعد انہوں نے طب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور بہترین دافع فشارالدم قوی کے لئے ’’الکلائیڈس اجملین ‘ اجملینین ‘ نیو اجملین ‘ آئیواجمیلین‘ اجملیسین وغیرہ ان یونانی طبی نسخوں کی سوغات ،ایک شاہکار کارنامہ ثابت ہوا جو حکیم محمد اجمل خان صاحب کی عبقری شخصیت کا ایک غیر معمولی تحقیقی ذہانت کی ترجمانی کرتا ہے۔ حکیم اجمل خان کی زندگی کا طبی دُنیا میں ایک اہم ترین تیز طبع فطین کارنامہ جس نے برطانیہ کے معروف سرجن نے اپنی شکست قبول کر لی ۔
۱۹۱۱ء میں حکیم اجمل خان نے یوروپ دورہ کیا جہاں انہوں نے طب اورسرجری کے شعبے میں کی جانے والی تاز ہ ترین تحقیقوں کا مطالعہ کی غرض سے ہندوستانی ڈاکٹر مختار احمدانصاری جو چیئرنگ اسپتال کے ہاؤس سرجن تھے ان سے ملاقات کی اور ڈاکٹر انصاری نے لندن کے ’ چئیرنگ اسپتال‘ کے مشہور و معروف چیف ہاؤس سرجن ’ڈاکٹر اسٹینلے بوڈ‘ سے ملاقات کروائی اور تینوں نے ایک مریض کی جانچ کی۔ حکیم صاحب نے جانچ کے فوری بعد اپنی انفرادی تشخیص کو واضح کیا کہ ’’ مریض کے آنتوں کے اوپری حصے میں پرانے زخم ہیں‘‘ ا ور دوسری جانب جیسے ہی ڈاکٹر بیوڈ نے سرجری کے لئے جب شکم کھول دیا تو وہ چونک گئے کیوں کہ حکیم اجمل خان نے جو تشخیص کی تھی وہی بالکل درست تھا اور جس سے خود ڈاکٹر بیوڈ بے حد متاثر ہوئے اور حکیم صاحب کی اعزاز میں طعام شب کا اہتمام کیا ۔ حکیم اجمل خان اسقدر ذہین اور مرض کی تشخیص میں مہارت رکھتے تھے کہ مریض کی شکل ہی سے اسکے مرض کی تشخیص کرنے میں بے انتہا مثالی تھے ۔
مسح ا ملک حکیم اجمل خان طبی دنیا کے ’’بے تاج بادشاہ‘‘ تھے۔کسی لمحہ بلا تفریق انسانی خدمت کو نظر اندا نہیں کرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ مسیح املک حکیم اجمل خان اپنی غیر معمولی طبی خدمات کے لئے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔آج انہیں کے تحقیقی مرکبات ،بیش بہا قیمتی یونانی نسخوں کی وجہ سے طبِ یونانی زندہ ہے ا ور عروج پر ہے ۔
۲؍ نومبر ۱۹۲۷ء کو حکیم اجمل خان کا جامیہ ملیہ اسلامیہ کے اجلاس انکی زندگی کا یادگار و آخری جلسہ رہاجس میں وہ بذاتِ خود حاضر رہے ، جہاں گاندھی جی بھی موجود تھے ۔ حکیم اجمل خاں نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا’ جامیہ عدم تعاون کی تحریک جس کی بنیاد علی گڑھ میں رکھی گئی جس کا مقصد طلباء و طالبات کے لئے تعلیمی ، تہذیبی اور ثقافتی مرکز کا قیام کرنا تھا‘ ایک جدید سوچ رکھنے والے فرشتہ صفت محمد اجمل نے اپنی زندگی کی آخری عشرے میں متقی ، پرہیز گاراور خصوصی طو رسے تصوف کی طرف مائل رہے۔
دل کا دورا پڑنے کی وجہ سے ۲۹؍ دسمبر ۱۹۲۷ء میں رام پور میں اللہ کو پیارے ہوئے۔ انکی نعش کو دہلی لے جایا گیا ،جامع مسجد دہلی میں نماز ادا کی گئی اور حضرت خواجہ سیّد حسن رسول نما قدس سرہ ‘ نذد پہاڑ گنج جہاں آپ کے والد اور دونوں بھائی مدفون ہیں انہیں کی’ آغوشِ لہد‘ میں حکیم محمد اجمل خان ابدی نیند آرام فرما ہیں۔
درد کو رہنے بھی دے دل میں دوا ہو جائے گی
موت آئے گی تو اے ہم دم شفا ہو جائے گی
پونے۔رابطہ : 9822031031

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here