لَو جہاد- love jihad

0
221
love jihad
ــ ڈاکٹر جی۔ ایم پٹیل

 پونے:گوپی ناتھ اور روح ا لمتین کا دوستانہ غازی پورہ قصبہ کے لئے ایک مثال بن چکا تھا۔دونوں میں گھریلو تعلقات اس قدر قریبی تھے کہ شاید ہی انہوں نے کبھی دیوالی، عید ایک دوسرے کے بغیر منائی ہو ۔ یوں تو سارے غازی پورہ کا ماحول گنگا جمنی تہذیب کا علمبرہے اور اسی مناسبت سے ریاست اور مرکز سے بہترین گاؤں اس اعزاز سے نوازہ گیا ہے تعصبی شر پسند عناصر نے کئی مرتبہ غازی پورہ کا ماحول خراب کرنا چاہا لیکن قصبہ کے تما م باشندوں نے انہیں قریب پھٹکنے نہیں دیا۔ایک دن روح المتین اور گوپی ناتھ کی خاص ملاقات میں اپنے دل کے زخم اور اس کے درد کو واضح کیا’’میں میرے لڑکے دانش کے لئے بڑا فکر مند ہوں ۔ دراصل اسمیں غلطی میری ہی ہے۔ اکلوتی اولاد تھی توتعلیم اور مستقبل کی طرف جتنی توجہ دینی ہے نہیں دے پایا ۔خیر اب میں چاہتا ہوں کہ دانش کسی کاروبار میںمشغول ہوجائے تو وہ اپنی زندگی سنوار سکتا ہے ‘‘ گوپی ناتھ نے روح المتین کی داستان کی درمیانی سطر پڑھ لی اور ان سے کہا کہ’’ بے فکر رہو اور دانش کاروبار کی حد تک کافی عقلمند ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ کاروبار میںتجارت میں خوب نام روشن کرلے گا۔ نیک کام میں دیری کیوں گر اعتراض نہ ہو تو کل ہی سے دانش کو بھیج دو‘‘۔ روح المتین نے گوپی ناتھ کا شکریہ کا ادا کیا اور نکل گیا۔ دانش سارے غازی پورہ میں اپنی خدمات اور ملنساری کے لئے اپنی ایک شناخت بنا رکھی تھی اور اپنی عقلمندی ، ہوشیاری او ر ملنسای کی مناسبت سے ا پنی محنت مشقت کرتا رہا اور گوپی ناتھ کی رہنمائی میں کاروبار کو’ دن دونا اور رات چوگنا‘ ترقی ہوتی گئی ۔ گوپی ناتھ دانش سے بے حد خوش تھیاور گاؤں مین اب دانش کی عزت و اسکا احترام بڑھتا چلا گیا اورروح المتین بھی کافی خوش تھے ؟۔ لیکن رشتہ کی نزاکت کا لیحاظ کرتے ہوئے معشیت کے معاملوں میں ایک فاصلہ ایک دوری بر قرار رکھی۔اب گوپی کی تجارت اس قدر ترقی کر گئی کہ اکثر انہیں یو پی کے بڑے شہروں میں ضروری دیگر تجارتی اشیا کی خریداری کے لئے جانا لازمی بن گیا اور انکے سفر کا یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا گیا۔ گوپی کے اکثر تجارتی احباب مسلم تھے کیونکہ گوپی ناتھ ان سے تجارت کرنے میں خود محفوظ محسوس کرتے اور ان مسلم تاجر بھی گوپی کا بیحد احترام کرتے ۔ غازی پورہ کے کاروبار کی ساری ذمہ داری اب دانش پر تھی ۔اب چونکہ دیوالی نزدیک آرہی تھی تو گوپی ناتھ نے ایک بڑی رقم ساتھ لے لی اپنے تجارتی ساتھی شمس ا لرحمن سے اپنے آنے کی خبر دے دی اور نکل پڑے۔گوپی شہر پہنچ گئے آٹو سواری لے لی اور چل پڑے شمس کے کارخانے کی جانب ۔کچھ ہی فاصلہ طئے ہوا تھا کہ اچانک فرقہ وارانہ فساد نے چاروطرف کہرام مچادیا اور چشمَ زدن میں سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور آگ زنی اور چاقو زنی اور اس دفعہ تو پستول کی گولیوں کی وحشت انگیز آوازوں سے سارا ماحول کانپ ااُٹھا۔ کچھ وقفہ بعد تو فرقہ وارانہ وحشتی حملوں،تعصبی نعر وں، انکی بھگدڑ، عورتوں بچوں کی رونے ،دہاڑنے ، کی دلخراش چیخوں سے سارے ماحول میں جیسے حشر برپا تھا۔ گوپی ناتھ شمس ا لرحمٰن کے کارخانے کے قریب ایک گوشے سے جھانک کر دیکھا تو شمس بھائی کا کارخانہ آگ کے شعلوں میں جھلس رہا تھا اورمارے خوف کے گوپی ناتھ وہیں قریب ایک گوشے میں کھڑے رہے اور شمس بھائی کو فون لگایا۔ شمس بھائی نے فوراََ فون ریسو کیا اور گوپی ناتھ اس علاقے سے دور نکل جانے کو کہا۔اسی ایک لمحہ برق رفتار پستول کا رتس گوپی ناتھ کو زخمی کرتی ہوئی اسے لہو لہان کر گئی اور وہ وہیں نیچے گر گیا۔
غازی پورہ میں جب اس فساد کی خبر پہنچی تودانش بے حد پریشان ہوا اور گوپی ناتھ سے لگاتار فون پر رابطہ کی کوشش کرتا رہا لیکن گوپی کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تو دانش کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی ۔ دانش کو کسی پل نہ چین تھا نہ سکون بس کسی طرح گوپی ناتھ کی خیریت جاننے کے لئے دیوانہ وار جتنے فون گوپی نے اپنی ڈائری میں لکھ رکھے تھے تمام کو ڈائل کر تا گیا اور گوپی کی خیریت پوچھتا رہا ۔ شمس بھائی نے کچھ تسلی بخش جواب دئے اور بے فکر رہنے کو کہا اور واضح کردیا کہ جب فساد کا ماحول کچھ معمول ہو جائے تو وہ گوپی ناتھ مکمل تفتیش کے بعد فون کر یں گے۔ اضطراب،بے چینی اور پریشانی نے انہیں جیسے بے قابو کردیا تھا اور بالکل سنجیدہ اداس چشم براہ ، ہر آہٹ کی طرف ،ہر آہٹ بس گوپی کی آہٹ کو محسوس کرتی رہی ! جب ایک ہفتہ سے زیادہ گزر گیا تب گھر میں ماتم مچ گیا۔ دانش گوپی ناتھ کے کاروبار کو ذمہ داری سے سنبھالتا رہا۔ ہفتے میں اکادھ دفعہ سلیکھا بھی تجارت کی تفتیش میں وہاں پہنچ کر دانش سے تفصلات جان لیتی اور اسے بڑا اطمینان ہو تا کہ دانش بڑی ایمانداری ،دیانت داری سے سارے کام کو سنبھال رکھا ہے ۔ سلیکھا سمجھ گئی کہ دانش کو سارا کاروبار ا سنبھالنے میں کافی پریشانیوں،دشواریوں کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ۔ انہوں نے خود انکی اکلوتی لڑکی ترنم جو پڑھی لکھی ہے اور کالج سے کمپیوٹر کورس بھی مکمل کرلیا ہے، دانش کی مدد کے لئے اسے بھیجنے کا فیصلہ کرلیا۔اب ترنم اور دانش دونوں نے کاروبا ر کی ذمہ داری سنبھال لی۔ترنّم بے انتہا خوبصور ت تھی ۔دانش نے جب ترنم کو پہلی دفعہ دیکھا تو ترنم کی خوبصورتی اسکی روح میں سما گئی اورترنم کے سارے سُر ،تال، طرزیں ،عشقیہ رومانی موسیقی کی صورت دانش کے وجود کو لبریز کر دیا ۔ یہ ایک طرفہ لگاؤ ہر گز نہیں تھا ادھر ترنم کا بھی یہی حال تھا۔ترنم نے کچھ عرصہ پہلے دانش کو دیکھا تبھی سے اسے اپنے دل کے جھرو کے میں ،دریچے میں چھُپا ئے رکھا ، دانش کا اخلاقی اقدار خصوصی طور سے اسکا ادبی ذوق اور دانش
کے چہرہ کی ایک مردانہ کشش نے سے وہ بیحد متاثرتھی اور دل ہی دل میں اسکی پوجہ اسکی پرستش کرتی رہی اور بڑی بے باکی سے اپنے والد سے دانش سے اپنی محبت کا ا ظہار بھی کر ڈالا

دن بدن دانش اور ترنم میں عشق گہراتا گیااور ’ عشق و مشق چھپائے نہ چھپے ‘ انکی داستانِ عشق اب گاؤں والوں نے بھی پڑھنی شروع کی۔ اب گاؤں والوں کی بد نظروں سے وہ کیسے بچ پاتے ۔کچھ انتہا پسندعشق کے دشمن عناصر اور غازی پورہ میں اپنے فتنے اور نفرت کی زہر ا فشانی شروع کی جس سے سارا ماحول زہر آلود اور تعصبی بنتا گیا ۔ ایک دن کچھ شر پسندوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں لئے گوپی ناتھ کے تجارتی مقام پر ہلا بول دیا۔ اس وقت دانش کے ساتھ ترنم اور انکی والدہ دونوں موجود تھے۔ دونوں نے اس سازش کو بھانپ لیا اور انہیں دانش کی طرف بڑھنے سے روک لیا اور خود سلیکھا ان سر پشند عناصرکے روبرو انکے مقابل آ کھڑ ی ہوئی اور کسی طرح دانش کو بچالیا۔ سلیکھا نے ترنم ، دانش اپنے ہمراہ لئے اپنے گھر پہنچ گئی۔ ادب نواز ، خاموش دانش نے یک لخت اپنے سُلگتے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا
’’ اے خدا پھر یہ جہنم کا تماشا کیا ہے تیر ا شہکار تو فی النار نہیں ہو سکتا
عشق ہو جاتا ہے ا ور عشق کا احساس خدائی کا احسا س ہے۔ نہ زمانے سے گلا ہے نہ کسی سے کوئی شکوہ ہے ۔ ہمیں ایسی ہزار آزمائشوں گزرنا ہوگا ۔تاریخ گواہ ہے اسکی !
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجے ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
اس نازک وقت میں ہمارے عشق کا تماشہ خود ہماری ،ہمارے عشق کی توہین کا باعث بن جائے ،ہماری عزت و وقار فنا ہوجائے اسمیں ہماری بہتری یہی ہے کہ کچھ عرصہ ہم دور ہوجاتے ہیںفراق کا لیحاف اوڑھے ہم وداع ہوجاتے ہیں۔لیکن ویڈیو کانرسنگ میں اپنا دیدار اپنے احساسات اور جذبات شیر کرتے رہیں گے۔رُخصت سے قبل دانش نے سُلیکھا سے یہ وعدہ کیاکہ زندگی کی آخری سانس تک وہ اپنا فرض نبھا تا رہے گا اورانہیں یقین دلایا اور کہا’’ مجھے یقین ہے کہ میری چھٹی حس بار بار مجھے احساس دلارہی ہے کہ میرے آقا گوپی ناتھ جی آج بھی زندہ ہیں اور وہ ایک دن ضرور واپس آجائیں گے۔ سب سے اہم اور مثبت بات یہ ہے کی ترنم نے مجھے کمپیو ٹر کی تربیت دی ہے اور سافٹ ویر بھی ڈاؤن لوڈ کر دیا ہے جو اس کاروبار سے منسلک ہے۔ اب میں اکیلا ہی اس کاروبار کو بہ آسانی سنبھال لوں گا ‘‘
گوپی ناتھ کو لا پتہ ہوئے قریب ایک سال ہونے کو تھا ۔ ایک دن شہر سے تین بڑی کاریں غازی پورہ میں داخل ہو ئیں اور بالکل دانش کے رو برو کھڑی ہو گئیں ۔ان تینوں کا ر سے قریب ۷۔۸ مسلم مرد اور ایک برقع میں نقاب پوش خاتون تمام باہر نکل آئے ۔ کچھ لمحوں میں پولس فورس بھی تعنات ہوئی۔ غازی پوراہ کے مکینوں کی کافی بھیڑ جمع ہوئی ، خاموشی ، سنّا ٹا ، پتہ نہیں اگلا لمحہ کیا حشر برپا کر دے ؟ ۔خوف کے رینگتے سائے غازی پورہ کو اپنی پنا ہ میں لے لیا ْ۔یہاں دانش بے حد خوفزدہ تھا۔ نقاب پوش خاتون آگے بڑھ کر دانش سے بغل گیر ہو گئیں۔ دانش سہم گیا اور پھر اس خاتون نے دانش کے دامن کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا ۔اس حرکت میں جب اس خاتون کانقاب چہرے ہٹ گیا اور خاتون کا پوشیدہ چہرہ دانش کے روبرو ہو گیا تو دانش نے فوراََ اس چہرے کی شناخت کر لی اور اسے جیسے اپنے آقا کا مکمل دیدار ہوا وہ دیوانا وار ان سے چمٹ گیا اور دانش کے خوشی کے آنسوؤں سے گوپی کا دامن بھیگ گیا ۔ اس ملاپ،ربط ضبط کو آئے ہوئے سارے مسلم مہمانوں نے اسے اپنے کیمروں اور ویڈیو میں قید کرلیا ۔موجود تمام پولس اور غازی پورہ کے ایک بڑے مجموعے نے بذات خود جب گوپی کو دیکھ لیا تو تالیوں کی گونج سے ان کا استقبال ہوا۔اب گوپی ناتھ غازی پورہ کے باشندوں سے مخاطب ان تمام مسلم بھائیوں کا تعارف کروایا اور بڑے فخر سے اعلان کہا کہ’’ انہیں مسلم بھائیوں کی وجہ سے آج میں آپ کے سامنے زندہ جاوید کھڑا ہوں ۔قریب ۸ ماہ اسپتال میں کومہ میں پڑا رہا اور اس کے بعد صحتیابی کے لئے کچھ ماہ اور درکا ہوئے ۔اسپتال کا قریب ۵لاکھ روپیہ کا خرچ میرے عزیز شمس ا لرحمن نے کیا ‘‘تمام گاؤں والوں کی تالیوں سے اورپٹاخوں کی گڑ گڑاہٹ سے غازی پورہ میں دیوالی اور عید ایک ساتھ منائی اور قریب ایک ہفتہ تک یہی جشن جاری رہا۔گوپی ناتھ نے اب اپنی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ جناب روح المتین کی رضا مندی سے د انش اور ترنم کی شادی روایتی رسم و رواج کے ساتھ منا ئی گئی۔ غازی پور ہ کے تمام باشندوں نے دُعائیں دیں آشیرواد دیا۔ سُلیکھا اور گوپی نا تھ دونوں کا دل بھر آیا، خوشی وغم کے آنسوؤں کی سوغات ترنم کو دواع کیا تھے ۔
آج غازی پورہ کے باشندوں نے ثابت کر دیا کہ صدیوں سے چلی آئی گنگا جمنی تہذیب ہم ہندوستانیوں کی میراث ہے،حقِ وراثت ہے !!

۔رابطہ

982203103:

٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here