صحافتی قدریں- Journalistic values

0
36

کسی بھی جمہوری ملک میںمیڈیا اور حکومت کے درمیان اصولی سطح پر ٹکراؤ نئی بات نہیں ہے ۔لیکن ماضی قریب میں یہ منظرنامہ کافی تبدیل ہوا ہے۔ ارباب اقتدار کی ایک بڑی تعداد نے یا تو زیادہ سے میڈیا ذرائع کو یا تو خرید لیا ہے یا پھر ان کی کمزور رگوں پر ہاتھ رکھ کر دبا لیاہے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ اب میڈیا کا ٹکراؤ ارباب اقتدار کے بجائے ارباب اختلاف سے ہونے لگتا ہے۔ کئی میڈیا نمائندے خصوصاً ٹی وی چینل کے لوگ اپوزیشن لیڈران سے وہ سوال کرتے ہیں جو ان کے مالکان ان کے کانوں میں پھونکتے ہیں۔سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو کی تقریباً ہر پریس کانفرنس میں کسی نہ کسی ٹی وی چینل کے نمائندے کے سوال پر ٹکراؤ دکھائی دیتا ہے۔ اکھلیش یادو ہمیشہ جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہیںاور الٹے سیدھے سوال کرنے والے کو بی جے پی کا ایجنٹ اور دلال تک کہہ دیتے ہیں۔(حالانکہ یہ ان کے خون کی گرمی ہے اور سیاسی مصلحت کے بالکل خلاف ہے) ایسے ہی معاملات اور نازک موڑ وں پر اپنے حوس قابو میں رکھنا ہوتے ہیں،کہتے ہیں کہ کسی بھی ماہر سیاستدان کو کبھی غصہ نہیں آتا (آتا تو ضرور ہے لیکن و ہ بڑی فنکارانہ اداکاری اور مہارت کے ساتھ اپنے غصہ کو دبا لیتا ہے اورمجھوتے تبسم کے ملمع کے نیچے وہ اپنے ابلتے ہوئے غصہ کو دبائے رہتا ہے اور موقع ملتے ہیں اسے کسی نہ کسی صورت مین ٹھنڈا کر لیتا ہے۔کبھی کبھی اس کے نتائج بڑے خطرناک بھی ہو جاتے ہیں۔پچھلے دنوں مرادآباد کے ایک مقامی ہوٹل میں اکھلیش یادو کی پریس کانفرنس میں ایک مقامی چینل کے فرید شمسی اور مکیش امبانی کے ٹی وی ۱۸ کے رپورٹر عبید الرحمٰن نے اکھلیش سے کچھ ذاتی سوال کرنے شروع کردیئے۔ اس پر اکھلیش نے کہا کہ اس قسم کے سوالات کا جواب وہ نہیں دیں گے۔بات بڑتھی گئی اور دونوں صحافی اڑ گئے اورکہا کہ سوال کرنا ہمارا بنیادی حق ہے۔ آپ کو جواب دینا ہی پڑے گا۔ بدتمیزی حد سے زیادہ ہوگئی تو اکھلیش اٹھ کر چل دئیے۔ میڈیا نمائندوں نے انہیں زبردستی گھیرنا چاہا تو اکھلیش کے سکیورٹی عملے نے بیچ میں آکر ان لوگوں کو روکا۔ لیکن فرید شمسی اور عبید الرحمٰن وغیرہ سکیورٹی عملے سے بھڑ گئے۔ اس آپا دھاپی میں سکیورٹی نے وہی کیا جس کے لئے وہ تعینات تھے۔ انہوںنے فرید شمسی کو دھکا دے کر پیچھے کیا تو وہ زمین میں بیٹھ کر بے ہوش ہونے کا ڈرامہ کرنے لگا۔ جیسے ہی اکھلیش نزدیک آئے تو پھر اٹھ کر کھڑا ہوگیا اور چیخ کر کہنے لگا کہ سوال پوچھنا میرا بنیادی حق ہے آپ کو جواب دینا پڑے گا۔
در اصل ایسے معاملات میںایماندارانہ صحافت کرنے والوں کے لئے مشکلیں کھڑی ہو جاتی ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد آج کی صحافی برادری کے سامنے یہ دھرم سنکٹ پیدا ا ہو گیا کہ اس معاملے میں وہ اکھلیش کے سکیورٹی عملے کی مذمت کرے (جس نے اپنا فرض پورا کیا )یا اپنے صحافی برادروں کی جنھوں نے صحافتی قدروں کی حدوں کو پھلانگ کر ایسی صورت حال پیدا کی۔ دیکھا جائے تو برادری واد کے نام پر صحافی برادری کو میڈیا نمائندوں کی ہی حمائت کرنی چاہئے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا ایسے میڈیا نمائندوں کی بھی حمائت کی جائے جو چھوٹے برے چینلوں کی آئی ڈی ہاتھ میں آتے ہی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے ہاتھ میں تو اے کے سینتالیس رائفل آ گئی ہے۔ جن چینلوں کے نمائندے اکھلیش یادو سے بھڑنے کے لئے ان کے سکیورٹی عملے کے ساتھ دست وگریباں ہورہے تھے ان کے مائیک دیکھ کر صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ زر خرید میڈیاگروہوں کے لوگ ہیں۔ ان میں سے اکثر وہ لوگ ہیں ج ارباب اقتدار سے کبھی کوئی منطقی اور معروضی سوال نہیں کرتے بلکہ ہر بری سے بری غلطی کی کوئی نہ کوئی اندھی توجیہ پیش کر نے لگتے ہیں۔
اس پورے واقعے کے بعد وہی ہوا جو ہونا تھا یعنی اکھلیش یادو کے اور ان کے بیس سیکورٹی والوں کے خلاف آیف آئی درج کرائی گئی۔اتنا ہی نہیں اگلے دن ٹی وی-۱۸ نے آدھے گھنٹے کا پروگرام اکھلیش یادو کے خلاف، ٹیلی کاسٹ کیا۔ اس پروگرام میں چینل نے مراد آباد واقعہ کا ویڈیو دکھایا جس میں صاف نظر آرہا ہے کہ فرید شمسی اور عبید الرحمٰن اکھلیش کے سکیورٹی عملے کے ساتھ باقاعدہ ہاتھا پائی کرتے ہوئے اکھلیش کی طرف جانے کی کوشش کررہے ہیں۔سماج وادی پارٹی کا ایک لیڈر باقاعدہ ہاتھ جوڑ کر ان لوگوں کو خاموش کرانے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن رپورٹر چیخ رہا ہے کہ اکھلیش یادو کی سیکورٹی نے میڈیا کرمیوں کو دوڑا دوڑا کر مارا۔۔اگر یہی صحافت ہے تو پھر صحافت اور صحافتی قدروں کا اللہ ہی مالک ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here