9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ہندوستان عرصہ ہائے درازسے ہمہ رنگی اور گنگا جمنی تہذیب کا دامن تھامے ہوئے ہے۔علی الخصوص اردو زبان نے بلا تفریقِ قوم و ملت ہر فنکار کو اپنی بانہوں میں بھرا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی صدیوں سے چلا آرہا ہے۔تہذیبوں کے اس انوکھے ملن سے ہی ہندوستانی مشترکہ تہذیب کا وجود قائم ہے۔اوپر درج کیے گئے میٹھے میٹھے فقرے روح کو کتنا سکون بخشتے ہیں،تاہم حقیقت اس سے قدرے مختلف رہی ہے۔اردو کے مایہ ناز نقاد مرحوم شمس الرحمن فاروقی صاحب فرماتے ہیں،
’’بے انتہا مقبول تاریخ ِ اردو یعنی ’آبِ حیات‘(۱۸۸۰)میں محمد حسین آزاد کو صرف ایک ہندو شاعر (دیا شنکر نسیم)لائقِ ذکر دکھائی دیا۔۔۔۔مولانا حالی کا ’مقدمہء شعر و شاعری‘انیسویں صدی کے اردو نثر کا موثر ترین اور مقبول ترین کارنامہ ہے،’مقدمہ‘ میں اٹھارویں اور انیسویں صدی کے اردو شعرا ء کے ا شعار اور اذکار جگہ جگہ ملتے ہیں۔مگر نہیں ملتے ہیں تو ہندو شعراء کے شعر نہیں ملتے۔مولوی سید احمد دہلوی کی’ فرہنگِ آصفیہ‘(مطبوعہ ۱۹۰۱)پر قبل اشاعت تبصرہ کرتے ہوئے حالی نے لکھا کہ اردو کا لغت لکھنے کا اہل ہونے کے لیے دو شرطیں ضروری ہیں۔ایک تو یہ کہ لکھنے والا شریف مسلمان ہو،کیوں کہ خود دلّی میں بھی فصیح اردو صرف مسلمانوں کی زبان سمجھی جاتی ہے۔ہندوئوں کی سوشل حالت اردو معلی کو ان کی مادری زبان ہونے نہیں دیتی۔‘‘(اردو کا ابتدائی زمانہ از شمس الرحمن فاروقی،مطبوعہ آج پبلی کیشنز کراچی ۱۹۹۹ صفحہ نمبر ۴۱)
ہر چند کہ اس دور میں سرب سکھ دیوانہ(۱۷۲۷)،اجے چند بھٹناگر(۱۵۵۰)،ٹیک چند بہار(۱۷۶۶)،بدھ سنگھ قلندر(۱۷۷۰)،ٹیکا رام تسلی(۱۷۸۰)،کانجی مل صبا(۱۷۸۰)،جسونت سنگھ پروانہ(۱۷۵۶)،بندرابن خوشگو(۱۷۵۷)،راجا رام نارائن موزوں (۱۷۶۲)،راجا کلیان سنگھ عاشق (۱۸۲۱)، راجا کشن داس(۱۷۸۱)،گھنشیام لال عاصی کے علاوہ اور بھی کئی غیر مسلم شعراء نے اپنی قلم کی جولانیاں دکھائی ہیں۔ان تمام کے کارناموں کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ ان صاحبِ طرز خدمت گزارانِ اردو کوبجائے خود اردو والوں نے قصداً در خورِ اعتنا ء نہیں جانا۔لیکن خدا کو ’اردو‘ جیسی میٹھی زبان کا ڈنکا عالم میں چار دانگ بجانا تھا لہٰذا ان عوامل کے باوجود گزشتہ تین صدیوں سے ہندو قلم کاران نے اردو زبان کی جو خدمت انجام دی ہے اسے قطعاً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
انیسویںصدی کے اواخر سے تاحال اردو کے قافلے میں کئی ایک بے حد اہم ادیب، شاعر، افسانہ نگار،نقاد،محقق ایسے بھی رہے ہیں جن کی مادری زبان اردونہیں رہی۔فہرست سازی کا یہاں محل نہیں تاہم دورِ حاضر میں جناب گوپی چند نارنگ اور جناب شین کاف نظام جیسے نابغہ اردو کی خدمت بدستور کیے جارہے ہیں۔اسی قبیلے کے ایک بے حد اہم راہرو،خاموش مجاہدِ اردو جناب گنیش گائیکواڑ علاقہء برار کو خوش بختی سے نصیب ہوئے ہیں۔
اردو کو اپنی جاگیر سمجھنے والے،اردو کے وسیلے سے لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ پانے والے،اردو شاعری سے اپنا کاروبار چلانے والے ہزار ہا مفاد پرستوں کے مقابلہ میں ڈاکٹر گنیش گائیکواڑصاحب افضل ہیں جو اس معصوم زبان کی پرداخت کواپنا فرض ِ عین گردانے ہوئے ہیں۔اس زبان سے نہ انھیں روٹی ہی میسر آئی ہے اور نہ نام و نمود۔لیکن یہ ان کی وارفتگی ہی ہے جو ’اردو‘ کو اپنی معشوقہ بنا کر عملی طور پر بارہا اپنی بے پناہ محبت کا ثبوت فراہم کرتے رہتے ہیں۔اسی قماش کے ایک اور مجاہدِ اردو جناب رفیق ندوی شاد آکولوی بھی ہیں جن کا یہاں ذکر بے جا نہ ہوگا جو بالکل اسی طرح زبان و ادب کے چراغ اپنے خون سے جلائے ہوئے ہیں۔
پیشہ سے ایک کامیاب سرجن ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر گنیش گائیکواڑایک بے حد تازہ کار اور پختہ کار شاعر ہیں،نئے مضامین کو نہایت سادگی سے شعر میں کچھ ایسے نظم کرلیتے ہیں کہ شعر سیدھے سیدھے دل میں اتر جاتے ہیں۔سہ ماہی ’اردو‘ میں موصوف متعدد مرتبہ شائع ہوئے ہیں اور میں نے ہر مرتبہ ایک نئی لذت محسوس کی ہے۔زبان کے بے جا کسائو اور موضوعات کی غیر مناسب گتھیوں سے آپ کا کلام یکسر پاک ہے۔میرا دعویٰ ہے کہ ڈاکٹر گنیش گائیکواڑصاحب کی طبع گر یونہی رواں رہی اور ’اردو‘ سے محبت میں کوئی کمی نہ آئی تو آنے والے وقتوںمیں ڈاکٹر گنیش گائیکواڑکی شاعری میں احمد فراز،شکیب جلالی،شجاع خاور،مجید امجد،سید حسن نعیم وغیرہ صاحبِ طرز شاعروں کی آواز سنائی دیگی۔ اور یہ وقت بہت قریب ہے جس کے ہلکے ہلکے اشارے میں نے محسوس کیے ہیں۔ڈاکٹر گنیش گائیکواڑ کے چند نشتر ملاحظہ فرمائیں۔
پرائی آنکھ کا آنسو جسے اپنا نہیں لگتا
پھر اس کے ساتھ اپنا بھی کوئی رشتہ نہیں لگتا
میں نے جس کو دنیا میں بولنا سکھایا تھا
سب سے پہلے اس نے ہی میری بات کاٹی ہے
صرف خوش ہونے کے امکان سے خوش ہوتے ہیں
ہم تجھے ملنے کے ارمان سے خوش ہوتے ہیں
ایماں کے بدلے عیش کا سامان مت خرید
لالچ میں اپنی روح کا نقصان مت اٹھا
یہ ہم مرہم صفت لوگوں کی قسمت میں لکھا ہے
کبھی خنجر کبھی تلوار کے سایے میں رہنا
نرم ریشم سی ملائم کسی مخمل کی طرح
سرد راتوں میں تری یاد ہے کمبل کی طرح
ایک دہائی قبل آخر الذکر شعر کے متعلق ’اردو‘ کے کسی شمارے میں میںَ نے اظہار ِ خیال کیا تھا کہ ’سرد راتوں میں تری یاد ہے کمبل کی طرح‘یہ مصرعہ اگر جاں نثار اختر نے کہا ہوتا تو اہلِ ادب اسے سرمہ بنا کر پہن لیتے۔اس مصرعہ کی برجستگی،والہانہ پن اور بے ساختگی لاجواب ہے۔اور یہی وہ شعری شناخت ہے جو ڈاکٹر گنیش گائیکواڑکو شعراء کی بھیڑ میں نمایاں کرنے کے لیے کافی ہے۔ڈاکٹر گنیش گائیکواڑصاحب کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔مرکزی حکومتِ ہند،شعبہء انسانی وسائل و بہبود کی جانب سے ہندی شعری مجموعہ’منظر بدل نہ جائے‘ پر آپ کو ’ہندی لیکھک‘ کے قومی ایوارڈ بہ عوض ایک لاکھ روپیہ سے نوازا گیا ہے۔ملک کی مختلف ریاستی اکادمیوں نے بھی آپ کو اعزازات سے سرفراز کیا ہے۔
یہ تو ہوا علمی پہلو۔میری اپنی دانست میں ڈاکٹر گنیش گائیکواڑصاحب کا ’عملی پہلو‘ اس سے زیاد ہ اہمیت کا حامل اور تابناک ہے۔اس بندئہ خدا نے ضرورت مند ادیبوں کی اب تک نجانے کتنی ہی اہم کتابوں کی اشاعت کی ذمہ داری قبول کرکے انہیں بہ طریقِ احسن منظرِ عام پر لایا ہے۔کتنے ہی سمینار ، مشاعرے اور ادبی محافل کے اہتمام میں رقمِ کثیر خرچ کرکے علاقہ میں زبان کو زندہ رکھنے کا کام انجام دیا ہے۔اردو کی آبیاری کے لیے موصوف ہمہ وقت تیار اور کوشاں رہتے ہیں۔سہ ماہی ’اردو‘ کے ابتدائی نازک دور میں آپ نے اپنے قیمتی اشتہارات سے اس مجلہ کو کتنی ہی سانسیں بخشی ہیں، کتنے ہی نادار اور ضرورت مند فنکاروں کی مالی امداد فرمائی ہے، اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔
اردو شاعری اور اردو زبان کا خون چوسنے والے تو ہم آئے دن دیکھتے رہے ہیں بقول کسے،
؎ وہ شاعری جو میرؔ کو روٹی نہ دے سکی
دولت کما رہے ہیں اسی شاعری سے ہم
اس شعر کے بر عکس ڈاکٹر گنیش گائیکواڑنے اس معصوم زبان سے ایک پیسہ کمانے کی بجائے اس کی نگہداشت میں اپنی محنت کی کمائی سے لاکھوں روپے خرچ کردیے ہیں اورتاحال روبہ عمل ہیں۔سلام اس ماں کو جس کی گو دمیں اردو کا یہ جیالا کھیلا ہے اور دعا اس باپ کو جس کی تربیت اردو کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
فی زمانہ اردو زبان کو ایسے ہی سچے قدردانوں اور خدمت گزاروں کی ضرورت ہے۔محض زبانی جمع خرچ اور کسی یونیورسٹی میں ’ہیڈ آف دی اردو ڈپارٹمنٹ‘ ہونے سے ہی اردو زبان کی بقا ممکن نہیں ۔لہٰذا ہماری زبان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اسے ڈاکٹر گنیش گائیکواڑصاحب جیسے چاہنے والے میسر آئے ہیں۔بہ ایں ہمہ میں ڈاکٹر گنیش گائیکواڑکو ’برار کا سر سید احمد خان‘کے نام سے پکاروں تو کوئی عجب نہ ہوگا۔میں موصوف کے حق میں دعا گو ہوں کہ،بقول خلیل فرحت ؔ کارنجوی،
نظر نظر میں سمائے ترے سخن کا وقار
قدم قدم پہ تجھے جھومتی حیات ملے
جہاں میں یوں تو کسی شئے کو بھی ثبات نہیں
خدا کرے ترے جذبات کو ثبات ملے
مدیر، سہ ماہی’اردو‘،امراوتی
٭٭٭