اسرائیلی وزیر اعظم پر کرپشن،دھوکے وعوام کو ٹھیس پہچانے کی فرد جرم عائد

0
291

اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ایک حاضر سروس وزیر اعظم پر حکومت نے کرپشن، دھوکے اور عوام کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کی فرم عائد کردی۔

اسرائیلی حکومت کے ماتحت اٹارنی جنرل نے ملک کے وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو پر کئی ماہ سے زیر تفتیش تین الزامات کے تحت فرد جرم عائد کردی۔

نیتن یاہو پر ایک ایسے وقت میں فرد جرم عائد کی گئی ہے جب کہ ملک کے صدر نے رواں سال منعقد ہونے والے دوسرے انتخابات کے بعد سیاسی جماعتوں کو 3 ہفتوں کے دوران حکومت بنانے کی ہدایت کی تھی۔

اسرائیل کی تاریخ میں رواں برس پہلی بار ایک ہی سال میں 2 انتخابات ہوئے تھے، دوسری بار انتخابات رواں برس 17 ستمبر کو ہوئے تھے، اس سے قبل اپریل 2019 میں انتخابات ہوئے تھے۔

ایک ہی سال میں ہونے والے دونوں انتخابات میں اگرچہ بن یامین نیتن یاہو کو توقعات سے اچھے ووٹ ملے، تاہم وہ تنہا حکومت بنانے کی صورتحال میں نہیں تھے لیکن اس باوجود وہ اپریل میں منعقد ہونے والے انتخابات بعد 6 ماہ کے لیے وزیر اعظم منتخب ہوگئے۔

پہلے انتخابات میں واضح برتری حاصل نہ کرپانے اور کرپشن الزامات کی وجہ سے دباؤ بڑھنے کے بعد اسرائیل میں ایک ہی سال میں دوسرے انتخابات کروانے کا اعلان کیا گیا اور رواں برس ستمبر میں دوسری بار ہونے والے انتخابات میں نیتن یاہو اور ان کے حریف وزیر اعظم کے امیدوار بینی گیٹس نے تقریبا ایک جتنی ہی نشستیں حاصل کی تھیں اور دونوں تنہا حکومت بنانے کی صورتحال میں نہیں تھے۔

دوسرے انتخابات میں بھی کسی جماعت کی جانب سے غیر واضح برتری حاصل کیے جانے پر ملک کے صدر نے سیاسی جماعتوں کو تین ہفتوں کے اندر نئی حکومت بنانے کی ہدایت کی تھی اور اسی دوران ہی نیتن یاہو کے خلاف حکومت نے کرپشن، دھوکے اور عوام کو ٹھیس پہنچانے کے الزامات کے تحت فرد جرم عائد کردی۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اسرائیلی تاریخ میں پہلی بار وزارت عظمیٰ کی سیٹ پر براجمان وزیر اعظم پر فرد جرم عائد کی گئی۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ نیتن یاہو پر تین الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی اور اب ان کے خلاف باضابطہ طور پر تفتیش ہوگی اور عدالت ان کے خلاف فیصلہ سنائے گی، تاہم فوری طور پر ان کے خلاف عدالتی ٹرائل کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا گیا۔

نیتن یاہو پر لگائے گئے سنگین ترین الزام کو 4000 کا نام دیا گیا ہے اور اس کیس میں نیتن یاہو پر رشوت لینے اور عوام کو ٹھیس پہنچانے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔

ان کے خلاف لگائے گئے دوسرے سنگین الزام کو 1000 کا نام دیا گیا ہے اور اس کیس میں اسرائیلی وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ پر امیر ترین افراد سے سیاسی فوائد پہنچانے کے عوض قیمتی تحائف لینے جیسے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم پر لگائے گئے تیسرے الزام کو 2000 کا نام دیا گیا ہے اور اس کیس میں ان پر ایک ٹیلی کام کمپنی کے مالک کو رشوت اور اپنے حوالے سے مثبت خبریں شائع کرنے کے عوض حریف اداروں کے سخت مشکلات فراہم کرنے جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔

اٹارنی جرنل کی جانب سے اپنے خلاف فرد جرم عائد کیے جانے کے فوری بعد بن یامین نیتن یاہو نے 15 منٹ طویل ایک ویڈیو پریس کانفرنس کی، جس میں انہوں نے اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو سیاسی سازش قرار دیا۔

نیتن یاہو نے فرد جرم عائد کیے جانے کے باوجود وہ عبوری وزیر اعظم کی خدمات نبھاتے رہیں گے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اٹارنی جرنل دفتر نے ان کے خلاف شواہد اکٹھے کرنے کے لیے طاقت اور پیسوں کا استعمال کیا اور اس عمل سے ان کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم وہ عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ بن یامین نیتن یاہو دوسرے انتخابات ہوجانے کے بعد سے عبوری وزیر اعظم کے طور پر خدمات سر انجام دے رہے ہیں، اسرائیلی سیاسی و حکومتی نظام کے تحت جب تک نیا وزیر اعظم منتخب نہیں ہوتا تب تک سابق وزیر اعظم ذمہ داریاں نبھا سکتے ہیں۔

اسرائیلی حکومتی قوانین کے تحت وزیر اعظم اس وقت تک عہدے پر براجمان رہ سکتا ہے جب کہ تک ان کے خلاف عدالتیں جرم ثابت ہونے پر انہیں سزا نہیں دے دیتیں، تاہم اخلاقی طور پر اگر وہ چاہے تو عہدے سے الگ ہوسکتے ہیں۔

اسرائیل کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کسی عہدے پر براجمان وزیر اعظم پر سنگین کرپشن اور رشوت کے الزامات لگائے گئے ہیں، تاہم وہ اس باوجود عہدے سے الگ نہیں ہو رہے۔

نیتن یاہو پر ان تینوں مذکورہ کیس کے حوالے سے 2017 سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی اور گزشتہ برس حکومت نے ان کے خلاف کرپشن، رشوت اور دھوکے کے الزامات کے تحت چارج شیٹ تیار کرنے کا عندیہ بھی دیا تھا۔

یہ واضح نہیں ہے کہ نیتن یاہو نے کب کب کس امیر شخص سے کتنے مہنگے تحفے لیے، تاہم ان پر مذکورہ الزامات گزشتہ دونوں حکومتی ادوار میں بنائے گئے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here