ڈاکٹر علی چگینی
سفیر اسلامی جمہوری ایران، نئی دہلی
1979میں ایران میں رونماہوئے اسلامی انقلاب نے متعدد پہلوؤں میں بہتری کے لئے ملک کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں کو تبدیل کردیا ہے۔ درحقیقت ، اسلامی انقلاب نے بین الاقوامی تعلقات میں عدل وانصاف پرمنحصر نظریاتی خارجہ پالیسی کانیاباب وا کیا ہے اور باہمی احترام پر مبنی ایرانی تشخص کو مغرب زدہ صورت حال سے ایک اسڑیٹجک خودمختار مملکت میں تبدیل کردیا ہے۔علاقائی سا لمیت اور استقلال نے ہندوستان اور ایشیائی ممالک سمیت ترقی پذیردنیا کے ساتھ ایران کی پالیسی کو نظر یاتی طورپر مزید ـ’’مشرقی پالیسی دیکھو‘‘ Look East Policy))کے زمرہ میں شامل کردیا۔ اس نظریاتی پابندی اور اصولی طرز عمل سے اس ملک نے وہ رخ اختیار کیا کہ اسے باقی دنیا سے امتیازی حیثیت ہوئی۔
ایران کی خارجہ پالیسی کا ایسا نیا تصور اور کسی بھی عالمی طاقت کے ساتھ صف بندی نہ کرنے کے نقطہ نظر کو، امریکہ اور اس کے علاقائی اتحادیوں نے کبھی سراہا نہیں، اس کے نتیجے میں ایرانی قوم کے ساتھ ان کی غلط فہمیاں اور دشمنی پیداہوئی جس نے خطے اور باقی دنیا میں صورتحال کو مزید خراب کردیا۔پہلا اور شاید سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ امریکہ، ایران کی متحرک سیاست ، ثقافت اور معاشرے سے ناواقف ہے، ایران کبھی بھی 1979سے دور نہیں رہ سکتا۔ اسلامی انقلاب ، ایران کے اندرونی معاملات میں کئی دہائیوں کی بیرونی مداخلت کا خاتمہ کرچکا ہے۔ بالخصوص 1953میں امریکہ اور برطانیہ کی ایجنسیوں کے ذریعہ اس وقت کی قانونی حکومت ایران کے خلاف منظم فوجی بغاوت کی گئی۔ نتیجہ میں، انقلاب کے پچھلے 42سالوں کے دوران ، کارٹر سے ریگن تک ، بش سے اوباما انتظامیہ تک اور حال میں صدر رہے ٹرمپ نے ایران اور اس کے عوام کے خلاف مختلف طریقوں، ذرائع ، دباؤسے تخریبی اقدامات کئے۔ تاہم ، خاص طورپر براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے ایران کو غیر مستحکم کرنے اور دہشت گردی کی سرگرمیوں کو بھڑکانے میں ہونے والی باربار ناکامیوں کے نتیجے میں مایوس ، امریکی حکومتوں نے غیر قانونی اور غیر انسانی پابندیاں عائد کرتے ہوئے ناجائز سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لئے ایرانی باشندوں پر زیادہ سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔
یہاں، ہم بہت ساری امریکی مداخلتوں کی فہرست دے سکتے ہیں جس سے امریکہ کے تئیں ایرانیوں کے گہرے عدم اعتماد میں اضافہ ہوا۔ امریکی مداخلتوں کی ایک بڑی مثال ایران عراق جنگ ہے۔ سن 1980میں صدام حسین نے آٹھ سالہ تباہ کن جنگ کا آغاز کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا حیرت انگیز طورپر،امریکہ اور مغرب میں اس کے بیشتر اتحادیوں نے عام شہریوں اور ایرانی افواج کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائلوں کے استعمال کے لئے جانکاری، مواد اور دیگر رسد کے ساتھ عراقی فوج کی حمایت کی اورمزید متحرک کیا۔
کیمیائی ہتھیاروں کی بین الاقوامی سطح پر پابندی کے باوجود اس کے استعمال سے ایک لاکھ سے زیادہ ایرانی شہریوں کی ہلاکتوں کے بلند بھی، ایران نے کبھی بھی اس طرح جوابی کارروائی نہیں کی اورCWC سمیت اپنی بین الاقوامی معاہدے کی ذمہ داریوں پر قائم رہا۔
تاہم ، امریکہ کی طرف سے دشمنی اور صدام حکومت کو اس کی حمایت جاری رکھی گئی اور 1988میں خلیج فارس میں میزائل کروزریوایس ایس ونسز کے کپتان نے اپنے جنگی جہاز سے داغنے کا آرڈر دیا، جس میں ایرانی ہوائی جہاز کے تجارتی جہاز پر سوار تمام 290بے گناہ افراد ہلاک ہوگئے۔
2001میں 9/11 حملوں کے بعد، افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کو شکست دینے کے لئے تمام ترمدد اور تعاون کے باوجود ، ایران کو جارج ڈبلیوبش نے 2002میں ’’ بدی کامحور‘‘ قرار دیا۔ اس کے بعد امریکہ دہشت گردی کی مالی اعانت اور خاص طورپر پی ایم او آئی؍ این آرسی میں ایرانی مسلح اپوزیشن کے مختلف گروہوں کو مالی اعانت فراہم کرنے کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کی پالیسی پر زور دینے کی کوشش کررہی ہیں جو 17000ایرانی شہریوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔
اس دوران ، مشرق وسطیٰ میں، امریکی مفادات نے اپنے ہتھیاروں کے لئے ایک بڑی منڈی پیداکرنے کے لئے ،اسلحہ کی دوڑ کو بڑھانے کے لئے علاقائی تنازعات پیداکرنے اورانہیں بڑھاتے ہوئے تنازعات اور عدم تحفظ پر توجہ دی ہے۔
مزید یہ کہ صیہونی حکومت کے لئے امریکہ کی یک طرفہ حمایت نے خطے میں اس طرح کے بہت سارے بحرانوں اور عدم استحکام کا جنم دیاکہ کچھ ممتاز امریکی اسکالرز کا کہنا ہے کہ اس حکومت کی امریکی حمایت امریکہ کے لئے ایک اسٹرایٹجک ذمہ داری ہے۔
اگرچہ انقلاب کے بعد ایران کی علاقائی پالیسی میں مستقل طورپر ریاستوں کی خود مختاری ، سالمیت اور استحکام پر مبنی تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ علاقائی بات چیت اور شمولیت پرزور دیا گیا ہے، لیکن خطے میں امریکی مداخلتوں نے طبقات کی فطری ہم آہنگی ، داخلی متحرکات اورسماجی نظام میں خلل واقع کیا۔ چنانچہ القاعدہ ، داعش ، بوکوحرام اور الشباب جیسے انتہا پسند اور بنیاد پرست گروہوں کا ابھرنا امریکی مہم جوئی کے ہم عصر مظاہرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے خطے ، بشمول افغانستان، عراق، شام، فلسطین اور یمن کے بحرانوں کی جڑیں، امریکی دراندازیوں، غیر قانونی فوجی مداخلتوں ، میجر جنرل قاسم سلیمانی کے قتل اور سابق امریکی ٹرمپ پالیسیوں میں پوشیدہ ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے نامور اور مشہور ایرانی ہیرو جنہوں نے داعش کی دہشت گردی کی بادشاہت کو شکست دینے میں ایک اہم کردار اداکیا تھا ، ان کا قتل امریکہ کی طرف سے غنڈہ گردی کی ایک اور مثال ہے جس سے خطے میں امن واستحکام کے لئے اس کی پالیسیوں کے واقعی معنی سمجھ میں آتے ہیں۔
چنانچہ ایران نے اپنی آزادی ،اور اپنے عوام کی حفاظت کے لئے اداکئے جانے والے المناک تجربات اور اس کی بھاری قیمت کو مد نظر رکتھے ہوئے ، ایران کے حفاظتی انتظامات میں کافی حد تک تبدیلی کی ہے، جس نے اسے کافی حد تک جائز روایتی دفاعی صلاحیتوں کی ترقی کی طرف بڑھادیا ہے تاکہ مستقبل کی کسی بھی جارحیت کو روک سکیں۔
خلیج فارس کے انتہائی حساس خطے میں، امریکہ نے تیسرے عنصر کی حیثیت سے علاقائی سلامتی میں ہمیشہ تباہ کن کردار اداکیا ہے ۔ یکے بعد دیگرے امریکی انتظامیہ نے بھی اپنے جغرافیائی سیاست کے مفاد کو نظر میں رکھ کر اس خطے کو ایران کے ساتھ تصادم کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کی ہے۔
جبکہ اس کے برعکس ، ایران نے ہمیشہ اپنے مضبوط اصولوں پر گامزن رہا ہے اور اسی کے تحت سب کی سلامتی ، امن اور مفادات کے لئے علاقائی مسائل کے حل وپیشرفت میں کردار ادا کیاہے،اپنے آس پاس کے ممالک کو بات چیت ، اعتماد سازی اور کثیر الجہتی تعاون کے ذریعے محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ چونکہ ’’ زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑاہے، لہذا نئی امریکی انتظامیہ کو اس حقیقت کو مان لینا چاہئے کہ ایران ایک ایسا ملک ہے جو پابندیوں کے باوجود جنگ کے باوجود بھی زندہ رہنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران ، سائنسی کامیابیوں کو حاصل کرنے اور ترقی کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ایران ، اپنے پچھلے تجربات اور مزاحمتی موقف کی مددسے با اختیار متمرکز معیشت کی حیثیت سے ، امریکی دباؤکا کا میابی کے ساتھ مقابلہ کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔ امید ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ ایرانی عوام کے بارے میں ماضی کی غلط پالیسیوں کو درست کرتے ہوئے اس خطے کو سیکیورٹی کے جامع انتظامات کے لئے خود فیصلہ کرنے گی۔٭