غلام علی اخضر
’سونے کی چڑیا‘ سے اکثرا شخاص یہ سمجھتے ہیں کہ قدیم ہندوستان میں سونے کی کان کا انبار تھا۔ یہ بات کس حد تک صحیح ہے اور کس حدتک خام خالی کی زٹل آئینے میں درشایا گیا ہے، اسے تاریخ کی ورق گردانی سے ہی سمجھا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ کوئی ذریعہ نہیں ہے کیوں کہ اب ہمارے پاس کوئی عینی شاہد موجودنہیں۔ تعصب کی بھٹی میں پروان چڑھنے والے اکثر یہ کہتے تھکتے نہیں کہ بدیسی حملہ آوروں نے ہندوستان سے ڈھیر سارے مال و زر لوٹ کر لیے گئے،مگرساتھ ہی یہ نہیں کہتے کہ ہندوستان کو سونے کی چڑیا مسلمان بادشاہوں نے ہی بنایا تھا۔ صرف منفی کارنامے کا سرعت سے پرسار و پرچارکے پیچھے اصل مقصدنسلِ نو کے ذہن میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا زہر گھولنا ہے۔آئیے حق کی تحقیق عصبیت سے بالا تر ہوکر اور غیرجانب داری سے مؤرخین کی تحریروں سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس سے پہلے میں یہ خلاصہ کردوں کے اس موضوع پر لکھنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ 31جولائی 2021کو فیس بک پر میں نے ایک تحریر لکھی ،جس کا عنوان تھا’’تاریخی حقائق‘‘اقتباس ملاحظہ کریں:
’’ہندوستان میں اگر مسلمانوں اور انگریزوں کی آمد نہ ہوئی ہوتی تو آج ہندی قوم جنگلیوں کی زندگی گزار رہی ہوتی یا کم از کم تہذیبی اور تمدنی ترقی میں، ترقی یافتہ قوموں سے پانچ سو سال پیچھے رہتی۔یہ باتیں صرف خیالی مفروضوں پر مبنی نہیں، بلکہ تاریخی حقائق شاہد ہیں‘‘۔
اس کے جواب میں کمینٹ باکس میں راجیندر پٹواری ناشاد 3فروری2021کولکھتے ہیں :
’’اسے آپ کی نادانی سمجھیں یا غلط فہمی۔شاید آپ حقیقی تواریخ سے بہت ہی ناواقف ہیں یا کسی تعصب کے شکار۔ ہندوستان بیرونی جملہ [حملہ]آوروں کے آمد سے کم سے کم ایک دوصدی پیچھے چلا گیا۔ساری دنیا اس کو سونے کی چڈیا[چڑیا] کے نام سے جانتے [جانتی]مانتے[مانتی]تھی اور اس پر فتح حاصل کرنا چاہتے [چاہتی]تھے[تھی]۔ جدید سائنس اپنی تحقیق و تشخیص کی بنیاد پر جن نتائج کو تسلیم اب کرنے لگی ہے وہ ہندوستانی فلسفہ میں صدیوں پہلے سے موجود ہیں، جس وقت ساری دنیا زمین کو چپٹی اور ساکت اور سورج کو متحرک مانتی تھی اس وقت سے پہلے ہندوستان کے ذی ہوش زمین سے سورج تک کے فاصلے پر مباحث کرتے تھے۔ خدا را اپنی غلط فھی[فہمی] دور کیجیے۔ ‘‘
راجیندرصاحب سے میری کچھ خاص شناسائی نہیں ہے ،وہ میرے فیس بک فرینڈ لسٹ میں شامل ہیں، ان کے وال پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پڑھنے لکھنے والوں کی سلاسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ کئی بار فیس بک پر افسانہ وغیرہ لکھ کر وائرل کرتے ہیں۔ آپ کا تعلق جموں کشمیر سے ہے۔ مجھے افسوس ہی نہیں حیرت ہے کہ پٹواری صاحب جس تعصب ،غلط فہمی اور تاریخ سے نابلدی کی بات کررہے ہیں۔ وہ خود اس کے شکارہیں،اگر پٹواری صاحب تاریخ کی دنیا کے صادق خوشہ چین ہوتے تو ہرگزہزگز اس طرح کی باتیں نہ کرتے۔ انھیں یہ تک نہیں معلوم کہ ساری دنیا نے ہندوستان کو سونے کی چڑیا کیسے اور کب مانا۔’ حملہ آور‘ اس لفظ کے انتخاب سے منافقت کی بورآرہی ہے۔شاید پٹوای صاحب موجودہ مسموم فضا کی گرفت میں آچکے ہیں۔ حملہ کی زد سے کوئی ملک خالی نہیں ، قدیم زمانے میں یہ روش عام تھی کہ ہر کوئی ایک دوسری پر حملہ کرتا اور جوجس ملک یا علاقہ کو فتح کرلیتا اسے اپنی سلطنت میں شامل کرلیتا۔قدیم ہندوستان کی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈیڑھ ہزار قبل مسیح آریہ ہندوستان میں داخل ہوئے۔ یہ قوم کافی جنگجوں تھی، اس وقت بھارت میں دراوِڑ قوم آبادی تھی ،آریوں کا یہ قوم سامنا نہ کرسکی۔ جس کی وجہ سے آریہ شمالی ہندپر قابض ہوگئے۔ دراوِڑوں کی بڑی تعداد دکن میں پناہ لی،اور کچھ آریوں کے ظلم وستم کے زیر سایہ ہی زندگی گزارنے لگی۔ آریہ ہمیشہ دراوِڑ قوم کو گری نگاہ سے دیکھتے،یہاں تک اسے اچھوت سمجھتے اور یہ ذہنیت آج بھی زندہ ہے۔
یوں تو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد محمد بن قاسم (712)کے حملہ سے قبل ہی ہوچکی تھی۔تجارت نے مختلف قوموں کو مختلف ممالک سے رشتہ قدیم زمانے سے جوڑرکھا ہے، جو آج بھی باقی ہے۔
موجودہ ہندوستان میں مسلمان بادشاہوں کی شبیہ کو ایک ظالم حکمراں اور لٹیروں کے طورپر نسلِ نو کے دماغ میں بٹھا نے کی پوری کوشش جاری ہے۔ خاص کر محمود غزنوی ان میں سب سے زیادہ داغ دار ہیں، کیوں کہ انھوں نے تاریخی مندر سومناتھ پر حملہ کیا اور اسے بری طرح نقصان پہنچایا، مگر محمود غزنوی نے سومناتھ پر حملہ کیوں کیا تھا اس کی اصل وجہ نہیں بتائی جاتی ہے یا تو تاریخ سے ناواقفیت کی وجہ سے یاجان بوجھ کر حقیقت چھپائی جاتی ہے۔ انگریزاور اس کے ہم سایہ تاریخ دانوں سے قبل کی تاریخ بھی اٹھاکر دیکھیں کہ آخر غزنوی نے کیوں حملہ کیا؟ واقعہ یہ ہے کہ سومناتھ مندر صرف نام کا ایک عبادت گاہ تھا اصل اس کی آڑمیں دلت لڑکیوں اور عورتوں کی عزت لوٹی جاتی تھی، ان کاقتل کیاجاتا تھا۔ اس ظلم کی وجہ سے وہاں کی عورتوں نے محمود غزنوی کو خط لکھا، محمود غزنوی نے اس کے جواب میں وہاں کے راجہ کو لکھا کہ حالات کا جائزہ لیں اورفوراً اس پر کاروائی کریں، یہاں تک کہ دوسری بار بھی ایسا ہی خط لکھا گیا اور اس کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا آخر تیسری بار وہاں کی عورتوں نے خون سے خط لکھا اورکہا کہ شاید اب آپ کو ہماری حالت پر رحم آجائے۔ اس بار محمود غزنوی نے قسم کھائی کہ اب مجھ پر سونا کھانا حرام ہے جب تک کہ ہم وہاں کی عورتوں ،لڑکیوں اور بچوں کو انصاف نہ دلا دیں۔ اس کے بعدبرہمنی نظام کے زیر سایہ جس اڈے پر عورتوں کی عصمت تارتار کی جارہی تھی، محمودنے اس کی کایا ہی پلٹ دی۔ رہا مندر پر حملہ تو تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو صرف مسلمان بادشاہوں نے مندر مسمار نہیں کیا ہے بلکہ خود ہندو بادشاہوں نے بھی دوسرے بادشاہوں کے زیر سلطنت مندروں کو مسمار کیا ہے۔( رچرڈاینٹن نے اپنی تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا ہے۔)یہ بھی سچائی ہے کہ ہندوبادشاہوں کے حملے سے نقصان پہنچے مندرکو مسلمان بادشاہوں نے خود درست کراکر اس کی بازیابی کی ہے۔ علاء الدین خلجی جیسے باکمال بادشاہ کو ’فلم پدماوت‘ میں ایک ویلن کے روپ میں دکھایا گیا ہے، معلوم ہونا چاہیے کہ خلجی نے کس قدر ہندوستان کے زرعی نظام کو مضبوط کرکے پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیاتھا۔رہا رانی پدماوتی کی کہانی تووہ کسی قدر حقیقت اور کسی قدر فسانہ ہے۔ میرے مضمون’’فلم پندوماوت تاریخ اور حالات کے تناظر میں ایک سال مکمل ‘‘میں ملاحظہ کریں ،جو ویب سائٹ پر موجود ہے۔
ہندوستان کو سونے کی چڑیا اور پوری دنیا میں ہندوستان کو عزت کی نگاہ سے دیکھنے کی جو بات پٹواری صاحب کررہے ہیں انھیں معلوم ہی نہیں کہ یہ عزت اور مقام مسلمان بادشاہوں نے ہی عطا کی۔ آئیے اب تاریخ کے تناظرمیں حقائق سے پردہ اٹھائیں:
ڈاکٹر کارل اپنی کتاب’’این اٹلس اینڈ سروے آف سائوتھ ایشین ہسٹری‘‘ کے صفحہ 45 پر لکھتے ہیں کہ’’سترہویں صدی میں مغلوں کے دور میں ہندوستان کی معیشت دنیا کی ایک بڑی معیشت تھی، جس کی وجہ سے ہندوستان دنیا کا خوشحال ترین خطہ تھا‘‘
ہندوستان کی ترقی پر پروفیسر ڈاکٹر اینگس میڈیسن کی تحقیق سے مزید روشنی پڑتی ہے ، وہ لکھتے ہیں: ’’سترہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان کی جی ڈی پی یعنی مجموعی ملکی پیداوار چین کی منگ سلطنت کے بعد دوسرے نمبر پر آتی تھی،اس وقت دنیا کی مجموعی پیداوار کا 22 فیصد ہندوستان میں پیدا ہوتا تھا اور یہ مجموعی ملکی پیداوار سارے یورپ کی مجموعی جی ڈی پی سے زیادہ تھی، سترہویں صدی کے اختتام تک یعنی اورنگزیب عالمگیر کے دور میں یہ جی ڈی پی 24 فیصد سے زیادہ ہوچکی تھی جو کہ چین اور سارے یورپ کی مجموعی جی ڈی پی سے بھی زیادہ تھی‘‘۔(عالمی معیشت اور تاریخی اعدادوشمار)
مزید لکھتے ہیں کہ ’’مغل دور میں ہندوستان کی مجموعی ملکی پیداوار میں جس برق رفتاری سے اضافہ ہوا، اس کی مغلوں سے پہلے کے ہندوستان کی چار ہزار سالہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی!مغل دور کے پہلے دو سو سالہ دور میں ہونے والی ترقی ہندوستان کی معلوم تاریخ کی چار ہزار سالہ تاریخ کی ترقی سے سو گنا زیادہ تھی‘‘۔(ایضاً)
فون لطیفہ تومسلمان حکمرانوں کی سرشت میں داخل ہی تھا، لیکن انھوں نے صنعتی شعبے میں بھی لازول خدمات انجام دی، جس کی وجہ سے بھارت پوری دنیا میں اپنی خاص پہنچان رکھتا تھا۔ مینوفیکچرنگ میں تو اس نے وہ کارنامے انجام دیے کہ اسے اس حوالے سے پوری دنیا کی سرداری حاصل تھی۔پروفیسر ڈاکٹر پراسنان پراتھا سراتھی لکھتے ہیں کہ’’مغل دور میں ہندوستان مینوفیکچرنگ کے شعبے میں دنیا میں پہلے نمبر پر آتا تھا‘‘-پروفیسر ڈاکٹرجیفری گیل ولیم سن اس حوالے سے یوں قلم بند کرتے ہیں کہ ’’مغل دور میں ساری دنیا کی 25 فیصد مینوفیکچرنگ صرف ہندوستان میں ہورہی تھیں‘‘۔
مغلیہ سلطنت پر گہری نظر رکھنے والے مشہور و معروف مؤرخ جان ایف رچرڈز لکھتے ہیں کہ’’ہندوستان کو سونے کی چڑیا بنانے کے لیے مغلوں نے تین بنیادی کام کیے، اول سلطنت کے اندر شاہراہوں کا جال بچھایا گیا، مختلف علاقوں کو آپس میں پختہ سڑکوں سے ایسے ملادیا گیا کہ دہلی سے سلطنت کے کسی بھی حصے تک محض دو دن میں پہنچا جاسکتا تھا، دوسرا کام یہ کیا گیا کہ ملک میں ایک یکساں کرنسی رائج کیا اور سابق بیرونی حکمرانوں کی طرح درہم یا دینار رائج کرنے کی بجائے تجارت اور لین دین کے لیے مقامی کرنسی ’’روپیہ‘‘ کو رائج کیا گیا، اس سے روپے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ معیشت کومضبوط بنیادوں پر استوار کرنے میں بھی بہت مدد ملی، جب کہ تیسرا اور سب سے اہم کام سارے ہندوستان کو متحد کرنا تھا‘‘
مذکورہ بالا گفتگو سے اندازہ ہوگیا ہوگاکہ ہندوستان سونے کی چڑیا مسلم حکمرانوں کامرہون منت ہے۔ رہا تہذیب کی بات تو ظاہر ہے کہ موجودہ ہندوستانی تہذیب ہندی،مسلم اور انگریزی تہذیب سے عبارت ہے۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ اٹھائیں تو معلوم ہوگا ہے کہ یہاں توہم پرستی کا دوردورہ تھا، مردوں کے مرنے جانے پر عورتون کی ستی کرنا مبارک کام تصور کیا جاتا تھا۔ رہی بات قدیم کتابوں میں سائنسی پیش رفت کی تو یہ پرکٹیکلی اعتبار سے کوئی خاص مقام نہیں رکھتا تھا ، جس کی اینٹ زیادہ ترکاہن،نجومی، فلسفی قضیوں اورخیالی موشگافیوں پررکھی گئی ہے،اگر آج کے دور میں کوئی نکتہ سائنسی اعتبار سے سچ نکل جائے تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یقینا ہند میں ایسی تہذیبیں ضرور رہی ہیں جنھیں عالمی اہمیت حاصل تھی جیسے ہڑپہ ،موہن جودڑو ووغیرہ کی تہذیب۔ آثار قدیمہ کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ ان حکمرانوں کے دور میں فنون لطیفہ پر زبردست کام ہوا۔ اسی طرح اشوک کے دور میں۔ مگر واضح رہے کہ ہم جس تہذیب کی بات کررہے ہیں اس میں ان تہذیوں کا کوئی کردار نہیں ہے، کیوں کہ اس وقت تک یہ تہذیبیں گم نام ہوچکی تھیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہم نے پٹواری صاحب کے جواب کے لیے صرف مسلم حکمران کا لفظ استعمال کیا ہے، ورنہ میرے نزدیک ہندوستان کے تمام بادشاہ صرف بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں، کیوں کہ ان کا مقصد صرف حکومت کرنا تھا، اگر ان کامقصد مذہب رہتا تو مہارانا پرتاب کا سپاہ سالار مسلمان اور اکبر کاسپاہ سالار ہندو نہ ہوتا، اور اورنگ زیب کے دربار میں 40 فیصد وزیر ہندو نہ ہوتے۔ میرے نزدیک ہندکی تمام قومیں ایک جسم اور روح ہیں۔٭٭٭