جیسا کہ سب جانتے ہیں اور ہم نے بھی اپنے 23 تاریخ کے مضمون میں لکھا تھا کہ بی جے پی نے جو ایک سب سے بڑا کام کیا وہ ذات کی حدبندی کو توڑ دیا اور ہندوئوں کی تمام ذاتوں کو یہ بتایا کہ تم پہلے ہندو ہو پھر کوئی ذات، اور اس طرح 80 فیصد عوام کو اپنی طرف کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ بی جے پی ایک تعلیم یافتہ افراد کی پارٹی ہے، محنت کش پارٹی ہے، وہ جانتی ہے کب اور کہاں کیا بولنا چاہئے اور کیا نہیں بولنا چاہئے، اس کی اگلے الیکشن کے لئے منصوبہ بندی الیکشن کے قریب نہیں بلکہ ایک الیکشن ختم ہوتے ہی شروع ہوجاتی ہے اسی کے تحت بی جے پی تجزیہ نگار اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ پانچ سال بعد ایک بار پھر حب الوطنی، مذہب اور عقیدت کے سہارے اقتدار حاصل کرنا شاید مشکل ہو اس لئے اس نے پہلے ہی دن سے اگلے الیکشن کی تیاری شروع کردی اور جس مسلم ووٹر زکو بالکل نظر انداز کیا گیا تھا اس پر ڈورے ڈالنے شروع کردیئے اور اس میں کچھ غلط نہیں، ہر پارٹی اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہے ایسے میں اگر مسلموں کا بھلا کرکے اس کو اپنی طرف راغب کیا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں۔ اسی کے متعلق اپنے 24 تاریخ کے مضمون میں پہلے ہی دن لکھنے کی کوشش کی تھی کہ اب مسلموں کو بی جے پی میں شامل ہونا کوئی عیب نہیں سمجھا جائے گا، اس کے لئے سب سے نرم چارہ ہوتا ہے مولوی۔ اسی لئے ہم سب سے زیادہ مولویوں کو نہ صرف چینلوں پر دیکھتے ہیں بلکہ ان کی جیسی کہتے بھی سنتے ہیں اور آج رجت شرما کے شو ’آپ کی عدالت‘ میں مولانا مدنی اور مولانا کلب جواد کی موجودگی اس کی یقین دہانی کراتی ہے۔
افسوس بس یہ ہوا کہ جب آفتاب شریعت حجۃ الاسلام مولانا کلب جواد نقوی کا شروعات میں تعارف کرایا گیا تو شیعہ رہنما کرکے کرایا گیا جبکہ کچھ سال پہلے تک انہیں مسلم رہنما کہا جاتا تھا اور وہ اس کے حقدار بھی تھے۔ یہ ان کے تعلیم یافتہ حامیوں کو بھی ضرور برا لگا ہوگا کہ ان کے ہردلعزیز قائد ملت کا قد جو 20 کروڑ کی نمائندگی کرتا تھا اب ایک انٹرنیشنل چینل پر مسلم رہنما کے بجائے شیعہ رہنما کہہ کر مسلموں کے ایک بہت چھوٹے سے فرقے میں محدود کردیا گیا۔
اب 80 فیصد نہیں صدفیصد اپنی طرف کرنے کے قواعد شروع ,مولانا کلب جواد مسلم رہنما سے شیعہ رہنمابنے
Also read