جوش میں سرشارتحریروں کے قلمکار حفیظ نعمانی کا طویل علالت کے بعد انتقال

0
888

لکھنو : یہ خبر انتہائی افسوس کے ساتھ دی جا رہی ہے کہ قلم کے مجاہد اور کہنہ مشق صحافی حفیظ نعمانی نے طویل بیماری کے بعد داعی اجل کو لبیک کہا۔حفیظ نعمانی آخری دم تک اخبارات بالخصوص روزنامہ اودھ نامہ کے لئے پابندی سے ایک مضمون لکھتے رہے۔

وہ اودھ نامہ کے چیف ایڈیتوریل ایڈوایزر اور سرپرست بھی تھے۔حفیظ نعمانی صاحب کئی دہائیوں سے عارضہ قلب میں مبتلا تھے مگر انہوں نے تصنیف اور تالیف سے منھ نہیں موڑا،اور یہی وجہ تھی کہ وہ ملک کے دیگر رسائل اور اخبارات انکے مضامین پابندی سے شائع کرتے تھے۔ حفیظ نعمانی نے کتابیں بھی تحریر کیں اور انگنت بیش بہا مضامین بھی سپرد قلم کئے ،

حفیظ نعمانی کا تعلق سنبھل کے علمی اور دینی خانوادے سے تھا اور انہوں نے خود بھی دین کی اعلی تعلیم حاصل کی تھی۔ حفیظ نعمانی متعدد دینی اداروں سے بھی وابستہ رہے اور ان تنظیموں اور اداروں کی انہوں نے رہنمائی بھی کی۔

لا تعداد اور اہم واقعات سے انکی زندگی بھری پری تھی،ملک کی آزادی اور اسکے بعد کے پر آشوب دور کا نکو خاصہ تجربہ تھا اور یہی وجہ تھی کی انکو اپنی بے باکی اور جرائتمندی کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ اور جیل میں بھی کچھ وقت گزارنا پرا۔

اُنیس سَو پینسٹھ کئی حوالے سے لوگوں کے ذہن میں ہونا چاہیے۔ ایک تو اسی سال ہند ۔پاک جنگ ہوئی تھی دوسری اہم بات یہ بھی کہ کانگریسی حکومت کے وزیر اعظم لعل بہادرشاستری کے کابینی وزیر تعلیم محمد علی کریم چھاگلہ نے شوشہ چھوڑا کہ ’’اگر میں وزیر تعلیم رہ گیا تو مسلم یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی غیر مسلم کو مقرر کر کے دِکھادوں گا۔‘‘

بات صرف اتنی ہی ہوتی تو شاید اس پر زیادہ توجہ نہ دی جاتی مگر چھاگلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے نام سے لفظ ’ مسلم ‘ نکالنے کیلئے پارلیمنٹ میں بل(بھی) پیش کروں گا۔‘‘۔۔۔

ظاہر ہے کہ چھاگلہ کی یہ زہر بھری باتیں پورے ملک کے مسلمانوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئیں۔ مسلمانوں میں اشتعال کا پیدا ہونا فطری امر تھا۔ اُس وقت ملک میں ایک سے ایک سنجیدہ اور باشعور شخص مسلمانوں میں موجود تھا، احتجاج اور ردِ عمل کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُس دَور میں اخبار ہی بڑا ہتھیار تھا اوراُردوصحافی بھی ایک سے بڑھ کر ایک موجود تھے۔

لکھنؤ سے ہفت روزہ ’ندائے ملت‘ نے چھاگلہ کی اس سازش کے خلاف ایک خاص شمارہ ’ مسلم یونی ورسٹی نمبر‘ کی اشاعت کا اعلان کیا ۔ صرف اس پر توجہ دیں کہ یہ نمبر ابھی شائع نہیں ہوا تھا مگر اُس کا شہرہ، اس کی طلب کا یہ عالم تھا کہ ندائے ملت کے دفتر میں روز بروز اس کی مانگ بڑھ رہی تھی۔

مختصر یہ کہ اشاعت سے قبل ہی اس خاص نمبر کی مقبولیت اور اہمیت کے پیشِ نظر سرکار حرکت میں آگئی اور پھر اس نمبر پر حکم ِامتناعی لگا دِیا گیا بہ الفاظ ِدیگر ندائے ملت کے مسلم یونی ورسٹی نمبر کی ضبطی کا حکم صادر کر دِیا گیا۔

مگر ندائے ملت کے روح رواں حفیظ نعمانی نے ایک جرأت اور پُر خطر حکمتِ علمی اپنائی اور کسی طور اِس نمبر کی خاصی تعداد لوگوں تک پہنچا ہی دِی۔ نتیجے میں انہوں نے اپنے دو رفقا کے ساتھ نو ماہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔ اس جیل یاترا کی کہانی

’’ رودادِ قفس ‘‘ کے نا م سے کتابی شکل میں منظرِ عام پر آچکی ہے۔
حفیظ نعمانی نے اپنی صحافتی زندگی میں کبھی کسی سے دھونس نہیں کھائی اور وہی سپرد قلم کیا جس کو وہ خود حق سمجھتے تھے،

حفیظ نعمانی کے انتقال سے بے باک صحافت کو زبردست خسارہ ہوا ہے اور جس نوعیت کی انہوں نے صحافت کی اسکا خاتمہ ہو گیا۔

صف اول کے صحافی عالم نقوی نے علی گڑھ سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ حفیظ صاحب اور جمیل مہدی صاحب نے مجھ کو صحافت سکھائی۔انکے انتقال سے میرا ذاتی نقصان ہوا ہے۔

مشہور صحافی اعظم شہاب نے حفیظ صاحب کے انتقال پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ بہت عمدہ صحافی تھے
انہیں پڑھنے کے بعد کسی اور کو پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی
میری بدقسمتی تھی کہ ان سے کبھی مل نہیں سکا
اللہ انہیں اپنی رحمت میں رکھیں۔

امتیاز جسین علیگ کلکتہ نے پیغام دیا ہے کہاللہ مغفرت فرمائے۔ آج اردو ایک بڑے صحافی سے محروم ہو گئی۔ ان کے مضامین کا اگر مجموعہ شائع ہو جائے تو آنے والی اردو نسل کے لئے وہ نشان راہ ثابت ہوگا۔ ان کی تحریر اپنے دور کی تاریخ سمیٹے ہوئے ہے جس کی بقا کی ذمہ داری ہماری نسلوں پر واجب ہے۔ اللہ انُکے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کرے۔

کھرگون کے ڈاکٹر سجاد جعفری نے اظہار تعزیت ادا کرتے ہوئے لکھا ہے نہ صرف اردو صحافت بلکہ مسلم سیاست کا بہت بڑا نقصان ہے. ..اللہ تعالیٰ مرحوم کو مغفرت فرمائے

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here