تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: محمد اویس سنبھلی
ایچ ایم یٰسین صاحب سے میری پہلی ملاقات2007 میں اِرم کالج کے اندرا نگر واقع کیمپس میں ہوئی۔ اس زمانے میں خواجہ محمد یونس صاحب کالج میں پرنٹنگ کا ہونے والا بڑاکام ہم سے کرایا کرتے تھے۔ پرنٹنگ کے کام کی ذمہ داری نذیر احمد نوری صاحب کی تھی۔خواجہ یونس صاحب کا نام آتے ہی کچھ کھٹی میٹھی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔اپنے ملازمین کے ساتھ اُن کا رویہ کیسا تھا؟ یہ موقع اس پر گفتگو کا نہیں ہے۔لیکن یہ موقع اس بات کے اعتراف کا ضرور ہے کہ خواجہ یونس نے اپنے یہاں کئی ایسے افراد کی خدمات حاصل کیں ، جن کی عمریں 60؍برس یا اسے بھی زیادہ تھیں۔ خواجہ صاحب کے انتقال کے بعد اگر ان کے صاحبزادگان چاہتے تو ان کو مستثنی کرسکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے والد کی یاد کے طور پر ان کے برائے نام کام کے باوجود عزت و تکریم سے رکھا۔ اسی میں ایک نام ایچ ایم یٰسین صاحب کا تھا۔یٰسین صاحب اِرم کالج کے قانونی مشیر تھے۔ ابتدائی زمانے میں ہماری ان سے صرف ارم کالج میں ہی ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں۔ ضیاء الحسن صاحب ملازمت سے سبک دوش ہوئے تو خواجہ صاحب نے انھیں بھی اپنے یہاں بلا لیا۔ اس طرح کے لکھنے پڑھنے والے لوگوں کوخواجہ صاحب استعمال کرناخوب جانتے تھے۔کچھ عرصہ بعد بعض ناگزیر وجوہ سے ارم کالج میںمیرا آنا جانا بند ہوگیا۔ضیاء الحسن صاحب بھی گھر سے ہی خواجہ صاحب کے کام کرنے لگے۔ ضیاء صاحب کے گھر بھی کئی مرتبہ یٰسین صاحب سے ملاقاتاتیں رہیں۔ وہ ہمیشہ بڑی محبت سے ملتے۔ میرے چھوٹے بڑے ہر پروگرام میں ان کی شرکت لازمی تھی، بلکہ میرے ہی نہیں ،شہرمیں ہونے والی ادبی تقریبات میں پابندی کے ساتھ شرکت کرنے والوں میں ان نام بہت نمایاں تھا۔ادبی تقریبات میں شیروانی ان کا پسندیدہ لباس تھا۔ اسکوٹر سے وہ ہرجگہ پہنچ جایا کرتے تھے۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں جب جسم کچھ کمزور ہو کر عزم پر اثر چھوڑنے لگا ،تب انھوں نے پروفیسر جمال نصرت صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی سے آنا جانا شروع کردیا۔ ان دونوں بزرگوں کے درمیان 20؍برس کی رفاقت رہی۔ ان دونوں کی محبت اور تعلق قابل دید اور لائق تقلید ہے۔میرا ان دونوں ہی بزرگوں سے نیازمندانہ تعلق رہا ہے۔ 2020 ء، جس زمانے میں مجھ پر کالم نگاری کا بھوت سوار تھا۔ تقریباً روز ہی کسی نہ کسی اخبار میں کالم شائع ہوتا تھا۔ 19؍فروری 2020 ء کو یٰسین صاحب نے کالم پڑھ کر محبت بھرا میسج کیا۔انھوں نے لکھا :
’’آپ تو اب ماشااللہ روز چھپنے لگے ہیں، نئے نئے مضامین پڑھنے کو مل رہے ہیں۔ اللہ ماموں جان سے زیادہ نام روشن کرے۔ آمین۔ ویسے بھی گرو گُڑ ،تو چیلا شَکر ہوجاتا ہے‘‘۔
حفیظ نعمانی صاحب سے انھیں عقیدت تھی۔ عمر میںان سے کوئی 2؍برس چھوٹے تھے، بڑی محبت سے’ حفیظ بھائی‘ کہہ کرپکارتے تھے۔ اسی نسبت سے میرے ساتھ بھی ان کا رویہ انتہائی مشفقانہ رہا۔
ہرچند کہ اردوزبان و ادب کے میدان میں ان کا داخلہ بہت دیر سے ہوا۔ تقریباً 70؍برس کی عمر میں انھوں نے کانپور یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے خوب مراسلے لکھے۔ بعد میں افسانہ کو اپنا موضوع بنایا اور کامیاب رہے۔ ادب اطفال کے تئیں بھی ان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ گذشتہ دس برسوں میں لکھنؤکے ادبی رسائل و اخبارات میںان کے افسانے اور بچوں کے لیے ان کی کہانیاں تواترکے ساتھ شائع ہوتی رہیں۔زندگی کے آخری سفر تک ان کا یہ قلمی سفر بلندی کی حدوںتک پہنچنے کی کوششیںکرتا رہا۔ایچ ایم یٰسین صاحب ایک اچھے قلم کاراورخوش فکر ادیب اورتقریباً ایک درجن سے زیادہ کے مصنف اور مؤلف تھے ۔
اردو افسانے سے محبت کا گہرا رشتہ استوار کرنے والے ایچ ایم یٰسین صاحب 10؍جون 1932ء کومظفر نگر(یوپی)کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام رمضان حسن تھا،جوضلع بجنور کے رہنے والے تھے۔ اپنے والد کی نگرانی میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے پنجاب یونیورسٹی سے1957 ء میں بی اے کیا۔ بعد ازاں لکھنؤ یونیورسٹی سے1970 ء میں ایل ایل بی اور کانپور یونیورسٹی سے1975ء میں انگریزی میںاور 2004 ء میں اردو میں ایم اے کیا۔ وہ1950ء میں ہائی اسکول کرنے کے بعدحکومت اترپردیش کے محکمہ خوراک و رسد اورپھرمحکمہ عدالت ؍جیل سے وابستہ رہے۔ 1955 ء میں مرکزی حکومت کے محکمہ ریلوے سے وابستہ ہوگئے۔1961 ء سے 1976 ء تک آر ڈی ایس او ،وزارت ریلوے میں خدمات انجام دیں۔1976 ء میں ملازمت چھوڑ کرسعودی عرب چلے گئے اور 1991ء تک حکومت سعودی عربیہ کی سعودی ایرلائنز سے وابستہ رہے۔2000ء میںانسٹی ٹیوٹ آف انٹگرل ٹکنولوجی لکھنؤ میں ایڈمنسٹریٹیو آفیسر،پھر انٹگرل یونیورسٹی کے او ایس ڈی، اور2005-2006ء میںرجسٹرار بنادیے گئے۔اپنی عمر کے آخری تقریباً15؍سال ارم ایجوکیشنل سوسائٹی، اندرا نگر، لکھنؤسے وابستہ رہ کر گزارے۔ وقتاً فوقتاً ان کی علمی و عملی صلاحیتوں کا اعتراف بھی کیا جاتا رہا۔ اترپردیش اردو اکادمی نے ان کی 4؍تصانیف کو ایوارڈ سے نوازا ، بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں کے بھی کئی مجموعے اکادمی سے شائع ہوئے۔ ان کی خدمات کااعتراف دیگر تنظیموں کی جانب سے کیا گیا۔ان کی علمی و عملی، تنظیمی و ادبی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے ڈاکٹر اقتدار حسین فارقی لکھتے ہیں۔:
’’یٰسین صاحب ہمارے درمیان ایک ایسی قابل قدر شخصیت ہیں جو ایک طویل عرصہ سے میدان ادب میں سرگرم عمل ہیں۔ اکیڈمک سطح پر وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم یافتہ، بلکہ ملک اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر بھی اپنی تنظیمی اور علمی صلاحیتوں کے نقوش ثبت کرچکے ہیں۔ تنظیمی صلاحیتوں کا تو یہ عالم ہے کہ اس پیری کے دور میں بھی آج کل وہ اِرم گروپ آف انسٹی ٹیوشن میں فل ٹائم ایڈوائز کے عہدے پر کارپرداز ہیں۔ اس سے قبل وہ انٹگرل یونیورسٹی کے پہلے رجسٹرار رہ چکے تھے۔اس یونیورسٹی کے قیام اور ترقی میں ان کی زبردست خدمات ہیں۔‘‘
(قدرت کے شاہکار از ایچ ایم یٰسین، صفحہ1؍ 2021ء )
ایچ ایم یٰسین کا شمار لکھنؤکے معتبر افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، اُن کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوکر صاحبان ِ علم و دانش سے تحسین حاصل کرچکے ہیں۔یٰسین صاحب کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے اطراف کی زندگی کے معمولی معمولی واقعات اور تلخ و تند باتوں کو ہنر مندی سے افسانہ بنادیتے ہیں۔ متنوع تجربات اور منفرد انداز کے حامل اپنے افسانوں کی وجہ سے انہوں نے اپنے قاری کو خوش گوار حیرت سے سرشار کیا ہے۔ زندگی سے قربت کی وجہ سے اِن کے افسانوں کو خوب سراہا بھی گیا۔
یٰسین صاحب کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’سلاخوں کے پار‘‘2012ء میں منظرعام پر آیا۔اس پر پیش لفظ ڈاکٹر بشیشرپردیپ نے لکھا تھا۔اس مجموعے میں شامل تمام افسانے جیل کے حالات پر مبنی ہیں۔ اسی مجموعے میں شامل افسانہ ’’آخری خواہش‘‘ پھانسی کی سزا پانے والے قیدی کے ذہنی کرب کی عکاسی کرتا ہے۔ بقول ڈاکٹر بشیشر پردیپ ’’یہ افسانے کے تمام فنی نقاضوں کو پورا کرتا ہے اور کسی بھی انتخاب میں شامل ہوسکتا ہے۔‘‘ اس مجموعے سے قبل ان کی ایک کتاب ’’انجان شناسائی‘‘ 2009 ء میں شائع ہوچکی تھی۔’’انجان شناسائی‘‘ شادی میں لکھے جانے والے سہروں اور رخصتیوں کا مجموعہ ہے۔ بقول پروفیسر جمال نصرت:’’اس میں گہری فکریں، جذبات و احساسات کی کارفرمائیاں، والہانہ خوشیاں اور آنسوں لانے والی نظمیں ہیں‘‘۔سلاخوں کے پار کی اشاعت کے بعد ان کے تین افسانوی مجموعے ’’تلاطم‘‘ [2013 ء]، ’’میں نے تو کہا تھا‘‘ [2015ء]اور ’’خون‘‘[2017ء]میں شائع ہوئے۔2015 ء میں بچوں کی کہانیوں کے دو مجموعے شائع ہوئے۔ پہلا ’’معصوم وفادار‘‘ جسے اترپردیش اردو اکادمی نے شائع کیا اور دوسرا’’ککڑوں کوں ککڑوں کوں‘‘۔
یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ معروف ناول نگار محسن خاں ان سے بہت تعلق رکھتے تھے بلکہ اس تعلق کو انھوں نے خوب نبھایا بھی۔ محسن بھائی کی کوششوں سے ان کی کئی کتابیں اترپردیش اردو اکادمی سے شائع ہوئیں۔یٰسین صاحب کی کہانیوں کا تیسرا مجموعہ ’’کائیں کائیں میائوں میائوں‘‘ 2017 ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میںبچوں کے لیے نصیحت آمیز، دلچسپ اور معلوماتی کل 12؍کہانیاں شامل ہیں۔ احمد ابراہیم علوی اور سہیل کاکوروی کے تاثرات بھی شامل کتاب ہیں۔ بقول مصنف ’’کہانی گو جھوٹ، سچ کا بیانیہ ہوتا ہے لیکن میں نے کوشش کی ہے کہ بچوں کی دلچسپی کے ساتھ ان کی معلومات میں اضافہ بھی ہواور وہ کچھ نئے نئے پہلوئوں سے بھی واقف ہوں‘‘۔2018ء میں ’’دادی سنائیے نا‘‘ عنوان سے ان کی کہانیوں کا چوتھا اور 2020ء میں ’’خدا کی عجیب و غریب مخلوقات‘‘کے عنوان سے پانچواں مجموعہ شائع ہوا۔ 2021 ء میں بچوں کی سائنسی معلومات پر مبنی کہانیوں کا مجموعہ ’’قدرت کے شاہکار‘‘ شائع ہوا۔ معروف افسانہ نگار ڈاکٹر صبیحہ انوران کے افسانوں اور کہانیوں کے متعلق لکھتی ہیں:
’’یٰسین صاحب اردو زبان و ادب سے محبت رکھنے والے باصلاحیت اور باذوق انسان ہیں۔ خلوص ان کی فطرت کا خاصہ ہے۔ دوسروں کی خوشی اور غم میں برابر کے شریک رہتے ہیں۔ خدا نے یٰسین صاحب کو اپنے گردوپیش کی خوشیاں ہی نہیں بلکہ زندگی کی ناہمواریوں سے متاثر ہونے والا حساس دل اور دل کی کیفیت کا اظہار کرنے والا قلم بھی دیا ہے۔ ان کی کہانیاں پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کہانیاں زندگی کے وہ بے باک اور سفاک تجربات ہیں جو یٰسین صاحب کو بطور اپنی ڈیوٹی انجام دیتے وقت پیش آئے۔ یٰسین صاحب نے انسانی اقدار کا ساتھ کہیں نہیں چھوڑا ہے۔ ان کی سب کہانیاں بہت دلچسپ ہیں اور اپنے قاری کو باندھے رکھنے کی مقناطیسی قوت رکھتی ہیں۔ان کی زبان صاف اور سادہ ہے اور اظہار بیان کا سلیقہ انھیں معلوم ہے‘‘۔
یٰسین صاحب نے بطور ادیب ہمیں بہت کچھ دیا، ادبی دنیا کوبھی انھوں نے خوب وسعت دی اور آگے بڑھایا۔ڈاکٹر بشیشر پردیپ، مسرور جہاں، عابد سہیل،ڈاکٹر اقتدار حسین فاروقی،احمد ابراہیم علوی، عائشہ صدیقی، ڈاکٹر اشفاق محمد خاں، ڈاکٹر صبیحہ انور، شاہنواز قریشی،منظور پروانہ،سہیل کاکوروی جیسے ارباب علم و ادب نے ان کے فن پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔
ایچ ایم یٰسین صاحب بہت ذہن، ادب کی اچھی سمجھ رکھنے والے صاحب قلم تھے۔لکھنؤ کے معتبر افسانہ نگاروںمیں ان کا شمار ہونے لگا تھا۔گوناگوں خوبیوں کے مالک، ایک بارعب و وجیہ چہرہ مہرہ والے تھے۔وہ ایسے باغ و بہار شخصیت تھے جن کو لکھنؤ کی علمی و ادبی ماحول میں ہمیشہ یاد کیا جاتا رہے گا۔
شہرت بخاری نے اپنی خودنوشت’’کھوئے ہوئوں کی جستجو‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’یہ موت مجھے کہیں مجسم حالت میں مل جائے تو میں اس کا منھ نوچ لوں، کلیجہ چبا لوں۔ یہ ڈائن بار بار ہمارے پیاروں کو ہم سے جدا کردیتی ہے‘‘
موت لے جائے گی مہ پاروں کو
ہائے یہ لوگ بھی مرجائیں گے
لیکن موت برحق ہے۔ہرفرد و بشرکو یقینی طور پر اس کا سامنا کرنا اور شکست کھانا ہے اور سب کچھ اسی دنیا میںچھوڑ کر جانا ہے۔کوئی جلد تو کوئی دیر سے، بہرحال تقدیر الٰہی غالب آکر رہے گی۔ ایچ ایم یٰسین صاحب بھی اب جوار رحمت میں پہنچ گئے۔کل گذشتہ 28؍ستمبر 2023 کی شام ان کا انتقال ہوگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔تدفین 29؍ستمبر بعد نماز جمعہ نشاط گنج قبرستان میں عمل میں آئی۔اللہ پاک مغفرت کا معاملہ فرمائے، جملہ وابستگان کو صبرجمیل عطا فرمائے۔
رابطہ: 9794593055