صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام روزہ نہیں-Fasting is not just about being hungry and thirsty

0
321

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں


 

 

Fasting is not just about being hungry and thirsty

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ، اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے (کی مشقت) کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (ابن ماجہ، نسائی) معلوم ہوا کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا روزے کے بنیادی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ آئیے قرآن وحدیث کی روشنی میں روزے کے چند بنیادی مقاصد کو سمجھیں تاکہ اُن مقاصد کو سامنے رکھ کر ماہ رمضان کے روزے رکھے جائیں۔
تقوی: اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اے ایمان والو! تم پر روزہ فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی بن جائو۔ (سورۃ البقرہ ۱۸۳) قرآن کریم کے اس اعلان کے مطابق روزہ کی فرضیت کا بنیادی مقصد لوگوں کی زندگی میں تقویٰ پیدا کرنا ہے ۔ تقویٰ اصل میں اللہ تعالیٰ سے خوف ورجاء کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کے طریقہ کے مطابق ممنوعات سے بچنے اور اوامر پر عمل کرنے کا نام ہے۔ روزہ سے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا ملکہ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ یعنی اللہ کے خوف کی بنیاد ہے۔ روزہ کے ذریعہ ہم عبادات، معاملات، اخلاقیات اور معاشرت غرضیکہ زندگی کے ہر شعبہ میں اپنے خالق، مالک ورازق کائنات کے حکم کے مطابق زندگی گزارنے والے بن سکتے ہیں۔ اگر ہم روزہ کے اس اہم مقصد کو سمجھیںاور جو قوت اور طاقت روزہ دیتا ہے اس کو لینے کے لئے تیار ہوں اور روزہ کی مدد سے اپنے اندر خوف خدا اور اطاعت امر کی صفت کو نشو ونما دینے کی کوشش کریں تو ماہ رمضان ہم میں اتنا تقویٰ پیدا کرسکتا ہے کہ صرف رمضان ہی میں نہیں بلکہ اس کے بعد بھی گیارہ مہینوں میں زندگی کی شاہراہ پر خاردار جھاڑیوں سے اپنے دامن کو بچاتے ہوئے چل سکیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو روزہ کے اس اہم مقصد کو اپنی زندگی میں لانے والا بنائے۔ آمین۔
گناہوں سے مغفرت حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی خالصۃً اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے روزہ رکھا اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف فرمادئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے:جوایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے یعنی ریا، شہرت اور دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لئے رات میں اللہ کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح اور تہجد پڑھی تو اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) اسی طرح حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے: جو شحض شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کے لئے کھڑا ہوا یعنی نماز تراویح وتہجد پڑھی، قرآن کی تلاوت فرمائی اور اللہ کا ذکر کیا تو اس کے گزشتہ تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم)
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے صحابۂ کرام سے ارشاد فرمایا کہ منبر کے قریب ہوجاؤ، صحابۂ کرام قریب ہوگئے۔ جب حضور اکرم ﷺ نے منبر کے پہلے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب دوسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب تیسرے درجہ پر قدم مبارک رکھا تو فرمایا آمین ۔ جب آپ ﷺخطبہ سے فارغ ہوکر نیچے اترے تو صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ ہم نے آج آپ سے منبر پر چڑھتے ہوئے ایسی بات سنی جو پہلے کبھی نہیں سنی تھی۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے سامنے آئے تھے ۔ جب پہلے درجہ پر میں نے قدم رکھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس نے رمضان کا مبارک مہینہ پایا پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوسکی، میں نے کہا آمین۔ پھر جب دوسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر مبارک ہو اور وہ درود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین۔ جب میں تیسرے درجہ پر چڑھا تو انہوں نے کہا ہلاک ہو وہ شخص جس کے سامنے اس کے والدین یا ان میں سے کوئی ایک بڑھاپے کو پہونچے اور وہ اس کو جنت میں داخل نہ کراسکیں، میں نے کہا آمین۔ (بخاری، صحیح ابن حبان، مسند حاکم، ترمذی، بیہقی) غرضیکہ کس قدر فکر اور افسوس کی بات ہے کہ ماہ مبارک کے قیمتی اوقات بھی غفلت اور معاصی میں گزار دئے جائیں جس سے سابقہ گناہوں کی مغفرت بھی نہ ہوسکی۔ لہذا ہمیں رمضان کے ایک ایک لمحہ کی حفاظت کرنی چاہئے تاکہ ایسا نہ ہو کہ ہم حضرت جبرئیل علیہ السلام اور حضور اکرم ﷺ کی اس دعا کے تحت داخل ہوجائیں۔
حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ بہت سے روزہ رکھنے والے ایسے ہیں کہ ان کو روزہ کے ثمرات میں بجز بھوکا رہنے کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بہت سے شب بیدار ایسے ہیں کہ ان کو رات کے جاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ (سنن ابن ماجہ) یعنی روزہ رکھنے کے باوجود دوسروں کی غیبت کرتے رہتے ہیں یا گناہوں سے نہیں بچتے یاحرام مال سے افطار کرتے ہیں۔ لہذا ہمیں ہر ہر عمل خیر کی قبولیت کی فکر کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ صحابۂ کرام نے عرض کیا کہ کیا یہ شب ِمغفرت شب ِقدر ہی تو نہیں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کا کام ختم ہوتے ہی اسے مزدوری دے دی جاتی ہے۔ معلوم ہوا کہ ہمیں عید کی رات میں بھی اعمال صالحہ کا سلسلہ جاری رکھنا چاہئے تاکہ رمضان میں کی گئی عبادتوں کا بھرپور اجروثواب مل سکے۔
قرب الہی: روزہ دار کو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے۔ روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔(صحیح بخاری) اس سے زیادہ اللہ کا کیا قرب ہوگا کہ اللہ جل شانہ خود ہی روزہ کا بدلہ ہے۔ نیز حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ تین شخص کی دعا رد نہیں ہوتی ہے، ان تین اشخاص میں سے ایک روزہ دار کی افطار کے وقت کی دعا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل فرماتے ہیں۔ (صحیح ابن حبان)
عند اللہ اجر عظیم کا حصول: اس برکتوں کے مہینہ میں ہر نیک عمل کا اجروثواب بڑھا دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر عمل خیر کا دنیا میں ہی اجر بتادیا کہ کس عمل پر کیا ملے گا مگر روزہ کے متعلق حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: الصَّوْمُ لِی وَانَا اَجْزِیْ بِہ روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ بلکہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ میں خود ہی روزہ کا بدلہ ہوں۔ اللہ اللہ کیسا عظیم الشان عمل ہے کہ اس کا بدلہ ساتوں آسمانوں وزمینوں کو پیدا کرنے والا خود عطا کرے گا یا وہ خود اس کا بدلہ ہے۔ روزہ میں عموماً ریا کا پہلو دیگر اعمال کے مقابلہ میں کم ہوتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے روزہ کو اپنی طرف منسوب کرکے فرمایا الصَّوْمُ لِی روزہ میرے لئے ہے ۔
لہذا ہمیں ماہ رمضان کی قدر کرنی چاہئے کہ دن میں روزہ رکھیں، پنچ وقتہ نماز کی پابندی کریں کیونکہ ایمان کے بعد سب سے زیادہ تاکید قرآن وحدیث میں نماز کے متعلق وارد ہوئی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی آخری وصیت بھی نماز کے اہتمام کی ہی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلا سوال نماز ہی کے متعلق ہوگا۔ نماز تراویح پڑھیں اور اگر موقع مل جائے تو چند رکعات رات کے آخری حصہ میں بھی ادا کرلیں ۔ فرض نمازوں کے علاوہ نماز تہجد کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرآن کریم میں متعدد مرتبہ فرمایا ہے۔
رمضان کے آخری عشرہ میں تہجد پڑھنے کا اہتمام کریں کیونکہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرہ میں پائی جاتی ہے جس میں عبادت کرنے کو اللہ تعالیٰ نے ہزار مہینوں یعنی پوری زندگی کی عبادت سے زیادہ افضل قرار دیا ہے۔ اسی اہم رات کی عبادت کو حاصل کرنے کے لئے ۲ہجری میں رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد سے حضور اکرم ﷺ ہمیشہ آخری عشرہ کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس مبارک ماہ کی قدر کرنے والا بنائے اور شب قدر میں عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
جس طرح ہم روزہ میں کھانے پینے اور جنسی شہوت کے کاموں سے اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے رکے رہتے ہیں اسی طرح ہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق ہونی چاہئے، ہماری روزی روٹی اور ہمارا لباس حلال ہو، ہماری زندگی کا طریقہ حضور اکرم ﷺ اور صحابۂ کرام والا ہو تاکہ ہماری روح ہمارے جسم سے اس حال میں جدا ہو کہ ہمیں ، ہمارے والدین اور سارے انس وجن کا پیدا کرنے والا ہم سے راضی وخوش ہو۔ دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کے وقت اگر ہمارا مولا ہم سے راضی وخوش ہے تو ان شاء اللہ ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی ہمارے لئے مقدر ہوگی کہ اس کے بعد کبھی بھی ناکامی نہیں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور رمضان کے صیام وقیام اور تمام اعمال صالحہ کو قبول فرمائے۔ رمضان کے بعد بھی منکرات سے بچ کر احکام خداوندی کے مطابق یہ فانی وعارضی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here