متاعِ لوح و قلم چھِن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دِل میں ڈبولی ہیں اُنگلِیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہء زنجیر میں زباں میں نے
(فیض)
فیض احمد فیض سے یہ میرا پہلا تعارف تھا۔ اس وقت تک میں نے صرف ان کا نام سنا تھا۔ انہیں دیکھنے ، انکی باتیں سننے اورانہیں پڑھنے کا نیاز حاصِل نہیں ہوا تھا۔ لیکن ان کے ان اشعارنے میرے دِل کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ میرے رگ و ریشے میں بجلیاںدوڑ گئی تھیں۔ یہ کون انسان ہے جس کی آواز پر کوئی بھی دنیا وی طاقت پابندی نہیں لگا سکی ہے اور جو جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے سے آواز دے رہا ہے۔ انقلاب ، امن و آشتی اورمساوات کا پیغام سنا رہا ہے؟
بعد میں فیض صاحب کو بنّے بھائی (سجّاد ظہیر) کے توسل سے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ جرمنی آنے کے بعد جب میں ۱۹۶۳ء میں لندن گیا تو وہاں ان کے گھر پر جاکر ان سے ملاقات کی۔ ستمبر میں میرے ایک خط کے جواب میں انھوں نے لکھا:
عزیزی عارف میاں!
میں قریباً دوماہ کے بعد ابھی لندن لوٹا ہوں۔ آپ کا بہت پرانا خط ملا۔یہاں سے طویل غیر حاضری کے باعث بہت سا کام جمع ہے اس لئے برلن کا دورہ فی الحال ملتوی سمجھنا۔ بہر حال جب ادھر سے کوئی باقاعدہ اطلاع آئے گی تو دیکھا جائے گا۔ڈاکٹر اشرف مرحوم سے ملاقات ضرور رہی ہے لیکن میری معلومات اتنی مفصل نہیں کہ ان کے بارے میں کوئی کارآمد چیز لکھ سکوں، بشرطِ فرست اس بارے میں سوچنے کی کوشش کروں گا۔امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے۔ فقط!
مخلص
فیض
اپنی نو جوانی کے زمانے سے میں فیض کے اشعار کو جتنا پڑھتا تھا میرے دل سے نا امیدی دور ہو جاتی تھی اور زندگی پر بھروسہ بڑھتا جاتا تھا۔اور اقبال کے اس شعر کے مطلب سمجھ میں آتے جاتے تھے:
اُٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختئہ شام و سحر تازہ کریں
(اقبال)
میں زندگی کے ہر دور میں بہت سے مصنفوں و شاعروں سے متاثر ہوا ہوں۔ اقبال کا یہ شعر
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
زندگی کے ہر گام پر میرے لئے مشعلِ راہ ہے۔ لیکن فیض احمد فیض کے اشعار میں بغاوت کا پیغام ہی نہیں زندگی کا حسن اور خوبصورتی اور اخلاقی اقدار کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ وہ اگر کہتے ہیں:
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
یا
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سائے تلے
آدم و حوّا کی اولاد پہ کیا گذری ہے
یا
چند روز اور میری جان ! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھائوں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اور کچھ دیر ستم سہہ لیں تڑپ لیں رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم
یا
بول کے لب آزاد ہیں تیرے
یا
اور بھی غم ہیں زمانہ میں محبّت کے سو۱
تو وہ یہ بہی کہتے ہیں:
اس قدر پیار سے اے جانِ جہاں رکھا ہے
دِل کے رخسار پہ اس وقت تیری یاد نے ہاتھ
یہ گماں ہوتا ہے گر چہ ابھی صبح فراق
ڈھل گیا ہجر کا دِن ا ٓبھی گئی وصل کی رات
فیض نے ترقی پسند شاعری کو ایک بلند مقام عطا کیا اور یہ ثابت کر دیاکہ جس طرح مختلف اصنافِ سخن کے مختلف معیار ہوتے ہیں اسی طرح بہت سی کمزور یا نعرہ باز ی والی نظمیں ترقی پسند شاعری کامعیار طے نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ جعفر علی خاںاثر جیسے استاد شاعر نے اعتراف کیا تھا:
’’فیض کی شاعری ترقی کے مدارج پر پہونچ کر اب اُس نقطہء عروج پر ہے جہاں شاید ہی کوئی ترقی پسند پہونچ سکے۔
(جعفر علی خاں اثر)
فیض بھائی کئی بار مشرقی برلن آ ئے ۔ ہم نے ان کا استقبال برلن مجلس کی طرف سےجلسے میں بھی کیا اوران کے ساتھ پرائیویٹ نشستیں بھی رہیں۔ریڈیو اور پریس کیلئے مجھے کئی بار فیض احمد فیض سے انٹرویو لینے کاموقع بھی ملا۔ کبھی ہوٹل ’’ ـیوہانس ھوف‘‘ میں جہاں ان کا قیام تھا اور کبھی اپنے گھر پر ، جہاں ہم اطمینان سے دیر تک گفتگو کرتے اور انکی غزلیں و نظمیں سنتے۔ مجھے یاد ہے آخری بار جب وہ میرے گھر پرتشریف لائے تو انہوں نے خاص طور سے ایک فلسطینی بچّہ کے باریمیں اپنی نظم سنائی۔ اسوقت ان کی آنکھیں نم تھیں۔ وہ لبنان میں فلسطینیوں کی حالت دیکھ کر آئے تھے۔ اس دن بھی میں نے ان سے انٹرویو لیا ، جو ریڈیو برلن انٹرنیشنل سے براڈکاسٹ کیا گیا۔
ان کا ایک ایک جملہ ہمارے لئے پیغام ہے۔ جیسے کہہ رہے ہوں:
ہر اک قدم اجل تھا ، ہراک گام زندگی
ہم گھوم پھر کے کوچہء قاتل سے آئے ہیں
انہیں اس بات پر حیرت، بلکہ افسوس تھا، کہ ترقی پسند ادب کی افادیت پر اب انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں، خصوصا ًہندوستان اورپاکستان میں۔ میں خود بھی ان کی رائے جاننے کیلئے مشتاق تھا۔کیونکہ آجکل یہ فیشن بن گیا ہے کہ ترقی پسند ادب اور ترقی پسندادیبوں کی پگڑی اچھالی جائے۔ بعض شعراء و مصنف جن کے اشعار اور کہانیاں پڑ ھ کر بہت سے نوجوانوںنے قلم اٹھانا اورزبان کھولنا سیکھا تھا، آج خود کو ترقی پسند کہتے ہوئے شرماتے ہیں۔’’ تو کیا ترقی پسند ادب کی اب واقعی افادیت نہیں رہی؟‘‘
فیض صاحب کی رائے اس سلسلے میں بہت واضح تھی۔ انھوں نے کہا:
’’ترقی پسند ادب تو کسی وقت پابند نہیں ہے، کہ آج اس کی ضرورت ہے کل نہیں اس کی ہمیشہ سے ضرورت تھی اور ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ ترقی پسند ادب کسی تنظیم کا نام نہیں ہے۔ سوسائٹی کا نام نہیں ہے۔‘‘
’’ترقی پسند ادب کے معنی ہیں وہ ادب جو کہ ایک معاشرہ کو ، انسانیت کو ترقی پر مائل کرتا ہے۔ تو اسکی ضرورت تو ہمیشہ رہے گی۔جو ادب ترقی پسند نہیں ہے وہ تنزل پسند ہے۔ تنزل پسند ادب کی آج انسانیت کو کیا ضرورت ہے۔ ترقی پسند ادب کے لوگ معنی ہی نہیں سمجھتے ہیں۔ وہ اس کو بہت محدود معنوں میں سمجھتے ہیں۔‘‘
فیض صاحب افرو ایشیائی ادیبوں کے رسالے کے ایڈیٹوریل بورڈ کی میٹنگ میں شرکت کیلئے جی ڈی آر کی سولی ڈاریٹی کمیٹی کی دعوت پر برلن میں آئے ہوئے تھے ۔ رسالے کا دفتر بیروت میں تھا اور اسرائیلی حملے کے نتیجے میں تباہ ہو گیا تھا۔لبنان میں اپنے قیام کے دوران فلسطینیوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ انہیں افسوس تھاکہ وہی لوگ جو دوسری جنگِ عظیم کے زمانے میں نازیوں کی بربریت اور درندگی کو جھیل چکے ہیں بے گناہوں کے خون سے اپنے ہاتھوں کو رنگ رہے ہیں۔
’’۔۔۔وہ مظالم اسقدر۔۔۔ظلم۔۔۔(فیض صاحب کی آواز بھرّا گئی) کہ کیا کہوں۔ ہم جب بیروت میں تھے۔ جب یہ یلغار شروع ہوئی تھی۔۔۔وہاں جو تین ہفتے گزارے ہیں، اسوقت وہاںپر جو صورتِ حال تھی۔ کچھ جھلک اس کی اب شعر کی صورت میں سن لیجئے۔‘‘
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیلِ باغِ جہاں
بچّوں کی ہستی ٓآنکھوں کے
جوآئینے چکنا چور ہوئے
اب ان کے ستاروں کی لو سے
اس شہر کی راہیں روشن ہیں
اور رخشاں ہے ارض لبناں
بیروت نگارِ بزم جہاں
۔۔۔چہرے لہو کے غازوں کی
زینت سے سوا پرنور ہوئے
اب ان کے رنگیں پرتو سے
اس شہر کی گلیاں روشن ہیں
اور تاباں ہیں عصرِ لبناں
بیروت نگا ر بزم جہاں
ہرویراں گھر ، ہر ایک کھنڈر
ہم پایہ قصرِ داراں ہے
ہر غازی رشکِ اسکندر
ہر دختر ہمسر ِ لیلی ہے
یہ شہر عبث سے قائم ہے
یہ شہر عبد تک دائم ہے
بیروت دلِ ارضِ لبناں
بیروت نگارِ بزمِ جہاں
بیروت بدیل باغ جناح
(فیض)
(یہ نظم سناتے وقت فیض صاحب نقاہت کے باعث بعض الفاظ ادا نہیں کر پاتے تھے۔ بعض اوقات سمجھنے میں دقت ہوتی تھی۔)
فیض صاحب کی آرزو تھی کہ دنیا میں امن و امان قائم ہو ۔
زرگری، اسلحہ بندی، خصوصا َ نیوکلیائی اسلحہ بندی کی دوڑ ختم ہو۔ ان کا کہناتھا:
’’جنگیں تو ہمیشہ سے ہوتی آئی ہیں اور ہمیشہ جان و مال کا زیاں ہوتا رہا ہے۔ اس وقت جو صورت درپیش ہے اس میںیہ نہیں ہے کہ کسی ایک ملک کو یا کسی ایک خطّہ کو یا قوم کو خطرہ درپیش ہے۔ جملہ نوعِ انسانی کو اور جملہ خطہء زمین کو خطرہ درپیش ہے۔۔۔۔۔تو ادیب بڑا ہو یا چھوٹا اور اس کے پڑھنے والے کم ہوں یازیادہ ہوں، سب کو مل کر ضمیرِ عالم کو بیدار کرنا ہے اور ذہنِ عالم کو خبردار کرنا ہے اس خطرہ سے۔ یہی ادیب کا اس وقت سب سے پہلا اور سب سے اہم فریضہ ہے۔‘‘
آج جب ہم اپنے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ بموں سے جھلستے ہوئے کھیتوں کو، خون سے لتھڑے ہوئے انسانوں کو، بین کرتی ہوئی عورتوں اور بلکتے ہوئے بچّوں کو تو ہمار ے دل پھٹنے لگتے ہیں۔ مگرجب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے ملک نفرت کے دیوانے بن کر ایک دوسرے کاہی نہیں خود اپنے عوام کا خون بہانے پر تلے ہیں، اسلحہ بندی اور زرگری پر اربوں روپئے پھونک رہے ہیں، جبکہ ان کے عوام بھوک اور افلاس کا شکار ہیں، بیماریاں ان کے جسموں کوکھائے جا رہی ہیں، تو حیرت ہوتی ہے کہ ادیبوں اور فنکاروں کی آواز اور قلم گنگ ہو کر رہ گئے ہیں۔ البتّہ فیض صاحب کو ادیبوںکے شعور اور احساس پر پورا اعتماد تھا۔ وہ مجھ سے کہہ رہے تھے:
’’ادیب کا تو کام یہ ہے، کہ امن، دوستی، خیر سگالی، حسن اور تہذیب و تعلیم کے فروغ کے لئے کوشش کرے۔ جہاں جہاں بھی ملکوں میں اختلافات ہیں سیاسی سطح پہ، جیسے ہندوستان اور پاکستان میںہیں، اور دوسرے ممالک میں بھی ہیں، ادیبوں کا کام یہ ہے کہ وہاں کی حکومتوں کو بھی اور وہاں کے عوام کو بھی ان اختلافات کو پر امن طریقہ سے حل کرنے کیلئے آمادہ کریں اور ان کو خیر سگالی کیلئے ابھاریں۔ اورمیں یہ سمجھتا ہوں کہ جو بھی حسّاس، باشعور اور باضمیر ادیب ہیں، ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی، وہ اس سے پوری طرح آگاہ ہیں اور اس کیلئے پوری طرح کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
اس دن بھی فیض صاحب نے میری فرمائش پر اپنا قطعہ متاعِ لوح و قلم۔۔۔ اور کئی غزلیں سنائیں۔ جس وقت وہ اپنی تازہ لوری جو انہوں نے لبنان میں ایک فلسطینی بچّے کے لئے لکھی تھی، جس کے ماں باپ کو اسرائیلی گولیوں نے بھون دیا تھا، سنا رہے تھے تو ان کی آنکھیں نم تھیں اور وہ بار بار میری بیٹی نرگس کے سر پر شفقّت سے ہاتھ پھیر رہے تھے۔
’’ مت رو بچّے
رو رو کے ابھی
تیری امّی کی آنکھ لگی ہے
مت رو بچّے
کچھ ہی پہلے
تیرے ابّا نے
اپنے غم سے رخصت لی ہے
مت رو بچّے
تیرا بھائی
اپنے خواب کی تِتلی پیچھے
دور کہیں پردیس گیا ہے
مت رو بچّے
تیری باجی کا ڈولا
دور پرائے دیس گیا ہے
مت رو بچّے
تیرے آنگن میں
مردہ سورج نہلا کے گئے ہیں
چندرما دفنا کے گئے ہیں
مت رو بچّے
امّی، ابّا، باجی ، بھائی
چاند اور سورج
تو گر روئے گا تو یہ سب
اور بھی تجھ کو رُلوائیں گے
تو مُسکائے گا تو شاید
سارے اک دن بھیس بدل کر
تجھ سے کھیلنے لوٹ آئیں گے
(فیض احمد فیض)
فیض صاحب کی آواز میں اس بار نقاہت تھی۔ کبھی کبھی جملے ٹوٹ جاتے تھے۔ ان کی پوری بات سمجھنے میں دقّت ہوتی تھی۔اشعار صاف طرح سے ادا نہیں ہوتے تھے۔ چند ہفتوں کے بعد اطلاع ملی کہ فیض صاحب اب اس دنیا میں نہیں رہے ہیں۔ سارے عالم میں ان کا سوگ منایا گیا۔انہیں خراجِ عقیدتیں پیش کی گئیں۔ ان کے اشعار پر واہ واہ کی گئی۔آج بھی کی جاتی ہے۔ ان پر مضامین لکھے جاتے ہیں۔ سیمینار کئے جاتے ہیں۔ مگر ان کے دل کی آواز کو بہت سے لوگ بھول گئے ہیں۔ حالانکہ آج بھی دنیا میں بیڑیاں اور زنجیریں کھنک رہی ہیں۔ کھیتوں و کھلیانوں سے شعلے بھڑک رہے ہیں ۔ دہشت انگیزی، بربریت، درندگی اور ظلم و ستم جاری ہے۔ زرگری، اسلحہ بندی اور خون ریزی کا بازار گرم ہے۔ نفرت کا زہر پھیل رہا ہے ۔
اور یہ کہتے ہوئے ادیبوں کے ہونٹ کانپ رہے ہیں:
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
(فیض)
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہو سکیںگے آج نہ کل
(فیض)
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
(فیض)
چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی
قفس ہے بس میں تمہارے تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم
ضضض
فیض احمد فیض
Also read