[email protected]
9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند رجه بالا ای میل اور واٹس ایپ ن مبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں ۔
اردو زبان دنیا کی اہم زبانوں کی صف میں دوسرے یا تیسرے نمبر پر ہے اردو زبان ہی کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیب بھی ہے۔ یہ زبان پنجاب سے نکلی اور دہلی۔ رام پور۔ لکھنو ہوتے ہوئے پورے شمالی ہند میں پھیل گئی۔دوسری جانب دکن میں پلی بڑھی اور پورے جنوبی ہند کو اپنے حصار میں قید کر لیتی ہے۔ ہمارا ہندوستان جسے گنگا جمنی تہذیب کا مرکز کہا جاتا ہے۔ یہ مختلف صوبوں میں بٹا ہوا ہے۔تقریباً ہر صوبے کی اپنی اپنی علاقائی زبان بھی ہوا کرتی ہے۔تاہم آج کے عہد میں سبھی صوبوں میں اردو زبان وادب کے جاننے والے لوگ موجود ہیں۔اردو زبان نے ادب کے مختلف صنفوں پر اپنی تصانیف کے ذریعہ خواہ وہ شاعری ہو افسانہ ہو۔ سوانح عمری ہو سیاسی اور معاشرتی زندگی سے متعلق باتیں ہوں اپنے لئے ممتاز جگہ بنا رکھی ہے۔ اسلام مذہب کے ماننے والوں کے لئے اس زبان کا جاننا اور سیکھنا بے حد ضروری ہے کیونکہ اسی زبان کے ذریعہ وہ اپنے مذہب کو سمجھ سکیں گے۔اور مکمل طور سے دین میں داخل ہو سکیں گے۔قرآن راہ ہدایت ہے۔ اور دستور حیات بھی ہے۔ ایک سچے اور نیک مسلمان کے لئے اسی کے مطابق زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والے تمام مسائل اور ان کا حل قرآن کریم میں موجود ہے۔ قرآن سائنس بھی ہے سماجیات بھی ہے فلسفہ بھی ہے حکمت بھی ہے دوا بھی ہے۔اور دانائی بھی غرضیکہ دنیا کے سارے مسائل کا حل اس کلام پاک میں موجود ہے۔دنیا کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جس کا حل اللہ رب العزت نے قرآن کے ذریعہ اپنے بندوں کو نہ بتایا ہو ۔بات کہاں سے کہاں چلی جاتی ہے۔میرے روبرو ڈاکٹر نذیر فتح پوری کی اسی سال کی تازہ ترین تصنیف ’’ڈاکٹر عبد القادر فاروقی منظر پس منظر ۔ادب کے حوالے سے ‘‘ ہے یہ کتاب عبد القادر فاروقی پر ان کی تخلیقات کی روشنی میں اردو زبان و ادب کی خدمات کے ضمن میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔فاروقی صاحب کو سمجھنے اور ان کی ادبی خدمات کو جاننے کے لئے اس کا مطالعہ نا گریز ہے۔نذیر فتح پوری نے اپنی اس تصنیف کو شولاپور کے ابھرتے ہوئے فنکار اور خادم اردو سلطان اختر کے نام منسوب کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
ُُُ’’ سلطان اختر شولاپوری کے نام جو اس کتاب کے محرک ہیں‘‘۔
نذیر فتح پوری کا نام اردو دنیا کے لئے محتاج تعارف نہیں ہے۔بالخصوص ہندوستان میں Top ten ٹاپ ٹین کے ادیب و شاعروں میں بڑی عزت اور احترام کے ساتھ ان کا شمار کیا جاتا ہے۔موصوف یکم دسمبر 1946 ء کو راجستھان کے ضلع سیکر فتح پور سیخا واٹی میں پیدا ہوئے ان کا تخلیقی سفر 1970 ء سے شروع ہوکر اب تک چلتا جارہا ہے۔یہ سال 2020 چل رہا ہے لیکن ان کا ادبی اور تخلیقی سفر ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔مختلف موضوعات پر ان کی 92 کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔اور دا دو تحسین سے بھی نوازی جا چکی ہیں۔گذشتہ چالیس برسوں سے سہ ماہی رسالہ ’’اسباق‘‘ جو پونے سے شائع ہوتا ہے اس کی ادارت کی ذمہ داری بھی سنبھال رکھی ہے۔ اس کے علاوہ نذیرؔ فتح پوری کے فکر وفن پر 32 کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔کتابوں کی تعداد کے ضمن میں بھی Topten کی فہرست میں نذیر فتح پوری کا نام شامل کیا جاسکتا ہے۔ہندوستان میں سب سے زیادہ کتابیں پروفیسر مناظرعا شق ہر گانوی کی ہیں۔جن کی تعداد تقریباً 265 سے تجاوز کر چکی ہیں۔راقم نے مناظرعاشق صاحب سے فون پر پوچھا آپ کو اور کتنی کتابیں لکھنی ہیں تو موصوف نے بتایا کہ اگر میں تخلیقی کام نہیں کروں گا تو مرجائوں گا۔ مجھے اردو زبان سے محبت ہے اور میں زندگی کے آخری لمحے تک خادم اردو بن کر جینا چاہتا ہوں۔میں تو کچھ بھی نہیں اللہ رب العزت لکھوا دیتے ہیں۔‘‘
مناظر عاشق ہرگانوی اردو دنیا کا سب سے بڑا نام ہے ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں لکھنے کا شرف مناظرعاشق کو ہی حاصل ہے۔ انھوں نے بھی ڈاکٹر عبد القادر فاروقی کو اردو کا شیدائی تسلیم کیا ہے ۔ثبوت میں اپنے خیالات اور تاثرات پر ایک بڑی کتاب ’’امریکہ میں انوار اردو دو کالم نگاروں کا ذکر ‘‘ لکھ کر بڑا کام کیا ہے جس کی خاطر خواہ پذیرائی بھی ہوئی ہے۔
ڈاکٹر نذیرؔ فتح پوری (اس کتاب کے آغاز میں) عبد القادر فاروقی کا تعارف کراتے رقمطراز ہیں۔ ’’کرناٹک کے تاریخی شہر بیجاپور سے اپنے تعلیمی مدارج مکمل کرکے عبد القدیر فاروقی ایک دن امریکہ کے لئے پرواز کر گئے۔گھر چھوڑا ۔گائوں چھوڑا۔قبیلہ چھوڑا۔خاندان چھوڑا، دوستوں کی محفلیں اور احباب کی ہم جلیسی سے محروم ہوئے۔ اور امریکہ کے معاشی دریا میں اتر گئے۔موجوں سے الجھے۔ طوفان سے مقابلہ کیا۔مخالف ہوائوں سے نبر د آزما ہوئے اور حالات کا اندازہ لگا کر ایک دن اپنی کشتی کو دھیرے سے ادب کے جزیروں کی طرف موڑ دیا ادب اور وہ بھی اردو ادب۔امریکہ میں اردو۔امریکہ میں اردو تہذیب و تمدن کی تلاش امریکہ میں اردو صحافت کی صورت حال۔ امریکہ میں اردو اردو صحافتوں کی کالم نگاری۔امریکہ میں اردو شاعروں کی تخلیقی خدمات۔امریکہ میں اردو افسانے کی صورت حال ان موضوعات پر سوچنا ۔ ان عنوانات کو اپنی تلاش کا موضوع بنانا۔ امریکہ میں گلزار ادب کے پھول کھلانا ۔ امریکہ میں اردو ادب کے میناروں کی تعمیر کرنا۔امریکی سورج سے انوار اردو کی کرنیں سمیٹ کر صفحہ قرطاس کو منور کرنا یہ دیوانے کا خواب تھا۔صحرا میں پانی کی بوندوں کی تلاش تھی۔آسمان کی بلندی پر اڑتے پرندوں کے پر گننے کے مترادف ہے۔ہوائوں کو قید کرنے کی دیوانگی جیسا کوئی عمل تھا۔لیکن بقول علامہ اقبال۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
لیکن فاروقی صاحب اپنے تعمیری جذبے کو بروے کار لاکر اپنے لئے جنت کے راستے کا انتخاب کیا۔پھول چننے اور کانٹوں کو کنارے کیا ان کا تصور روشنی سے جگ مگ جگ مگ کر رہا تھا۔صالح فکر ان کی ہم رکاب تھی تصوف کے احساس کی برکتوں نے انھیں اپنے حصار میں لے رکھا تھا اس لئے یہ مسافر بے خوف اپنے منتخب کردہ راستوں پر چل پڑا اور اپنی سوچ کو کیمرہ بناکر پوشیدہ مناظر کی تصویریں اتارنے لگا۔بے چہرہ آئینے کو چہرے فراہم کرنے لگا اس کا خون جلتا رہا لیکن یہ آگے بڑھتا رہا ۔یہ اس کے قلم کا اعجاز تھا کہ اسے اپنے مقصد میں کامیابی ملی جہاں قدم رکھا سر خرو ہوا جس محفل میں قدم رنجہ ہوا مسند پر بٹھا یا گیا جس مجلس میں مدعو کیا گیا محبت کے پھولوں سے نوازا گیا امریکہ کے اردو اخبارات میں اس کے قلم کا طوطی بولنے لگا ۔ہندوستان اور پاکستان کے اخبارات نے اس کی نگار شات کی اشاعت کے لیے اپنے اوراق بچھا دیے حرف میں بڑی طاقت ہے۔ حرف جب تلوار بن جاتا ہے تو حریفوں کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ حرف جب پھول بن جاتا ہے تو زندگی گلزار ہوجاتی ہے۔ اس را ز کو عبد القادر فاروقی نے بخوبی سمجھ لیا ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے حرف کو پھول بنایا ہے اور اپنے دسبتان فکر کو ایسے ہی پھولوں کی خوشبوئوں سے مہکایا ہے۔امریکہ میں اردو کے نقوش تلاش کرکے آپ نے بحر زخار میں گھوڑے دوڑا دئیے۔اندھیروں میں چراغ جلا دئیے سناٹوں کو زبان عطا کر دی بے جان تسویروں کو بولنا سکھا دیا اور بے رنگ منظروں میں رنگ بھر دئیے اس لئے۔
آپ کی کوششوں کا دل سے احترام
آپ کی اردو سے محبت کے جذبے کو ہمارا سلام
( گفت باہمی ۔ صفحہ 6 – 7)
ڈاکٹر نذیر فتح ہندوستان کے معروف ومقبول ۔صحافی ۔شاعر ۔ادیب و دانشور ہیں ۔ان کے بارے میں کچھ کہنا اور لکھنا سورج کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ موصوف جو کچھ بھی صفحہ قرطاس پر رقم کرتے ہیں وہ صداقت پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں جان ہوتی ہے۔ بذات خود نذیر فتح پوری بے حد حساس اور صاف ستھرا ذہن رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں دروغ گوئی اور ملاوٹ کے ساتھ ساتھ بے جا تعریف دور دور تک نظر نہیں آتی۔ نذیر صاحب نے عبد القادر فاروقی کو بہترین افسانہ نگار تسلیم کیا ہے۔ فاروقی کا افسانوی مجموعہ ’’اور خون جلتا رہا ‘‘ اپنے زمانے میں بہت مشہور ہوا تھا اور اس کی خاطر خواہ پزیرائی بھی ہوئی تھی یہ مجموعہ 2006 ء میں اشاعت پذیر ہوا تھا اس مجموعہ پر ہندوستان کے بیشتر افسانوی نقادوں نے اپنے خیالات اور تاثرات رقم کئے تھے۔نذیر فتح پوری فاروقی صاحب کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ ’’فاروقی کے افسانے موجودہ انسان کی زندگی کی منھ بولتی تصویر ہیں یہ موضوعات ایسے ہیں جو ہر دور اور ہر زمانے میں پائے جاتے ہیں افسانوی مجموعہ ’’اور خون جلتا رہا ‘‘ پر راقم الحروف نے بھی اپنے تاثرات رقم کئے ہیں جن کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔’’پروفیسر عبد القادر فاروقی نے ہندوستان سے باہر امریکہ میں مقیم ہوکر جو اپنے تاثرات رقم کئے ہیں ان کے مطالعہ سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ فاروقی کا قلم جو دیکھتا ہے وہی لکھتا ہے۔ انھوں نے اپنے علمی لیاقت کے دم پر اپنے فن کے ساتھ ایک زندہ اور صحت مند رشتہ قائم رکھا فنکار کے لئے یہی منزل آزمائش کی ہوتی ہے کہانی لکھنا ایک فن ہے ۔اس کے اپنے کچھ اصول و ضوابط ہوا کرتے ہیں اسے فن کے ساتھ فنکار بھی بننا پڑتا ہے دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں ۔کہانی کو خوبصورت الفاظ کے پیکر میں ڈھالکر عام فہم سیدھی سادی مقبول عام زبان کا استعمال کرکے کہانی کو انجام تک پہنچانا پڑتا ہے۔ فاروقی کی سچی کہانیاں حقیقت کی علمبردار ہیں ۔نیویارک میں وہ جو کچھ بھی دیکھتے ہیں محسوس کرتے ہیں انھیں وہ صفحہ قرطاس پر بکھیر کر اپنی فنکارانہ عظمت کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ ان کی کہانیاں امریکہ میں بسنے والے ہندوستونیوں کی معاشرتی زندگی میں بکھرے ہوئے دردوں کی مختلف کڑیاں ہیں ہر کڑی الگ الگ ہے فاروقی کا حساس ذہن نیویارک میں پھیلی ہوئی اچھائی نما برائیوں کو دیکھتا ہے۔جب ان کا دل ودماغ ان کو اکساتا ہے اور مجبور کرتا ہے تو قلم اپنا جو ہر دکھاتا ہے کہانی پڑھتے جائیے پڑھتے جائیے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی ہیں قاری دیر تک افسانے کے ماحول میں کھو سا جا تا ہے فاروقی کو اپنی بات کہتے کا سلیقہ آتا ہے۔کہانی میں قتنی دلچسپی بر قرار رہتی ہے کہ قاری خود بخود کہانی کار گی گرفت میں چلا جاتا ہے۔ چونکہ تحریر کی دلکشی اور دلچسپی ان کی سادگی میں پوشیدہ ہوتی ہے اگر قاری کو کہانی پسند آتی ہے تو خود بخود کہانی کار کی فنکارانہ عظمت کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔‘‘
( ’’ تنقیدی تحریریں ‘‘ حصہ دوم ڈاکٹر عبیدا للہ چودھری مطبع ایجو کیشنل پبلشنگ ہاوس ۔دہلی سنہ اشاعت 2015ء صفحہ نمبر 115)
عبدالقادر فاروقی پر لکھی نذیرؔ فتح پوری کی اس تصنیف میں ۱۷ مضامین ہیں فہرست اس طرح ہے۔
۱) اعجاز کا اعجاز سخن
۲) اردو شاعری اور تصوف
۳) ڈاکٹر عبد القادر فاروقی کی فراز شناسی
۴) فراز کی شاعری
۵) مامون ایمن فن اور شخصیت پر ایک نظر
۶) رشیدہ عیاں کی شاعرانہ عظمت۔ ایک جائزہ
۷) کینیڈا اور متحدہ ریاست امریکہ میں خواتین کی ادبی خدمات ۔ایک مطالعہ۔
۸) عبدالقادر فاروقی کی انسانہ نگاری
۹)فاروقی کے افسانوں سے متعلق مزید کچھ
۱۰) مضامین فاروقی پر ایک نظر
۱۱) عبد القادر فاروقی سے متعلق کتابیں اور گوشے
۱۲) فاروقی اور گوشہ اسباق ۱۳) ماہنامہ رہنمائے تعلیم جدید گوشئہ فاروقی
۱۴) امریکہ میں اردو کے علمبردار ، مرتب سلطان اختر
۱۵) عبدالقادر فاروقی منفرد فنکار اور دانشور مرتب نثار احمد فاروقی
۱۶) فاروقی کے لئے منظوم محبتیں
۱۷) پروفیسر سید یونس شررؔ
ڈاکٹر نذیر فتح پوری نے فاروقی صاحب پر یہ گرانقدر تصنیف لکھ کر اپنی فرض شناسی اور بے پناہ محبت اور عقیدت کے ساتھ دوستی کا ثبوت دیا ہے یہ کتاب اردو سے محبت کرنے والوں کے لئے مشعل راہ ثابت ہوگی ۔مجھے امید ہی نہیں یقین بھی ہے کہ فاروقی شناسی کے لئے یہ کتاب میل کا پتھر ثابت ہوگی جسے خرید کر پڑھنے کی پر زور سفارش کی جاسکتی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے خاکسار نذیر فتح پوری کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہے۔
۳۱۳ ۔ بسنت پور ،گورکھپور 273005
9235895921