دورِ حاضر میں عزاداری اور ہماری ذمہ داریاں

0
607

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


پروفیسر عذرا عابدی

’’ان الحسین مصباح الہدیٰ و سفینۃٌ نجات‘‘
مشہور و معروف قول رسول ہے کہ ’’میرا حسین ہدایت کا چراغ ہے اور سفینۂ نجات ہے۔‘‘ رسول اکرم نے حسین علیہ السلام کو صرف چراغ ہدایت نہیں کہا بلکہ آپ کو اس سفینہ سے تشبیہ دی جو نجات دلاتا ہے یعنی موجوں کے تھپیڑوں سے، طوفان سے اور منجھدار سے نکال کر جو کنارے تک اور منزل مقصود تک پہنچا دے حسین وہی کشتیٔ نجات ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے والی بات یہاں یہ ہے کہ اس قول رسول سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ میرے بعد ایک ایسا وقت آئے گاجب اسلام کی کشتی کفر و نفاق کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگے گی تو ایسے وقت میں کوئی ایسا ناخدا ہو جو اس کشی کو کنارے تک حفاظت کے ساتھ پہنچا دے اور رسول کے اس یقین کو حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے رفیقوں کی قربانی دے کر پورا کیا۔ اسلام مرحونِ منت ہے حسین کی اس عظیم قربانی کا جس کے سبب دین خدا اور شریعت محمدی بچ گئی۔

الحمدللہ آج اسلام کا پرچم 1445 ہجری میں بڑے آب و تاب اور شان کے ساتھ سربلند ہے اور دنیا کے مسلمانوں اور عالم انسانیت کے رہنما اور قائد کی حیثیت سے نام حسین بھی باقی ہے اور پیغام حسینیت بھی لیکن یہ پیغام ہے کیا؟ بقول شاعر اہلبیت کہ

’’جہانِ ظلم پہ چھاؤ اگر حسینی ہو
کسی کا دل نہ دُکھاؤ اگر حسینی ہو‘‘

قارئین کرام! بنیادی طور پر یہ ہی امام حسین کا پیغام ابدی ہے کہ جہاں ظلم ہے مظلومی ہے، تشدد ہے، کمزوروں کی آواز کو دبایا جارہا ہے، حقوق انسانی کی پامالی ہورہی ہے، آوازوں کو خاموش کیا جارہا ہے، وہاں اگر کوئی سچا حسینی ہے تو وہ اس کے خلاف آواز اٹھائے اور وہ ظلم کرنے والوں کو یہ احساس دلائے کہ یہ رویہ یہ روشنی غلط ہے۔ آج دنیا کے بیشتر حصوں میں مظلوموں کی آواز کو خاموش کرنے کی مہم چل رہی ہے لیکن ذکر حسین اور پیغام حسین پر جو عمل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے یہ شرط محبت ہے کہ وہ ان مظالم کے خلاف اپنی آواز بلند کریں۔

یہ بھی پڑھیں

زیارتِ حرمین شریفین (تیسری قسط)

امام اعلیٰ مقام کی شہادت کا پیغام آفاقی ہے اور اس پر عمل کرنے کی شرط ہے کہ وہ انسان ایک دردمند دل اپنے سینے میں رکھتا ہو۔ کسی کی دل آزاری اور نفرت کی سیاست کرنا حسینی پیغام کا مشن نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ خصوصی طور پر وہ ملک اور وہ خطہ جہاں کثیر لسانی اور کثیر مذہبی ثقافت پھلتی پھولتی ہے وہاں مذہب اور ثقافتوں کو آلۂ کار بنا کر وہاں رہنے والوں کے دلوں میں باہمی دشمنی اور نفرت کو فروغ نہ دیا جائے۔ یہ حسینی تعلیم کا حصہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک طرف تو ہم حسینی ہونے کا دعویٰ کریں اور دوسری طرف اپنے بیان اور حربوں سے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں نفرت کا زہر بھردیں۔ درحقیقت یہ ہم سب کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم امام کی شہادت کے پیغام کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے اچھے اخلاق کا خود بھی مظاہرہ کریں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیں۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے کہ اللہ کی طرف لوگوں کو بلانے کے لیے دو چیزیں اہم ہیں ایک ہے علم و حکمت اور دوسرا ہے اخلاق۔ اگر ہم ان دونوں چیزوں کو تعلیمات امام حسین کی روشنی میں پرکھنے کی اور سمجھنے کی کوشش کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ امام کی زندگی اور جہاد انھیں دو اہم ستونوں پر کھڑا ہے۔ تعلیمات قرآن اور حدیث پیغمبر محمد مصطفی کے ذریعہ آپ نے لوگوں کو ان بدعنوانیوں سے دور رہنے کی ہدایت اپنی پوری زندگی میں دی اور یہاں تک کہ جب آپ 28 رجب 60 ہجری میں مدینہ سے رخصت ہوئے اس وقت سے لے کر 10محرم، 61ہجری عصر عاشور تک لوگوں کو علم و حکمت کے ذریعہ لوگوں کو سچ اور حق کا راستہ اختیار کرنے کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن لوگ اس ظلم اور باطل کے خلاف آوازاٹھانے کی ہمت نہ کرسکے جس کے نتیجے میں یزید جیسے فاسق و فاجر کی حکومت اور مظالم کا سامنا صرف شہادت حسین تک ہی نہیں بلکہ بعد شہادت حسین بھی کرنا پڑا۔ امام کی آواز پر چند لوگوں نے ہی لبیک کہا اور جو کربلا میں امام کے ساتھ شہید بھی کردیے گئے لیکن یہ پیغام اپنی شہادت کے ساتھ زمانے والوں کو دے گئے کہ حق پسند کبھی بھی ظلم اور ظالم حکمراں کو برداشت نہیں کرتے بھلے ہی اس کا انجام ان کا قتل ہوجانا ہی کیوں نہ ہو۔ امام حسین نے اپنی تعلیم جو کہ انھوں نے آغوش رسول سے حاصل کی تھی وہ اس تعلیم کو بیعت کرکے کس طرح مسمار کردیتے آپ نے بار بار مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا تک کئی مقامات پر لوگوں کو آگاہ کرایا کہ تمھاری یہ بزدلی تمھاری خاموشی تم کو بہت مہنگی پڑے گی اور دیکھو میرے قتل کیے جانے کے بعد تمہارے پاس سوائے ندامت اور شرمندگی کے کچھ نہیں بچے گا، لیکن لوگ خاموش رہے یہاں تک کہ امام نے روزعاشور جو فوج یزید کو مخاطب کرکے خطبہ دیا اس میں امام حسین نے یہ بھی ایک اخلاقی پیغام دنیا کے ہر انسان کے لیے دیا کہ تم میری بات آج اس لیے نہیں سن رہے اور سمجھ رہے ہو کہ تمہارے شکم حرام غذاؤں سے بھرے ہیں اگر تم رزق حلال کھارہے ہوتے تو تم میری باتوں کا انکار نہیں کرتے۔ یہ کتنا بڑا آفاقی پیغام امام حسین نے دنیا کے تمام انسانوں کے لیے دیا کہ وہ انسان جو مظلوموں، یتیموں، غریبوں، معذوروں کا مال کھاکر حق گوئی کی بات کرے یا پھر سچ بات وہ سمجھ لے یہ ممکن ہو ہی نہیں سکتا۔ حق بولنے، سننے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم خودکو پاک و پاکیزہ بنائیں اور دوسروں کے حقوق پر قابض نہ ہوں اور اس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں یہاں صرف حرام غذا کا ذکر ہے لیکن دور حاضر میں حق تلفی کی سیکڑوں مثالیں ہم کو مل جاتی ہیں، جہاں انسان ذرہ برابر بھی نہ تو ندامت محسوس کرتا ہے اور نہ ہی حق تلفی کرنے کے بعد اللہ سے استغفار کرتا ہے۔

دورِ حاضر میں جب کہ 1445 ہجری محرم کا آغاز ہوچکا ہے، ہماری بحیثیت مسلمہ کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں کہ ہم بھی امام حسین کی اس حق گوئی اور شہادت کے پیغام کے ساتھ ہوجائیں اور یہ دیکھیں کہ ہم کسی طرف کھڑے ہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی بھر تو یزیدی مشن میں شامل ہوں اور قیامت کے دن حسین سے شفاعت کی امید لگا بیٹھیں کہ ہم تو امام آپ کے عزادار ہیں۔ نہیں میرے عزیزو! ہمارا عمل، ہمارا کردار، رفتار، گفتار ایسی ہو کہ بقول شاعر اہل بیت ؎

’’پڑے نہ کہنا شہ مشرقین والے ہیں
زمانہ خود ہی کہے یہ حسین والے ہیں‘‘

ہمارے کیا فرائض ہیں امام حسین کی عزاداری اور شہادت حسین کے حوالے سے ہم کو اس پر بہت زیادہ غور و خوض کی ضرورت ہے۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں جہاں عقیدہ کمزور پڑتا جارہا ہے لوگوں کے پاس وقت نہ ہونے کی شکایت ہو جہاں اقدار اصول پیچھے چھوڑے جارہے ہوں اور جہاں معاشرے کا ایک طبقہ مذہب کو صرف انسانوں کے ذہن کی اپج قرار دیتا ہو وہاں اس بات کی شدید ضروت محسوس ہوتی ہے کہ نوجوان نسلوں کو قرآن و اہلبیت کی تعلیمات کی روشنی میں انھیں دعوت فکر دی جائے اور انھیں متوجہ کیا جائے، انھیں بتایا جائے کہ حسین علیہ السلام کی شہادت کا مقصد کیا تھا اور کیوں ان کی قربانیوں کا ذکر محرم میں علمائِ ذاکرین و مبلغین کرتے ہیں یہ صرف رسم نہیں ہے بلکہ اس کے پیچھے چھپے ہوئے اہداف کو بھی بیان کیا جائے۔ الحمدللہ دنیا کے مختلف کونوں میں محرم میں شہادت حسین کوبڑے خلوص و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مومنین کرام اپنی اہلبیت سے مودت کا اظہار مجلس و ماتم، نوحہ، سینہ زنی و جلوس اعزاہائے امام کی شکل میں برآمد کرتے ہیں۔ دنیا والو ںکے سامنے جہاں ایک طرف مظلومیت حسین و اہل حرم کی مصیبتوں کو بیان کرتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف ذاکرین اپنی تقریروں کے ذریعہ قرآن و اہلبیت کی تعلیمات کا ذکر کرتے ہیں اور مصائب حسین و اہل حرم کی مصیبتوں و اسیری کو بھی بیان کرتے ہیں۔

بیشک یہ بہترین طریقہ ہے، لیکن سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے اس دور میں جہاں آسانیاں ذکر حسین کے حوالے سے پیدا ہیں وہیں دوسری طرف اس ٹیکنالوجی کے سبب کچھ خرابیاں بھی آئی ہیں جن کی طرف ہم سب کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر کورونا کی جب وبا پھیلی تو اس وقت عزاداری آن لائن ہوئی لیکن اب حالات بہتر ہوچکے ہیںاور فرش عزا بچھائی جاسکتی ہے، مجلس امام بارگاہوں میں ہوسکتی ہے اس لیے اس طریقۂ کا رپر اگر اب بھی لوگ چلتے رہے تو ایک بڑی تعداد فرش عزا پر آنا چھوڑ دے گی وہ گھر میں چلتے پھرتے مجلس سنتے ہیں۔ یہ نہیں ہونا چاہیے ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم امام باڑوں اور فرش عزاء پر موجود ہوکر اسے رونق بخشیں اور دعاء فاطمہ زہرا کو حاصل کریں۔ اگر کوئی نہیں آسکتا اور اس کی معقول وجہ ہے تو ایسے لوگوں کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعہ مجلس نشر کی جاسکتی ہیں لیکن یہ عام کلچر نہ بنے، اس پر شدت کے ساتھ سوچنے اور اس کے نتائج پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

اس سلسلہ میں ایک اور اہم بات عزاداری اور ہماری عصری ذمہ داریوں کے حوالے سے بیان کی جاسکتی ہے جس کی طرف ان علماء اور ذاکرین و ذاکراؤں کو متوجہ ہونے کی ضرورت ہے اور وہ ہے نئے ذاکر و ذاکراؤں کی حوصلہ افزائی۔ یہ سینئر ذاکروں کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ ان نوجوان بچوں و بچیوں کی حوصلہ افزائی کریں اور ان کی اصلاح کریں تاکہ نئی نسل کو اس عزاداری میں شامل کیا جاسکے اور ان کا بھی اشتراک ہوسکے۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ اصلاح اور تربیت کی جگہ ان کی دل آزاری کردی جاتی ہے جس سبب وہ دوبارہ ذاکری کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے، یہ غلط ہے۔ اس طرف اہل علم کو توجہ دینے کی ضرورت ہے لیکن یہاں یہ بھی واضح کردوں کہ نئی نسل کتابوں کا مطالعہ کرکے اور پوری تیاری کے ساتھ عزاداری و ذاکری میں حصہ لیں اور ممبر پر جانے سے پہلے پوری طرح قرآن و حدیث جس کا وہ حوالہ پیش کررہے ہیں اس بارے میں خود بھی مطمئن ہوجائیں۔ ذکر حسین بہت بڑی ذمہ داری ہے اور اس کے تقدس و احترام کو باقی رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اس لیے نئی نسل میں جو ذاکری کا شوق رکھتے ہیں یا رکھتی ہیں ان کے لیے مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ ہی اہلبیت اطہار کا خود بھی طریقہ رہا ہے کہ جب کسی کو اللہ کے راستے کی طرف بلایا تو علم و حکمت اور حسن اخلاق کے ذریعہ ہی بلایا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو حُر امام عالی مقام کی خدمت میں لشکر یزید کو چھوڑ کر امام حسین کی طرف نہ آتا اور نہ ہی شہادت کا جام نوش کرتا یہ حسین کا اعلیٰ ظرف اور حسن اخلاق تھا جس نے حُر کو سوچنے پر آمادہ کیا کہ وہ حق کا ساتھ دے نہ کہ باطل کا۔

دوسری طرف ایک اہم ذمہ داری علماء ذاکرین، ذاکراؤں، نوحہ و مرثیہ خوانو ںکی ہے۔ وہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے منھ نہ موڑیں اور ذکر حسین کو عام بنائیں۔ اپنی ذاکری کو معیاری بنائیں صرف ممبر سے ڈرانے کا نہیں بلکہ سمجھانے کا کام بھی کریں۔ لوگوں کو دعوت فکر دیں تاکہ لوگوں کو مقصد حسین اور شہادت حسین سے روشناس کرایا جائے۔ ہمارے ذاکرین ماشاء اللہ یہ کام کررہے ہیں لیکن اس طرف مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف آسان الفاظ میں خطابت بھی نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے کرنی ضروری ہے۔ بہت دقیق الفاظ نوجوانو ںکی سمجھ میں نہیں آتے۔ نتیجہ کے طور پر وہ فرش عزا سے کچھ حاصل نہیں کرپاتے۔ ان کی تربیت اور اصلاح کے لیے یہ ضروری ہے کہ انھیں موضوعات کے انتخابات او ربیان گوئی کو پراسرار بنا کر متوجہ کیا جائے۔

ایک اور اہم مسئلہ ہے نیٹ ورکنگ کا۔ یہاں یہ ذکر بے حد ضروری ہے کہ ذاکری کو تجارت نہ بنایا جائے۔ اہلبیت اطہار یقین جانے کسی کا احسان اپنے اوپر نہیں رکھتے۔ یہ اپنے چاہنے والوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ہم تمھیں عطا کریں گے۔ اللہ نے ہمیں اپنے خزانے سے اتنا عطا کیا ہے کہ کوئی بھی مانگنے والا ہمارے در سے خالی ہاتھ نہیں جاتا پھر یہ ذکر حسین میں مول تول کیوں؟ یہ نیٹ ورکنگ کیوں؟ تم مجھے بلاؤ مجلس پڑھنے کے لیے میں تمھیں بلاؤں گا۔ یہ گروپ بندی کیوں؟ یہ مقام عبرت ہے اگر کوئی یہ سب امام کے نام پر کرتا ہے تو یقین جانیں ثواب کی جگہ عذاب ہی ملے گا۔ خدا را وہ لوگ جو آجکل عزاداری کے نام پر تجارت کررہے ہیں اسے بند کردیں۔

آخر میں یہ کہنا چاہوں گی کہ اللہ ہم سب کو یہ توفیق دے کہ ہم شہادت حسین کے اصلی مفہوم سے واقف ہوں۔ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم ذکر حسین کو لوگوں کے دلوں اور ذہنوں میں اتار سکیں۔ یہ تب ممکن ہے جب ہم خود اپنے کردا رکو اہلبیت اطہار کی تعلیمات کی روشنی میں سنوار سکیں اور قرآن و اہلبیت کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیں۔ یہ دو گراں قدر نعمتیں ہیں جو نہ صرف ہماری کردار سازی کے لیے ضروری ہیں بلکہ ان سے آخرت کے ساتھ دنیا بھی سنور جاتی ہے۔ دعا گو ہوں اللہ ہم سب کو قرآن کی تعلیمات اور شہادت حسین کے مقاصد کو اس دور حاضر میں سمجھنے اور عام کرنے کی توفیق عطا کرے۔

شعبۂ سماجیات، جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی
موبائل نمبر: 7065184156
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here