ڈاکٹر افتخار احمد
9270018044 مالیگاؤں (ناسک)
رائیل پیلس نامی بلڈنگ عوام میں ’پریوں کا مال‘ نام سے مشہور تھی۔ کیوں کہ اس کے پہلے منزلے پر پریاںبکتی تھیں جب کہ گراؤنڈ فلور پر ریسٹورنٹ تھا۔
اکبر جب شہر کاروباری سلسلے میں آتا، شام پریوں کی زیارت ضرور کرتا۔ ایک پری کی صحبت ۵؍ہزار میں کچھ مہنگی نہ تھی۔ کبھی وہ اکیلا آتا کبھی اپنے دوست اکرم کے ساتھ آتا۔ اس بار دونوں آئے تھے۔ دن بھر کام میں جٹے رہے شام پریوں کے مال پہنچے۔ نیچے ریسٹورنٹ میں ایک ایک جام چلڈ بیئر چڑھائے پھر اکرم نے اشارہ کیا کہ چلو اوپر پریوں کے مال کو چلتے ہیں۔
اکبر نے انکار میں سرہلایا۔ اکرم نے حیرت سے پوچھا۔ ’’کیا مطلب ہے تمھارا؟ تم یہیں بیٹھے رہوگے میں اکیلے اوپر ہو آؤں؟‘‘
’ہاں! آج موڈ نہیں ہے۔‘
’مگر اس سے پہلے تو آج تک ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہم دس سال سے یہاں آتے ہیں۔ آج اچانک موڈ خراب ہونے کا بہانہ کیوں؟ اکرم کو غصہ آگیا۔
’اب کیسے تمھیں سمجھاؤں۔ یار میں بیمار ہوگیا ہوں۔ مجھے کسی ماہر حکیم سے نسخہ لینا ہوگا۔ ابھی میں کسی لائق نہیں ہوں۔‘
’رئیل بات کیا ہے؟ سچ سچ بتلاؤ۔‘
’دو ماہ قبل ایک حادثہ ہوگیا تھا۔ اس دن میں اکیلا ہی تھا۔ اوپر ایک پری ملی تھی۔ سانولی، گداز صندل مہک جسم اور رسیلے ہونٹوں والی۔ پریوں کے ڈیرے سے میں سیدھا فردوس کی سیر کرکے لوٹا۔ نیچے ریسٹورنٹ میں ایک کپ کافی کا موڈ ہوا۔ کافی کی چسکی لے رہا تھا تبھی ایک میاں بیوی بھی میرے ٹیبل پر آبیٹھے۔ بیوی نابینا تھی۔ دونوں اپنی کھوئی ہوئی بیٹی کی تلاش میں بھٹک رہے تھے۔ بیوی نے اپنے شوہر سے کہا۔ ’’دلشاد! میری بیٹی یہیں کہیںقریب میں ہے۔ مجھے صندل کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘ اس کے ہاتھ میں اس کی بیٹی کی تصویر تھی جس سے میں اوپر مل کر آیا تھا۔
اس کے بعد جب میں اوپر جاتا ہوں۔ پری سے ملنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کمرے کے باہر سے بڑھیا کی آواز آتی ہے۔ ’’میری بیٹی کی خوشبو آرہی ہے۔ وہ یہیں کہیں ہے۔‘‘
اس بڑھیا نے مجھے بیمار کردیا ہے۔ جاؤ یار! تم اوپر ہو آؤ!‘‘
’’کیا خاک اوپر جاؤں۔ تم نے تو ایسی کہانی سنا دی کہ میں بھی سیاں سے بھیا بن گیا۔ چل گھر چلتے ہیں۔‘‘