حافظ محمد ہاشم قادری مصباحی جمشید پور
اللہ تعالیٰ خالقِ کائنات ہے۔ ساری مخلوق نباتات و چرند وپرند،حیوانات بشمول انسان کا پیدا فر مانے والا ہے۔ وہ رب العالمین بھی ہے سب کا پالنہار! بھی ہے کس کو کتنا رزق دینا ہے وہ خوب جانتا ہے۔
اَللّٰہُ یِبْسُطُ الرِّزْ قَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَا دِہٖ وَیَقْدِرُلَہٗ ط اِنّٰ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ۔(القر آن،سورہ العنکبوت: 29، آیت 62)
ترجمہ: اللہ کشادہ کرتا ہے رزق اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہے اور تنگی فر ماتا ہے جس کے لیے چاہے بے شک اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
اللہ اپنے بندوں میں جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں خواہ مومن ہوں یا کافر جس کے لیے چاہتا ہے رزق وسیع کردیتا ہے اور جس کے لیے چاہتاہے رزق تنگ کر دیتا ہے، رب تعالیٰ اپنی تمام مخلوق کو رزق دینے کے ساتھ ساتھ اُس کی ضرورتوں کی چیزیں بھی پیدا فر مائیں پیڑ پودے،جنگل،ندیاں،پہاڑ وغیرہ وغیرہ ۔پیڑوںکے بے شمار فوائد ہیں۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہے کہ یہ تمام مخلوق بشمول انسانوں کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہے ،گندی زہریلی ہوا کاربن ڈائی آکسائیڈ،carbon dioxide,۔(ایک بے رنگ ، بے بو گیس جو فضا میں قدرتی طور پر موجود رہتی ہے اور سانس لینے سے بنتی ہے۔ کیمیائی فار مولا) کو جذب کر کے ماحول کو خوشگوار بناتے ہیں۔انسانوں کے علاوہ جنگل ،نباتات وہ چیزیں جو زمین میں اگتی ہیں،جانوروں کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔ جن علاقوں میں بڑی تعداد میں درخت (پیڑ)موجود ہوتے ہیں اس علاقے کو سیلاب کا خطرہ بہت کم ہوتا ہے۔جس طرح پیڑ پودے سیلابوں سے بچائو فراہم کرتے ہیں اسی طرح یہ قحط خُشک سالی؛ سے بھی بچاتے ہیں۔یہ اپنی جڑوں میں جذب شدہ پانی کو ہوا میں خارج کرتے ہیں اور بادلوں کی تشکیل میں بہت مدد گار ہوتے ہیں۔جن علاقوں میں پیڑوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے اس علاقے میں زمین زرخیز ہوتی ہے اور وہاں پانی کی کمی نہیں ہوتی۔
درخت ماحولیات کو بہتر بنانے کا اہم ترین حصہ اور ضرورت ہیں: تمام جانداروں کی زندگی بچانے میں کسی نہ کسی طرح پیڑوں کی موجودگی نہایت ضروری ہے اسی لیے ـ’’ پیڑوں کو قدرت کے پھیپھڑے،lungs, بھی کہا جاتاہے‘‘ پھیپھڑوں کا کام خون کو آکسیجن فراہم کرنا ہوتا ہے،پیڑہواکی صاف صفائی کا کام بھی کرتے ہیںاور تمام جانداروں کو آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔ایک پیڑ ایک سال میں ،air conditioner10, اے سی کے برابر مسلسل ہوادیتا ہے،750 گیلن برساتی پانی کو چوس لیتا ،جذب کر لیتا ہے،60 پونڈ ہوا کو صاف کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ برصغیر ہند و پاک اور بنگلہ دیش سمیت بٹوارے سے پہلے بھارت میں انگریزوں سمیت دیگر قو موں حتیٰ کے مغل باد شاہوں نے بھی درخت لگانے کے کام کو اہمیت دی،ان کے دور میں لگائے گئے درخت آج بھی اِ ن کی یاد گار کے طور پر قائم و دائم ہیں بُرا ہو تعصب کی سیاست کا کہ آج نام بدلنے کا رواج چل پڑا ہے اور اسے دیش بھگتی کا نام دیا جارہا ہے۔
اس وقت ہمارے ملک میں7,78000, کلو میٹر رقبے پر درخت لگے ہوئے ہیں۔ بد قسمتی سے اب اِن کی کٹائی بہت زوروں پر ہے جنگل مافیائوں نے ہزاروں کلو میٹر جنگل کاٹ ڈالے ان مافیائوں کو نیتا ئوں،آفیسروں وحکمرا نوں کا پسِ پُشت سپورٹ رہتا ہے۔ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے ؟ دنیا کی قیمتی لکڑی ’’چندن‘‘ جو کی انتہائی قیمتی اور فائدہ مند ہوتی ہے،دوائوں میں استعمال ہوتی ہے خوشبو دار چکنی اور تیل سے بھر پور ہوتی ہے یعنی اس سے تیل بھی نکلتا ہے جوبہت سے مرضوں میں کام آتا ہے خاص کر قوت باہ میں اور عطر بھی بنتا ہے،اس کی خوشبو لگ بھگ35,سے30, سال تک قائم رہتی ہے۔ چندن کی لکڑی میں دیمک اور گھن نہیں لگتا ہے،تمل ناڈو: کا مشہوربدنام زمانہ ویرپن تسکر،Chandan Tasker Veerappan, جو چندن کی لکڑی کا بہت بڑا تسکر مافیا،Mafia, تھا اُس کے مرنے کے بعد کیا چندن کے قیمتی پیڑ کٹنے بند ہوگئے کیا؟ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق،دو ریاستوں( کرناٹک اور تمل ناڈو) اور ویسٹ گھاٹ کے پورے جنگل علاقے میں ویرپن کی دہشت تھی۔ اس کو پولیس اور محکمہ جنگلات کے افسران سمیت150, سے زیادہ لوگوں کا قاتل مانا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس پر 100, سے زیادہ ہاتھیوں کے شکار کا بھی الزام تھا۔ حالانکہ اس کی پہچان چندن اسمگلر کے طور پر تھی، اس کو سال 2000, میں پولیس نے ایک تصادم میں مار گرایا تھا۔ اب ویرپن کی 29 سالہ بیٹی ’’ودیا چرن ‘‘،بی جے پی کے تمل ناڈو یوتھ ونگ کی نائب صدر بنائی گئی ہیں۔ آج بھی ان جنگلوں میں چندن کی لکڑیوں کی اسمنگلنگ زور شور سے جاری ہے اور جنگلوں کو بے دریغ کاٹ کر بیابان بنایا جارہا ہے کوئی روکنے والا نہیں؟ لوگ چاہتے ہیں ماحولیات بہتر رہے،گر می کم پڑے، پانی خوب ملے۔ قدرتی وسائل کو برباد انسان کریں تو سزا کون بھوگے گا؟۔
اب دھاڑنے والے شیر اور پیڑ صرف فلموں میں ہی دِکھیں گے: مشہور فلمی نقاد ’’جے پرکاش چوکسے‘‘ انگریزی بک ،The door in The wall, book by H,G,Wels میں جو اشارہ دیا گیا ہے اس کے حوالے سے لکھتے ہیں: ’’بند کمرے کی چھوٹی سی کھڑکی سے آسمان کا اندازہ،تعین نہیں کیا جاسکتا‘‘۔ آگے لکھتے ہیں، مینا کماری کی فلم چتر لیکھا کے لیے ساحر لدھیانوی کے لکھے گیت کو نوٹ کرتے ہیں۔
سنسار سے بھاگے پھرتے ہو، بھگوان کو تم کیا پائوگے
اس لوک کو بھی تم اپنا نہ سکے،اُس لوک میں بھی پچھتا ئوگے
ہم جنم بتاکر جائیں گے،تم جنم گنواکر جائو گے
کھا گئے پیڑ جنگل اور ندیاں ۔۔۔۔۔ اب تم کیا کھائوگے
ہم نے اپنے جنگل گنوا دیے ، کتنی طرح کے چرند وپرند وجانور شیر وغیرہ اور پیڑ بھی ختم ہوتے جارہے ہیں تو ان کواب صرف فلموں میں ہی دیکھا جاسکے گا۔اب تو دھاڑنے کا کام صرف نیتا کر رہے ہیں۔
آب و ہوا میں تبدیلی کے بُرے نتائج: سردی میں پڑا گرمی سے پالا، پانی کا ہا ہا کار،پوری دنیا بشمول ہندوستان میں ماحول بدل رہا ہے اس بار گرمی نے ایک ماہ پہلے ہی دستک دے دی ہے۔ پچھلے ہفتے میں کئی جگہوں پر پارا42,ڈگری تک چڑھ گیا ایک ہی مہینہ میں سردی اور گر می ریکارڈ بنا رہی ہے، پارا کبھی مائینس 24, ڈگری تک گرا،کبھی18,ڈگری تک چڑھا، بھاسکر وبی بی سی رپورٹر انا صوفیہ سالیسAnna Sophia کے مطابق اس سال آب وہوا کی تبدیلی سے بڑی پریشانی ہونے والی ہے۔یورپ کے 100 سے زیادہ جگہوں پر درجہ حرارت، Temperature معمول سے 12, ڈگری زیادہ رہا ان میں سے کئی جگہ پر سردی اور گر می کے نئے ریکارڈ بنے ہیں،14, فروری کو جر منی کے اسی شہر میں درجہ حرارت 18,ڈگری پہنچ گیا یعنی محض 7,دن میں پارا42ڈگری چڑھ گیا،ہمبرگ شہر میں بھی درجہ حرارت21,ڈگری زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ایک لمبی فہرست ملکوں اور شہروں کی ہے ،کتنی لکھی جائے۔ لندن کے محکمہ موسمیات کے مطابق آنے والے دنوں میں درجہ حرارت بڑھنے اور بہت زیادہ بارش کا خطرہ منڈرا رہا ہے۔ ماحول کی تبدیلی کی وجہ کر اس بار گرمی پہلے آگئی ہے،اس سے ماحول میں کافی تبدیلیاں دیکھنے کو آئیں گی پانی کی کمی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے،جس کی طرف نہ حکومتیں کوئی ٹھوس پروگرام مرتب کر رہی ہیں(صرف بیان بازی ،فوٹو بازی سے کام ہورہا ہے) اور نہ ہی عام پبلک جن میں سجھدار،پڑھے لکھے لوگ بھی شامل ہیں کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں نہ پانی کی بچت کر رہے ہیں، جس کا بھگتان سبھی کو بھگتنا پڑے گا۔ آج سے پندرہ سال پہلے جن پودوں کو پانی نہیں دینا پڑتا تھا،اب ان پودوں کو پانی دینا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ اب گر میوں میں چھوٹے پیڑ پودھے سمیت مینڈک بھی غائب ہوتے جارہے ہیں کچھ سال پہلے تک ہر ندی میں مینڈک ہوا کرتے تھے اور انکی ٹر-ٹر آواز بھی گونجتی تھی۔
بھاسکر کےD B STAR, رپوٹرآرتی کھوسلہ 11,2020,اور 6, مارچ climate کی رپورٹ میںلکھتی ہیں
’’دیس نے پچھلے 8سالوں کے دوران % 28 فیصد سے زیادہ جنگلوں کو ہم نے کھودیا،ہر سال اس زمین سے فٹبال کے27 میدانوں کے برابر جنگل برباد ہورہے ہیں،جن جنگلوں سے آب و ہوا کے ساتھ جانوروں انسانوں کو بھی ان گنت فائدے ہیں،اُنہیں جنگلوں کو بھارت میں ہر سال 200, اسکوائر مربع کلو میٹر کے برابر جنگل ہم کھوتے جارہے ہیں،the forest survey of india, 2019 کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے بھارت کا اُتر پوربی علاقہ بہت تیزی سے جنگل کھو رہاہے۔ اروناچل اور ناگالینڈ جیسے زیادہ تر پوربی ریاستوں میں واقع جنگلوں کو بُری طرح سے وہاں کے لوکل رہنے والے،مافیائوں سے ملکر کاٹ رہے ہیں۔جس کے چلتے آب وہوا میں تبدیلی کے بُرے نتائج آرہے ہیں،اس پر لگام لگانے کی سخت ضرورت ہے۔‘‘
ہندوستان میں ند یوں کا جال پھر بھی پانی کی کمی: ہمار ے جنت نشان ملک میں ندیوں کی کثرت،بہتات ہے قدرت کی بے شمار نعمتیں موجود ہیں،جنگلات کے ساتھ ساتھ دریائوں کی کمی نہیں ہے،ہندوستان میں صاف اور پینے کے پانی کی کمی نہیں ضرورت ہے اس کی حفاظت کرنے کی دیکھ بھال کرنے کی۔10,360,دریا جو پورے ملک میں بہتے ہیں اور ایسا بہائو پیدا کرتے ہیں جو ایک تخمینہ کے مطابق لگ بھگ1,869 معکب کلو میٹر ہے۔ اگر اِن کا بہتر بندو بست کیا جائے تو ہمارے آبی وسائل ہی سارے بحران کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، افسوس ابھی تک اِن دریائوں میں انسانی فضلہ(گندگی) فیکٹر یوں کا زہریلا کیمیکل،گندا پانی ندیوں میں گرا یا جا رہا ہے،جس سے ندیاں بُری طرح متاثر ہوگئی ہیں۔ گرچہ گنگا،جمنا،برہم پتر،ہگلی ،دریائے چِناب وغیرہ وغیرہ کا براد ران وطن(ہندئوں) میں بڑا احترام پایا جاتا ہے اس کے باوجود خاطر خواہ ند یوں کو صاف رکھنے اورپانی کو پینے لائق رکھنے کے لیے نہ ہی حکومت کوئی مئو ثر کوشش کررہی ہے اور نہ ہی عام آدمی۔ہر ندی کے کنارے بسنے والی آبادی کے لوگ اپنے گھروں کا کچڑا،بشمول(فضلہ،گندگی) بلا دریغ ندیوں میں بہا رہے ہیں اسی طرح چھوٹے چھوٹے کل کارخانے و بڑی فیکٹریاں بھی اپنا زہریلا پانی،کچڑا ند یوں میں بہا رہے ہیں، جس سے ندیوں کا پانی زہریلا ہوگیا ہے یہاں تک کہ بعض ندیوں کی مچھلیاں تک بھی زہریلی ہوگئی ہیں جن کو کھانے سے طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہورہی ہیں۔سوال یہ ہے کہ بِلّی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟۔ بچی کھچی کسر جنگلوں کی کٹائی ہونے سے برسات ہونے پر پانی کے بہائو کے ساتھ ساتھ مٹی کے کٹائو اور بہائو سے دریا ئوں کی گہرائی کم اور چھوٹی ہو گئی ہیں،جس سے بہت طرح کے نقصان ہورہے ہیں۔تھوڑی بارش ہوئی کہ سیلاب وبالِ جان بن جاتاہے ہر سال سینکڑوں انسانوں سمیت مویشیوں کی جانیں چلی جاتی ہیں،نیتا حضرات بیان بازی کرتے اور لاشوں پر سیاست کرتے ہیں۔ بہار، آسام، گجرات وغیرہ اس کی مثال ہیں،بارش کا پانی ختم ہوا دریائوں کا پانی نچلی سطح پر پہنچ جا تا ہے اور گرمی شروع ہوئی نہیں کہ پانی کا ہا ہا کار مچ جاتاہے،ہے کیا کوئی اس کی دوا بتلائے تو ہمیں؟۔ضرورت ہے کہ ہرشخص اپنے حصے کا کر دار نبھائے صرف حکو متوں پر منحصر رہنا بے وقوفی اور نادانی ہے۔
رب کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں:رب تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں جنگل،ندیاں وغیرہ کی قدر کریں ورنہ بھوگتنے کے لیے تیار رہیں خود پریشان تو ہونگے ہی آنے والی نسلوں اپنے لاڈلے بیٹے،بیٹی کو بھی پیاسا دیکھنے کو تیار رہیں۔ فر مان الٰہی ہے۔تر جمہ: اللہ ہی ہے جس نے آسمان اور زمین بنائے اور آسمان سے پانی اتارا تو اس کے ذریعے تمہارے کھانے کے لیے کچھ پھل نکالے اور کشتیوں کو تمہارے قابو میں دیدیا تاکہ اس کے حکم سے دریا میں چلے اور دریا تمہارے قابو میں دیدیئے۔(القر آن،سورہ،ابراھیم: 14،آیت32) کتنی بڑی بڑی دریائوںکو رب نے انسانوں کے قابو میں دے دیا یہ اس کا فضل عظیم نہیں ہے تواور کیا؟۔ (1) آسمانوں کو پید اکرنا۔(2)زمین کو پیدا کرنا۔(3) آسمان سے پانی اُتار کر اس کے ذریعے اپنی مخلوق کو پانی۔کھانا وغیرہ دینا۔ (4 )کشتیوں کو لوگوں کے قابو میں دینا تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دریا میں چلے۔ (5 )دریا انسانوں کے قابو میں دینامُسخر کردینا۔(6) لوگوں کو بہت کچھ ان کی منہ مانگی چیزیں دینا وغیرہ وغیرہ،قرآن مجید میں پانی کے بارے میں مختلف طرح سے95 جگہوں میں بیان آیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو پانی کی اہمیت سمجھنے اور اس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فر مائے آمین ثم آمین:
09279996221