کورونا کاایٹم بم : رام گوپاک ورما کی حق گوئی وبیباکی – Corona Atomic Bomb: Ram Gopak Verma’s Truth and Recklessness

0
107

 

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


Corona Atomic Bomb: Ram Gopak Verma's Truth and Recklessness

ڈاکٹر سلیم خان
اترا کھنڈ کے ہری دوار میں ایک طرف کمبھ کا میلہ زور و شور سے جاری ہے دوسری جانب کورونا کی وبا بھی اپنا زور دکھا رہی ہے۔ 12اپریل کو ہونے والے شاہی اسنان (غسل) میں ۲۰ لاکھ لوگ تھے ۔ ا ن میں سے بالترتیب11, 12, اور 13 اپریل کو جملہ 53,000, 49,000 اور60,000 کی کورونا جانچ ہوئی ۔ اس میں سے پہلے دن تقریباً 800 لوگ یعنی 1.5 فیصد لوگ کورونا سے متاثر تھے دوسرے دن یہ تعداد بڑھ کر 900 پر جاپہنچی اور تیسرے دن 1000 کے قریب پہنچ گئی اس سے یہ ظاہر ہے کہ متاثرین کی تعداد دن کے ساتھ اور جانچ میں اضافے کے ساتھ بڑھتی رہی ۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہاں موجود لوگوں کی1.67 فیصد تعداد کورونا سے متاثر تھی۔ اب اگر یہ مان لیں کل 20 لاکھ کی جانچ کی گئی ہوتی تو1.67 فیصد کے تناسب سے وہاں کورونا کے مریضوں کی کل تعداد 33ہزار333 بنتی ہے۔ اگر ڈبکی لگانے والوں کی تعداد توقع کے مطابق 30 لاکھ چلی جائے تو یہ 33 ہزار کی تعداد 50ہزار سے آگے نکل جائے گی ۔ اس تعداد کو سن کر ڈر تو لگتا ہے لیکن یہ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ہے ۔ دنیا بھر میں وباء کے حوالے ایسی لاپرواہی کسی سرزد نہیں ہوئی ہوگی لیکن میڈیا کمبھ کرن کی نیند سورہا ہے۔ یہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے جب کورونا کا وائرس اپنی قہرسامانی دکھا رہا ہے۔ آج یعنی 14اپریل 2021 کو ملک بھر میں ایک لاکھ 84 ہزار سے زیادہ نئے متاثرین سامنے آئے ہیں ۔
اس تناظر میں رام گوپال ورما کا تبصرہ دیکھیں ۔ ورما نے ویسے تو کئی فلمیں بناکر بے شمار شہرت کمائی لیکن ستیہ یعنی سچ ان کی شناخت بن گئی۔ پچھلے سال لاک ڈاون کے موضوع پر انہوں نے کورونا نامی فلم کا منظر نامہ لکھا اور اسے بنایا لیکن اسی موضوع پر اپنے حالیہ بیان سے وہ دھماکہ کردیا کہ جس کی گونج بہت دور تک اور بہت دیر تک سنائی دے گی۔ ویسے تو موجودہ حالات میں کمبھ میلے کے انعقاد پر بہت ساری نامی گرامی فلمی ہستیوں نے تنقید اور کیوں نہ کرتے کہ پچھلے مہینے جب پابندیوں کا خاتمہ اور معمولی شرائط کے ساتھ فلم سازی کورونا سے یہ دیکھی نہ گئی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس نے عامر خان ، رنبیر کپور، عالیہ بھٹ، اکشے کمار، گووندا، کیٹرینہ کیف، وکی کوشل اور بھومی پیڈنیکر جیسے کئی ستاروں کو اپنے نرغے میں لے لیا ۔ اس طرح کورونا کے ذہین جرثومہ نے ان ستاروں کے کروڈوں مداحوں پر دھاک بٹھا دی ۔ اس دوران جب اتراکھنڈ کے ہریدوارسے کمبھ میلہ کی انتہائی خطرناک تصاویر آنے لگیں تو رام گوپال ورما سے نہیں رہا گیا اور اانہوں نے بم کا دھماکہ کردیا حالانکہ وہ ممبئی حملے پر بھی فلم بناچکے ہیں ۔
رام گوپال ورما کے یہ ٹویٹ اس ہندو سماج کی جانب کفارہ ہے جن میں بھگت میں اور گودی میڈیا شامل نہیں ہے ۔ انہوں نے اس موضوع پر یکے بعد دیگرے چار پیغامات ٹویٹ کیے۔ پہلا تو یہ تھا کہ کمبھ میلہ جیسے باہو بلیا ن کے مقابلے میں دہلی جماعت(تبلیغی) کا سپر اسپریڈر (عظیم پھیلاو) ایک شارٹ (مختصر) فلم کی مانند ہے۔ ہم سب ہندووں کو مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہیے کیونکہ انہوں وہ انجانے میں کیا تھا اور ہم نے ایک سال بعد سب کچھ جانتے بوجھتے کیا ہے ؟ یہ ندامت دراصل اپنی قوم کی جانب سے ایک طرح کا فرض کفایہ ہے ۔ اس پر شرجیل عثمانی کی تنقید سے پریشان ہوکر ان کی گرفتاری کا مطالبہ کرنے والے کمبھ کرن کی نیند سو رہے ہیں یا کمبھ میلے میں ڈبکی لگا رہے ہیں۔ اس کے بد رام گوپال ورما نے تبلیغی جماعت کے مرکز اور کمبھ میلہ کی تصاویر آمنے سامنے لگا کر یہ لکھا بائیں جانب کمبھ میلا ۲۰۲۱ اور دائیں جانب جماعت ۲۰۲۰ ہے اور اس ڈمب نیس (خاموشی) کی وجہ صرف خدا جانتا ہے۔ یہ اشارہ کورونا جہاد کا شور مچانے والے میڈیا کو عار دلاتا ہے لیکن دینک جاگرن نے شرمندہ ہو کر بڑی چالاکی سے خاموشی کا ترجمہ حماقت کردیا ۔
اس کے بعد رام گوپال ورما نے شاہی اسنان(غسل) کی تصویر کا ا شرنا ک کرکے سوال کیا ’’جو آپ دیکھ رہے ہیں وہ کمبھ میلہ نہیں ہے بلکہ کورونا ایٹم بم ہے۔ میں حیران ہو رہا ہوں کہ اس وائرل ایکسپلوزن (جرثومہ کے دھماکے) کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا؟‘‘اس سوال کا جواب دینے کے لیے اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت کاازخود آگے آنا ’چور کی داڑھی میں تنکے ‘کے مترادف ہے۔ اپنی عام معلومات کے لیے مشہور وزیر اعلیٰ نے فرمایا مرکز(تبلیغ) سے کمبھ میلہ کا موازنہ مناسب نہیں کیونکہ کمبھ میلہ پر ماں گنگا کا آشیرواد ہے اور یہاں سے کورونا نہیں پھیلے گا۔تیرتھ سنگھ راوت کی دلیل یہ ہے کہ تبلیغی جماعت مرکز میں کورونا اس لیے پھیلا کیونکہ ان کا پروگرام بند کمرے میں تھا ، لیکن کمبھ میلہ کھلی ہوا میں منعقد ہوا ہے جہاں سے کورونا پھیلنے کا خطرہ نہیں ہے۔ ماں گنگا کی دھارا بہتی رہتی ہے، ماں گنگا کا آشیرواد لے کر لوگ جائیں گے تو کورونا نہیں پھیلے گا۔کورونا کے بارے میں یہ بالکل نیا انکشاف ہے کہ وہ بند کمرے یا کھلے عام بھیڑ بھاڑ میں تفریق کرتا ہے ۔ وہ اپنی ہتک کے خلاف عدالت سے رجوع کرسکتا ہے۔ یہ بات اگر درست ہے توان تلخ سوالوں کا جواب تیرتھ سنگھ کو دینا ہوگا کہ وہ خود کورونا پوزیٹیو کیسے ہوگئے ؟ انہوں نے اپنے آپ کو تنہا(آی سولیٹ ) کرلینے کے بجائے اس مجمع میں شریک ہوکر گنگا کا آشیرواد کیوں نہیں لیا؟ عوام کو کھلے میں ہولی منانے کا مشورہ دینے کے بجائے منع کیوں کیا؟ اسی کے ساتھ یہ بھی بتانا ہوگا کہ کورونا کے خطرات سے بچنے کے لیےجو احتیاط وہ اپنے لیے ضروری سمجھتے ہیں میلے کے زائرین کو اس کی تلقین کیوں نہیں کرتے؟ ووٹ کی خاطر اس قدر خودغرضی کا مظاہرہ کرنے والوں کو یوگی ادیتیہ ناتھ کا تازہ بیان پیش نظر رکھنا چاہیے جس میں انہوں نے کہا اگر زندہ رہیں گے تو پوجا پاٹ اور عبادت و ریاضت کرسکیں گے۔ اس میں یہ اضافہ ضروری ہوگیا ہے کہ ووٹ دینے کے لیے بھی زندہ رہنا ضروری ہے ۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی کا ذکر آگیا تو ا ن کے بارے میں جان لیا جائے کہ وہ بھی ویکسین لینے کے ۹ دن بعد کورونا پو زیٹیو ہوگئے ۔اس سے قبل ان کے دفتر میں کچھ افسران بشمول ایڈیشنل چیف سکریٹری گویل کورونا پازیٹیو ہونے کی خبر آئی تھی ۔ اب کس نے کس کو لگایا یہ کہنا بہت مشکل ہے ویسے یوگی ادیتیہ ناتھ بنیادی طور پر اتراکھنڈ کے رہنے والے ہیں ۔ تیرتھ سنگھ میں اگر ہمت ہے تو یوگی جی کو کمبھ میلے میں تیرتھ کی دعوت دیں اور انہیں بتائیں کہ ماں گنگا کے آشیرواد سے کورونا ٹھیک ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا مہاکمبھ میں گنگا کی دھارا بہتی ہے اور وہ اتر پردیش میں جاتی ہے۔ جس روز تیرتھ یہ احمقانہ بیان دے رہے تھے اسی دن اترپردیش میں کورونا سے متاثرین کی سب بڑی تعدادسامنے آئی تھی۔ راجدھانی لکھنؤ میں ۱۲ ؍اپریل کی شب رات 8 بجے تک 130 لاشیں دو شمشان گھاٹ پر پہنچ تھیں۔ ان میں سے بیشتر کورونا متاثرین کی تھی اور لکڑیوں کی قلت ہو گئی تھی۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاکر گنگا کے بھگت پنڈے من مانی قیمت وصول کررہے تھے۔گنگا ، جمنا اور سرسوتی کی پاون دھرتی اتر پردیش کے کئی شہروں میں کورونا کی تباہی کے سبب الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش کی یوگی حکومت کو ہدایت دے دی ہے کہ وہ زیادہ متاثر شہروں میں دو یا تین ہفتے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے پر غور کرے۔ عدالت کو یہ کہنے پر بھی مجبور ہونا پڑا کہ سڑک پر کوئی بھی شخص بغیر ماسک کے دکھائی نہ دے، ورنہ عدالت پولس اس کے خلاف حکم عدولی کی کارروائی کرے گی۔کورونا انفیکشن کے پھیلاؤ سے فکرمند ہوکر الٰہ آباد ہائی کورٹ نے سماجی و مذہبی انعقاد میں 50 آدمی سے زائد کےاکٹھا ہونے کو ممنوع قرار دے دیا۔ ریاستی حکومت کو ٹریکنگ، ٹیسٹنگ و ٹریٹمنٹ منصوبہ میں تیزی لانے کا حکم دیا ۔ہائی کورٹ نے سرکارکو شہروں کے کھلے میدان میں عارضی اسپتال بنا کر کورونا متاثرین کے علاج کا انتظام کرنے کی ہدایت کی اور حسبِ ضرورت ٹھیکے پر عملہ اسٹاف تعینات کرنے کی تلقین کی۔تیرتھ سنگھ تو کہتے ہیں کہ کھلے میں کورونا نہیں پکڑتا اور عدالت وہاں اسپتال بناکر متاثرین کا بلا وجہ علاج کرنے کا فرمان جاری کرتی ہے جبکہ اس کے لیے تو گنگا ماں کا آشیرواد کافی ہے۔
جسٹس سدھارتھ ورما اور جسٹس اجیت کمار کی ڈویژنل بنچ نے کورونا کا پھیلاو روکنے کے لیے نائٹ کرفیو کامشورہ بھی دیا تاکہ نائٹ پارٹی یا نوراتری و رمضان میں بھیڑ کو روکاجائے ۔ بنچ کا موقف ہے کہ زندگی رہے گی تو معیشت بھی ٹھیک ہو جائے گا۔ ترقی لوگوں کے لیے ہے، جب آدمی ہی نہیں رہے گا توترقی بے معنیٰ ہے ۔ عدالت لاک ڈاؤن کو درست نہیں مانتی اس کے باوجود اس نے بڑے پیمانے پر انفیکشن کے شکار شہروں میں لاک ڈاؤن لگانے پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس بات کو کیسے سمجھا جائے کہ اتر پردیش کے ہم سایہ بلکہ ایک زمانے تک اس کا حصہ رہے ہری دوار میں جب لاکھوں شردھالو گنگا میں ڈبکی لگا رہے ہیں اسی وقت اترپردیش کی ساری عباتگاہوں میں پانچ سے زیادہ افراد کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے میں رام گوپال ورما کا البرٹ آئن سٹائن والا ٹویٹ یاد آتا ہے جس میں انہوں نے البرٹ آئن سٹائن کا یہ قول نقل کیا ہےکہ ’خلاء لامتناہی ہے یا نہیں اس کا مجھے یقین نہیں ہے لیکن حماقت کے بے انتہا ہونے کا پختہ یقین ہے۔ کمبھ کے میلے پر اس سے زیادہ سخت اور سلیقہ مند تبصرہ ممکن نہیں ہے۔وہ تو خیر البرٹ آئن سٹائن کا ۱۹۵۵ میں انتقال ہوگیا ورنہ تیرتھ سنگھ راوت کے انکشافات اور اکتشافات سن کر وہ بیچارہ بھی سوشانت سنگھ راجپوت کی طرح خودکشی کرلیتا۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here