چین کی زمینی اور خلائی حملوں میں فوقیت – China’s superiority over ground and space attacks

0
116

China's superiority over ground and space attacks

ڈاکٹر سلیم خان
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق چین کے ریڈ ایوک نامی ہیکرز گروپ نے گذشتہ سال 12 اکتوبر کو ممبئی میں بجلی فراہمی کے نظام پر سائیبر حملہ کیا تھا۔ اس واقعے کے بعد شہر میں لگ بھگ 10-12 گھنٹوں کے لئے بجلی کی فراہمی معطل ہو گئی تھی۔ صبح دس بجے کے آس پاس بجلی چلی گئی، یہاں تک کہ ممبئی کی لائف لائن سمجھی جانے والی لوکل ٹرین بھی دو گھنٹے کے لیے بند ہو گئی تاہم اس حملے پر مکمل طور پر قابو پانے میں 10-12 گھنٹے لگ گئے ۔ اِسے دہائی کی بدترین بجلی ناکامی قرار دیا گیا ۔اس وقت ممبئی میونسپل کارپوریشن کے کمشنر ایس چہل نے شہرکے سبھی اسپتالوں کو ہدایت دے دی تھی کہ وہ اپنے آئی سی یو اور دیگر جگہوں پر بجلی کی جنریٹر کے ذریعہ صححم ڈھنگ سے سپلائی جاری رکھنے کے لئے کم از کم 8 گھنٹے کے حساب کا ڈیزل جمع کر لں ۔
مرکزی حکومت نے اس انکشاف کے بعد بھی بالکل وادیٔ گلوان والا رویہ دوہرا دیا یعنی شتر مرغ کی مانند ریت میں منہ چھپا کر انکار کردیا۔ وزیر اعظم نے جس طرح پہلے اعلان کردیا تھا کہ کوئی نہیں گھسا اسی طرح وزیر توانائی آر کے سنگھ نے فرمان جاری کردیا کہ کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔ اپنے موقف کی حمایت میں انہوں نے پہلی دلیل یہ دی کہ تفتیش کرنے والی پہلی ٹیم نے بجلی فیل ہونے کی وجہ انسانی بھول چوک بتائی تھی۔ دوسری ٹیم نے کہا کہ حملہ تو ہوا مگر اس کا ممبئی بجلی کی رکاوٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ اس بات کو اگردرست مان لیا جائے تب بھی انہیں یہ بتانا ہوگا کہ سرکار نےاس حملے کو بیرونی ذرائع کے انکشاف تک کیوں چھپایا نیز جس طرح یوری اور پلوامہ کا منہ توڑ جواب دیا گیا اسی طرح اس کا ردعمل پھر سے کیوں سامنے نہیں آیا ؟ حالانکہ سائیبر حملے کا نقصان دہشت گردانہ حملے سے شدید تر ہوسکتا ہے۔ وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والے اچانک کہاں غائب ہوگئے؟
وزیر توانائی نے دوسری دلیل یہ پیش کی کہ ان کے پاس اس حملے کے چین یا پاکستان کی جانب سے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ پانچ منٹ میں بڑے بڑے دہشت گردانہ حملے کے ماسٹر مائنڈ کی جنم کنڈلی نکال کر ذرائع ابلاغ کے حوالے کرنے والی انٹلی جینس کو ۵ ماہ تک کیوں سانپ سونگھا رہا ۔ وزیر موصوف کے مطابق کچھ لوگ یہ الزام لگارہے ہیں کہ وہ چینی حملہ تھا مگر چونکہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے اس لیےچین اس کا انکار کردے گا۔ ویسے تو پاکستان بھی دہشت گردانہ حملے سے انکار کرتا رہا ہے لیکن حکومت ہند اس کو مسترد کرکےپاکستان کی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال کیے جانے پر ازخود سبق سکھانے کی بات کرتی رہی ہے ۔ ایسے میں سائیبر حملہ کے لیے استعمال ہونے والی چینی سرور کی بنیاد چین کے خلاف قرار واقعی کارروائی کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا جاتا؟ دنیا کے سب سے زیادہ کمپیوٹر کے ماہرین اگر ہندوستان میں ہیں تو ان کی خدمات کیوں نہیں حاصل کی جاتیں؟ کیا اس میں خوف محسوس ہوتا ہے؟
وزیر موصوف نے یہ تو تسلیم کیا کہ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ نے انہیں ممبئی میں ان کے SCADA سسٹم پر سائیبر حملے کی جانکاری دی مگرلوڈ ڈسپیچ سینٹر(مواصلاتی مرکز) تک وہ مالوئیر( وائرس) نہیں پہنچ پائے۔ اس کے برعکس مہاراشٹر سائیبر سیل کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بجلی کی معطلی کے پیچھے مال ویئر اٹیک ہوسکتا ہے۔اامریکہ کی سائیبر سکیورٹی کمپنی ممبئی بجلی کے لئے ریڈ ایوی کی تفتیش میں مصروف ہے حالانکہ یہ کام ہندوستان کی ےتفتیشی ایجنسی کے کرنے کا ہے مگر وہ کمبھ کرن کی نیند سورہی ہے۔ مہاراشٹر کے وزیر توانائی نتن راوت نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لئے تین ارکان کی جو کمیٹی تشکیل دی تھی، اس کی رپورٹ تصدیق کرتی ہے کہ اکتوبر 2020 میں پوری ممبئی اور اطراف کے علاقوں کی بجلی گل ہوجانے کی وجہ تکنیکی خرابی نہیں بلکہ چینی سائیبر حملہ تھا۔ ریاستی وزیر نے امریکی کمپنی کی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد بتایا کہ ’’ہم نے سائیبر سیل میں شکایت کی ہے اوران کی رپورٹ کا انتظار ہے مگر جو ابتدائی معلومات کے مطابق یہ یقینی طور پر سائیبر حملہ اور سبوتاژ کی کوشش تھی۔‘‘
ریکارڈیڈ فیوچرس نامی کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے 12؍ سرکاری اداروں، بجلی سپلائی کے نظام اور دیگر مراکز کو چین کی جانب سے 2020میں سائیبر حملے کا نشانہ بنایاگیاہے۔ ماہرین کے مطابق ایک ایسے وقت میں جبکہ لداخ میں ہندوستانی اور چینی فوجیں آمنے سامنے تھیں، سائیبر حملے کے ذریعہ ممبئی جیسے شہر کوکئی گھنٹوں کیلئے بجلی سے محروم کردینا، ہندوساتن کیلئے ایک بڑی وارننگ کے مترادف ہے بشرطیکہ مرکزی حکومت اس کی جانب توجہ فرمائے۔ چین نےاس سائیبر حملے کے ذریعہ ہندوستان کو خاموش رہنے کا پیغام دینے کی کوشش کی ہے ۔ امریکی رپورٹ کے مطابق پورے ہندوستان میں بجلی فراہمی کی نگرانی کرنے کے لیے ایک مال ویئر کو کنٹرول سسٹم میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ مذکورہ ادارے نےحکومت ہند کے وزارت الیکٹرانکس اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے تحت کام کرنے والی ہندوستانی کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم کو اپنے دریافت کردہ نتائج بھجوا دیئے ہیں۔
ریکارڈڈ فیوچر کے مطابق چینی حکومت کی پشت پناہی سے چلنے والے ہیکر گروپوں کی جانب سے بھارتی انفراسٹرکچر کے خلاف حملوں کا مقصد کوئی مالی مفاد حاصل کرنا نہیں بلکہ وہ دفاعی مقاصد کے تحت کیا گیا تھا اور دو بندرگاہیں بھی اس کی زد میں ہیں۔ریکاڈڈ فیوچر کے افسرِ اعلیٰ سٹوارٹ سولومن نے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ چینی ہیکرز نے منظم طریقے سے توا نائی فراہم کرنے والے ایک درجن کے قریب بے حد حساس اداروں تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ بھارت کے طول و عرض میں واقع حساس اداروں میں روانہ کردہ ان ’میل ویئرس‘ (مضر کمپیوٹر کوڈ) میں سے اکثر کو ایکٹیویٹ ابھی تک نہیں کیا گیا ہے۔ سائیبر حملوں کے ماہر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہودا نے اسے چین کی جانب سےہندوستان کو یہ اشارہ تسلیم کیا کہ وہ کسی ہنگامی صورت حال میں یہ سب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
سائیبر حملہ کوئی خواب و خیال کا مفروضہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے ۔ دورِ جدید میں دنیا بھر کا تقریباً ہر نظام کمپیوٹر سے منسلک ہے۔ اس لیے کسی بھی ملک کے حساس انفرا سٹرکچر کو نشانہ بنا کراسے لمحوں کے اندر اسی طرح سے مفلوج کیا جا سکتا ہے، جس طرح سے بم گرا کر یا ٹینکوں اور توپوں کے ذریعہ ممکن ہوتا تھا ۔ سائیبر جنگ کی خصوصیت یہ کہ اس میں روایتی جنگی اسلحہ کی بہ نسبت بہت کم خرچ آتا ہے اور فوجیوں کے جانی نقصان کا اندیشہ بھی نہیں ہوتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سائیبر حملے کے ماخذ کا تعین کرکے اصل حملہ آور کی تلاش کرنے میں کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔ اصل حملہ آور کی شناخت کے بعد یہ اس کی انفرادی کارروائی ہے یا کوئی ریاست اس کے لے ذمہ دار ہے یہ ثابت کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے ۔اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 2 (4) اپنی علاقائی سالمیت اور سیاسی ڈھانچے کی حفاظت کا حق صرف مسلح حملے کی صورت میں دیتا ہےلہٰذا سائیبرحملے کے جواب میں دفاع کے طور پر طاقت کا استعمال مشکل ہوجاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں 2009 اور 2010کے اندر سٹکس نیٹ (Stuxnet) نامی ایک میل ویئر نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو زبردست نقصان پہنچایا تھا۔ سائیبر ماہرین اسے امریکہ کے تکنیکی تعاون سے کیا جانے والا اسرائیلی حملہ مانتے ہیں ۔یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ اس سے ایران میں نیوکلیئر میلٹ ڈاؤن کا خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ اگرخدا نخواستہ یہ کامیاب ہوجاتا تو وہ ری ایکٹرس اپنے ہی ملک میں ایٹمی بم بن کر پھوٹ پڑتے۔ اسی طرح 2017 میں روس کے ’پیتیا‘ نامی میل ویئر نے یوکرین میں توانائی کے اداروں، ریلوے، سرکاری محکموں، بینکوں اور دیگر شعبہ جات کے ہزاروں کمپیوٹروں کو نشانہ بنا کر ان کا ڈیٹا (معلومات) ضائع کر دیا ۔ اس سے ملک کے بیشتر حصے تاریکی میں ڈوب گئے تھے۔ اس وقت یوکرین اور روس کے درمیان کئی برس سے غیر اعلانیہ جنگ جاری تھی، جس میں دس ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے تھے۔ان مثالوں کی روشنی میں لال آنکھیں دکھانے کی دھمکی دینے والے وزیر اعظم کودِشا روی جیسی بے ضرر دوشیزہ کے بجائے چین کی جانب متوجہ ہونا چاہیے ورنہ قوم کو اس مجرمانہ غفلت کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here