اٹھو، کہ ظلم اپنی انتہا پر ہے- Arise, oppression is at its height

0
114

 Arise, oppression is at its height

مکرمی!گمان بھی نہیں تھا کہ حکومت معصوم کسانوں کو اتنا بڑا دشمن تصور کر لے گی کہ اس سے جنگی پیمانے پر نمٹے گی۔ ان کے چاروں طرف کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کر دے گی۔ کانٹوں کی چادر بچھا دی جائے گی، ان کی بجلی، پانی اور انٹرنیٹ بند کر دی جائے گی۔ اگر اس پیمانے کی تیاری لداخ میں کی جاتی تو چین اپنی سرحدوں پر رُک جاتا جس کو حکومت روک نہیں پارہی ہے۔ صرف زبانی جمع خرچ کرتی ہے۔
کسانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ انہوں نے ان قوانین کی واپسی کا مطالبہ کر دیا تھا جسے حکومت نے ان کی مرضی کے خلاف بنا کر ان پر تھوپ دئیے تھے اور وہ قوانین ان کو کارپوریٹ کا غلام بنانے والے تھے۔ کارپوریٹ کے استحصال سے بچنے کے لئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا تھا اور یہ ہر شخص کا فطری حق ہے کہ وہ خود کو دوسروں کے ظلم و استحصال سے بچانے کی تدبیر کرے۔ انہوں نے کسی دشمنی کے جزبے سے ایسا نہیں کیا تھا لیکن حکومت نے انہیں دشمن سمجھ لیا اور مختلف بولیاں بول کر انہیں ذلیل اور رسوا کیا جاتا رہا۔ کبھی انہیں دہشت گرد کہا گیا، کبھی پاکستانی، چینی ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور نہ جانے کیا کیا۔ کسانوں نے ایک عقلمندی کی کہ اپنے اسٹیج سے سیاستدانوں کو کسی حد تک دور رکھا تاکہ سیاست کرنے کا الزام نہ لگے۔
اس کڑکڑاتی سردی میں عورتوں اور بچوں کے ساتھ کھلے آسمان میں پڑے رہے اور حکومت بات چیت کا ناٹک کرتی رہی۔ احتجاج کا آج 72واں دن ہے اور اب یہ احتجاج ایک تحریک بن چکی ہے اور گلوبل ہوچکی ہے۔ دنیا کے مانے جانے لوگ کسانوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور یہ بات حکومت کو بہت بری لگ رہی ہے اور اپنے اندرونی مداخلت کا نام دے رہی ہے۔ اس مسئلہ پر دنیا دو حصوں میں بٹ چکی ہے ایک طرف حق پرست ہیں جو کسانوں کے ساتھ ہیں اور دوسری طرف حکومت، گودی میڈیا اور سنگھ پریوار ہے۔ اب یہ تحریک ایک انقلاب کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔ ایک ہمہ گیر انقلاب۔ اب یہ احتجاج کسانوں کے ساتھ عوامی بنتا جارہا ہے جو فرقہ واریت سے دور ہے۔ اب یہ لڑائی ظالم اور مظلوم کے درمیان ہے۔ خدا مظلوموں کے ساتھ ہے اور فتح بھی مظلوموں کی ہوگی انشاء اللہ۔
ڈاکٹر شفیق الرحمن خاں
فلاح انسانیت اکادمی، علی گنج، لکھنؤ
موبائل : 9795515909

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here