قومی بجٹ سے سنگھ پریوار کی ناراضگی اور بیچارگی

0
111

ڈاکٹر سلیم خان
7 سال پہلے فروری کے مہینے میں گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی نے اپنے صوبے کی راجدھانی احمد آباد میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے پرسون جوشی کی ایک نظم جھوم جھوم کر پڑھی تو سارا ملک جھوم اٹھا ۔ اس نظم کا ایک مصرع تھا ’ سوگندھ (قسم) مجھے اس مٹی کی ، میں دیش نہیں بکنے دوں گا ‘۔ مودی جی اس وقت وزیر اعظم بننے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے تھے ۔ ملک کے عوام نے ان کے اعلان پر اعتماد کیا اور ان کو وزیر اعظم بنا دیا ۔ پردھان سیوک بن جانے کے بعد بھی وہ وقتاً فوقتاً اپنی تقاریر میں اس نظم کو سناکر عوام کا دل بہلاتے رہے لیکن وقت کے ساتھ ان کی کتھنی اور کرنی میں فرق آتا گیا ۔ انہوں نے ایک ایک کرکے ملک کی بڑی قومی کمپنیوں کو نجی ہاتھوں میں بیچنا شروع کردیا اوروہ سلسلہ ہنوز زور و شور کے ساتھ جاری و ساری ہے۔ یکم فروری کو مرکزی وزیر مالیات نرملا سیتارمن کے ذریعہ پیش کیا جانے والا مالی سال 22-2021 کا عام بجٹ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس صورتحال پر 1976کی فلم شنکر شمبھو میں ساحر لدھیانوی کی لکھی قوالی حرف بہ حرف صادق آتی ہے؎
کیا تھا تم سے جو وعدہ نبھا دیا ہم نے
تمہاری بزم میں آکر دکھا دیا ہم نے
اب اس کے آگے جو ہونا ہے وہ بھی سن لیجے
اور اس کے آگے جو کرنا ہےشوق سے کیجے
ہم لوٹنے آئےہیں، ہم لوٹ کے جائیں گے
اس قوالی کے مطابق وزیر اعظم نے اقتدار میں آنے کا وعدہ کیا تھا ، اسے پورا کیا اور آگے جن ارادوں کا اظہار ساحر نے کیا تھا اس پر عملدرآمد جاری ہے۔ وزیر اعظم نے یہ بھی کہا تھا کہ ’نہ کھاوں گا اور نہ کھانے دوں گا‘ ۔ اس لیے وہ سرکاری کمپنیوں کا منافع کھانے سے گریز فرماتے ہیں ۔ وہ سرکاری کمپنیوں کا منافع نہ خود کھاتے ہیں اور نہ اپنے رائے دہندگان کو کھانے دیتے ہیں بلکہ ان کا فلسفہ تو یہ ہے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری یعنی نہ رہے کمپنی اور نہ آئے منافع ۔ ان صنعتوں کے مالک اگر مسلمان ہوتے تو بعید نہیں کہ فساد بھڑکا کر اپنے بھکتوں کے ذریعہ انہیں خاک میں ملا دیتے لیکن چونکہ یہ سرکاری ادارے ہیں اور سرکار بھی ان کی اپنی ہے اس لیے ان کو جلا نے اور بجھانے کی محنت کرنے کے بجائے اپنے دوستوں کو بیچ کر چھٹکارہ پانے کا راستہ اپنایا گیا ۔ اس طریقۂ کار میں آم کے آم اور گٹھلیوں کے دام ہیں، کیونکہ یہ نا ممکن ہے کہ جو سرمایہ دار ان کو خریدیں وہ پارٹی کو چندہ نہ دیں ؟ انہوں نے اگر وعدہ خلافی کا سپنا بھی دیکھا تو شاہ جی کی سی بی آئی اور ای ڈی کے ڈنڈے ان پر برسنے لگیں گے۔
وزیر اعظم کے کچھ مکالمے بہت مشہور ہوتے ہیں لیکن کچھ دب جاتے ہیں مثلاً انہوں نے کہا تھا ’بزنس تو میرے خون میں ہے‘ ۔ فی الحال وہی خون جوش ماررہا ہے اور خریدو فروخت کی تجارت زور و شور سے چل رہی ہے۔ سنگھ پریوار کے بھولے بھالے لوگ اس سیاسی حکمت عملی سے ناواقف ہیں کہ جس پر بی جے پی عمل پیرا ہے یعنی سرکاری اداروں کو بیچ کر رقم حاصل کرو اور ان سے ریاستی انتخاب لڑو۔ اس میں اگر ناکامی ہاتھ آئے تو ارکان اسمبلی کو خرید کر اپنے ساتھ ملا لو ۔ ارکان اسمبلی کی وفاداری خریدنے کے لیے جو کروڈوں روپئے درکار ہوتے ہیں آخر وہ کہاں سے آئیں گے؟ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار بجٹ میں نجکاری کی مخالفت کرتاہے۔ بھارتیہ مزدور سنگھ کے جنرل سکریٹری ونے کمار سنہا کے مطابق دو پبلک سیکٹر بینکوں اور ایک انشورنس کمپنی کے ڈِس انویسٹمنٹ جیسے فیصلے خودکفیل ہندوستان جیسے پرکشش منصوبوں کی کشش کم کریں گے۔ وہ نہیں جانتے کہ خود کفیل ہندوستان کا نعرہ ہاتھی کا وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے کے لیے لگایا جاتاہے کھانے کے کام نہیں آتا۔ سنہانے مزید کہا کہ 10 دن بعد قومی مجلس عاملہ کی نشست میں مرکزی حکومت کے اس بجٹ پر تنظیم حکمت عملی بنائے گی۔ سنگھ پریوار فی الحال قابلِ رحم حالت میں ہے اس لیے کہ دانت بھی اس کے اپنے ہیں اور ہونٹ بھی اپنے ہی ہیں۔ اسی طرح کا بجٹ اگر کانگریس پیش کرتی تو یہ دیش بھکت آسمان سر پر اٹھالیتے لیکن اپنے کمل کے خلاف بولیں بھی تو کیسے بولیں ؟ اس لیے رسماً منہ ہی منہ میں منمنا کے رہ جاتے ہیں ۔
آر ایس ایس کی معروف معاشی تنظیم ’سودیشی جاگرن منچ‘ کے لیڈر اشونی مہاجن نے خبر رساں ادارہ آئی اے این ایس کو بتایا کہ ’’بی پی سی ایل، ائیر انڈیا، شپنگ کارپوریشن آف انڈیا، کنٹینر کارپوریشن آف انڈیا، پون ہنس، بی ای ایم ایل وغیرہ کے ڈِس انویسٹمنٹ کے فیصلے پر حکومت کو پھر سےغور کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ اشونی مہاجن کے اندر اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ ان ناعاقبت اندیش فیصلوں کی کھل کر مذمت کرسکیں اس لیے کہ اگر انہوں نے ایسی غلطی کی تو ڈاکٹر پروین توگڑیا کی طرح ان کو بھی ’نہ گھر کا رکھا جائے گا اور نہ گھاٹ کا‘۔ یہی وجہ ہے کہ ڈرے سہمے اشونی مہاجن فرماتے ہیں ’’پبلک سیکٹر کے بینکوں اور بیمہ کمپنیوں کی نجکاری کا اعلان فکر انگیز ہے۔ نجکاری کرنے کے بجائے ان کمپنیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ایف ڈی آئی کو بڑھائے جانے سے ملک کے انشورنس اور معاشی شعبہ پر غیر ملکیوں کی بالادستی قائم ہوگی۔ اس قدم کو دوراندیشی پر مبنی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘ فی الحال ملک دور یا کوتاہ اندیشی نہیں بلکہ انتخاب اندیشی کی بنیاد پر چلایا جارہا ہے۔
وزیر اعظم کے کچھ بیانات کو سمجھنے میں سنگھ سمیت عام لوگ غلطی کرجاتے ہیں مثلاً انہوں نے کہا تھا ’ مجھےوزیر اعظم نہیں چوکیدار بنا کر بٹھا دیجیے‘۔ عوام نے سوچا کہ شاید وہ ملک کی چوکیداری کرنے کی بات کررہے ہیں اور سنگھ نے سوچا کہ ملک کی نہ سہی تو کم ازکم ان کی چوکیداری تو ضرور ہی کریں گے لیکن یہ دونوں مفروضے غلط نکلے ۔ پردھان جی تو پہلے بھی اپنے وفادار دوستوں کے چوکیدار تھے اوراب بھی ہیں۔ ان کےخلاف جب انتخاب سے قبل ’ چوکیدار چور ہے‘ کا نعرہ لگایا گیا تو انہوں نے اس کی تردید میں ٹوئٹر پر چوکیدار کا ہیش ٹیگ لگا کر کہا آپ کا چوکیدار مستعدی سے کھڑا ہے اور ملک کی خدمت کررہا ہے۔ عوام پھر جھانسے میں آگئے ۔ انتخابی کامیابی کے بعد وزیر اعظم نے چوکیدار والا ہیش ٹیگ ہٹا کر اپنےان دوستوں کےوفاداربن گئے جن کے چندے سے انتخاب میں کامیابی ملی تھی ۔ بجٹ میں نجکاری کچھ اور نہیں احسانمندی کا تقاضہ ہے ۔
بی پی سی ایل ملک کی دوسری سب سے بڑی تیل کمپنی ہے اور اس کی بیلنس شیٹ بہت مضبوط ہے۔ یہ کمپنی حکومت کے لیے ہمیشہ منفعت بخش ثابت ہوتی رہی ہےلیکن اب اس کی شراکت داری بیچنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔ حکومت کو تقریبا کو اس کی 52.98 فیصد حصہ داری فروخت کرنے کے بعد 60 ہزار کروڑ روپےل مل سکتے ہیں۔ اس کے برعکس قرض میں ڈوبی سرکاری ہوائی کمپنی ائیر انڈیا سے بھی حکومت چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔ فی الحال ائیر انڈیا پر 60074 کروڑ روپے کا قرض ہے، اس کے باوجود اس کو 23286.5 کروڑ روپے میں بیچنے کا ارادہ ہے کیونکہ وہ کروڈوں کے اثاثے کی مالک ہے۔ اس کے علاوہ سرکار آئی ڈی بی آئی بینک میں اپنی حصہ داری بیچنے کی تیاری کررہی ہے۔ اس بینک میں ایل آئی سی کی 51 فیصد اور حکومت کی 47 فیصد حصہ داری ہے۔ ایل آئی سی ’آئی ڈی بی آئی‘ سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہےنیز پبلک سیکٹر کے دو اور بینکوں کو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں سونپنے کا ارادہ ہے۔
وزیر اعظم آج کل اٹھتے بیٹھتے خود کفالت کے چکنے چپڑے نعرے لگاتے رہےہ ہیں لیکن اس کی آڑمیں دوسری طرف ہندوستانی انشورنس کمپنیوں میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا دروازہ کھولا جارہا ہے ۔وزیر مالیات قومی انشورنس کمپنی ایل آئی سی میںسرکاری حصہ داری 25 فیصد کم کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ اس معاملے کچھ آئینی مشکلات ہیں لیکن وزیر خزانہ نرملا سیتارمن ان کو خاطر میں نہیں لاتیں ۔ انہوں نے بجٹ پیشکش کے دوران انشورنس سیکٹر میں براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) کی مقررہ حد 49 سے بڑھا کر 74 فیصد کرنے کا اعلان کرنے کے بعد بتایا کہ اس مقصد کے حصول کی خاطر ضروری حفاظتی اقدامات کے ساتھ غیر ملکی ملکیت اور کنٹرول کی اجازت دینے کے لئے انشورنس ایکٹ 1938 میں ضروری ترمیم کی جائے گی ۔بھارتیہ مزدور سنگھ کے ونئے سنہا کے مطابق اس سے ملازمین کے مفادات پر اثر پڑے گاغیر ملکی انحصار میں اضافہ ہوگا۔
مودی سرکار کو عوامی یا سنگھی تنقید سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ پچھلے ۶ سالوں میں سرکاری اداروں کی شراکت داری بیچ کر ۳ لاکھ ۳۶ ہزار کروڈ روپئے جٹا چکی ہے۔ اتنی رقم پچھلے ۲۳ سالوں میں کل ملا کر بھی نہیں جٹائی گئی تھی ۔ مئی 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد مودی سرکار اب تک 121 کمپنیوں کے حصص فروخت کرچکی ہے۔ 1991 میں معاشی بحران کے وقت نرسمھاراو نے اس کا آغاز کیا تھا ۔ اس کے بعد 30 سالوں میں کل نجکاری کے ذریعہ کل 4.89 لاکھ کروڈ کی رقم سرکاری خزانوں میں آئی ۔ اس طرح 6 سالوں کے اندر مودی سرکار نے 30 سالوں کا 74فیصد بیچ دیا ۔ ابھی 3 سال باقی ہیں اگر یہی رفتا ر رہی تو یہ لوگ سب کچھ بیچ باچ کر ملک کو نہ جانے کتنے کے قرض میں ڈوبا کر جائیں گے۔ سپوت اور کپوت میں یہی فرق ہے کہ ایک کماکر جمع پونجی چھوڑ کے جاتا ہے اور دوسرا قرض چڑھا کررخصت ہوتا ہے۔ ایسے میں ایک کہاوت یاد آتی ہے:’راجہ بیوپاری تو پرجا بھکاری‘۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ عوام الناس کے ساتھ موجودہ سرکار نے سنگھ پریوار کو بھی گداگر بنادیا۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here