Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeArticleاحسن اعظمی :لکھنؤ کے ادبی افق کا روشن ستارہ غروب ہوا...

احسن اعظمی :لکھنؤ کے ادبی افق کا روشن ستارہ غروب ہوا – Ahsan Azmi: The bright star of Lucknow’s literary horizon has set

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں


Ahsan Azmi: The bright star of Lucknow's literary horizon has set
ڈاکٹر عمیر منظر

ایسا لگتا ہے کہ موت کا ایک مہیب سایا ہے جس کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے ۔دنیا کیسے کیسے لوگوں سے خالی ہوتی جارہی ہے اور یہ سلسلہ کب تک رہے گا کہا نہیں جاسکتا ۔زندگی اور موت کا یہ تماشا تو روز ازل سے جاری ہے مگر اس کی یہ صورت جسے کہانی اور کتابوں میں پڑھتے آئے تھے اب دیکھنے کو بھی مل رہی ہے ۔آج (15،اپریل 2021)احسن اعظمی بھی اس وبا کا شکار ہوگئے ۔ لکھنؤ کی شعری محفلوں کے وہ ایک سرگرم رکن تھے ۔ ان کا شمار اہم شعرا میں کیا جاتا تھا وہ بیک وقت نعت اور غزل پر یکساں قدرت رکھتے تھے ۔ان کی سخنوری کا انداز ہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ دونوں اصناف میں ان کے دیوان تھے۔
احسن اعظمی (( 2021-1963کا اصل نام محمد فاروق خاں تھا ۔وہ ضلع اعظم گڑھ کے مشہور قصبہ مبارک پور کے موضع سکٹھی شاہ محمد پور کے رہنے والے تھے ۔ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا ۔حصول تعلیم کے بعد تلاش روزگار کے لیے ممبئی کا سفر کیا مگر یہ سفر وسیلۂ ظفر نہ بن سکا اور جلد ہی وطن واپس آگئے ۔یہاں الجامعۃ الاسلامیہ اشرفیہ( مبارک پور )کے شعبۂ تحتانیہ میں بطور ہیڈ ماسٹر کے تقرر ہوگیا ۔شعروشاعری کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ ایک مشاعرہ میں جوہر مبارک پوری کی حوصلہ افزائی سے حوصلہ پاکر عزیز برقی سے باقاعدہ شرف تلمذ حاصل کیا ۔عزیز برقی کا شمار اس دیار کے استاد شعرا میں ہوتا تھا۔ وہ شاگردوں کے ساتھ خلوص ومحبت کا معاملہ رکھتے اور بہت حوصلہ افزائی کرتے ۔مبارک پور میں ان دنوں طرحی نشستوں کا بہت روشن سلسلہ تھا جس سے احسن اعظمی کی شعری صلاحیتوں کو جلا ملی۔ مگر مسائل روزگار اور حوادث زمانہ نے بار بار اس راہ میں الجھنیں پیدا کیں ۔1995میں ریاستی حکومت میں اردو مترجم کے طور پر تقرر ہوا اور اسی سلسلے میں مبارک پور سے اعظم گڑھ اور اعظم گڑھ سے لکھنؤ کا سفر مسائل و آلام او ر ترقی و شہرت کا زینہ بن گیا ۔جنوری 2010میں بزم صفی کے طرحی مشاعروں سے شعرو سخن کا ٹوٹا ہوا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور چودھری عبدالستار خاں بیدل مرادآبادی سے اصلاح سخن لینے لگے ۔
احسن اعظمی ان دنوں لکھنؤ کے گومتی نگر میں اقامت پذیر تھے ۔اترپردیش حکومت میں وہ ملازم تھے ۔دھیرے دھیرے لکھنؤ کے شعری حلقوں میں احسن اعظمی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیںرہایہاں تک کہ ان کا شمار کہنہ مشق شعرا میں ہونے لگا تھا ۔بہت سی نشستوں اور مضافات کے مشاعروں میں بطورصدر بھی انھیں مدعو کیا جاتا تھا۔ مشاعروں کے عام ماحول میں گرچہ انھیں بہت زیادہ جگہ نہیں ملی مگران کے کلام سے مشاقی اور فنی جوہر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔نشستوں اور مشاعروں میں وہ تحت ہی میں پڑھتے تھے اور یہ پڑھت گرچہ کسی خاص اسٹائل یا داد طلب انداز کی متحمل نہیں تھی لیکن پسند کرنے والے ان کا کلام خو ب پسند کرتے تھے ۔
احسن اعظمی کی غزلوں کا پہلا مجموعہ 2011 میں ’ عکس حیات‘کے نام سے شائع ہوا تھا۔ ’بہار ارم ‘کے نام سے ان کا نعتیہ مجموعہ 2013 میں منظر عام پر آیا۔ 2015 میں ’جمال حیات ‘کے نام سے غزلوں کا دیوان شائع ہوا اور نعتیہ دیوان ’بہار عقیدت‘کے نام سے 2019 میں شائع ہوکر مقبول ہوا ۔ان دنوں وہ مناقب اہل بیت مرتب کرنے کی فکر میں تھے ۔ان تخلیقی کاوشوں سے ان کے گہرے شعری شغف کی غماز کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔
احسن اعظمی سے میری پہلی ملاقات اندرا نگر (لکھنؤ)میں ہوئی تھی ۔جناب پرویز ملک زادہ ہی اس تعارف کا ذریعہ بنے تھے۔اس روزاس لیے زیادہ بات نہیں ہوسکی کہ ہم لوگ جناب عامر فاروقی کی والدہ کی تدفین کے سلسلے میں جمع تھے ۔البتہ احسن اعظمی نے فون نمبر لے لیا تھا اور پھر یہ سلسلہ بڑھتا گیا ۔وطنی نسبت کے سبب بھی ان کی مہربانیاں اور عنایتیں مجھ پر رہیں اور جب یہ معلوم ہوا کہ میرا نانیہال سکٹھی ہے تو ان کی خو شی دوبالا ہوگئی ۔ مختلف ادبی تقاریب کے علاوہ بھی متعدد بار ملاقات ہوئی اور احسن اعظمی رفتہ رفتہ مجھے اپنے گھر کا ہی ایک فرد سمجھنے لگے ۔گھر کی متعدد تقاریب میں نہ صرف مدعو کرتے بلکہ ان کا ایک خاص انداز یہ بھی تھا کہ تقریب سے ایک روز پہلے یاد بھی دلاتے تھے تاکہ شرکت یقینی ہوجائے حالانکہ یہ عمل ان کے بے پناہ خلوص اور محبت کا آئینہ دار تھا ۔اس طرح کے مواقع پر اکثر حکیم وسیم احمد اعظمی کی رفاقت مجھے میسر رہتی ۔حکیم وسیم احمد اعظمی پرانی قدروں کے پاس دار اور رشتوں کے قدر دارن ہیں ۔چونکہ وہ زمانہ طالب علمی سے ہی لکھنؤ میں مقیم ہیں۔ انھیں وطن کی دوری کا خاطرخواہ احساس ہے شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دور کے رشتوں کوبھی محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ان تقاریب میں لکھنؤ کے بیشتر شعرا مدعو ہوتے ۔ایک تقریب کے دوران میں نے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو مشاعرہ کرسکتے ہیں کیونکہ آپ نے اتنے شعرا کو مدعو کررکھا ہے کہ یہ مشاعرہ اعظم گڑھ کے مشاعروں کی طرح فجر تک چلتا رہے گا ۔واضح رہے کہ اعظم گڑھ میں وہی مشاعرہ کام یاب کہا جاتاہے جو اذان فجر پر ختم ۔ وہ مسکراتے ہوئے کسی مہمان کے استقبال میں آگے بڑ ھ گئے ۔
احسن اعظمی اپنے مزاج اور طبیعت کے اعتبار سے بے حد نفیس اور مرنجامرنج قسم کے آدمی تھے ۔بڑی محبت اور اپنائیت سے ملتے ۔لکھنو اپنی جن تہذیبی رویو ں کی وجہ سے جانا جاتاہے اور جس وضع داری کے لیے شہرت رکھتا ہے احسن اعظمی اس کا کچھ حصہ اعظم گڑھ سے لے کر آئے تھے ۔زندگی کے بہت سے حادثوں نے انھیں ویسے بھی نرم دل بنادیا تھا ۔شائستگی ، سنجیدگی اور بزرگوں کی عزت و احترام کے بیشتر اسباق شاید انھوں نے جامعہ اشرفیہ سے ہی حاصل کیے تھے ۔ان کی شاعری کا مذہبی پہلو ممکن ہے اسی وجہ سے بہت روشن اور ممتاز تھا ۔
احسن اعظی اپنے استاد مرحوم بیدل مرادآبادی کے عزت واحترام میں جس طرح بچھے جاتے تھے وہ بھی اپنی مثال آپ ہی تھا ۔بیدل مرادآبادی کا شمار زود گو شعرا میں کیا جائے گا ۔کہا جاتا ہے کہ کم و بیش پچاس ہزار شعر انھوں نے کہے ہوں گے ۔ان کا ایک مجموعہ احسن اعظمی نے نہ صرف شائع کیا بلکہ اس کے رسم اجرا کی تقریب کا اہتمام بھی کیا ۔مجھے بھی اس موقع پر یاد کیا ۔بیدل مرادآبادی کے کلام کی الگ ہی سج دھج تھی ۔لکھنو میں بھی وہ مرادآباد کو نہیں بھولتے تھے ۔قوافی کے استعمال میں کبھی کبھی ظفر اقبال کے قریب پہنچ جاتے تھے جبکہ ان کی غزلوں کے اشعار کی تعداد قدیم شعرا ئے لکھنؤکی یاد دلاتی تھی ۔احسن اعظمی کااپنے استاد کے تئیں احترام اور عقیدت کا تعلق دیدنی تھا ۔احسن اعظی شعر وادب کی جس روایت کے پاس دار تھے اور جن رویوں کو انھو ںنے اعظم گڑھ میں دیکھا تھا اس میں اساتذہ کے تئیں احترام و عقیدت کا جذبہ بھی شامل تھا اور اسی لیے وہ اپنے استادکا حد درجہ احترام کرتے تھے ۔حالانکہ یہ بہت سامنے کی بات ہے کہ اب لوگ بے استادہ ہونے کا ذکر فخر سے کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف چند غزلیں کہہ کر استاد کو آنکھ دکھانے والے بھی کم نہیں ہیں ۔اس تناظر میں جب جب میں نے احسن اعظمی کو دیکھا ان کی عزت اور عظمت میرے دل میں بڑھتی ہی چلی گئی ۔
احسن اعظمی نے غزلیں بھی کہیں اور حمد ونعت کے علاوہ منقبت کے اشعار بھی ۔ان کی شاعری محبت و عقیدت کا مظہر بھی ہے اور آلام ومصائب کا اظہار بھی ۔زندگی کے مختلف رنگوں کے اظہار میں یہ ضروری نہیں کہ ان کا بیانیہ بہت توانا ہو مگر انھوں نے شاعری اور فن شاعری کے لیے اپنے تئیں کوشش میں کوئی کمی نہیں رکھی ۔گذشتہ چند برسوں کے دوران لکھنؤ کی مختلف ادبی انجمنوں اور ان کے تحت ہونے والے طرحی مشاعروںمیں ان کی سرگرم شرکت رہی ہے ۔فن کاری اور صناعی سے لوگوں کو متحیر بھی کیا ۔موجودہ شعری منظرنامے میں وہ لوگ جوطرحی نشستوںکی اہمیت اور افادیت کے قائل رہے ہیں اور اپنی سرگرم شرکت سے اس کا ثبوت بھی فراہم کرتے تھے احسن اعظمی ان میں سے ایک تھے ان کا جانا صرف ایک شاعر کا جانا نہیں ہے بلکہ لکھنو کے موجودہ شعری حلقوں کا ایک بڑا خلا ہے ۔یہاں برپا ہونے والی نعتیہ نشستوں میں بھی انھیں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ سرکار دوعالم سے ان کی وارفتگی اور عقیدت ومحبت ان کے دلی جذبات کی آئینہ دار تھی ۔
نعت گوئی ہے فقط حبّ نبی کا اظہار
میں نے کب چاہا کہ اس سے مری شہرت ہوجائے
ان کی نعتوں میں عقیدت ومحبت اور سرشاری کی کیفیت ہی نہیں ملتی بلکہ ان کی نعتوں میں ایک زیریں لہر ختم نبوت کی بھی ہے ۔وہ شعرا جنھوں نے اپنی نعتوں کے ذریعہ عقیدہ رسالت کی خلاف اٹھنے والی آوازوں کا تعاقب اور بیخ کنی کی ہے احسن اعظمی کے بعض اشعار اس جانب واضح اشارہ کرتے ہیں ۔لکھنؤ کے نعت گو شعرا کی طرح احسن اعظمی کی نعتوں میں منقبت کے اشعار بھی شامل ہوتے تھے ۔سرکار مدینہ کے ساتھ ساتھ ان کے جاں نثار صحابہ کا ذکر بھی وہ اسی والہانہ انداز میں کرتے تھے جیسا کہ ان کا حق تھا ۔
فن اور فنی اظہار کے تئیںاحسن اعظمی کی سنجیدگی اور توجہ قابل قدرکہی جائے گی ۔انھوں نے زندگی کی دوسری سرگرمیوں کے ساتھ شاعری سے اپنے لگاؤاور تعلق کوبطور خاص شامل رکھا اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ دیگرتقاریب کی طرح دیوان اور مجموعوں کی اشاعت کے موقع پر بھی تقریب کا خاص اہتمام کرتے تھے ۔نعتیہ دیوان کے موقع پر مجھے بھی ان کی نعتوں کے حوالے سے کچھ کہنے کا موقع ملا تھا ۔میں نے اسے ایک مضمون کی شکل دے دی تھی ۔اسی برس فروری میں اسے مزید بہتر کرکے ایک ادبی رسالہ کو بھیج دیا تھا ۔خیال تھا کہ احسن اعظمی کی نعتیہ شاعری کا تعارف ہوجائے گا ۔کچھ دنوں بعد رسالہ سے فون آتا ہے کہ چونکہ وہ زندہ ہیں اس لیے اپنی پالیسی کے مطابق ہم اسے نہیں شائع کرسکیں گے ۔اب میں ان سے کس طرح کہوں کہ چونکہ احسن اعظمی اب نہیں رہے اس لیے آپ میرا وہ مضمون شائع کردیں ۔ احسن اعظمی اب ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن ان کی باتیں ،یادیں اور ان کا کلام ہمیں ان کی یاد دلاتا رہے گا ۔
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی ۔لکھنؤ کیمپس
8004050865

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular