آہ غوّاص بحور معرفت سرکار بحر العلوم حجت الاسلام والمسلمین سید علی عابد رضوی کراروی -Ah Ghwaas Bahur Ma’rafat Sarkar Bahr-ul-Uloom Hujjat-ul-Islam Wal-Muslimeen Syed Ali Abid Rizvi Kararvi

0
213

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

Ah Ghwaas Bahur Ma'rafat Sarkar Bahr-ul-Uloom Hujjat-ul-Islam Wal-Muslimeen Syed Ali Abid Rizvi Kararvi
عامر الرضوی دریاآبادی

خدا کا شکر ہے اب غیر بھی ہیں معترف اس کے
زمین ہند پر ہیں کیسے کیسے آسماں گزرے
(حقیر)
ہندوستان جو غیرت زمین و مکان ہے جسکے ذرات روئے انجمن کہکشاں کے لیے صندل سمجھے جاتے ہیں جس نے اپنی کوکھ سے نکلنے والے سنگ ریزوں کو اس شان سے تراشہ کہ وہ آج بھی خاتم فکر و خیال کے لیے در کمیاب و بے مثال کی حیثیت رکھتے ہیں جو زمانہ قدیم سے ہی اوراق عالم پر سنہرے لفظوں سے لکھی عبارات کو اپنے ورق دل پر سجائے ہوئے ہیں
تاریخ پر تنویر کشور پر فیضان ہندوستان پر مختصر تحریر کرنا بھی جلدوں کی متقاضی ہے جس پر کام تو بہت ہوا مگر ایسا نہ ہوسکا جو اسکا حق تھا
کچھ علم دوست اور ادب پسند صاحبان قلم اس جانب بھی قلم فرسائی میں مشغول ہیں جو کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا جو اب ہورہا ہے خدا کا شکر ہے
(خدا ان سبکی توفیقات میں مزید اضافہ کرے )
یوں تو پورا خطہء ہند ہی لائق تمجید و لازم ستائش ہے مگر سر دست آج جہاں کا ذکر مطلوب و مقصود ہے اسکو شہر الہ آباد کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے
یہ وہ شہر ہے جسکی عظمت اسکے نام سے ہی ظاہر ہے یہ شہر اپنی دیرینہ شان و شوکت، قدیمی رکھ رکھاو ، دور رسی و دور بینی ،تمدن و ثقافت کے اعتبار سے مشہور خلائق ہے
جو زمین ہند یعنی آسمان تہذیب کے دامن پر مانند نیر اعظم درخشندہ ہے
جسکے دامن غیرت پر غریبی کے پیوند تو نظر آئیں گے مگر نااھلی ،خودغرضی ، وطن دشمنی، نفس کشی، دین و ضمیر فروشی جیسے کسی بھی کار مذموم کے دھبے تلاش کرنے سے چشم ناقدین قاصر ہے یہ شہر ہمیشہ سے سرفرازی ،بلند پروازی ،یکجہتی، وطن پروری و کشور پرستی کے موتی و مونگے لٹارہا ہے
غرض یہ وہ شہر ہے جسکو فراموش کرکے ہندوستان کی تاریخ لکھنا تاریخ کے حقائق کی حق تلفی ہے
اس شہر کے باشندوں نے جہاں سیاسیات میں گہرے نقوش چھوڑے ہیں وہیں مذہب اور وطن کی ترقی کے لیے بھی ہمہ وقت پیش قدمی کا زبردست مظاہرہ کیا ہے
وہ اور بات ہے کہ
مشہور کچھ ہی ہوسکے اللہ والے لوگ
ورنہ بہت سے دفن کتابوں میں رہ گئے
(حقیر )
مگر یہ وعدہ الہیہ ہے کہ وہ لوگ کبھی زمین کے دامن میں خاک گمنامی کی چادر اوڑھ کر سو نہیں سکتے جو فی سبیل اللہ اور رضایت و رضوان الہی کے لیے اپنی ہر سانس کی آمد و رفت کو وقف کر چکے ہوں کبھی نہ کبھی کوئی ایسا مطلع عالم پر طالع ہوتا ہے جو خصوصیات آفتاب کو بیان کرکے تاریخ کے ساتھ احسان کرتا ہے
اور یہ بتا دیتا ہے کہ آفتاب کو ستاروں کے سہارے سے متعرف نہیں کرایا جاتا بلکہ آفتاب خود اپنا مسّلم وجود رکھتا ہے تاروں کو اسکی ضرورت ہے وہ محتاج ستارگان نہیں ہے
اس شہر کی گود کے پالوں نے ایسی ایسی خدمتیں انجام دی ہیں جنکے فضل و کمال ،کردار و سیرت، فضیلت و ذکاوت بلندی و متانت ،حق گوئی و لطافت کا چرچا نہ کہ یہ صرف ہندوستان کی سرحدوں تک محدود ہو بلکہ پوری دنیا میں اس شہر کے فرزندان کے مداح نظر آتے ہیں
کیسی کیسی بلند پایہ شخصیات اس شہر نے پروان چڑھا کر دنیا کے سپرد کیں جنمیں
قبلہ و کعبہ عالیجناب مولانا سید محمود علی رضوی ،قبلہ و کعبہ آیت اللہ سید منور علی رضوی، قبلہ و کعبہ حجت الاسلام سید الشعراء حافظ علامہ سید علی رضوی صغیر سونوی ،مرجع تقلید عارف کامل اعلم العلماء حضرت آیت اللہ العظمی سید امجد حسین رضوی ،نابغہ روزگار فقیہ و مجتہد جلیل ،حافظ آیت اللہ ڈاکٹر سید جعفر حسین رضوی فدوی ایڈوکیٹ(جو کے پہلے مسلم اور چوتھے ہندوستانی تھے جنھوں نے لندن کی مشہور یونیورسٹی سے ڈی لٹ کیا تھا) قبلہ و کعبہ مولانا سید حامد حسین رضوی، حضرت آیت اللہ سید حیدر عباس رضوی، قبلہ و کعبہ حافظ مولانا سید ہادی حسین رضوی، قبلہ و کعبہ سید محمد جواد رضوی ،قبلہ و کعبہ مولانا سید علی ضامن رضوی ،قبلہ و کعبہ مولانا سید محمد ضامن رضوی (کاتب الفتاوی سرکار اعلم العلماء علیہ الرحمہ ) قبلہ و کعبہ مولانا سید علی محمد رضوی عالی ، قبلہ و کعبہ مولانا سید ابن حسن رضوی ،قبلہ و کعبہ مولانا سید احمد عباس رضوی ،قبلہ و کعبہ مولانا سید احمد علی رضوی ،قبلہ و کعبہ مناظر بے مثال علامہ زاہد حسین خان، مترجم قرآن علامہ سید ذیشان حیدر جوادی، مولانا سید عابد حسین رضوی نور اللہ مرقدہم کا نام سر فہرست نظر آتا ہے ان کے علاوہ بہت سے ایسے صاحبان علم و تقوی کفن پوش ہوگئے جنکے بارے میں معلومات فراہم کرنے والے بھی یا تو راہی جنت ہوئے یا بتانے سے عاجز ہیں صرف پدم شاہ بود کے نعرے بلند کرتے ہیں
اسی سلسلہ افتخار اور دفتر تعلیم و تعلم ، مکتب فکر و نظر ،دبستان علم و معرفت ،چمنستان فضل و کمال کی ایک نمایاں اور واجب التعظیم کڑی کا نام نامی اسم گرامی عمدتہ المتکلمین، رئیس المتفکرین ،عماد الدین ، محقق بصیر ، عاشق ابنائے نبی بحر العلوم حجت الاسلام والمسلمین مولانا سید علی عابد رضوی کراروی نور اللہ مرقدہ الشریف کا ہے جنھوں نے اپنی پوری زندگی تبلیغ و اشاعت مذہب جعفریہ میں گزار دی
انتہا یہ ہے کہ اس مسافر الی اللہ کو وطن کی خاک بھی نصیب نہ ہوسکی

خدا گواہ ہے کہ بعض شخص نہیں شخصیت ایسی ہوتی ہیں جو پہلی نظر میں ہی اپنی ہئیت علمی وجاہت معنوی کی مقناطیسیت سے دامن اذہان کے ساتھ ساتھ چشم دل کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں انھیں میں سے ایک تھے مولاناسید علی عابد رضوی مرحوم آپکی
*پیدائش* ۔۔ ۲۲ جنوری ۱۹۲۹ عیسوی مطابق ۲۲ رجب ۱۳۴۷ ہجری میں کراری میں واقع برگت تلے والے مکان میں ہوئی
والد
۔ دیندار و متشرع عالیجناب مولانا سید علی محمد رضوی عالی صاحب طاب ثراہ تھے جو کہ کراری کے پرائمری اسکول میں استاد تھے مرحوم حلقہ خاص و عام میں انتہائی احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے تھے انکا انتقال اس وقت ہوا جب کہ سرکار بحر العلوم صرف ایک سال کے تھے کمسنی میں والد کی انتقال کے بعد والدہ ماجدہ زوار فاطمہ اور بڑے ابّا نے تعلیم و تربیت و پرورش کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائی
*جد بزرگوار* ۔
عالیجناب مولانا سید علی ضامن رضوی طاب ثراہ
(فرزند سعید جناب مولوی سید حامد حسین رضوی مرحوم)
ابتدائی تعلیم
۔۵ یا ۶ برس کی عمر میں گاوں کی ایک محترمہ سے قرآن مجید کی تعلیم سے تربیت روحانی کا آغاز کیا ساتھ ہی ساتھ چھپرا باغ کراری میں درجہ چہارم تک تعلیم حاصل کی
*سفر شہر لکھنو اور جامعہ ناظمیہ میں داخلہ* ۔
ابھی آپ صرف ۱۱ برس ہی کے تھے کہ مزید سیرابی علوم آل محمد علیھم السلام کے لیے مرکز فقہ و فقاہت اور چشمہ علم و ادب لکھنو میں موجود جامعہ ناظمیہ میں ۱ دسمبر ۱۹۴۰ عیسوی میں داخلہ لیا
مرکز علوم لکھنو میں اساتذہ اعلام
مولانا سید محمد مہدی زنگی پوری ،مولانا سید رسول احمد گوپالپوری ،سرکار مفتی اعظم سید احمد علی ،سید کاظم حسین ،سید خورشید حسن امروہوی وغیرہ
عقد مسعود
آپکا عقد اکتوبر ۱۹۵۱ مطابق ۱۸ ذی الحجہ ۱۳۷۰ ہجری کو آپکی حقیقی چچا اور مربی ، عالم و فاضل جناب مولانا سید محمد جواد رضوی کراروی صاحب قبلہ کی دختر نیک اختر سیدہ کنیز فاطمہ سے ہوا
سفر شہر نجف اشرف
اس عالم جلیل کے دل میں جس وقت مزید حصول علم کا شوق پیدا تو یہ ۱۹۵۴ ہجری میں والدہ ماجدہ ،اہلیہ مرحومہ اور بڑے فرزند مولوی ظفر حسن صاحب کے ساتھ نجف اشرف کے لیے نکل پڑے
میرے جدمرحوم سے نجف اشرف میں ملاقات
میرے جد زائر حرمین سید حامد حسین رضوی طاب ثراہ جب دوسری یا تیسری مرتبہ زیارت سے مشرف ہوئے تو اس وقت بزرگ خاندان راقم علامہ روزگار آیت اللہ ڈاکٹر سید جعفر حسین رضوی نور اللہ مرقدہ الشریف نجف اشرف میں موجود تھے جنکا شریعت کدہ صاحبان جستجو کا مرکز ہوا کرتا تھا اس دوران جب سرکار بحر العلوم کو معلوم ہوا کہ جو زائرین آئے ہوئے ہیں ان میں سونی کے حامد صاحب اور انکی اہلیہ ہیں تو وہ فوراً ملاقات کو آئے اور جد مرحوم اور جدہ مرحومہ کو اپنے گھر مدعو کیا اس ذیل میں دادا نے اپنی سر نوشت میں لکھا ہے کہ مولانا عابد کراری نے کافی خاطر کی اس کے بعد جب میں آخری مرتبہ زیارت پر گیا تو ذیشان حیدر سلمہ نے کافی خیال رکھا اور اپنے ساتھ کھانے پر بھی مدعو کیا تھا
اساتذہ نجف اشرف
جب ہندوستان کے یہ در یگانہ نجف اشرف مین موجود نازش انبیائے ماسلف شہنشاہ دوجہاں مشہور بہ شاہ نجف کی چوکھٹ پر پہنچا تو گویا مرید دیرینہ کو مراد فکری حاصل ہوگئی ہو
اس وقت نجف اشرف مجتہدین و فقہاء سے چھلک رہا تھا آپ نے حضرات آیات عظام سید محسن الحکیم ،سید ابوالقاسم الخوئی و دیگر جلیل القدر مجتہدین کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا ان باکمال اساتذہ نے اس شان سے تراشہ کے ہر جہت سے ضو دینے لگے
وطن عزیز واپسی
۱۹۶۱ میں علوم محمد و آل محمد علیھم السلام حاصل کرنے کے بعد فکر نشر و اشاعت افکار ولایہ پیدا ہوئی تو ہندوستان پلٹ آئے اور یہاں پہنچ کر ہر تقریباً ہر اس علاقہ کا سفر کیا جہاں ضرورت اجرائے احکامات شریعہ کا احساس کیا
تنزانیا کا سفر
۱۹۶۱ سے لیکر ۱۹۶۴ تک تنزانیا میں عالم دین اور رہنمائے مذہب کی حیثیت سے کار دین کو بحسن و خوبی انجام دیتے رہے
والدہ کا انتقال
ایک برس کی عمر میں والد کے دست شفقت سے محروم ہونے والے یتیم کے لیے اب اسکی ماں تنہا ماں ہی نہیں بلکہ تربیت و پرورش میں ماں باپ دونوں تھیں اس بات کا احساس ہر اس شخص کو ہوسکتا ہے جسکے دل میں احساس زندہ ہوگا جولائی ۱۹۶۶ میں آپکی والدہ کا جب انتقال ہوا تو آپکو کافی صدمہ پہنچا
مدرسہ کا قیام
اس عالم جلیل نے جب اس بات کا احساس کیا کے مومنین نوروبیا کی علمی و اخلاقی پیاس بجھانے کے لیے اب کسی مدرسہ کی انتہائی ضرورت ہے تو آپ نے ۱۹۸۳ میں ایک مدرسہ بنام مدرسہ اسلامیہ حسینیہ کی بنیاد ڈالی مگر افسوس کہ حالات نے زیادہ ساتھ نہ دیا اور یہ مدرسہ ۱۹۹۷ عیسوی سے زیادہ نہ چل سکا
مدرسہ کے نام سے ہی واضح ہے کہ مرحوم کو سرکار سید الشہدا علیہ السلام سے کتنی محبت تھی
انگلینڈ کا سفر
جب اس روحانی باغبان کی محنتوں کی دنیا اجڑگئی تو یہ ۱۹۹۷ کو نوروبیا سے انگلینڈ چلے گئے
سفر حج و زیارت بیت اللہ
ہر مسلمان اور مومن کے دل کی تمنا ہوتی ہے کہ وہ دیدار خانہ خدا اور زیارت زچہ خانہ نفس خدا سے اپنی آنکھوں کو جلا بخشے اس غرض سے موصوف ممدوح نے پہلا سفر حج ۱۹۶۴ میں ادا کیا اس کے بعد توفیقات الہی شامل ہوتی گئیں جسکے نتیجے میں کم و بیش ۲۵ مرتبہ اس فیض خاص سے مستفید ہوتے رہے
مدارج علمیہ
فارسی دبیر ماہر لکھنو یونیورسٹی ۱۹۴۶
دبیر کامل لکھنو یونیورسٹی ۱۹۴۷
عالم لکھنو یونیورسٹی ۱۹۴۸
فاضل تفسیر لکھنو یونیورسٹی ۱۹۴۹
عالم ناظمیہ عربی کالج ۱۹۵۰
تفسیر شیعہ کالج ۱۹۵۱
فاضل ناظمیہ عربی کالج ۱۹۵۳
فاضل ادب لکھنو ۱۰۵۳
۲۰۰۰ عیسوی اور سرکار بحر العلوم
یوں تو ہر انسان کے لیے ہر ایک غم ناقابل برداشت ہوتا ہے مگر اسکو انسان دھیرے دھیرے بھول جاتا ہے لاکھ گہرہ زخم ہو ایک دن مندمل ہوہی جاتا ہے مگر سرکار مرحوم کے لیے ۲۰۰۰ عیسوی کے ۱۵ اپریل کا غم ایسا غم رہا جسکو نہ تو وہ کھل کر کسی سے بتاسکے اور نہ ہی برداشت کرسکے یہ غم وہ غم تھا جب انھوں نے لندن کی غربتانہ زندگی میں خبر سنی جسکا شاید انھوں نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا یہ وہ خبر تھی جو اصل میں پوری ملت کا غم تھا مگر انکے لیے اس لیے زیادہ گہرا ثابت ہوا کہ انھوں نے اس آفتاب علم کو اپنی گود میں کھیلایا تھا یہ سنانی تھی عالم جلیل حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید ذیشان حیدر جوادی کلیم الہ آبادی کی جو موصوف سے دس برس چھوٹے ،حقیقی چچا کے نور نظر ،گود کے پالے ،مہربان بھائی کی جس نے انکے تمام تر وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا بزرگوں کے بقول شرکائے تشیع جنازہ علامہ میں بیرون ممالک سے آنے والوں میں سب سے پہلی ذات سرکار بحر العلوم کی تھی جو فوراً یہ خبر سن کر وہاں سے دوڑ پڑے تھے
مولانا موصوف کو علامہ جوادی جیسے عظیم اور چھوٹے بھائی کا غم کتنا تھا اس بات کا اندازہ وہی لگا سکتا ہے جسکی آغوش تربیت میں ایسا نابغہ زمان شخص پروان چڑھا ہو
لوگ بتاتے ہیں کہ علامہ کے انتقال کے بعد مرحوم مستقل طور پر صندلی چرخدار یعنی( wheelchair) پر آگئے تھے یقیناً جسکا ایسا بھائی ہوتا ہے اسکی کمر اس بھائی کے انتقال سے ٹوٹ جاتی ہے
راقم الحروف سے مرحوم کی پہلی ملاقات
۲۱ اکتوبر ۲۰۰۵ عیسوی مطابق ۱۴ جمادی الثانی ۱۴۲۶ ھجری میں جب آپکی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا تو آپ اسی شب لندن سے الہ آباد پہنچ گئے تھے سوئم کی مجلس میں راقم کم سنی کے باجود والد صاحب کے ہمراہ شرکت کے لیے روانا ہوا اس وقت ابّا مولانا مرحوم کے پاس مجھے لیکر گئے اور مجھکو انکی دست بوسی کا شرف عطا کرایا
کیا عظیم اور پر افتخار ملاقات تھی جسکو فراموش نہیں کرسکتا
راقم کی موصوف سے آخری ملاقات
۲۰۱۱ یا ۱۲ کی بات ہے جب میں ہندوستان کی مشہور و معروف دینی درسگار میں تعلیم حاصل کررہا تھا اسی دوران جب علامہ جوادی علیہ الرحمہ کی مجلس برسی کا موقع آیا تو مولانا مرحوم صندلی چرخ دار پر بیٹھکر تشریف لائے تھے اور مجھے انکی نعلین سیدھی کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا
یہ میرے لیے فخر کہ بات ہے کہ دوسری ملاقات کے لیے جب میں آگے بڑھا تو فوراً مولانا موصوف پہچان گئے
اور فوراً فرمایا صابر میاں کے فرزند ہیں
آپکا اخلاق ۔
انسان کی قدر و منزلت اسکے حسن اخلاق اور بلندی کردار کی مرہون منت ہوتی ہے عالم باعمل خود بھی منارہ ہدایت انسانی شمار ہوتا ہے اور دوسروں کی ہدایت کے راستے بھی ہموار کرتا ہے مولانا مرحوم صاحب کمال واقعی اور عالم حقیقی ہونے کے باوجود کبر و نخوت جیسی گندگیوں سے کوسوں دور رہے انتہائی سادہ اور اخلاق اسلامی کے پیکر میں ڈھلی ہوئی باوقار زندگی بسر کرتے رہے جو حلقہ آپکو جانتا ہے وہ آپکے علم کی بلندیوں کے ساتھ ساتھ آپکے کمال اخلاق کا بھی قائل ہے
ہم درس علماء اعلام
علامہ سید محمد شاکر ،آیت اللہ سید کاظم نقوی ،مولانا ناصر عباس مظفر نگری ،مولانا حسین اصغر جلالوی ،مولانا علی احمد سہارنپوری ،مولانا نصیر حسین لکھنوی معروف بہ نصیر اجتہادی
پرکشش ذات والا صفات
مولانا کے وجود کو پرودگار عالم نے بلا کی کشش اور جاذبیت سے سرفراز فرمایا تھا جو ایک بار ملاقات کرلیتا وہ مزید زیارت کا خواہشمند نظر آتا اور ہمیشہ سادگی ،فروتنی ،تواضع ،انکساری کا ذکر کرتا
خطیب منبر سلونی حضرت امیر سلام اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ
لَيْسَ الجَمَال بأَثْوابٍ تُزَيِّنُنَا
إن الجمال جمال العلم والأدب
مرحوم کی زندگی اس شعر پر نور حضرت کا نمونہ تھی وہ رخت شہانہ کے ذریعہ حیات کو مزین بنانے کے قائل ہی نہ تھے بلکہ جمال علم و ادب انکو باوقار بنائے ہوا تھا
وہ مادی دنیا کی جانب کبھی متوجہ ہی نہ ہوئے زندگی بھر دنیاوی آرائش و زیبائش سے بے تعلق رہے جہاں رہے سر بلند رہے
اسی لیے ویسی شہرت حاصل نہ کرسکے جیسی ملنی چاہیے اسکی شاید وجہ یہ ہے کہ سکّوں کی گونج پر دوڑنے کو شان عالم ربانی سے بعید سمجھتے تھے ۔
آپکے عزتر ترین دوستان
ارسطوئے ہند علامہ سید محمد شاکر نقوی و حضرت آیت اللہ سید کاظم نقوی مرحوم
وفات حسرت آیات
افسوس کہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں چراغ معرفت علوم آل محمد سلام اللہ علیھم روشن کرنے والے مہاجر الی اللہ آخر کار بھرا پھولا کنبہ اور ملت جعفریہ کو سوگوار کرکے ۲۳ جون ۲۰۲۱ عیسوی مطابق ۱۲ ذیقعد ۱۴۴۲
کو لندن میں طویل علالت کے بعد لقائے الہی سے ملحق ہوگئے نماز جنازہ آپکے خلف الصدق حجت الاسلام والمسلمین مولانا سید منتصر مہدی معروف بہ محسن رضوی دامت برکاتہ نے ادا کرائی اور کراری کی عظمتوں کے آفتاب کو لندن کے گوشہ قبر میں چھپا دیا
ضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here