تمام دانشوران اس بات سے متفق ضرور ہوں گے کہ کسی بھی سیاسی فورم پر ہمارے کسی بھی علماء کو جانے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ ان کی شخصیت انفرادی نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کی نمائندگی کرتی ہے ہم ان کے ہاتھوں کے بوسے لیتے ہیں ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں ان کی عزت کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ ان کی عزت و وقار میں کبھی کسی طرح کا کوئی رخنہ نہ آئے۔ ایک انٹرنیشنل چینل کے ’’آپ کی عدالت‘‘ جیسے بیحد مقبول پروگرام میں وہاں موجودایک ناظر نے جب مولانا مدنی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جھوٹ مت بولئے رجت شرما جی کے پاس ریکارڈنگ موجود ہے آپ نے اسی چینل پر یہ کہا تھا (جس کا وہ انکار کررہے تھے) اس طریقہ سے جمعیۃ العلماء ہند کے سکریٹری مولانا مدنی جیسی اعلیٰ مرتبت شخصیت کو بھری محفل میں انٹرنیشنل چینل کے ’’آپ کی عدالت‘‘ جیسے مقبول پروگرام میں جھوٹا کہا جانا نہ صرف جمعیۃ العلماء کے لوگوں کے لئے شرم سے ڈوب مرنے کی بات ہے بلکہ پوری اُمت مسلمہ کے لئے بھی بیحد شرمناک ہے کہ سرعام کوئی ہمارے علماء کی اس طرح توہین کرے۔ اسی لئے سمجھدار علماء سیاسی فورم پر جانے سے اپنے کو بچاتے ہیں اور بچانا بھی چاہئے کیونکہ نہ صرف ایسی توہین کا خطرہ رہتا ہے بلکہ طرح طرح کی ذاتی مفاد کے الزام بھی آسانی سے عائد ہوتے رہتے ہیں۔
پہلے ہی دن مودی جی کا اقلیتوں کا یقین جیتنے کی خواہش کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ بالکل صحیح ہے کہ گذشتہ پانچ سال میں اُجولہ، پردھان منتری آواس یوجنا، آیوشمان جیسی تمام اسکیموں کا فائدہ اقلیتوں کو بھی ملا، وہیں اقلیتی ترقی کیلئے جو بھی بجٹ تھا اس میں کسی طرح کی کوئی کٹوتی نہیں کی گئی، اس بار بھی حج پر جانے والوں کی تعداد میں کیے گئے اضافے تاریخی ہیں لیکن یہ واضح کرنا چاہئے کہ مودی جی نے اقلیتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی بات کی ہے ناکہ مسلمانوں کا۔ اقلیت میں سب سے خوشحال جین برادری بھی ہے اور ہمارے سکھ بھائی بھی ہیں لیکن گری راج، ساکشی مہاراج، پرگیہ ٹھاکر جیسے لوگوں کی مقبولیت مسلموں کے متعلق ہے ناکہ اقلیتوں کے، دادری کے اخلاق کا مسئلہ ہو یا گائے کا، وندے ماترم کا ہو یا پاکستان کا، یہ سارے مسائل مسلمانوں سے متعلق ہیں اقلیتوں سے نہیں۔ اسی لئے مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے والوں کی زبان درازی میں کبھی کوئی کمی نہیں آئی اور کیوں آئے جب ان کے رُتبے میں ہر روز اضافہ ہورہا ہے ایسے میں یہ کہنا کہاں تک صحیح ہے کہ کانگریس، بی ایس پی اور سماج وادی پارٹی بی جے پی سے ڈراکر ان کا ووٹ حاصل کرتی ہیں جبکہ بی جے پی سے سب سے زیادہ خوفزدہ مودی جی اور امت شاہ کے ان کے اپنے ہی گری راج، ساکشی مہاراج، پرگیہ ٹھاکر جیسے لوگ کرتے ہیں، اگر مودی جی واقعی چاہتے ہیں کہ مسلمان بھی ان پر بھروسہ کریں تو ان کو سب سے پہلے ان کی زبان بند کرانی ہوگی اور جو حادثے پورے ملک میں مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کیلئے کئے جاتے ہیں ان کو بند کرانا ہوگا تاکہ ایک اپنے ہی کہے جانے والے چینل پر اپنے ہی ترجمان ظفر سریش والا اپنے ہی وزیر مختار عباس نقوی، اپنے ہی پہلے سے ہی پیروکار مولانا مدنی اور اپنے لئے ہی پہلے سے دعاگو جج مولانا کلب جواد سے اپنی کوئی واہ واہی کراکر مسلمانوں کو قریب لانے کی کوشش کی جائے۔ مسلمان تو بہت بھولا ہے آپ اس کی طرف ایک قدم محبت سے بڑھائیں گے وہ آپ کی طرف دوڑا چلا آئے گا اس کی جیتی جاگتی مثال اترپردیش کے گورنر جناب رام نائک ہیں جنہوں نے اپنے چھوٹی سی مدتِ کار میں دوسری زبان کی ریاست میں بھی اپنے اعلیٰ کردار سے سب کو اپنا بنا لیا۔
مولانا مدنی آپ جھوٹ مت بولئے! مجرم بھی آپ، وکیل بھی آپ اور منصف بھی آپ، ایسے میں کیسے ہوگا ’وشواس‘؟
Also read