اردو نا ول کے آغا ز میں دبستان عظیم آبا د کا حصہ ایک عظیم تحقیقی کارمامہ

0
574

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


 

تخلیق کار: ڈاکٹرمحمدارمان

صو بہ بہار کا عظیم آبا د اردو ادب کے مشہو ر و معر و ف ادبا ء شعر اء وقد ین اور محقیقن کا مسکن رہا ہے ۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر اشر ف جہا ں، صد رشعبہ اردوپٹنہ یو نیو ر سٹی کی تحقیقی کتا ب اردو نا ول کے آغا ز میں دبستا ن عظیم آبا د کا حصہ ‘‘ ایک اہم سے تصنیف ہے صو بہ بہا ر میں اردو نا ول پر تحقیق کر نے والے اسکا لر وں کیلئے یہ مثعل راہ ہے کتا ب کا انتسا ب ’’ قاری کے نا م ‘‘ ہے اور اللہ کے نا م سے کتاب کا آغا ز کیا گیا ہے،حرف آغا ز میں مصنفہ نے اردونا ول ہر انگر یز ی نا ولو ں کا اثر پر روشنی ڈالی ہے۔ لیکن اسکی تفصیل میں نہ جا کر ار دو نا ول میں تعلیم نسواں کا مو ضو ع پر بحث کی ہے جسکی مثال میں ڈپٹی نذیر احمد کے نا ول مرآۃ العر وس کو پیش کیا ہے ۔ اور اس نا ول کے زیر اثر بہا ر میں تعلیم نسواں پر لکھنے والی واحدخا تو ن افسانہ نگا ر عظیم آبا دی رشید انسا ء ہے ۔ جنھو ں نے اصلا ح انسباء لکھ کر ثا بت کر دیا کہ عو رتیں بھی چا ہیں توتعلیمی میدا ن میں اپنی صلا حیت کا لو ہا منواسکتی ہیں ۔ یہ نا ول رشید انسا ء نے ایسے وقت میں لکھا جب عو رتو ں کا لکھنا پڑ ھنا جر م سمجھا جاتا تھا ۔ مصنفہ نے یہ بتا نے کی کو شش کی ہے کہ تعلیم نسواں کے سا تھ تر بیت نسواں کی بھی ضر ورت ہے۔ اور یہ انجا م دیا ہے کہ آج عا لمی سما ج کو بھی مشرقی تہذیب کی ضر ورت ہے ۔

یہ بھی پڑھیں

ابوذر جونپوری کے نعتیہ مجموعہ” منزل منزل سایہ” کا جائزہ

کتا ب کے البواب ہیں پہلا با ب حر ف آغا ز ہے دو سرے با ب میں اردو نا ول کے آغا ز کے تعلق سے مختصر تحر یر کرکے دبستان عظیم آبا دتک کے متعلق بحث کی ہے اور یہ بتا نے کی کو شش کی ہے کہ حضر ت شر ف الد ین یحی منیری رحمتہ اللہ علیہ جیسے بزرگو ں سے کیلر شا د عظیم آبادی تک عظیم آبا د میں اردو زبا ن کی تر قی ہو بہت ہی مختصر میں اپنی بات کہتی ہیں آتا انکی خا ص الفرادیث ہے انہو نے اپنی کتا ب میں ایک اہم با ت کہی ہے ۔ کہتی ہی فن نا ول نگا ر کا آغا ز ہی تعلیم نسو اں سے ہے کیو نکہ ڈپٹی نذیر احمد کے دونو ں نا ول مر آۃ المروس اور بنا ت حسن کا مو ضو ع تعلیم نسو اں ہے ۔ لکھتی ہیں ، نذیر احمد کے اس نظر یہ پرسب سے پہلے عظیم آبا د میں ہی نا ول لکھا گیا یعنی شا د عظیم آبا د ی کا ناول صو رۃ الخیا ل ۱۸۷۶عر میں شا ئع ہو ا بد ھا وا ۱۸۸۹عر میں اور اصلا ح انسا ء ۱۸۹۴عر میں کے شا عع ہو ا ۔ اسکے علا وہ بھی بہت سے نا ول ہی مشلا منشی جسن علی او ر منشی اعظم کا نا ول ’’ نقش طا ؤس ۸۸۸عر میں شائع ہو ا ۔

فسا نہ خو ر شیدی مو لو ی افضل الد ین کا مشہو ر نا ول ۱۸۸۶ عر میں شا ئع ہوا اسکے علا وہ بھی بہت سے نا ول ہیں جودینو یں صد ی میں عظیم آبا د میں لکھے گئے ۔ مصنفہ کا اصل مو ضو ع شاہ عظیم آبا دی کا نا ول صو رۃ الخیا ل اور سید ہ رشید النسا ء کا نا ول اصلا ح انسا ء ہے تیسر ے با ب میں شا د عظیم آبا دی کا نا ول صو رۃ الخیا ل ‘‘ کا مطا لعہ کیا گیا ہے۔ صو رۃ الخیا ل کی مر کزی کر م ’’ ولد تی بیگم ہے ۔ لیکن ولد تی بیگم ولایتی ہے۔ ولا یتی بیگم اور اس کے والد ین کے درمیا ن مکا لمہ سے پتہ چلتا ہے کہ شا د عظیم آبا دی ڈپٹی نذیر احمد کے مر آۃ العر وس سے متا ثرہیں ۔

چو تھے با ب میں شا دعظیم آبا دی کے نا ول ’’ صو رۃالخیا ل کا جا ئز ہ ہے۔ اس میں مصنفہ نے بتلاتا ہے کہ صو رۃالخیا ل میں لڑ کیو ں کے تعلیم یا فتہ ہو نے سے کیافا ئد ہ ہو گا یہ ولا تی جیسے کر دا ر کے ذر یعہ سمجھا نے کی کو شش کی گئی صو رۃ الخیا ل کا یلا ٹ بنگلہ زبا ن کے مشہو ر نا ول لگا ر بنکم چند ر چٹر جی کے نا ول اند یراسے مثا بہت رکھتا ہے ۔دونو ں نا ول کی کہا نی ایک ہی ہے صرف نا م کا فر ق ہے اند یر ا کا قصہ دلچسپ اورپر کشش ہے جبکہ صو رۃ الخیا ل کے قصہ پر مقصد حا وی ہے مقصد وہی تعلیم نسو ان اورتر بیت نسو ان ہے ولا یتی ایک ہمت و ر عو رت کی کہا نی ہے مصنفہ نے عو رت کو احسا س کمتر ی سے آزاد کر انے کی کا میا ب کو شش ہے جو تعلیم کچھ پتلی ہی سے ممکن ہے ولا یہی اپنی داستا ن حیا ت خو د سنا ئی ہے مصنفہ نے ولا تی کے کر دار میں فنی خا می کو اجا گر کیا ہے اداسے نا ول نگا ر کے ہا تھ میں کئی تتلی تبا یا ہے ۔ وہ جذبا ت واحسا سا ت سے عا ری ہے وہ شو ہر سے ملنے کی تمنا کے بجا ئے اسے نصیحت کر تی ہے کہ عم حا صل کر و اور شہر عز ت کے سا تھ لو ٹو ۔ ان د یر ا ایک حقیقی کر دار ہے جو شو ہر کے فراق میں پڑدینی ہے اس طر ح سے ولا یتی ایک کمزور اورٹا ئپ کر دار ہے لیکن جس مقصد کی نما ئند گی یہ کر دا ر کر تا ہے وہ اپنی جگہ اہم ہے اور نسوائی کر داروں کیلئے راہ ہے شر ط یہ ہے کہ علم حا صل کر کے عو رتیں عقل کو بر وئے کا رلا ئیں یہی صو رۃالخیا ل کا مر کز ی مقصدجو ولایتی کے کر دا ر کے ذر یعہ مصنفہ نہا یت کا میا بی سے پیش کیا ہے ۔ مصنفہ کہتی ہیں صو رۃالخیا ل کی سانی اہمیت تا ریخی ہے شا د نے تصنع اور لکلف سے دور سہیل اور آسا ن زبا ن لکھی ہے ہر طبقے کی زبا ن اس نا ول میں محفو ظ ہے پا نچو اں اور چھٹا با ب بھی صو رۃالخیا ل کا مطا لعہ ہے ۔ جو اوپر کے طو ر میں بیا ن ہو ا .

سا تو یں با ب میں سید ہ رشید انسا ء کا تعا رف پیش کیا گیا ہے ادر یہ تبا یا گیا ہے کی سید ہ رشید انسا ء کا تعلق بہارکے اعلیٰ اور صا حب ثر و ت خا ند ان سے ہے لیکن ان کی تعلیم گھر پر ہوئی تھی لیکن وہ تعلیم نسو اں کی حامی تھی ۹ا۱۹۰ء میں انہو ں نے ایک زما نہ مد رسہ ’’ مد رسہ اسلا میہ قائم کیاجسے بعد میں با دشا ہ نو اب رضو ی نے بی این آرا سکو ل کا نا م دیااور اپنی جا ئیدا د اسکے اخر اجا ت کیلئے وقف کر دی ۔ مصنفہ نے یہ بتا یا ہے کہ ڈپٹی نذیر احمد نے جس اسکو ل کاخو اب بتا ۃالنعش میں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس اسکو ل کو رشید النسا ء نے بہا ر میں قا ئم کیا آٹھو اں با ب میں رشید انسا ء کے نا ول ’’ اصلا ح انسا ء کامطا لعہ پیش کیا گیا ہے مصنفہ لکھتی ہیں بہا ر کی ایک روشن خیا ل خا تو ن رشید النسا ء نے نا ول ’’ اصلا ح انسا ء ۱۸۸۱عر میں لکھا لیکن شا ئع ۱۸۹۴ عر میں ھو ا

عظیم آبا د کی سرزمین میں یہ خا تو ن نا ول انساء نگار کر ایسے وقت میں مسلم عو رتو ں کی اصلا ح کی نیت سے قلم اُٹھا ئی ہیں جب عو رت ذات کیلئے لکھتا تو دور پڑ ھنا ممکن نہیں تھا لیکن سید ہ رشید انسا ء نے غو ر و فکر کیا اور نا ول لکھ کر عو رتو ں کی جہا لت اور سما ج میں اسکے بر ے نتا یج کا ذبح کر کیا ۔ اسطر ح اصلا ح انسا ء انبیو یں صد ی کا ایک اہم نا ول ہے نا ول لگا رے دیبا حیہ میں اس نا ول لکھنے کی وجہ بیا ن کی ہے ۔

ایک کتا ب ایسی لکھیں جن میں ان رسمو ں کا بیا ن ہو جن کے با عث صد ہا گھر تبا ہ ہو گئے اور جو با عث فضو ل خر چے اور فسا د کے ہیں کے لحا ظ سے یہ نا ول بہت اہم ہے ۔ سید قیصر اما م نے اس نا ول کو ۲۰۰۰ ء میں شا ئع کیا ۔ اور اپنے دیباجہ سو م میں لکھا۔ اس دور مٰں جب کہ دنیا تر قی و کما لا ت علمی کے سا تھ اکیسویں صد ی کی دیلیز پر دستک دے رہی ہے تب بھی ہر بغیر کے مسلما ن گھر انو ں کے قا رئین۱۸۸۱؁ء میںنوقتہ اس اصلا حی نا ول کی افا دیت سے انکا ر نہیں کر سکیں گے نا ول کا مقصد نا ول نگار کے الفا ظ میں جب لڑ کیا ں شائشتہ اور تعلیم یا فتہ ہو جا ئیں گے تو لڑ کو ں کا تعلیم ہا نا کچھ مشکل نہ ہو گا

اصلا ح انسا ء میں دو بھا یئو ں محمد اعظم اور محمد اعظم کا قصہ ہے محمد اعظم کی بیو ی پڑ ھی لکھی عو رتو ں کی نما ئند گی کر تی ہے جبکہ اعظم کی بیو ی جا ہل عو رتو ں کی نما ئند گی کر تی ہے ۔ عر ض یہ کہ ڈاکٹر اشر ف جہا ں نے اردو نا ول کے ارتقا ء میں عظیم آبا د کے ان دو نا ول نگا روں ’’ شا د عظیم آبا دی اور سید ہ رشید انسا ء کے نا ول صو رۃالخیا ل اور اصلا ح انسا ء کے ذر یعہ ثا بت کر نے کی کو شش کی ہے کہ اردو نا ول نگا ری کے ارتقا ء میں عظیم آبا د پٹنہ کا اہم رول ہے جسے نظر اند از نہیں کیا جا سکتا ۔ اردو محقیقن اوربکا لز ز کیلئے یہ کتا ب بے حد کا ر آمد ہے اور مطا لعہ کر نے کے لا ئق ہے ۔ اگرچہ اس میں دو ہی نا ول نگا روں کے نا ول کا مطا لعہ کیا گیا ہے لیکن اس جو اہم با ت ہے وہ یہ ہے کہ عظیم آبا د کے ان دو نو ں نا ول نگا روں نے اپنے ناول کا مو ضو ع تعلیم نسوان اور تر بیت نسوان کو بنایا ہے اور اپنے مو ضو ع کو کا میا بی کے سا تھ نبھا یا ہے ۔ امید ہے کہ اردو ادب کے شا یقیں قا ر ئین اور محقیقن کیلئے مفید ثا بت ہو گی یہ کتا ب کی افا دیت کے خو د س کی قمت صر ف ۲۰۰ روپئے ہے میںسا ل ۲۰۱۲۱کسی طر ح کی ما لی محقیقن کے لئے مد د نہیں لی گئی ہے ۔ کتا ب ملنے کے ۲ پتے ہیں پر ویز عا لم سکر یٹر ی علمی مجلس بہا ر گو ر لمینٹ اردو لا ئبر یر ی پٹنہ ۔۔۔۔۲۵ یک امہو رہ شبز ی با غ پٹنہ ۴ مصنفہ کے فو ن نمبر 0612, 2688589پر بھی را بطہ کر یں کتا ب قیمت حا صل کی جا سکتی ہے ۔

صفحا ت ۱۲میں سال اشا عت ۲۰۱۲ء ہے کتا ب کی اشا عت میں مصنفہ مر حو مہ ہو چکی ہیں ان کے شو ہر سے فو ن نمبر ۔۲۶۸۸۵۸۹۔۰۶۱۲پر بھی رابطہ کر کے قیمت بھیج کر کتا ب حا صل کی جا سکتی ہے ۔

کاشی ناتھ کالونی،کٹاری ہل روڈ،گیا
Mob: 9931441623
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here