ڈاکٹر ہارون رشید
ادائے حسن کی وہ شوخیء نایاب رکھے ہیں
ادھر ہم بھی منور عشق کے مہتاب رکھے ہیں
تمہاری انفرادی حیثیت جو تھی سو اب بھی ہے
کھلے ہم نے سبھی امکان کے ابواب رکھے ہیں
ملے فرصت جو غمہائے زمانہ سے تو خط لکھیں
تمہارے واسطے مخصوص کچھ القاب رکھے ہیں
زمانے کی نگاہوں سے چھپا کر خانہءدل میں
کتاب آرزو کے کچھ سنہری باب رکھے ہیں
نگاہ چرخ شاہد ہے خدا والوں نے دنیا میں
وہ صحرا ہو سمندر ہو سبھی پایاب رکھے ہیں
سر محفل رقیب رو سیہ سے دل لگی ان کی
سنبھالے پھر بھی ہم اپنا دل بے تاب رکھے ہیں
طلسم فن سلامت ہے ابھی شہر نگاراں میں
کہ ملحوظ نظر اب تک ادب آداب رکھے ہیں
کبھی ممکن نہیں ہارون ان کا مندمل ہونا
جفائے یار کے زخموں کو ہم شاداب رکھے ہیں
Also read