تحفظ ،حرمتِ نسواں اور اسلام-Protection, sanctity of women and Islam

0
261
ڈاکٹر سیدہ جنیفر رضوی

عورت خدا کی تخلیق کا حسین و جمیل شاہکار ہے جو معاشرے کا اہم ترین اور لازمی عنصر ہے جس کی تخلیق میں انسانیت کی تکمیل ہے جس کے بغیر انسانی معاشرے کا تصور ناممکن اور نسل انسانی کی بقا محال ہے دنیا میں جتنی بھی رنگ رنگینیاں ہیں وہ اسی کے دم قدم سے ہیں اسی کی تعبیر کرتے ہوئے علامہ اقبال نے فرمایا ہے۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
پوری کائنات میں ہر مذہب میں اور ہر مذہبی کتاب میں عورت کی عظمت کیا تھی ، عورت کا وقار کیا تھا ذکر کرنا محال ہے ۔اسلام کے علاوہ ہر ایک مذہب کا قول یہ ہے کہ عورت معاشرے کے لیے ایک تباہ کار چیز ہے ،سقراط کے یونان کے فلسفے سے لے کر مریتک، عراق و نینواکی قدیم تہذیب تک، ایران کی قدیم تہذیب سے، ہندوستان کی قدیم تہذیب تک عورت کو ہر میدان میں قربان کرنا فخر محسوس کیا جا تا رہا ہے۔ لہذا تاریخ میں ہےکہ مصر میں دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے عورتوں کی بلی چڑھا ئی جاتی تھی زندہ جانوروں کے سامنے عورتوں کو ڈال دیا جاتا تھا کہ گویا عورت کا کوئی مقام متعین نہیں کیا تھا نہ کسی ملک نےنہ کسی تہذیب نہ کسی تمدن یہاں تک کہ خود عرب والے جو تھے وہ بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے یعنی اس صنف نسواں کو جیسے سارے عالم میں دبا کر تو ہین کی آخری منزل تک پہنچا دیاگیا تھا ۔گویا یہ اہم ترین صنف اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود قوموں کی بدعقیدگی فرسودہ خیالی ،معاشرےکی فکری پستی اور رسم و رواج کی چکی میں پیسی جاتی رہی اور ظلم و زیادتی کا ہمشہ سے شکار بنتی رہی ۔جب اسلام کا آفتاب عالم تاب دنیا کے افق پر طلوع ہوا تو جہاں اس نے دوسری بے شمار سماجی برائیوں کا خاتمہ کیاوہیں عورت کے حوالے سے ہونے والی ظلم و زیادتیوں کا بھی خاتمہ ہوا اور مختلف حیثیتوں سے اس کا درجہ اتنا بلند کر دیا اور اسے عزت و عظمت کے اس مقام پر فائز کر دیا کہ جس کا آج سے ہزار سال پہلے تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
اسلام اور عورت کے خلاف غلط پروپگنڈے
حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو جھٹلانا ہر زمانے میں باطل پرستوں کا شیوہ رہا ہے چنانچہ اس زمانے میں بھی اسلام دشمن عناصر نے شریعت محمد یہ کی شبیہ مسخ کرنے اور اسے بد نام کرنےکی معاندانہ مہم شروع کر رکھی ہے جس کے تحت اسلام کے خلاف بڑے شدومد کے ساتھ یہ پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام میں عورت کو کمتر اور حقیر درجہ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بے بنیاد بات اس قدر عام ہوتی جارہی ہے جیسے کہ وہ کوئی ثابت شدہ واقعہ ہوجب کہ حقیقت الزام کے بالکل برعکس ہے اسلام اور اسلام کے تمام پیغام پہنچانے والے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ان کے جا نشین حضرت علی علیہ السلام نے احا دیث و روایات کی روشنی میں عورت کا درجہ بڑھا یا ہے اور اسے ذلت و حقارت سے نکال کر رفعت و بلندی کے اعلیٰ مقام پر فائز کر دیا۔ اسلام اور اس کے رہبروں کے نزدیک عورت کا درجہ وہی ہے جو ایک مرد کا ہے عزت و احترام اور تو قیر و تکریم کے جو احکام ایک صنف کے لیے ہیں وہی احکام دوسری صنف کے لئے بھی دینوی زندگی کے واجب حقوق اور اخروی زندگی کے انعامات اور نوازشات میں دونوں صنوتں کے درمیان فرق نہیں ۔ جو یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ عورت مرد سے کمتر ہے ،لہذا تمام تر اسلام مخالف دشمنوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ قرآن کی آیت کی روشنی میں ہے خدا کی رضا جوئی اور خوشنودی اورآخرت کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے جو بنیادی شرائط درکار ہیں وہی عورتوں کے لیے بھی چنانچہ خدا وندعالم کاسورہ الاحزاب آیت نمبر 35 میں ارشاد الٰہی ہے کہ
“بیشک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ،ایمان دار مرد اور ایمان دار عورتیں ،بندگی کرنے والے مرد اور بندگی کرنے والی عورتیں ،سچے مرد اور سچی عورتیں، صبر کرنے والے والے مرد اور صبر کرنے والے والی عورتیں ،اللہ سے ڈرنے والے مرد اوراللہ سے ڈرنے والی عورتیں ،خیرات کرنے وا لے مرداور خیرات کرنے وا لی عورتیں، روزہ دار مرد اور روزہ دار عورتیں ، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں کثرت سےخدا کو یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں اللہ نے ان سب کے واسطے معافی اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے َ
اس آیت میں وہ تمام بنیادی صفات بیان کر دی گئی ہے جو ہراس انسان میں ہونی چاہئے جو اللہ کے یہاں اس کے مقبول اور پسندیدہ بندوں میں شامل ہونا چاہتے ہیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت ۔اگر یہ صفات کسی سے مرد میں ہو ں تو وہ کامل مرد ہوگا اور اگر کسی عورت میں ہو تو وہ کامل خاتون ہو گی۔ لہذا مغربیت کا یہ غلط پروپیگنڈہ کہ اسلام نے عورت کو کمتر اور حقیر درجہ دیا ،یا پھر مرد کو بلند بنا دیا اعلی درجہ دیا ۔
عور توںمیں ترقی کا جذبہ :-
یہ بات صحیح ہے کہ ترقی و کمال حاصل کرنے کے جو موقع اسلام نے مردوں کے لیے فراہم کیے ہیں وہ موقع عورتوں کے لیے بھی فراہم کیے ہیں ایک مسلمان عورت دنیا اور دین میں مادی ،عقلی اور روحانی حیثیت سے عزت اور ترقی کے ان بلند سے بلند مدارج تک پہونچ سکتی ہے جن تک مرد پہونچ سکتے ہیں اور اس کا عورت ہونا کسی طور پر اس کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا جان و مال عزت کے اور فوجداری کے مقدمات و قوانین میں بھی عورت اور مرد کے درمیان درمیان مساوات قائم کی گئی ہے
ایمان اور عمل صالح کے ساتھ روحانی ترقی کے جو درجات مرد کو مل سکتے ہیں وہی عورت کے لئے بھی کھلے ہوئے ہیں مرد اگر حسن بصری بن سکتا ہے تو عورت کے لیے رابعہ بصری بننے کے تمام تر جذبے موجود ہیں اس کےلئے قرآن مجید کی آیت شاہدہے سورہ آل عمران آیت نمبر 95 1جس کا ترجمہ یہ ہے
پھر قبول کی ان کی دعا ان کے رب نے کہ میں ضائع نہیں کرتا محنت کسی محنت کر نے والے کی تم میں سے خواہ مرد ہو یا عورت، تم آپس میں ایک ہو –
سورہ نساء آیت نمبر 124 میں ایک جگہ پر اور قرآن مجید کہتا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے
اور جو کوئی کام کرے اچھے مرد ہو یا عورت ایمان رکھتا ہو، تو وہ داخل ہوں گے جنت میں اور ان کا حق ضائع نہ ہوگا تل بھر بھی –
سورہ توبہ آیت 72 میں قرآن مجید کا ارشاد ہے
اللٰہ تعالی نے وعدہ کیا ہے مومن مرد وں اور مو منہ عور توں سے ایسی جنتوں کا جس کے نیچے نہریں جاری ہوں گی وہ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے اور پاکیزہ محلات کا وہ ہمیشگی کے باغات میں ہوں گے اور اللہ کی رضا مندی سب سے بڑی ہے یہی بڑی کامیابی ہے
سورہ نحل آیت نمبر 97 میں ایک جگہ اور پروردگار ارشاد فرما رہا ہے-
جس نے نیک عمل کیا چاہے وہ مرد ہو یا عورت اس حال میں کہ وہ مومن ہو تو ہم ا سے پاکیزہ زندگی عطا کریں گے اور انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دے دیں گے
قرآن کے ان تمام آیتوں میں بتایا گیا کہ مرد ہو یا عورت اللہ تعالی کے یہاں کسی کی محنت ضائع نہیں جاتی جنت اور حیات طیبہ کے جو وعدے مردوں سے کیے گئے ہیں وہ عورتوں کے لئے بھی ہیں جو کام کر جو کام کرے گا وہ اس کا پھل پائے گا یہاں عمل شرط ہے، نیک عمل کرکے ایک عورت بھی اپنے استعداد کے موافق آخرت کے درجات حاصل کرسکتی ہے جو مرد حاصل کر سکتے ہیں اسی وجہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عورتیں مقام و مرتبہ کے لحاظ سے مردوں کے ہم پلہ ہیں (تر مذی شریف ص 31 ، ابوداؤ ص 35
موجودہ حالات میں تعلیم نسواں کی اہمیت:
خوا تین ہامری آبادی کا نصف حصہ ہیں، انہیں بھی اللہ نے ذہانت و فطانت، صلا حیت و حر کت اور دینی اور روحانی ترقی کاجوہر عطا فرمایا ہے ماں کی گود میں ہی ہے وہ پہلا مکتب ہے جہاں ہر انسان کے اولین نووونا ہوتی ہے یہیں سے کسی خاص وصف پر شخصیت و کردار کی ڈھلائی ہوتی ہے یہاں سے ذہن و دماغ کوجو رخ دیا جاتا ہے وہ آدمی کی زندگی پر ہمیشہ حاوی رہتا ہے ۔اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ملت کے وہ عظیم افراداور کچھ بلند شخصیات جن پر آج بھی ہمیں فخر ہے وہ عظیم ماو ں کی گود کے تربیت یافتہ تھے
ماں کی گود سے مراد ماں کا تعیلم و تر بیت یا فتہ ہونا ضروری ہے تاکہ بچے بھی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ہو سکیں تاکہ اس کا اثر سماج پہ ہو، معاشرے پہ ہو، اور قوم و ملت پہ ہو ۔لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ،ہماری غفلت و کوتاہی کے نتیجے میں خواتین کی اکثریت جہالت و ناخواندگی کی شکار ہے۔ یا دینی تعلیم سے صرف نظر کرکے وہ ایسی تعلیم حاصل کر رہی ہیں جن سے ان کے نسوانیت مسخ ہو ر ہی ہے اسکول و کالج میں پڑھ رہی ہیں ،جہاں کے مخلوط ماحول اور دینی فضا میں ان کی شرم وحیا ، عفت و کردار مجروح اور اخلاق ودین داری اور تقوی و پرہیز گا ری مفقود ہو رہی ہے ۔لہذا ایسی صنف نسواں جب مخلوط ماحول میں اورلادین فضا میں شرم حیا کو بالائے طاق رکھ کر ماڑدرن تعلیم حاصل کر رہی ہیں تو ان سے آنے والی نسلوں کی اصلاح کی امید کیا رکھی جائے اسی لیے ماڑدرن تعلیم کا اثر ظاہرکچھ اور باطن کچھ اور ہوتا ہے
حضرت علی کا فرمان ہے کہ
اپنے جسم کو مت سنوارو اسے مٹی میں جاناہے اپنی روح کو سنوارو اسے اللہ کے پاس جانا ہے
عورت ایمان اور عمل کی منزل میں یکساں نہیں
ایمان و عمل کے اعتبار سے عورت میں جو فطری نقائص موجود ہیں اسے قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے اور حضرت علی نے بھی نہج البلاغہ کے متعدد مقامات پر اس کا ذکر کیا ہے اور خاص کر ایک چھوٹا سا خطبہ عورت کی مذمت میں بیان کیا ہے خطبہ نمبر 78 میں مولائے کائنات فرماتے ہیں کہ عورتیں ایمان میں ناقص ہوتی ہیں اور عقل میں ناقص ہوتی ہیں حضرت علی نے عورتوں کے سلسلے میں تین باتیں کہی ہیں ناقص الایمان ،ناقص المیراث ، اور ناقص الحظ -ساتھ میں دلیل بھی دی ہیں ان کے اسباب کا بھی ذکر کیا ہے ناقص الایمان اس لیے ہوتی ہیں کہ ایا م کے دور میں یعنی ہر مہینہ چند دنوں کے لیے نماز روزہ سے محروم رہنا پڑتا ہے اس کے علاوہ دوسرے تمام عبادت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور اعمال سے علیحدگی ان ایمان کے نقص کی دلیل ہے
جبکہ ایمان اقرار قلب اور اعتقاد باطن کا نام ہے مگر بطور مجاز عمل و کردار پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے یعنی صرف دل سے قبول کرنا ہی کافی نہیں بلکہ اعمال ضرورت ہے لہذا اس اعتبار سے عورت کے ایمان و عقیدہ کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی کمی ہے چونکہ اعمال کو بھی ایمان کا جز و قرار دیا جا تا ہے
دوسرانقص عورت کے اندر یہ ہے کہ وہ نا قص العقل ہوتی ہے کیونکہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کی گواہی کے برابر ہوتی ہے یہ قدرت ہیں قدرت کے ہی طرف سے عورت اپنے عقلی تصرفات کو پورے طور سے قبول کرنے سے قا صر ہوتی ہے لہذا ان کےمیدان عمل کی وسعت ہی کےلحاظ سے فطرت نے ان کو قو ت عقلیہ دے ہیں – جو حمل ولا دت ۔رضاعت ،تر بیت اولاد اور امور خانہ داری میں ان کی رہنمائی کر سکیں اور اسی ذہنی و عقلی کمزوری کی بنا پر ان کی گواہی کو مرد کی گواہی کا درجہ نہیں دیا گیا ہے
جیسا کہ اللہ سبحانہ کاا رشا د ہے
اپنے مردوں میں سے جنہیں تم گواہی کے لئے پسند کرو دو مردوں کی گواہی کو لایا کرو اور اگردو مرد نہ ہو تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں اگر ایک بھول جائے گی تو ان میں سے ایک دوسرے کو یاد دلائے گی۔
تیر ا نقص یہ ہے کہ وہ میراث میں ناقص ہے۔ قران قریم میں ارشاد ہے کہ
خد اتمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں وصیت کرتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہوگا
اس سے عورت کی کمزوری کا پتہ یوںچلتا ہے کہ میراث میں اس کا حصہ نصف ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کی کفالت کا بار مرد پر ہوتا ہے تو جب مرد کی حیثیت ایک کفیل و نگران کی قرار پائی ،تو نگرانی اور سرپرستی کی محتاج صنف اپنی کمزوری کی خود آ ئینہ دار ہو گئ
انکی فطری کمزوریوں کی طرف اشارہ کرنے کے بعد ان کی اندھا دھند پیروی اور غلط اطاعت کے مفاسد کا ذکر کرتے ہیں کہ بڑی بات تو خیر بری ہوتی ہی ہے
بعض اوقات مرد اورعورت کے احکام میں اس وجہ سے فرق ہوتا ہے کہ دونوں کومساوی کر دیا گیا تو مفا سد پیدا ہو سکستے ہیں اور عو رت کی بے عزتی و بے حرمتی یا دوسرے نقصا نات کا خطرہ ہوتا ہے جیسے کہ عورت کے لئے تنہا بغیر محرم کے حج کر نے یا اڑتا لیس میل سے زیادہ کا سفر کرنا (کمزورر مذی 220) غیر محرموں کے ساتھ آزادانہ میل جول رکھنا اور مخلوط مجالس و محافل میں شرکت کی از روئےشریعت اجازت نہیں ہے اس لیے کہ مذکورہ صورتوں میں اگر چہ بعض فوائد بھی محتمل ہیں لیکن نقصان کا خطرہ زیا دہ ہے
اسی طرح تعداد ازدواج کا حق یعنی ایک سے زیادہ شادی کر نے اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کا حق شریعت اسلامیہ چند شر طوں کے ساتھ صرف مردوں کو دیتی ہے عورت کو نہیں اس لیے کہ اگر یہ حق عورتوں کو بھی دے دیا تو اس صورت میں سماج میں بد ترین خرابیاں پیدا ہوجائیں گی ۔ پیدا ہو نے والے بچوں کا نسب خلط ملط ہو جاتا نا جا ئز اولاد کی کثرت ہو جا تی جب کہ مرد کو یہ حق دینے میں کو ئی خرا بی لا زم ہیں آتی-
عورت کے لئے پردے کاحکم کیوں؟
اسلام ایک ایسے عفت ماب پا کیزہ معا شرے کی تعمیر کر نا چا ہتا ہے جس میں عورت کی زن عفت و عصمت محفوظ رہے اس کی پا ک دا منی اوردو شیز گی کو سلا متی حاصل ہو – اس کی معصومیت پر کوئی غلط نگاہ نہ ڈالےاس کی فطری خوبصورتی کو کوئی شہوت پرست ، بیہودگی کے ساتھ نہ گھورے اور اسے ہوسناک نگاہوں کا شکار نہ بنائے اسلام ایک ایسی سوسائٹی دیکھنا چاہتا ہے جس میں پاکیزگی خیال اور نیک نیتی کا چلن ہو، صنفی انتشار اور فحا شی وآوارگی کا رجحان نہ ہو جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں کبھی زنا کاری اور بدکاری کے واقعات پیش نہ آئیں، اس لیے کہ فحاشی اور بد کاری ایسی مہلک بیما ری ہے جس کے خطرات اوراثرات صرف اشخاص و افراد تک محدود نہیں رہتے بلکہ پورے پورے خاندان اور قبیلہ کو اور بعض اوقات بڑی بڑی آبادی کو تباہ کر دیتے ہیں
اسی لئے جس طرح دیگر معاملات میں اسلام کا یہ اصول ہے کہ اس نے جن چیزوں کو بھی انسانیت کے لیے نقصان دہ سمجھا اس کو قا بل سزا جرم قرار دیا ٹھیک اسی طر ح شعریت نے زنا اور بد کاری کے انسداد اور اس کے مکمل روک تھام کے لیے پابندی عائد کر دی اور اس مقصد کے لیے مرد و عورت میں سے ہر ایک کو چند لازمی ہدایت دی گئیں ،مردوں کو غض بر یعنی نگاہیں نیچی رکھنے اور پاکیزہ خیالی کا حکم دیا گیا ہے اور بد نظری کوآ نکھ کا زنا قرار دیا گیا
اس طرح عورت کو بھی نظر بچانے ،خیالات پاکیزہ رکھنے اور اپنی عزت و عمت کی حفاظت کرنے کا حکم دیا گیا۔ سورہ نور آیت نمبر 31 مین اللٰہ تعالٰی ارشاد فر ما تا ہے کہ
اے نبی مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لئے زیادہ پا کیزگی کاطریقہ ہے ،یقینا اللٰہ جا نتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں ۔بوقت ضرورت خواتین کو گھر سے نکل کر ضرورت کی تکمیل کے لیے باہر جانے کی اجازت دی گئی لیکن اس کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا کہ نکلنا بے محا با نہ ہو۔ نکلتے وقت پوری طرح با پر دہ ہو کر نکلیں ، بر قع یا لمبی چا در سے پورے بدن کو چھپالیں ۔قرآن میں سورہ احزاب آیت نمبر 59 میں اللٰہ کا حکم ہے
اے پیغمبر اپنی بیویوں بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا گھو نگھٹ ڈال لیا کریں اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گے اور انہیں ستایا نہیں جائے گا ۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ
اللہ تعالی نے مسلمانوں اور عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھر سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے “جلباب “یعنی لمبی چادر لٹکا کر چہروں کو چھپا لیں اور راستہ دیکھنے کے لئے صرف آنکھ کھلی رکھیں (تفسیر ابن کثیر)
پردے کے سلسلے میں اس قدر تاکیدی احکا مات اس لیے دیے گئے ہیں کہ خواتین کی صنف پوری طرح “عورت” یعنی پردے کی چیز ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فر ما یا :
عورت سرا پا پو شیدہ رہنے کی چیز ہے جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان نما انسان اسکی تا کید میں لگ جاتا ہے لہذا شیطان کی فتنہ ساما نیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے نکلے ہی نہیں اور اگر ضرورت کے تحت نکلنا ہی پڑے تو پو ری طرح پردے میں لپٹ کر نکلیں –
پردہ خواتین کی عفت و عصمت کا محافظ ہے ۔حیا کسی بھی سلیم الفطرت عورت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے اور اس سرمایہ کا سب سے بڑا محا فظ پردہ ہے ۔ شرم و حیا کا طبعی تقا ضا ہے کہ وہ اپنوں کے سوا غیرمردوں سے پر دے میں رہے۔نہ وہ کسی اجنبی کو دیکھے نہ کو ئی اجنبی اس کو دیکھے شاید اسی لئے حضرت علی علیہ السلام سے مروی ہے وہ فر ما تے ہیں کہ ایک روز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا- آپ نے صحابہ سے سوال کیا کہ بتاؤ کہ عورت کے لیے کون سی بات سب سے بہتر ہے صحابہ کرام خا موش رہے کسی نے جواب نہیں دیا پھر جب گھر گئے اور حضرت فا طمہ سے میں نے سوال کیا تو انہوں نے فرمایا عورت کے لئے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں نہ مرد ان کو دیکھں ، میں نے ان کا جواب رسو ل اللہ نے نل کیا تو آ پ نے فر ما یاکہ فا طمہ میری لخت جگر ہیں اس لئے وہ خوب سمجھیں ( مسندبزار ، دار قطی)
معلوم یہ ہواکہ جنتی عورتوں کی سردار کی نظرمیں عورتوں کے لئے سب سے بہتر چیز پردہ ہے- صحا بیات کا یہ حال تھاکہ زندگی تو زندگی، شدت حیا کی بنیاد پر مردوں سے ان کی موت کے بعد بھی پر دہ کیا کرتی تھی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس حجرہ مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مد فون ہیں اس کمرہ میں جب میں دا خل ہو تی تو میں پوری طرح پردہ نہیں کر تی تھی کیونکہ میرا یہ خیال تھا کہ اس حجرے میں میرے شوہر اور میرے والد ابوبکر کے علاوہ کوئی اوردفن نہیں ہے اور ان دونوں سے پردہ نہیں لیکن جب ان کے ساتھ حضرت عمر بھی دفن کر دیے گئے تو بخدا اس کے بعد میں جب بھی حجرہ مبارک میں جاتی تو حضرت عمر سے حیا کی وجہ سے پوری طرح باپردہ ہو کر جاتی تھی۔ ان سا ری باتوں سےمعلوم ہوا کہ پردہ وجہ قید نہیں بلکہ شرم و حیا کا آئینہ دار اور عزت و عصمت کا محافظ ہے اور شریف زادیوں کے لیے یہ ایک بہت بڑی دولت ہے لیکن جب کسی سے حیا کا مادہ ختم ہوجائے تو لازمی طور پر وہ پردہ کو قید سمجھے گی اور بے پردگی کوآزادی خیال کرے گی اور وہ سب کچھ کرے گی جس سے انسانیت کا سر شرم سے جھک جائے او ریہی مغربی سازش بھی ہے-
مغربی مفکرین کے خیالات عورت کے بارے میں
مغربی مفکر ین ور ان کے ہم خیال افراد ہم خیال طبقہ کی طرف سے بڑے شد ومد کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ اسلام میں حقوق نسواں کا تحفظ نہیں۔ اسلامی شریعت میں عورتوں کو انسانی حقوق سے محروم کردیا گیا۔ اس وجہ سے مسلم معاشرے میں خواتین لاچاری کی زندگی جی رہی ہیں اور ان کے انسانی حقوق کو پامال کیا جاتا ہے اور ان جیسے دوسرے بے بنیادالزامات اور الیکٹرا نک میڈیا کے ذریعہ خوب تشیہر کی جا تی ہے – پروپیگنڈہ کی اس مہم میں بنیادی رول تو صہیو نیت نواز مغربی میڈ ا کاہے لیکن مشہور مقولہ : ہا تھی کے پیر سب کا پیر کے مطابق ہندوستانی ذرائع ابلاغ میں بھی اس طرح کے شر انگیز موادکو جلی سرخیوں کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں اس مہم کی کمان فرقہ پرست جماعت کے لوگو ں کے ہاتھوںمیں ہے لیکن کیا اس پروپیگنڈہ میں کچھ بھی حقیقت پسندی پر ہے ؟ کیا ان الزامات میں صداقت کا کوئی پہلو ہے ؟اس سوال کا حقائق کی روشنی میں سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیں، تو معلوم ہو گا کہ اس پروپیگنڈےمیں صداقت کا ذرہ برابر بھی شائبہ نہیں- اس کی بنیادی وجہ محض بغض و عنا د ہے۔ اس الزام کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ اسلام واحد مذہب اور نظام معاشرت ہے جس نے عورتوں کے لئے حقوق کا دروازہ کھولا،ان کی حق شناسی کی آواز بلند کی اور ان کوایسے اعلٰی قسم کے حقو ق دئے کہ مغرب حقوق کے اپنے بلند و با نگ نعروں کے باوجود آج تک ان کے عشر وعشروکو بھی نہیں پا سکا ہے
(جاری)
7872873542

، مسلم خواتین کو ایسی سیکڑوں مرا عات حاصل ہیں جنھیں مغربی خواتین آزادی نسواں کے تمام پر شکوہ نعروں کے با وجود ، آج تک نہیں حا صل کر سکی ہیں ، مسلم خواتین کو حقوق کے بیشتر میدا نوں میں مغربی خواتین پر بدر جہا فضیلت حا صل ہے – اس اہم ترین حقیقت کو وا ضح کر نے کے لئےمیں کچھ مثا ل پیش کر نی جا رہی ہو ں جن سے یہ ثابت ہو سکے کہ حقیقت میں حقوق کے نسواں کا تحفظ اسلام میں کیا ہے۔
25 سال قبل سو ئز ر لینڈ کے ایوان زیریں نے 27 فیصد کے مقابلے 73 فیصد ووٹ سے ملک کے شادی ا یکٹ میں چند تر میم نافذ کرنے کا فیصلہ کیا بعد از ترمیم قانون میں خواتین کو جن حقوق کی ضمانت دی گئی ہے ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے
(1)خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے لئے شادی کے بعد بھی اسی نام کو برقرار رکھے جو اس کے والد ین نے رکھا ہو یا انہوں نے اپنے لئے منتخب کیا ہو اور وہ اپنے آپ کو شوہر کے نام سے موسوم نہ کریں یا شوہر کے نام کو اپنے نام کا جز نہ بنائیں-
(2) مرد کی طرح عورتو ں کو بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے پسند کے رشتے اورسسر الی گھرانے کا ا نتخاب کریں-
(3)زوجین میں سے ہر ایک کو یہ اختیار ہے کہ وہ دوسرے کی واقعی آمدنی کے متعلق معلومات حاصل کریں-
یہ جدید خاتون مغرب میں حقوق نسواں کے حوالے سے نئی پیش رفت ہے ورنہ اب تک برطانیہ اور جرمنی وغیرہ مغربی ممالک میں اس طرح کے قوا نین بالکل نا یاب تھے ۔اس منظر نامہ سے جو بات وا ضح طور پر سامنے آرہی ہے وہ یہ ہے کہ 21 ویں صدی میں پہنچ کر کہیں سو ئز خوا تین کے لئے یہ حق حاصل ہو پا یا کہ شادی کے بعد بھی وہ اپنے حقیقی نام کو بر قرار رکھیں اوروہ بدستور اپنے پیدائشی نام سے پکاری جائیں اس سے پہلے مغرب کے عام رواج کے مطابق یہ خواتین مجبور تھیں کہ وہ شوہر کے نام کو اپنے نام کا جز بنا لیں اور اپنے خاندانی نام یا القاب کو حرف غلط کی طرح مٹا دیں مثلااگر شادی سے پہلے کسی خاتون کا نام موری یا ہا ڈن ہو تا اوراس کے شوہر کا نام جان رو کا ہوتا تو شادی کے بعد فورا سے اپنا نام موری روکا یا مزشروکا رکھناپڑتا اور اپنے خاندانی لقب سے دستبردار ہونا پڑتا اگرچہ سوئز خواتین اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اس جبر ی قانون سے آزادی تو مل گئی اور انہیں اپنے لیے اسمی تحفظ کا حق تو حاصل ہو گیا لیکن ان جیسی دوسری بر طانوی اور جر منی خوا تین بدستور اس قدیم اندھے قا نون کو ماننے اور اس کے سامنے جھکنے پر مجبور ہیں جس کی کچھ جھلکیاں یہ ہے کہ اس سے پہلے سن 1567یعنی سولہویں صدی میں اسکاٹ لینڈ پارلیمنٹ نے یہ قانون پاس کیا کہ عورت کو کسی چیز کی ملکیت کا حق حا صل نہیں ہو گا – اور اس سے زیادہ تعجب خیز بات یہ ہے کہ انگلستان کی پارلیمنٹ نےقانون پاس کیا جس میں عورت کے لیے انجیل پڑھنا حرام قرار دیا۔ سن 1805 تک انگلستانی قانون کی رو سے شوہر بیوی کے فروخت کرنے کا پورا اختیار رکھتا تھا۔ اسی طرح 1938 میں فرانس میں عورتوں سے متعلق یہ قانون پاس کیا گیا کہ شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے خاص مال میں کسی قسم کا تصرف نہیں کرسکتی ہے مغرب کے حقوق کے نسواں کے حوالے سے یہ ایک منظر نامہ تھا –
اب ذرا اس مغربی منظر نامہ سے ہٹ کر اسلا می منظر نامے پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ وہ حقوق جو مغربی خواتین کو20 ویں صدی کے نصف آخر میں حاصل ہوئے ہیں وہ حقوق مسلم خواتین کو اسی وقت سے حاصل ہیں جبکہ اسلام کا آفتاب عا لم تاب آسمان دنیا پر طلوع ہوا۔ گذشتہ منظر نامہ میں جن حقوق کی وکالت کی گئی وہ سارے کے سارے اسلامی خواتین کو صدیوں پہلے سے حا صل ہیں ۔ہمیں اسلام کی روشن تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی جس میں قانونی طور پر کسی بھی خاتون کو کو شادی کے بعد اپنا نام بدلنے اور شوہر کے نام کو اپنے نام کا جزبنانے پر مجبور کیا گیا ہو۔ مشہور اسلامی خواتین اپنے والد اور خاندان کے نام سے موسوم ہوتی رہیں اپنے شوہر کے نام سے نہیں-اسی طرح مسلم خواتین کو اپنے لئے پسند یدہ رشتے کے انتخاب کا حق بھی 14 سو سال سے حا صل ہے –
چنانچہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ار شادہے کہ غیر شادی شدہ عورت(رشتے کے انتخاب کے سلسلے میں ) اپنی ذات کی اپنے ولی کے مقابلے میں زیادہ حقدار ہیں ۔(مسلم شریف 400)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک عورت نے رسول اکرم کے پاس آکر کہا کہ میرے وا لد نے میری ناپسندیدگی کے باوجود ایک شخص سے میرا نکاح کردیا تو حضور اکرم نے فرمایا کہ تمہارا نکاح منعقد نہیں ہوا۔ جاؤ اور جس سے نکاح کرنا چاہو کر سکتی ہو (سنن سعید ابن منصور )
سوئز لینڈ کے نئے قانون میں شوہر کی واقعی آمدنی سے متعلق معلومات حاصل کرنے کا جو حق بیوی کو دیا گیا ہے اس میں بھی کوئی تجدد اور امتیاز نہیں ہے اس لئےکہ اسلا می خواتین کو شروع سے ہی نہ صرف یہ بلکہ ا س سے اعلی ترین حقوق حا صل ہیں۔ اس لیے کہ اسلامی شریعت میں بیوی پر مالیات کی فرا ہمی کی ذمہ داری سرے سے ہے ہی نہیں اس کے پاس جتنا بھی مال کیوں نہ ہو کوئی اس سے زبردستی مال کامطالبہ نہیں کر سکتا ک بلکہ ہر حا ل میں اس کے شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی بیوی پر خرچ کرے چنانچہ حضرت علی نے فرما یا کہ
عورت کو کھا نا دینے اور انھیں کپڑا دینے کی ذمہ داری شوہر پر ہے ۔رواج کے مطابق ایک صحابی نے سوال کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے حضرت علی نے فرمایا جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھا نا کھلا و جب تم کپرا پہنو تو انھیں بھی پہنا و اور اس کے چہرے پر طمانچہ مت مارو ، (ابو داو 291)
دیھئےک تمام احا دیث اور روایات و آ یا تی قرآ نی کے ذریعہ بات ثابت ہے کہ حقوق نسواں کا تحفظ جتنا اسلام نے کیا ہے اتنا دنیا کے کسی قا نون نے نہیں کیا ہے لیکن وضا حت بھی ضروری ہے کہ اسلام کی نظر میں حقوق کا ایک اعلی تصور ہے وہ عیا شی و فحا شی اور بے حیا ئی و بد اطوا ری کو قطعا حقوق کے زمرے میں دا خل نہیں کرتا بلکہ حجۃ الوداع کے آ خری خطبہ میں حضور اکرم نے فرمایا کہ
جس طرح تمہارے حقوق تمہاری بیویوں پر ہیں اسی طرح تمہارے اوپر بھی تمہاری بیویوں کے حقوق ہیں
ایک دوسری روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ عورتوں کی عزت وہی لوگ کرتے ہیں جو شریف ہیں اورعورتوں کی بےعزتی وہی لوگ کرتے ہیں جو کمینے ہوتے ہیں (ابن عساکر)
اس کی وضا حت اس حدیث سے ہوتی ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز نیک بیوی سے بڑھ کر نہیں ہے بہرکیف آ خیر میں میں یہ کہنا چا ہتی ہوں کہ عورت ہر انسان کی ضرورت ہے ۔عورت کے بغیر انسان کی زندگی ادھوری ہے ۔صرف اس کی زندگی ادھوری نہیں رہتی بلکہ دین بھی ادھورا رہا جاتا ہے۔ اس لئے عورت کی حفاظت اس کی قدر اور تعظیم کرنا ضروری ہے اسکو عزت و احترام دینا ہما را فریضہ ہے یہی حکم قرآن و اسلام ہے ۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here