9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
اسکندریہ یا الیگزینڈریا ایک تاریخی شہر ہے۔ جس کا قیام ۳۳۲ قبل مسیح میں سکندر اعظم نے کیا تھا۔ یہ قاہرہ کے بعد مصر کا دوسرا دار الحکومت ہے۔ یہ صرف ساحل سمندر کی سیاحت پر ہی انحصار نہیں کرتا ہے، بلکہ اس میں خوشگوار سیاحت کے تمام عناصر موجود ہیں جو موسم سرما اور گرمیوں کے لئے موزون ہیں۔ اسکندریہ میں آثار قدیمہ کی ایک بڑی تاریخ موجود ہے۔ وہ علاقے اور عجائب گھر جو عرب اور غیر ملکی سیاحوں کی منزل ہے اور یہاں آنے والوں کی منزل مقصود بھی۔ اس کے علاوہ ملکی سیاح بھی یہاں تفریح کے لئے آتے ہیں اور خوبصورت ماحول اور اس کے مخصوص موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
قائتبائی قلعہ کو بحیرہ روم کے کنارے میں اسکندریہ کی ایک اہم اور قدیم ترین تاریخی تنصیبات میں ایک خوبصورت جنگی قلعوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔ یہ قدیم زمانے سے ہی مصر کی تاریخ میں سب سے اہم دفاعی قلعوں میں خاص مقام رکھتا ہے اور اب یہ ایک ایسی تاریخی نشانی بن گئی ہے جس کو اسکندریہ میں سیاحت کے دوران نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہ قلعہ اسکندریہ کے مغرب میں واقع ہے، اور بحیرہ روم کے ساحل پر ۵۰۰ سے زیادہ سال قبل فاروس جزیرے کے مشرقی کنارے پر اسکندریہ کے قدیم مینار (لائٹ ہاؤس) کی جگہ پر تعمیر کیا گیا تھا، جو دنیا کے قدیم سات عجائبات میں سے ایک تھا اور جو سلطان ناصر محمد بن قلاوون کے دور میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے بعد گر گیا، جب تک کہ اس کے تمام حصے ۷۷۷ھ؍ ۱۳۷۵ء تباہ کر دیئے گئے۔ تاریخی ذرائع سے پتہ چلتا ہے کہ اس قلعے کی تعمیر نہ صرف مینار کی ایک ہی جگہ میں ہوئی تھی، بلکہ اس مینار کے قدیم پتھروں سے تعمیر کیا گیا تھا جو ناپید ہو چکا ہے۔مملوک ریاست کے آخر میں ۸۸۲ ھ و ۱۴۷۷ء میں جب سلطان الاشرف ابو النصر قائتبائی نے اسکندریہ کے شہر کا دورہ کیا اور جب وہ پرانے مینار کے مقام پر گیا تو اس نے ایک عظیم قلعہ کی تعمیر کا حکم دیا۔ جس کو بعد میں قلعہ قائتبائی کہا جانے لگا۔ انہوں نے اس قلعے کی تعمیر ۸۸۲ ھ میں شروع کی اور اس کا اختتام ۸۸۴ ھ میں ہوا۔ اس کی تعمیر دو سال کے اندر مکمل ہوئی اور جو فوجی استعمال کے لئے تیار تھا۔ چونکہ یہ قلعہ مملوک دور سے ملحق ہے اسی لئے یہ ایک اسلامی یادگار بھی ہے۔اس قلعے کی تعمیر کی وجہ ، اسکندریہ شہر کو مستحکم کرنا اور اسے بیرونی جارحیت سے بچانا تھا۔ سلطان قائتبائی نے اسکندریہ کا بہت خیال رکھا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے غیر ملکی جنگی کاروائیوں کو پسپا کرنے اور اسکندریہ کو کسی بھی غداری سے بچانے کے مقصد قائم کیا تھا۔ خاص طور پر سلطنت عثمانیہ سے، جس نے اس وقت اس کی سمت کو تبدیل کرنا شروع کیا تھا۔ اس نے یورپ سے مشرق تک فتح حاصل کی ۔
مصر کے سلطانوں اور حکمرانوں نے ہر دور میں اس قلعے کی دیکھ بھال کی ہے۔ مملوک دور میں، مملوک سلطان قنصوہ الغوری نے اس قلعے کا بہت خیال خیال رکھا۔ اس کی تجدید کی اور اس کی چوکی کو بڑھایا، اس کی حدود کی طاقت میں اضافہ کیا اور اسے اسلحے اور سازوسامان سے فراہم کیا۔ اس طرح اس کی اہمیت میں کافی اضافہ ہوا۔جب عثمانیوں نے مصر پر فتح حاصل کی تو انہوں نے اس قلعے کو اپنی حفاظت کے لئے ایک جگہ کے طور پر استعمال کیا اور قلعے کے تحفظ کا خیال رکھا اور اس کے دفاع کے لئے پیادہ، شور ویروں، توپ خانوں اور مختلف گیریژنوں کے فرقے بنائے اور پھر انہوں نے شمالی ساحل پر مصر کے دروازے کا دفاع کرنے کے لئے بھی اس قلعے کا استعمال کیا تھا۔ جب سلطنت عثمانیہ کمزور ہوئی تو قلعے میں تحفظ کا نظام بھی کمزور ہوگیا۔ قلعہ نے اپنے فوجی دستے (گیری زن) کی کمزوری کی وجہ سے اپنی حکمت عملی اور دفاعی اہمیت سے محروم ہونا شروع کیا اور پھر نپولین بوناپارٹ کی زیر قیادت مصر کے خلاف فرانسیسی مہم نے اس پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی، اور ۱۷۹۸ء میں اسکندریہ شہر ، جس نے اس پر قبضہ کیا اور وہی سے انہوں نے بقیہ مصر پر بھی قبضہ کر لیا۔جب محمد علی پاشا نے مصر کی حکومت سنبھالی اور اس نے مصر کو، خاص طور پر اس کے شمالی ساحل کو مضبوط کرنے کا کام کیا، تو اس نے قلعے کی دیواروں کی تجدید کی اور کچھ کاموں کو شامل کیا، جو اپنی دیواروں کو مضبوط بنایا تھا، اپنی عمارتوں کی تجدید کرنا تھا اور اسے ساحلی توپوں سے فراہمی کرنا تھا۔ انیسویں صدی عیسوی میں قلعے کے نئے دفاعی نظام کے مطابق کچھ پیشرفتیں شامل کی گئیں، اس کو ساحلی توپیں فراہم کی گئیں۔اور جب احمد عرابی کا انقلاب ۱۸۸۲ء میں واقع ہوا، جس کے نتیجے میں ۱۱؍ جولائی ۱۸۸۲ء کو اسکندریہ شہر پر ایک بار پھر حملہ ہوا، اور اس کے بعد مصر پر انگریزوں کا قبضہ ہوا، اس وقت قائتبائی قلعے کو تباہی برباد کر دیا گیا، اور ایک عرصے تک قلعہ اسی حالت میں باقی رہا تھا۔ یہاں تک عرب نوادرات کے تحفظ کمیٹی نے ۱۹۰۴ء میں اس کی تزئین وآرائش کرنے کے منصوبے پر اس میں بہت ساری مرمتیں کروائی تھیں۔
قائتبائی ایک ممتاز حیثیت رکھنے والا قلعہ ہے۔ جو تینوں اطراف سمندر سے گھرا ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔ لوگ قلعہ کی خوبصورتی سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔ سمندری کنارہ اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتا ہے۔ یہ قلعہ ایک حیرت انگیز اور شاندار نظارہ کا حامل ہے۔ یہ اپنے اوپر سے اسکندریہ شہر، جو ایک حیرت انگیز منظر میں سمندر کو گلے لگاتے ہوئے دیکھنے کی اجازت دیتا ہے، گویا یہ ایک خوبصورت مصوری ہے جو ماہر مصوروں کی فنکاری ہے۔جو بھی شخص قائتبائی قلعے میں داخل ہوتا ہے اسے پہلی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک تاریخ کے روبرو ہے۔ اس کی حیرت زدہ راہداری، اس میں تعمیر کیے گئے کمرے، اس کے تہہ خانے اور یہاں تک کہ چھوٹی کھڑکیاں جن کے ذریعے فوجی دشمنوں پر تیر پھینکتے تھے۔ یہ سب آپ کو یہ احساس دلاتا ہے کہ آپ خود تاریخ کے حصار میں ہیں۔ہم اس اسٹریٹجک قلعے کی تعمیر کا فن دیکھ سکتے ہیں، ایک ایسا فن تعمیر ہے جس سے قلعے کا وقار اور طاقت ظاہر ہوتا ہے۔ قلعہ ۱۷,۵۵۰ مربع میٹر کے وسیع رقبے پر بنایا گیا تھا۔ قلعے کی دیواریں اندرونی اور بیرونی دیواروں میں منقسم ہیں، اندرونی حصے میں سپاہیوں اور اسلحے کی بیرکیں شامل ہیں، اور چاروں اطراف کی بیرونی دیوار میں دفاعی ٹاورز شامل ہیں۔ اس کے چاروں طرف کی بیرونی دیواریں اور اس کی فوجی قوت جب ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ لگائیں گے کہ یہ دیواریں کسی بھی بیرونی حملے کے خلاف واقعی ایک زبردست اور مضبوط پناہ ہیں، کیونکہ یہ بہت بڑے بڑے پتھروں سے بنی ہوئی ہیں جن میں داخل ہونا مشکل ہے۔ پہلی دیوار قلعہ کے چاروں اطراف سے گھری ہوئی ہے، اور اس دیوار کے ساتھ متصل کمرے ملحق ہیں ۔ دو ٹاورز کی شکل قلعے کا ایک مرکزی دروازہ ہے اور اس میں دو دیواریں شامل ہیں جو دفاعی زون کی نمائندگی کرتی ہیں۔جہاں تک خود قلعے کی بات ہے تو یہ شکل میں مربع جیسی ہے، اس کی لمبائی ۳۰ میٹر اور اونچائی ۱۷ میٹر ہے۔ یہ ٹھوس چونا اور پتھر سے بنایا گیا ہے اور یہ تین مربع منزل پر مشتمل ہے۔ اس میں سے ہر ایک سے چار کونوں پر، ایک سرکلر ٹاور مین ٹاور کی چھت سے ابھرتا ہے، اور بالا سے نمایاں بالکونیوں پر ختم ہوتا ہے اور اس میں تیر چلانے کے لئے جگہ بھی ہے۔قلعے کی پہلی منزل پر ایک مسجد ہے جو اسکندریہ میں قدیم مساجد میں سے ایک ہے۔ پہلی منزل میں بھی ایک خوبصورت صحن اور وسیع راہداری ہے، جس سے فوجیوں کو قلعے پر کسی بھی حملے کی صورت میں آسانی سے گزرنے کی اجازت ملتی ہے۔ دوسری منزل میں بہت سے کمرے، کشادہ ہال اور راہداری شامل ہیں۔ قلعے کی تیسری منزل میں ایک بڑا کمرہ (سلطان قائتبائی کی نشست) بھی شامل ہے، جہاں وہ اس پر بیٹھ کر اسکندریہ سے گزرنے والے جہازوں کو دیکھتا تھا۔ اس منزل میں بھی گندم کی روٹی تیار کرنے کے لئے ایک تندور کے علاوہ قلعے میں مقیم فوجیوں کے لئے اناج پیسنے کے لئے ایک چکی بھی موجودہے۔ قلعے کے رہائشیوں کے استعمال کے لئے تازہ پانی ذخیرہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑا حوض ہے۔ فوجی جیل قیدیوں کو رکھنے کے لئے قلعے کے زیر زمین واقع ہے۔ اندر سے قلعے کی سب سے اہم خصوصیت فوجیوں کی راہداریوں کا عظیم انجینئرنگ ڈیزائن ہے۔ یہاں قلعے کے ساتھ ہی سمندری حیات کا ایک میوزیم بھی ہے، جہاں آپ اس کی راہداریوں میں مچھلیاں اور ایک حقیقی ڈایناسورز کے کنکال دیکھ سکتے ہیں۔ ماہی گیری کے مشق کے علاوہ کشتیاں اور کشتیاں کرایہ پر لینے کی نقل و حرکت بھی قلعے کے اینکر کے اندر بھی پھیلی ہوئی ہے۔
چونکہ یہ قلعہ اسکندریہ کے ایک انتہائی اہم آثار قدیمہ کے مقامات میں سے ایک ہے، اسی لئے قلعے کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں۔ خاص طور سے جمعرات اور جمعہ کے روز مصری لوگ قلعہ دیکھنے آتے ہیں۔ قائتبائی قلعے کے سامنے والا مربع نما ایک انتہائی مشہور چوک ہے، جس میں تفریح کا سامان دستیاب ہے۔ اس میں خوشی کے تمام مظاہر پھیلتے ہیں، جہاں بچوں کے کھیل، گھوڑوں کی سواریوں، اور سائیکلوں کے ساتھ ساتھ ایسے بازار قلعے کی واک وے پر پھیلتے ہیں جو سمندری سستوں، فرعونی تحائف، سمندری کھیتوں اور نایاب اور خشک سمندری مخلوق کا ایک گروپ فروخت کرتے ہیں۔ جس کی قلعے میں آنے والے خوب پذیرائی کرتے ہیں۔ بیچنے والے بھی پتھروں اور گھونگوں کی فروخت میں مہارت رکھتے ہیں، سیاح بھی بڑے شوق سے یہ چیزیں خریدتے ہیں جو بحیرہ روم کی دلہن اسکندریہ کی ایک یادگار سمجھے جاتے ہیں۔ قلعے کے چوک میں بھی اسکندریہ میں لڑکیوں کا ایک مشہور اور مخصوص لباس ہے، وہ یشمک اور ملایہ لف (برقعہ اور لپیٹی ہوئی چادر) جس کو روشن رنگوں میں سکینز سے سجایا گیا ہے اور یہ زنقہ الستات ( خواتین کی گلی) میں تیار اور فروخت کی جاتی ہے جو اسکندریہ میں خواتین کے لباس اور لوازمات کے لئے ایک مشہور بازار ہے۔ قلعہ کے آس پاس غیر ملکی سیاح اور مصری لوگ بھی یہ روایتی لباس خریدتے ہیں یا فوٹو لینے کے لئے اسے پہنتے ہیں، جو اسکندریہ کی قدیم ورثہ کے جذبے کا اظہار کرتے ہیں۔ لوگ قلعہ کے آس پاس بھی جا سکتے ہیں اور دلکش نظاروں سے لطف بھی اٹھا سکتے ہیں جہاں لوگ کسی کافی شاپ میں بیٹھ بھی سکتے ہیں اور کچھ مشروبات اور آئس کریم کا لطف لیتے ہیں اور بیک وقت سمندر اور قلعے کے نظارے سے لطف بھی اٹھا سکتے ہیں۔
ايسوسی ایٹ پروفیسر
شعبہ اردو۔ عین شمس یونیورسٹی،قاہرہ۔ مصر