بالادستی کس کی _ Whose supremacy?

0
38

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


اس وقت ہمارا ملک نہ صرف معاشی و اقتصادی زوال کی طرف تیزی سےبڑھ رہا ہے بلکہ تہذیبی واخلاقی طور پر بھی تباہی کے راستہ پربھی گامزن ہے، آزادی کے بعد آئین نے جس ڈور میں تمام قوموں اور مذاہب کے لوگوں کو باندھا تھا اسے تقریباً کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے ۔ ایک مخصوص طبقہ کی طرف سے مذہبی شدت پسندی کا کھیل تو آزادی کے بعد ہی سے شروع ہوگیا تھا، لیکن ادھر جب سے موجودہ سرکار آئی ہے یہ کھیل اب کھلے طور پر کھیلا جا نے لگا ہے / آر ایس ایس کے نظریہ ساز شاید یہ یقین کرچکے ہیں کہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں جو نایاب موقع ہاتھ آگیا ہے اگر اس کا استعمال کرکے ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل نہیں کیا گیا تو یہ سنہری موقع دوبارہ پھر نہیں آئے گا۔
پچھلے کچھ برسوں کے دوران اس قبیل کے لوگوں نے ترقی کے نام پر مذہبی شدت پسندی کو بڑھاوا دینے کا کام کیا ہے۔ دوسرے اس کے نتیجہ میں معاشرتی سطح پر جو صف بندی قائم ہوتی ہے وہ الیکشن میں بہت کام آتی ہیں، چنانچہ اب یہ بات بھی عام ہوچکی ہے کہ جب بھی کہیں الیکشن ہوتا ہے اچانک زہریلے بیانات اور اشتعال انگیزی کا ایک سیلاب سا آجاتا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اب اذان پر بھی اعتراض ہونے لگے ہیں، پہلا اعتراض الہ آباد یونیورسٹی کی نئی وائس چانسلر نے کیا، انہوں نے انتظامیہ سے شکایت کی ۔ میڈیا نے اس پر بحث کا سلسلہ شروع کر دیا، اسی دوران اترپردیش کے ایک وزیر نے بھی اذان پر اپنا اعتراض درج کرا دیا، یہ معاملہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ یوگی سرکارکے ایک دوسرے وزیر نے یہ زہریلا بیان دیا کہ اب ہم مسلم خواتین کو طلاق ثلاثہ کی طرح برقعہ سے بھی نجات دلانے کی مہم شروع کریں گے، ابھی اس بیان کی سرخی مدھم بھی نہیں پڑی تھی کہ جھانسی میں ایک ٹرین سے سفر کر رہی چار راہیباؤں کو جبراً ٹرین سے اتارنے کی خبر آگئی، رپورٹوں کے مطابق بجرنگ دل کے کارکنان کی شکایت پر جھانسی جی آر پی پولیس نے ان پر الزام لگایا گیا کہ یہ مذہب تبدیل کرانے جا رہی ہیں۔کچھ دنوں پہلے غازی آباد کے ڈانسہ قصبہ میں ایک مسلم بچے کو محض اس لئے مار مار کر ادھ مرا کر دیا گیا کہ اس نے مندر میں داخل ہوکر پانی پی لیا تھا۔یہ واقعہ سوشل میڈیا پر عام ہوا تو اس کے ردعمل میں اتراکھنڈ کے تمام مندروں کے دروازے پر یہ بورڈ آویزاں کر دیا گیا کہ یہاں مسلمانوں کا داخلہ ممنوع ہےگویا ملک کی حالت اب یہاں تک آپہنچی ہے کہ اگر کسی دوسرے مذہب کا پیاسا مندر کا پانی پی لے تو یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے، حالانکہ کسی بھی مذہب کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ پیاسے کا مذہب معلوم کرکے پانی پلایا جائے اس سے پہلے ہمارے ملک میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا، ایک دور تھا کہ دہلی میں جگہ جگہ پیاؤ ہوتے تھے، جہاں بلالحاظ مذہب وملت سب کو پانی پلایا جاتا تھا، آئی ٹی او پر واقع مسجد جھیل پیاؤ تو اب بھی ایک روشن مثال بنی ہوئی ہے ادھر سے گزرنے والی ہر گاڑی اور ہر بس یہاں پانی کے لئے ضرور رکتی ہے جب سے اس مسجد کا انتظام وانصرام صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کے ہاتھ میں آیا ہے اس میں ٹھنڈے اور صاف وشفاف پانی کا خصوصی انتظام رہتا ہے، یہاں سے ہر شخص کو خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو پانی لینے اور پینے کی پوری آزادی ہے۔
شرمناک بات تو یہ ہے کہ ڈاسنہ کے مذکورہ مندر کا مہنت شرمندہ ہونے کے بجائے مسلسل زہریلے بیانات دے رہا ہے اور اب تو اس نے اپنے ایک انٹرویو میں ملک کے سابق صدر ڈاکٹر عبدالکلام کو بھی جہادی قرار دیدیا ہے، مگر اس کے خلاف اب تک کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ہم آئین میں کیے گئے التزامات کی بنیاد پر یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک کے ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے جہاں تک برقعہ کا تعلق ہے تو ہر معاشرہ میں خواتین کے ساتھ امتیاز برتا جاتا ہے جو لوگ مسلم خواتین کے نام پر صنفی مساوات کی وکالت کرتے ہیں ان کے یہاں تو کچھ زیادہ ہی عورتوں پر ظلم ہو رہا ہے تو پھر تمام طرح کی سماجی برائیوں کے خاتمہ کے لئے آواز کیوں نہیں بلند کی جاتی؟ اگر برقعہ مسلم خواتین کی مظلومیت کی علامت ہے تو گھونگٹ کیا ہے۔سچ یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں ہماری تہذیب اور اخلاق کا آئینہ دار ہیں آج ہمارے نام نہاد مہذب معاشرے میں جو برائیاں درآئی ہیں بے پردگی اور آزاد خیالی اس کا ایک بڑا سبب ہے اس پر غوروفکر کرنا دانشوروں اور سماجی لوگوں کا کام ہے مگر ان کی جگہ سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں سے جڑے ہوئے لوگ فرمان جاری کر رہے ہیں، اس طرح کا جب بھی کوئی تنازعہ کھڑا کیا جاتا ہے تو نہ تو آئین کی بات ہوتی ہے اور نہ ہی اقلیتوں کے حقوق کی، بلکہ اسے خالص مذہبی رنگ دے کر اکثریت کی بالادستی کی برہنہ نمائش ہونے لگتی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here