کورونا کی واپسی کا پیغام – Corona’s return message

0
160

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 Corona's return message

ڈاکٹر سلیم خان
24مارچ کورونا کو بھگانے کی خاطر لگائے جانے والے لاک ڈاون کی پہلی سالگرہ بھی گزر گئی ۔ پچھلے سال اسی ہفتہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بڑے طمطراق سے اعلان کیا تھا کہ مہابھارت کا دھرم یدھ ۱۸ دنوں کے اندر ختم ہو گیا تھا مگر کورونا کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لیے ۲۱ دن لگیں گے ۔ اس سے اعلان سےدو دن قبل وزیر اعظم جنتا کرفیو کے دوران عوام سے تالی اور تھالی پٹوا کر کورونا کو بھگانے کی نوٹنکی کرچکے تھے ۔ لوگوں نے بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ کرفیو کے خاتمہ پر گربا کے ٹھمکے اس طرح لگائے کہ گویا کورونا کا بیڑہ غرق ہوگیا ۔ اس کے دو دن بعد وزیر اعظم نے رات ۸ بجے کسی کو سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر بالکل نوٹ بندی کی مانند ملک میں تالہ بندی نافذ کردی۔ نوٹ بندی کو راز میں رکھنے کا جواز تو یہ تھا کہ لوگوں کو کالا دھن سفید کرنے کا موقع نہ ملے لیکن اچانک تالہ بندی کے لیے تو ایسا کوئی بہانہ بھی نہیں تھا ۔ وزیر اعظم کی ناعاقبت اندیش فیصلوں کو برداشت کرنے کی اب لوگوں کو عادت سی ہوگئی ہے ۔ویسے تو نوٹ بندی کی مانند یہ بھی ایک احمقانہ فیصلہ تھا لیکن اول الذکر آفت میں لوگوں نے اپنا کالا دھن کسی نہ کسی طرح رشوت دے دلا کر سفید کرلیا لیکن تالہ بندی کے بعد تو جان کے لالے پڑ گئے ۔ یہ عجیب صورتحال تھی کہ دھندہ کاروبار تو بند کرتے ہوئے ان کروڈوں لوگوں کے بارے میں بالکل نہیں سوچا گیا کہ جنہیں پانی پینے کے لیے ہر روز کنواں کھودنا پڑتا ہے۔ شہری مزدوروں کے پاس کوئی ایسی جمع پونجی نہیں ہوتی کہ جس سے وہ ایک آدھ ہفتے کے بعداپنا گزارہ کرسکیں ۔ سرکار نے اعلان تو کردیا کوئی بھوکا نہیں مرے گا لیکن پچھلے سترّ سالوں سے عوام پر یہ حقیقت آشکار ہوچکی ہے کہ سرکاری وعدے پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ووٹ لینے کے لیے ہوتے ہیں ۔ اس طرح موجودہ حکومت کے خلاف پہلی بڑی بغاوت ہوئی ۔ ملک کے غریب لوگوں نے وزیر اعظم کی تالہ بندی کوببانگ دہل قدموں تلےرونددیا ۔ ریل اور بس سے بے نیاز لوگ پیدل اپنے وطن کی جانب چل پڑے ۔ پانچ ٹریلین ڈالر کی اکونومی کا غبارہ بیچ چوراہے پر اس طرح پھوٹا کہ ساری دنیا میں گونج سنائی دی۔ ہر بڑے شہر سے لاکھوں مزدوروں کا پیدل نکل پڑنا اس بات کا اعلان تھا کہ ان شہروں میں انسان نہیں حیوان بستے ہیں ۔ وزیر اعظم کے کھوکھلے الفاظ ان پر اثر انداز نہیں ہوں گے کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور کوئی کسی کو بھوکا مرنے نہ دے۔ اپنی ذمہ داری کوادا کرنے میں کوتاہی کرنے والے قومی سربراہ کااعلان عوام کی تفریح کا سامان تو ہو سکتا ہے مگر ان کے اندر جذبۂ خدمت و عمل بیدار نہیں کرسکتا ۔ اپنے گاوں کے جانب نکل کھڑے ہونے والے مزدوروں نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اگر وہ مرجائیں تب بھی کوئی ان کے قریب نہیں آئے گا۔ انہیں اپنے اعزہ و اقارب کے پاس مرنے سے یہ سرکار نہیں روک سکتی ۔ اس طرح کورونا کی وباء کے بعد لاک ڈاون نے ہندوستانی سماج اور سرکار کے سامنے ایک آئینہ رکھ دیا جس میں اپنا کریہہ چہرہ دیکھ کر ان لوگوں کے سوا ہر کوئی شرمندہ ہوگیا جو اپنی جان کو ہتھیلی پر رکھ کر بے سہارا لوگوں کی خدمت کے لیے آگے آئے تھے۔ اس معاملے میں حکومت نے کمال بے حسی کا ثبوت دیا ۔ اپنے سر کو شتر مرغ کی مانند ریت میں چھپا کر سپریم کورٹ میں جھوٹ بولنے والے سرکاری وکیل نے بے حیائی کے ساتھ یہ کہا کہ کوئی مہاجر مزدور سڑک پر نہیں ہے۔ عدالت عظمیٰ کے نابینا ججوں نے حکومت کی کذب گوئی کو من و عن تسلیم کرلیا ۔ موجودہ حکومت کو اگر ذرہ برابر بھی عقل ہوتی تو ریل گاڑیاں اور بسوں کو بند کرنے کے بجائے خصوصی گاڑیاں چلا کر پہلے شہری مزدوروں کو مفت میں ان گھروں تک پہنچایا جاتا اور پھر تالہ بندی کا اعلان کیا جاتا ۔ دنیا بھر میں لاک ڈاون سے قبل عوام کو سنبھلنے کا موقع دیا گیا لیکن خود کے عظیم ترین جمہوریت ہونے کا ڈھول پیٹنے والی سرکار نے اچانک عوام کا گلا گھونٹ دیا اور اس سفاکی و بدانتظامی سے توجہ ہٹانے کے لیے پہلے تبلیغی جماعت کے نام سے ذرائع ابلاغ میں مسلمانوں کو کورونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور پھر ممبئی کےباندرہ میں جمع ہونے والے مسافروں کو مسجد سے جوڑ کر شرانگیزی کی گئی لیکن وقت کے ساتھ کورونا نے ان سب جھوٹوں کا دماغ درست کردیا ۔
لاک ڈاون کے ایک سال بعد اب زمینی صورتحال یہ ہے کہ دنیا بھر میں امریکہ اور برازیل کے بعد ہندوستان کا نمبر آتا ہے۔ ملک میں کورونا وائرس کے معاملات ایک بار پھر انتہائی سرعت بڑھنے لگے ہیں اور گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کورونا کے 62258 نئے معاملات سامنے آئے، جو اس سال اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس سے قبل جمعہ کے روز یہ تعداد 58886 تھی اور گزشتہ جمعہ کو یہ صرف 39726 پرتھی یعنی 32فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ ویسے اب لوگوں نے کووڈ ٹیسٹ کرانے کے بجائے سٹی اسکین کرواکر براہ راست علاج کرانے کا چور دروازہ بھی کھول لیا ہے جس سے صحیح صورتحال سامنے نہیں آتی اور کورونا کی بیماری سے مرنے والوں کا پتہ بھی نہیں چلتا اس کے باوجود ا کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے مریضوں کی تعداد 291 ہوگئی ہے جو گزشتہ روز 257 سے 15 فیصد زیادہ ہے۔
ملک میں کورنا کی وباء سے سے تادمِ تحریر ایک کروڑ 19 لاکھ 08 ہزار 910 لوگ متاثر ہوئے ہیں اورمرنے والوں کی مجموعی تعداد 161240 ہوگئی ہے حالانکہ اب تک 58109773 افراد کو اینٹی کورونا وایکسین بھی دی جاچکی ہے۔کورونا کی اس واپسی میں حکومت کے لیے یہ پیغام ہے کہ وہ تالی ، تھالی، دیا اور بتیّ سے عوام کو بیوقوف تو بنا سکتی ہے مگر کورونا کو بھگا نہیں سکتی کیونکہ ملک کے بھولے بھالے عوام اور کورونا کے جراثیم میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ اس وباءکا مقابلہ کرنے کے لیےحکومت کو سنجیدہ ہونا پڑے گا لیکن جن حکمرانوں ساری توجہات کا مرکزصرف اور صرف انتخاب جیتناہو ان سے عوام کی فلاح و بہبود کی توقع خیالِ خام ہے۔ ایسے میں عوام کو اپنی صحت کا خیال خود رکھنا پڑے گا ۔ یہ سیاستداں عام لوگوں کو انتخابی مہم میں الا کر اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے رہیں گے لیکن اس کی زبردست قیمت غریب و مجبورعوام کو چکانی پڑے گی کیونکہ پہلے یہ کہا جاتا تھا کورونا جھگی جھونپڑیوں سے خوشحال علاقوں میں آتا ہے لیکن حالیہ تقتیش سے پتہ چلا ہے کہ بڑے بڑے ٹاورس سے یہ وباء جھگی جھونپڑیوں کی جانب جارہی ہے۔ ایک غریب انسان کی خاطر بڑے اسپتال میں مہنگا علاج کروانا ناممکن ہے۔ اس لیے کورونا کی واپسی ازحد فکرمندی اور احتیاط کا تقاضہ کرتی ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here