ذبیح اللہ ذبیح
اسلام مذہب میں بیٹیوں کو رحمت تصور کیا جاتا ہے تو وہیں ہندو مذہب میں بھی بیٹیوںکو لچھمی مانا جاتا ہے،بیٹیوں کا جتنا عظیم المرتبہ اسلام مذہب میںحاصل ہے اتنا ہی ہندو مذہب میں بھی۔لیکن کیا یہ مرتبہ عصر حاضر میں بیٹیوں کو حاصل ہے؟سوالات بہت ہیں لیکن جواب دینے کا کوئی بھی قائل نہیں۔آئے دن ملک میں بیٹیوں کے ساتھ زنا بالجبر ،اجتماعی ریپ بہت عام ہو گیا ہے ۔گزشتہ سالوں سے زنا بالجبر کی فہرست طویل ہوتی جا رہی ہے،قتل عام ہو گیا ہے،روشن خیال خواتین کی گرفتاریاں عام ہو رہی ہیںجہاں ہمارے ملک کے مرد حضرات بیٹیوں کو کالی،درگا کے خطاب سے نوازتے ہیں ،رام اور کرشنا کا اوتار اپنے آپ کو مانتے ہیں تو وہیں رام اور سیتا کے مندروں میں اجتماعی ریپ بھی کرتے ہیں ۔میں کسی خاص مذہب کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا ہوں ناہی میرا مقصد ہے کسی خاص مذہب پر بات کرنے کا۔ ہمارے ملک میں ریپسٹ اگر رام ہے تو وہیں کوئی رحیم بھی ہے۔جرم کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور مذہب میں جرم کا کوئی فلسفہ بھی نہیں ہوتا اس لئے ملزم کوئی مسلمان ہو یا ہندو ملزم ،ملزم ہے۔
علاوہ ازیں آپ اپنے ملک کے انقلابی خواتین کا اگر جائزہ لیں تو اس کی فہرست بھی طول طویل ہے ان میں صفورا زرگر،عشرت جہاں،گلفشاں فاطمہ وغیرہ سر فہرست ہیں۔گزشتہ ایک سال سے ہمارے ملک کی یہ بیٹیاں اخباروں کی سرخیاں بنی ہوئی ہیں ،صفورا زرگر پر بہتان تھا غیر شادی شدہ حاملہ ہونے کا تو وہیں دوسری طرف گلفشا ں فاطمہ پچھلے ایک سال سے جیل میںمقید ہیں تعلیم یافتہ دہشت گرد ہونے کے جرم میںتو وہیں کانگریس لیڈر اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بھی جیل کی صعوبتیں اٹھائیںبلکہ جیل میں انہیں مارا پیٹا بھی گیا۔یہ تینوں خواتین ہمارے ملک کی وہ تعلیم یافتہ ہیں جو مختلف شعبوں کی چاندنی ہو سکتی ہیں ،ان کا اپنا الگ الگ شعبہ بھی ہے اور یہ اپنے شعبوں میں مہارت بھی رکھتی ہیں ۔صفورا زرگر جہاں ایک اچھی اسکالر ہیں تو وہیں عشرت جہاں بھی اچھی سیاسی سمجھ بوجھ رکھتی ہیں۔گلفشاں فاطمہ کی میں بات کیا کروں ؟ اور ان کے کن کن صلاحیتوں کو اجاگر کروں؟افسوس صرف میں افسوس کر سکتا ہوں مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اس تعلیم یافتہ دہشت گرد کی روداد لکھوں۔ان کے لئے تو میں بس دعا ہی کر سکتا ہوں اور آپ سے دعاؤ ں کی درخواست کروں گا کہ اللہ انہیں صبر اور حوصلہ دے۔
میں اپنے ملک کے کن کن بیٹیوں کی روداد اور ان کا کرب لکھوں ؟ مجھ میں شاید اب اتنی سکت نہیں ہے۔کبھی آصفہ آٹھ سالہ معصوم بچی جیسے مجھے آواز دیتی ہو کہ بھائی جان میری تم روداد لکھو،میرا درد و کرب لکھو،میرے والدین کی اذیت لکھو،مجھے انصاف دلاؤ،وہ کہتی ہے کس نوعیت کے تم ادیب ہو؟جو سچ نہیں لکھ سکتے ؟اپنے آپ کو ادیب کہنا ،کہلوانا ،لکھنا بہت سہل ہے لیکن بھائی جان ادب کے ان اصولوں پر چلنا بہت مشکل ہے ۔تمہارے جیسے نئے قلم کار روز پیدا ہوتے ہیں اور ہم جیسے معصوم لوگوں کی مظلومیت پر نظم اور افسانے لکھ کر ادیب بن جاتے ہیں لیکن دراصل تم ہمارا درد نہیں لکھتے ،ہمارا کرب نہیں لکھتے بلکہ تم سب تو ہمارے ذریعہ اعجاز حاصل کرتے ہو،تم ادیب لوگ جس دن حقیقت پسند بن جاؤ،واقعی میں تم ہمارے لئے ہی قلم چلاؤخدا قسم کہتی ہوں کسی آصفہ کا پوری دنیا میں کوئی اجتماعی ریپ نہیں کر سکے گا۔ تمہارے قلم کی طاقت سے دنیا وحشت کھائے گی،ایک بار میری باتوں پر غور ضرور کرنا۔
دوسری طرف ڈاکٹر پرینکا ریڈی کی روح جیسے مجھ سے کہتی ہو کیا تم میرے بارے میں اس لئے نہیں لکھتے کہ میں رام اور سیتا کے گھر میں پیدا ہوئی ہوں ،میرا کیا قصور ہے کی میںہندو ہوں؟ میں ڈاکٹر پرینکا سے کچھ کہتا اس سے پہلے نربھیا مجھے آواز دیتی ہے کہ ارے شرم کرو تم ،تم خود کو ہندوستانی تہذیب کا پروردہ کہتے ہو،کیا کیا ہے تم نے ہندوستانی بیٹیوں کے لئے۔بند کرو یہ ناٹک لکھنے پڑھنے کا ،تم تو جاؤ بس اپنی ذات کی فکر کرو،کسی نئے موضوع کی تلاش کرو اور بیٹھے دوست احباب میں تبصرے کرو۔ایسی نہ جانے کتنی آوازیں آتی ہیں اور کہتی ہیں بس تم تماشا دیکھو اور ہماری بہنیں تمیں رقص کرتے دکھائیں گی۔میرا ضمیر ایسے روز مجھے ملامت کرتا ہے ،مجھ پر طنز کستا ہے،میری بے بسی پر ہنستا ہے اور کہتا ہے دیکھو !دیکھو!کیسے!
ہماری بیٹیاں کہیں جلائی جا رہی ہیں،تو کہیں ان کا اجتماعی ریپ ہو رہا ہے،تو کہیں ان کی عزت اچھالی جارہی ہے۔انہیں ایک طرف رانی لچھمی بائی بننے کی دعوت دی جارہی ہے تو دوسری طرف جیلوں میں ہماری بیٹیاں قید کی جارہی ہیں۔ایک طرف کسی خاتون کو World Woman,s day پر اعزاز و انعام دیا جاتا ہے تو دوسری طرف بد کردار بتا کر گھروں میں زبر دستی بٹھائی جا رہی ہیں۔ہندوستان ملک کے سیاست اور سماج میں اتنا تضاد کیوں ہے ؟ یہ بتائے کون؟اس قدر عورتوں کے لئے نفرت مجھے تو یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ یہ وہی مرد ہیں جو مندروں میں دیویوں کی پوجا کرتے ہیں جو کالی ماں کی سوگند کھاتے ہیں، سرسوتی جی کی پوجا کرتے ہیں۔ میں بہت تھک گیا ہوں یہ سب دیکھ دیکھ کر۔بچپن سے لے کر جوانی تک روز میں نے ایک ہی مسئلہ دیکھا ہے کہ اپنی بیٹیوں کو تحفظ کیسے دیا جائے؟ ان کی شادی کیسے کی جائے؟ ان کا گھر کیسے بسایا جائے؟لیکن یہ مسائل ایسے ہیں جو دوزخ کے پیٹ کی طرح بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔مسائل میں آئے دن اضافہ ہوتا رہتا ہے۔جن بیٹیوں کے جیسے تیسے گھر بس جا رہے تھے اب ہماری وہ بیٹیاں گھٹن محسوس کرنے لگیں ہیں کل تک جو ہماری بیٹیوں کاگھر ان کا اپنا سسرال اجاڑتا تھا ،ان کا شوہر جہیز کے لئے ان کا جینا محال کرتا تھا وہ ہماری بہادر بیٹیاں جیسے تیسے پھر بھی اپنا گھر بسا لیتی تھیں لیکن اب ان بیٹیوں کا گھر اجاڑنے والا کوئی اور نہیں بلکہ ہمارا اپنا سیاسی نظام ہے۔
پروفیسر علی احمد فاطمی کو تو آپ جانتے ہوں گے ؟ وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔اردو اور ہندی ادب کی انہوں نے ہمیشہ پذیرائی کی ہے بلکہ بے لوث انہوں نے ہمیشہ ادب کی خدمت کی ہے۔ہمارا اردو ادب ان کے احسانوں کو فراموش نہیں کر سکتا ،ان کی خدمات کو جھٹلا نہیں سکتا۔برسوں انہوں نے الہ آباد یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دی ہیں وہ جس طرح سے قومی سطح پر مقبول ہیں بالکل اسی طرح سے اپنی تنقیدی خدمات سے عالمی سطح پر بھی لوہا منوا چکے ہیں۔ان کی تقلید جہاں نئی نسل کرتی ہے وہیں ان کے اپنے معاصرین بھی ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہیں۔پروفیسر علی احمد فاطمی ایک حساس طبیعت کے مالک ہیں ،ان کے مجاز میں جہاں خاکساری و انکساری ہے وہیں وہ اپنے چھوٹوں سے شفقت و محبت سے پیش آتے ہیں اور اپنے بڑوں کا احترام کرتے ہیں۔حب الوطنی کو وہ اپنا مذہب تصور کرتے ہیں پوری دنیا میں اپنے ملک کے پرچم کو لہراتے ہیں ،ملک کا نام روشن کرتے ہیں اور واپس اپنی پاک زمین پر لوٹ آتے ہیں۔پروفیسر علی احمد فاطمی کا نام ملک کے مہذب لوگوں میں شمار ہوتا ہے ان کے چاہنے والوں کی فہرست بھی بہت طویل ہے۔میری ان سے کوئی ذاتی ملاقات تو نہیں رہی لیکن میں نے ان کو اکثرہا سیمیناروں میں سنا ہے ،ان کی تحریروں کو رسائل و جرائد میں پڑھا ہے ۔دور دور سے ہی ان کی شخصیت کا مشاہدہ کیا ہے اور جتنا ان کو جانا ہے اس کی بنیاد پر ان سے مجھے کافی رغبت ہے۔یہ رغبت میری اور بڑھ گئی ہے جب سے ان کی بیٹیوں اور ان کے پڑوسیوں کے گھر ٹوٹنے کی بات سنی ہے یا اخبارات میں پڑھی ہے۔میں ان کا ظاہری طور پر کوئی طالب علم تو نہیں لیکن ادب کے ذوق کی بنا پر ان کی تحریروں سے ہمیشہ استفادہ اٹھایا ہے،ان کی تحریروں سے بہت کچھ سیکھا ہے اس لئے جو عقیدت و محبت مجھے اپنے والدین سے ہے بالکل وہی عقیدت و محبت مجھے پروفیسر علی احمد فاطمی سے بھی ہے ۔میرے والدین نے ہمیشہ اساتذہ کی عزت کرنے کا درس دیا ہے جو میں کرتا بھی ہوں ۔
میں اور مسلمانوں کی طرح نمازی نہیں ہوں،روزہ دار نہیں ہوں،زکوۃ ادا نہیں کرتا ہوں،حج پر نہیں گیا ہوں،لیکن پھر بھی اللہ اور اس کے رسول میں یقین رکھتا ہوں اور لا شعوری طور پر ہی سہی معنوں میں اپنے مذہب کی تقلید کرتا ہوں ،اسلام میں نماز پانچ وقت فرض ہے لیکن اخلاق چوبیس گھنٹے فرض ہے اور میں نماز سے زیادہ اخلاق کے فریضے میں یقین رکھتا ہوں،کہتے ہیں خدا ہر جگہ بستا ہے اس اعتبار سے خدا ہمارے گھروں میں بھی بستا ہے اس لئے میرے نزدیک ہمارا گھر کسی مسجد،مندر،گرو دوارا اور کلیسا سے کم نہیں ہے۔اس لئے میں جتنی عبادت گاہوں کی عزت کرتا ہوں اتنی اپنے گھر کی بھی اور میں کیوں نہ کروں اپنے گھر کی عزت اس میں جو ہمارا خدا بستا ہے،میرا مسجد تو خدا کے کرم سے محفوظ ہے لیکن افسوس ہمارے دلوں کی دھڑکن،ہر دلعزیز ،تا عمر درس و تدریس کا خدمات انجام دینے والے پروفیسر علی احمد فاطمی کی بیٹیوں کا گھر بالکل اسی طرح شہید ہو گیا جیسے کبھی ہماری بابری مسجد ہوئی تھی۔ایک غم سے ہم ابھی تک نکل بھی نہ پائے تھے کہ دوسرا غم بھی ہمارے سروں پر نازل ہو گیا۔سیاسی نظام نے ہمارے گھروں کی بیٹیوں کو بے گھر کر دیا،بلکہ کربلا کی تاریخ کو زندہ کر دیا،ہم پھر اسی درد و کرب میں مبتلا ہو گئے۔یا حسین اب تو آپ ہی کا سہارا ہے ہماری بیٹیوں کے لئے دعا کیجئے کہ خدا انہیں تحفظ دے،اے فاطمہ بی آپ اپنی چادر کے پھیلاؤ کو وسعت دیں تا کہ ہماری بیٹیاں اپنے سر وں کو چھپا سکیں۔فی الوقت پروفیسر علی احمد فاطمی کی کیفیت کیا ہوگی ؟ اس کا تو شاید ہم اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ،لیکن شاید ہم ان کی بیٹیوں کو اپنی بیٹی تصور کر لیں تو ان کے درد و کرب کا احساس ہو جائے گا ۔کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کی بیٹیوں کا بھی گھر کبھی بھی زد میں آسکتا ہے ،پروفیسر علی احمد فاطمی نے تا عمر سرکاری ملازمت کی،بے شمار بچوں کو پڑھایا،لکھایا ان کے مستقبل کو سنوارا لیکن ان کو اس وفاداری کے عوض میں کیا ملا؟کوئی ہے جو پوچھے؟کوئی ہے جو انہیں ،ان کی بیٹیوں کو انصاف دلائے۔وہ انصاف کی کتاب کہاں ہیں؟ جو علی احمد فاطمی کی بیٹیوں کو انصاف دلا سکے،کوئی قانون ہے جو ان کے بیٹیوں کا گھر لوٹا سکے،وہ گھر جہاں وہ کھیلا کرتی تھیں،وہ گھر جہاں سے پلی بڑھی تھیں،وہ گھر جہاں سے سنہ بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھیں تھیں،وہ گھر جہاں سے ان کی رخصتی ہوئی تھی،وہ گھر جہاں وہ واپس آکر اپنے بوڑھے ماں ،باپ کے ساتھ بسیں تھیں،وہ گھر جہاں سے وہ اپنے بچوں کی پرورش کر رہیں تھیں۔خدا رحم کرے جس نے ہزاروں بچوں کے مستقبل کو روشن کیا آج خود اس کی بیٹیاں تاریک کی راہوں میں کھڑی ہیں۔
حیرت کی بات ہے آج ہم اتنے ترقی یافتہ ہونے کے باوجود بھی اسی قدیم تہذیب میں جی رہے ہیںجہاں کل ہم عورتوں کو ان کی بیوگی،ان کی پاکدامنی،ستی ورتا،مذہب کے نام پر استحصال کر رہے تھے بالکل آج بھی ہم اسی طرح سے عورتوں کا استحصال کر رہے ہیں ہم نے بس اپنا طریقہ کار بدل لیا ہے۔پروفیسر علی احمد فاطمی کی بیٹیوںاور ان کے پڑوسیوں کا جو گھر توڑا گیا ہے وہ بھی ایک طرح سے بیٹیوں کا استحصال ہے،کیوں کہ کوئی بھی گھر بیٹوں کے بنا نا مکمل ہوتا ہے۔بیٹیوں کی بے بسی اور بے گھر ہونے کا درد وہ کیا جانیں جن کا کوئی گھر ،کوئی بیوی یا کوئی بیٹی ہی نہیں ہے۔خدا ایسا دن کسی دشمن کو بھی نہ دکھائے ،اور جب ایسا دن آئے تو اس سے پہلے اس بیٹی کے باپ کی روح نکل جائے،زمین پھٹ جائے،ہوائیں قہر آلود ہو جائیں،بیٹیاں پیدا ہونے سے پہلے اللہ کو محبوب ہو جائیں ،یا تو پھر بیٹیاں تلوار سی ہو جائیں،اس ذات کو بیٹیاں نیست و نابو کردیں جو ان کی دشمن ہیں اور تاریخ کے صفحوں خود امر ہو جائیں۔آپ نے اگر میرا مضمون پڑھا تو ان سبھی بیٹیوں کے لئے دعا کریں جو مشکل میں ہیں ۔
ریسرچ اسکالر،دہلی یونیورسٹی ،دہلی
9599207050 +91