اظہار راکی آزادی نہ بچی تواآئینی جمہوریت نہیں بچ پائیگی

0
91

عبید اللہ ناصر
اظہار راکی آزادی جمہوریت کی بنیادی ستون ہے جسکی گارنٹی ہندستان کا آئین بھی دیتا ہے اور یہ عوام کا بنیادی حق ہے اسی بنیادی حق کے بطن سے مخالفت کی آزادی احتجاج کی آزادی اور میڈیا کی آزادی نکلتی ہے -تاریخ شاہد ہے کہ متعدد بار متعدد ریاستی حکومتوں اور مرکزی حکومت نے اس آزادی پر قدغن لگانے کی کوشش کی لیکن حزب اختلاف میڈیا اور خاص کر عوام کے دباؤ کے آگے حکومتوں کو جھکنا پڑا –۔
اسکے ساتھ ہند تعزیرات ہند میں اس بات کا بھی انتظام کیا گیا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کے نام پر ملک کی مختلف اکائیوں اور طبقوں ،میں منافرت پھیلانے سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنے دوسرے ملکوں سے ہندستان سے تعلقات خراب کرنے کی اور ایسی ہی منفی حرکتوں کی روک تھام کے لئے اقدام کے جائیں اور اس آزادی بجا استعمال کرنے والوں کے خلاف ان دفعات کے تحت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے اس لئے میڈیا سمیت عوام کی اس آزادی پر روک لگانے کے لئے کسی نئے قانون کی ضرورت نہیں ہے -جمہوریت کے تحفظ کے لئے عوام کو حساس ہونا ہی پڑیگا اور بنا اظہار رائے کی آزادی کے جمہوریت بے معنی ہوگی اس لئے اس آزادی اور اپنے اس بنیادی حق کے تحفظ کے لئے عوام کو ہی بیدار رہنا پڑیگا۔
اپوزیشن میں رہتے ہوے بھارتیہ جنتا پارٹی اظہار رائے کی آزادی احتجاج کی آزادی حکومت کی نکتہ چینی اور مخالفت کی آزادی ایک تحفظ کے لئے بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہے لیکن آج جب وہ خود بلا شرکت غیرے بر سر اقتدار ہے تو اس آزادی کو صلب کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہے مودی امت شاہ اور یوگی برانڈ سیاست کی یھب کامیابی ہے کہ انہوں نے بنا کسی قانون کے اپنا ڈیایسٹی نگر بنا لیا ہے میڈیا سہی معنوں “ہز ماسٹر وائس ” بن چکا ہے الیکٹرانک میڈیا نے تو خاص کر ہر وہ حرکت کی ہے جس سے ملک کا سماجی تانا بانا منتشر ہو جائے سماج کے مختلف طبقوں کے درمیان غلط فہمی نہیں بلکہ نفرت پھیلے اور ایک مخصوص ایجنڈہ ہی ملک میں نافذ رہے – نیوز چینلوں کی بے لگامی غیر ذمہ داری اور لا قانونیت کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اس زمرہ میں پرائیویٹ پارٹیوں کو لا کر غلط کیا گیا ہے بہتر یہی ہوتا کہ دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کی خود مختاری کو آئینی درجہ دے کر یقینی بنا دیا جاتا تو کم سے کم ایسی غیر زمہ دارانہ صحافت اور ایک خاص مقصد سے عوام کی ذھن شوئی کی لعنت سے ملک بچا رہتا۔
میڈیا کے کارپوریٹ کے ہاتھوں میں چلے جانے سے میڈیا کی آزادی کو حکومت سے زیادہ مالکان کے تاجرانہ مفاد سے خطرہ پیدا ہو گیا ہے ایسا نہیں کہ اس سے پہلے بڑے تاجر گھرانے اخبارات نہیں نکالتے تھے بڑلا جی اور گوینکا جی سمیت متعدد بڑے تاجر اخبارات نکالتے رہے ہیں لیکن انہونے صحافت کے تقدس اور آزادی زسے کبھی سمجھوتا نہیں کیا لیکن اسکے بعد تاجروں اور میڈیا کا کیرکٹر بدلنے لگا اور میڈیا کی آزادی پر انکے تاجرانہ مفاد حاوی ہونے لگے ایسے میں صحافیوں کو بھی جھکنا پڑا لیکن پھر بھی بہت سے ایسے صحافی ہوے ہیں جنہون نے قربانیاں دے کر بھی صحافت کی آبرو اور اپنے قلم کا تقدس برقرار رکھا انہوں نے سرکار کا عتاب جھیلا بیروزگار ہوے مقدموں میں الجھے گئے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں یھاں تک کہ بسا اوقاتاپنی جانوں کا بھی نذرانہ پیش کر دیا لیکن اپنے پیشہ کے تقدس کو داغدار نہیں ہونے دیا -ایسے ہی چند معتبر اور سینئر صحافیوں کو کسنا تحریک کے دوران کسانوں کے حقہ میں کھڑا ہونے کی پاداش میں مقدموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ان میں راج دیپ سردیسائی ظفر آغا مرنل پانڈے جیسے چند نامور اور سینئر صحافی شامل ہیں تو مندیپ پنیا جیسا نوجوان صحافی بھی شامل ہے – حکومت کے اشارہ پر جس طرح ان سینئر صحافیوں کے خلاف ملک کے مختلف مقامات پر مقدمہ درج کرائے گئے اور ان میں بغاوت تک کی دفعات شامل کی گئیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ حکومت کا مقصد ان بے باک صحافیوں کو حراساں اور پریشان کرنا ہے -یہ حکومت کے تکبر انا اور مخالفت کو برداشت نہ کرنے کی غیر جمہوری سوچ کا آئنہ ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہکومنٹ کو جمہوری اقدار اور روایتوں کا کوئی پاس لحاظ نہیں ہے وہ صرف ایک ڈکٹیٹر کی طرح اپنی تعریف سننا چاہتی ہے اور دربار داری پسند کرتی ہے ۔
یہ درست ہے کہ یوم جمہوریہ کے موقعہ پر جب دہلی میں کسان احتجاج کر رہے تھے اور ایک کسان کی موت ہو گئی تھی تن صحافیوں نے کسان کی موت پولیس فائرنگ سے ہونے کا ٹویٹ کیا تھا لیکن جیسے ہی ان لوگوں کو پتہ چلا کہ کسان کی موت پولیس کی گولی سے نہیں بلکہ ٹریکٹر پلٹ جانے ہوئی تھی ان سبھجی لوگوں نے فوری طور سے وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی اور کسان کی موت ٹریکٹر پلٹ جانے سے ہونے کا ٹوئٹ کیا یہ انسانی چوک ایسی بڑی نہیں تھی کہ ان معتبر اور سینئر صحافیوں اور ایک ممبر پارلیمنٹ کے خلاف ملک میں متعدد جگہوں پر سخت قوانین کے تہست مقدمے درج کر لئے جائیں -نوجوان صحافی مندیپ پنیا کی غلطی یہ ہے کہ اس نے حکومت کی سازش بے نقاب کر دی تھی -سنگھو بارڈر پر جب کسانوں پر بی جے پی کے ایک کارکن کی قیادت میں پتھراو کیا جا رہا تھا اور جسے سبھی ٹی وی چینل کسانوں پر عوام کا حملہ بتا رہے تھے ٹیب اس نوجوان شافی نے فوٹو کے ساتھ اس بی جے پی کارکن کا کچا چٹھا عوام کے سامنے رکھ دیا تھا – حکومت اپنی سازش اور بی جے پی اپنی پول کھل جانے سے اتنی برا فروختہ ہوئی کی اس نے مندیپ کو گرفتار کر لیا اور مجسٹریٹ نے انھیں ریمانڈ پر بھی بھیج دیا خوشی کی بات ہے کہ مندیپ ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے لیکن حکومت نے اپنے چہرہ کی نقاب ہٹا دی اور اپنی کریہ غیر جمہوری شکل ایک بار پھر عوام کے سامنے پیش کر دی – دہلی کے سینئر اور نوجوان صحافیوں نے بہر حال حکومت کے اس تانا شاہی رویہ کے خلاف صدا احتجاج بلند کی ہے لیکن اقتدار کے نشہ میں چور حکومت کے کان پر جوں رینگیگی اسکی امید دکھائی نہیں دیتی۔
عوام کے آئینی اور بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے عدالتیں ہیں مگر افسوس ہے کہ اب عدالتوں میں فیصلوں اور انصاف سے زیادہ پنچایت ہونے لگی ہے اسکے علاوہ متعدد ایسے فیصلہ سپریم کورٹ تک سے ہوے ہے جن میں کھلی جانب داری دکھائی دی ہے متعدد بار استغاسہ کی بات کو ہی ماں لیا گیا ہے مثال کے طور پر ایک صحافی کو سپریم کورٹ سے ہی براہ راست اور فوری راحت مل جاتی ہے دوسرا صحافی مہینوں سے جیل میں ہے اور اسکی ضمانت کی درخواست کو اس عدالت سے اس عدالت بھیجا جا رہا ہے جس صحافی کو فوری ضمانت ملی وہ حکومت کے ایجنڈہ کو چلا رہا ہے کھل کر سماج میں منافرت پھیلا رہا پڑوسی ملک سے تعلقات خراب کر رہا ہے لیکن چونکہ حکومت کا منظور نذر ہے اسلئے اسکے ساتھ یہ سلوک اور دوسرا بلکہ اس جیسے کئی مہینوں سے جیل میں ہے اور انکی درخواست ضمانت پر فیصلہ کس عدلت کو کرنا ہیابھی یہی شاید طے نہیں ہو پایا ہے – ظاہر ہے کہ ایسے فیصلوں سے عدلیہ کی غیور جانب داری اور ساکھ پر بٹہ لگےگا ہی سوشل میڈیا پر جب یہ سب اچھالا جاتا ہے تو سپریم کورٹ خود کہتا ہے کہ ہمیں بدنام نہ کریں -سپریم کورٹ کا اپنا ہی فیصلہ ہے کہ ضمانت حق ہے اور جیل غیر معمولی وجوہ ہونے پر ہی بھیجا جانا چاہئے لیکن خود سپریم کورٹ اور ذیلی عدالتیں اس پر عمل نہیں کر رہی ہے کتنے صحافی سماجی کارکن مہینوں بلکہ سالوں سے جیلوں میں سڑ رہے ہیں اور انھیں ضمانت نہیں مل رہی ہے – ان میں سے کئی بہت ضعیف عمر دراز اور کمزور ہیں لیکن عدالت انسانیت کے نام پر بھی انھیں ضمانت نہیں دے رہی ہے ان پر عاید فرضی مقدموں کو خارج کر دینا تو دور کی بات جہاں تک دہلی پولیس کی بات ہے کبھی وہ ملک کی سب سے بہترین اور پروفیشنل پولیس فورس سمجھی جاتی ہے کیونکی مرکزی وزارت داخلہ کے تحت ہونے کی وجہ سے اس پر سیاسی دباؤ بہت کم ہوتا تھا لیکن بی جے پی حکومت خاص کر امت شاہ کے وزیر ف داخلہ بننے کے بعد سے وہ پرانے زمانہ کے زمینداروں کم لٹھیت جیسی ہو گئی ہے جسکا کام اپنے آقا کے اشارہ پر مخالفین کا سر پھوڑنا رہ گیا ہے اسکی گراوٹ کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ سپر کاپ کہے جانے والے جولیو ربیرو سمیت سو سے زید سبکدوش آئ پی اس افسروں نے دہلی فساد کے دوران اسکے طرز عمل اور پھر ان فساد کی تحقیقات میں اسکی کھلی جانب داری کے خلاف دہلی پولیس کے سربراہ کو خط لکھ کر انھیں انکا فرض منصبی یاد دلایا حالانکہ کون سنتا ہے “فغان درویش “ایمانداری اور گہرائی سے دیکھا جائے تو اس وقت ہماری جمہویت اور آئینی نظام شدید خطرہ سے دو چار ہے کمال ہوشیاری سے این کے الفاظ کو برقرار رکھتے ہوے اسکی روح کو نکال دیا گیا ہے اگر عوام اب بھی بیدار نہ ہوے تو جمہوریت کو نہیں بچا پائینگے اور اگر جمہوریت نہ بچی تو ملک بھی اس شکل میں مشکل سے ہی بچ پائیگا۔٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here