ہنومان مندر تنازع : منظر پس منظر

0
205

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹر سلیم خان

دہلی کے چاندنی چوک میں فی الحال ہنومان مندر کے انہدام کو لے کر عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان جو تنازع چل رہا ہے اس کو سنگھ پریوار کے نقطۂ نظر سے دیکھنا دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے زمامِ کار سنبھالنے کے بعد جون 2014میں کہا ’’ بارہ سو سال کی غلامی کی مانسکتا(نفسیات) ہمیں پریشان کررہی ہے‘‘۔ اس جملے کو سننے کے بعد کچھ لوگ سوچنے لگے کہ شاید وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی یا ان کے حساب کتاب میں غلطی ہوگئی کیونکہ ایک بار انہوں نے اپنے رائے دہندگان کی تعداد ملک کی کل آبادی سے کہیں زیادہ بتا دی تھی لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک سوچا سمجھا بیان ہے جس کے ایک معنیٰ تو یہ کہ انگریزوں سے پہلے اس ملک کے باشندوں کو یعنی ہندووں کو مسلمانوں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑ رکھا تھا ۔ اس کا دوسرا دلچسپمطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ اگر سنگھ پریوار اور ہندو مہا سبھا نے انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں حصہ نہیں لیا تو اس میں حیرت کی کوئی بات نیںا ، وہ تو مسلمانوں کے دورِ حکومت میں بھی سرکار کے باجگذار بن کر عیش کررہے تھے ۔
اس حقیقت سے قطع نظر کے مسلم حکمرانوں نے یہاں کے باشندوں کو غلام بنایا یا صدیوں پرانی ذات پات کی غلامی سے آزادی دلائی اگر کوئی یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان کی آمد سے قبل اس ملک کی سیاسی صورتحال کیا تھی تو دہلی میں جاری ہنومان مندر کا تنازع میں اس کی جھلک دیکھ سکتا ہے۔ یہ ملک اسی طرح کی خانہ جنگی کا شکار تھا جس طرح اس مندر کو لے کر مرکزی اور صوبائی حکمراں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں۔ مسلمانوں نے اس فتنہ فساد کو ختم کرکے ملک کو متحد کیا ۔ داخلی خلفشار پر قابو پاکر عوامی فلاح وبہبود کی جانب توجہ مرکوز کی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ ملک سونے کی چڑیا بن گیا ۔ اس ملک میں زراعت کے علاوہ صنعت و حرفت میں بھی اس قدر ترقی ہوئی کہ یہاں کا کپڑا یوروپ میں سب سے زیادہ مقبول عام ہوگیا اور وہاں کے شاہی خاندان اسے فخرسے درآمد کرنے لگے ۔ دنیا کی کل آبادی کا ۲۷ فیصد جی ڈی پی ہندوستان میں آگیا۔ یہی عروج انگریزوں ، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے ہندوستان میں آمد کا سبب بنالیکن افسوس کہ سب سے زیادہ تہذیب یافتہ کہلانے والی برطانوی حکومت ۲۰۰ سال میں جی ڈی پی کو ۴ فیصد پر پہنچا کر رخصت ہوئی۔
آزادی کے بعد ابتدائی سالوں میں ہندوستانی حکمراں انگریزوں کی نقالی کرتے رہے ۔ اس دوران ’بانٹو اور کاٹو‘ کے اصول پرمندر مسجد کا مسئلہ چلایا گیا ۔فرقہ وارانہ فسادات کی سیاست ہوئی مگر معاشی سطح پر پیش رفت جاری رہی ۔ اب اس ملک کو1200سال پیچھے لے جانے کا خواب دیکھنے والے برسرِ اقتدار آگئے ہیں اس لیے مندروں کی لڑائی پھر سے چھڑ گئی ہے یعنی پرانا زمانہ لوٹ رہا ہے۔ فی الحال دہلی میں ایک مرکزی حکومت ہے اور دوسری صوبائی حکومت ہے۔ یہ دنوں مختلف جماعتوں کے ہاتھوں میں ہے اس لیے وہ دونوں ایک دوسرے کے سیاسی حریف ضرور ہیں لیکن نظریاتی اور مذہبی اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ ابتداء میں بدعنوانی کےحوالے سے فرق تھا لیکن وقت کے ساتھ وہ بھی مٹ گیا اور انتخابی ضرورتوں نے دونوں کو سیاسی حمام میں عریاں کردیا ۔ فرقہ واریت اور ہندو وں کی خوشنودی فی الحال دونوں کا امتیاز و ضرورت بن گیا ہے۔بنیا عام طور پر جین ہوتے ہیں لیکن اروند کیجریوال نے اپنا مذہب چھپا لیا ہے اس لیے اگر مودی رام بھکت ہیں تو وہ ہنومان کے بھکت بنے ہوئے ہیں ۔
اروند کیجریوال کی ہنومان بھکتی ان کی سیاسی ضرورت ہے۔ اقتدار کے آگے چونکہ سیاستدانوں کے لیے مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اس لیے جمہوریت میں انہیں یہ سب کرنا پڑتا ہے۔ وہ طرح طرح کے روپ بدلتے رہتے ہیں۔ 2014 میں کیجریوال بھی مودی کی مانند وزارت عظمیٰ کی کرسی کے دعویدار تھے ۔ اس لیے انہوں نے وارانسی سے قومی انتخاب لڑنے کا فیصلہ بھی کیا تھا ۔ اس وقت اپنے آپ کو مودی سے بڑا ہندو ظاہر کرنے کی خاطر کیجریوال نے گنگا ندی میں ڈبکی بھی لگائی تھی ۔ عآپ کے آئی ٹی سیل نے پانی کے اندر کھڑے ہوئے اروند کیجریوال کی تصویر کو خوب پھیلایا اور ہر اخبار اور ٹیلی ویژن پر اسے دکھایا گیا ۔نریندر مودی نے کیع گھٹیا ڈرامہ بازی کے بغیر اروند کیجریوال کے وزیر اعظم بننے کے خواب کو دریا برد کردیا۔ اس شکست کے بعد کیجریوال کی عقل ٹھکانے آگئی اور انہوں نے دہلی کے وزارت اعلیٰ کی کرسی پر اکتفاء کرنے کو غنیمت سمجھ لیا۔
وارانسی میں اروند کیجریوال کو چاروں خانے چت کرنے اور مہاراشٹر، ہریانہ و جھارکھنڈ میں فتح کا پرچم لہرانے کے بعد بی جے پی نے سوچا دہلی میں عام آدمی پارٹی کو چیونٹی کی مانند کچل دیا جائے گا لیکن انتخابی نتائج سامنے آئے تو زعفرانی ہاتھی ڈھیر ہوچکا تھا۔ 2015 کے صوبائی انتخاب سے قبل چونکہ اروند کیجریوال کانگریس کے ساتھ حکومت سازی کرنے کے بعد استعفیٰ دے چکے تھے اس لیے بی جے پی نے انہیں اس وقت کانگریس کا ایجنٹ اور غیر ذمہ دار و ناقابل اعتبار سیاستداں کے طور پر پیش کیا لیکن وہ حربہ ناکام رہا ۔ دہلی کے رائے دہندگان نے بی جے پی کو 32 سے 3 پر پہنچا کر اس کے تئیں اپنے عدم اعتماد کا اظہار کردیا۔ خوش قسمتی سے وہ انتخاب فرقہ پرستی کی بنیاد پر نہیں لڑا گیا تھا اس لیے کیجریوال بڑے فائدے میں رہے۔ بی جے پی نے کیجریوال کو ہرانے کے لیے ان کی ساتھی کرن بیدی کا پتاّ پھینکا مگر وہ وہ پٹ گیا ۔
2020 کے انتخاب میں بی جے پی کے لیے اروند کیجریوال کو غیر سنجیدہ سیاستداں کے لقب سے نوانا مشکل تھا کیونکہ وہ کامیابی کے ساتھ اپنے پانچ سال پورے کرچکے تھے اور کانگریس کا دلال بھی کہنا ممکن نہیں تھا کیونکہ انہوں نے دہلی سے کانگریس کا مکمل صفایہ کردیا تھا ۔ اس لیے بی جے پی اپنے فرقہ وارانہ کارڈ پر لوٹ گئی۔ کشمیر کی دفع 370کے باوجود مہاراشٹر میں ہار اور ہریانہ میں مار کے بعد جھارکھنڈ اور دہلی میں فتح حاصل کرنے کے لیے اس نے سونے کے انڈے دینے والی مرغی ایودھیا کے رام مندر کو ذبح کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ پہلے سپریم کورٹ کے ذریعہ بابری مسجد کے خلاف فیصلہ کروایا اور پھر انتخاب کا بگل بجایا ۔ جھارکھنڈ میں شکست کے بعد بی جے پی نے رام مندر کے ساتھ ساتھ شاہین باغ کو بھی اپنی انتخابی حکمت عملی کا حصہ بنالیا ۔ اسے یقین تھا کہ کیجریوال شاہین باغ جائیں گے اور وہ اس کو خوب بھنائیں گے لیکن اگر امیت شاہ بنیا ہے اور ایک ایک ووٹ کا حساب رکھتا ہے تو اروندکیجریوال بھی بنیا ہی ہے۔ اس طرح چھوٹے بنیا نے موٹے بنیا کو دوسری بار پٹخنی دے دی۔ ٭
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here