9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹریوسف رامپوری
اردو ایک شیریں اور پرکشش زبان ہے۔اس زبان نے اپنی شیرینی، کشش اور جاذبیت کی وجہ سے زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ بہت سے افراد اور طبقات کو اپنی جانب کھینچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کا وسیلہ اس زبان کو بنایا اور شاعری کی، کہانیاں لکھیں،افسانے تحریر کیے ،ناول ، انشائیے ، خاکے قلم بند کیے اور دیگر اردو کی نثری وشعری اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن یہ المیہ رہا کہ ان لوگوںکی خدمات وتخلیقات تو سامنے آئیں جو یونیورسٹیوں ، کالجو ں ، ادبی اداروں اور اکیڈمیوں سے وابستہ تھے، مگر وہ لوگ جو شہری زندگی سے دور گائوں،قصبوں اور دور افتادہ علاقوںمیں بود وباش اختیار کرتے تھے، اردوکے تئیں ان کی خدمات منظر عام پر نہ آسکیں یعنی حاشیائی زمینوں سے جڑے ہوئے لوگ حاشیہ ہی پر رہے ۔اس کے علاوہ سماج کے ان طبقات وافراد کی ادبی ، تحقیقی ، تخلیقی اور تنقیدی خدمات بھی سامنے نہ آسکیں جو ادبی مراکز سے الگ زندگی کے دوسرے شعبوں سے جڑے ہوئے تھے۔سوئے قسمت یہ کہ تحقیق اور تنقیدکرنے والوں نے بھی ان گمنام ادبا،محققین اور تخلیق کاروں کی خاطرخواہ جستجو نہ کی جنھوںنے اپنے پیچھے اچھا خاصا ادبی سرمایہ چھوڑا یا جو آج بھی ادب تخلیق کررہے ہیں۔
اس جوکھم بھرے اور وقت طلب کام کی طرف عصر حاضر کے ناقد وادیب حقانی القاسمی نے قدم بڑھایا اور انھوںنے یک موضوعی مجلہ’اندازِ بیان‘ جاری کیاتاکہ اس میں ان طبقات کی تخلیقی ، تحقیقی ،تنقیدی اور ادبی کاوشوں کو منظر عام پر لایاجاسکے۔اس مجلہ کا نام انھوںنے ’اندازبیان‘ رکھا ہے۔ حقانی القاسمی دنیائے اردو زبان وادب کے لیے محتاج تعارف نہیں ہیں۔ان کی درجنوں کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوچکی ہیں۔سیکڑوں تحقیقی وتنقیدی مقالات ملک کے مؤقر جرائد ورسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔بہت سی کانفرنسوں، سمیناروں، ورکشاپوں میں وہ شرکت کرکے اپنی قابلیت وصلاحیت کالوہا منواچکے ہیں۔ان کی تحریریں شائستہ ، شگفتہ اورشستہ ہوتی ہیں، طرزِ نگارش رواں، سلیس اور تاثیر سے پُر ہے۔ اس لیے ان کی تحریروں کو شوق سے پڑھا جاتا ہے ۔ان کی تنقیدوتحقیق میں تخلیقیت کی خوشبو آتی ہے۔ ’اندازِ بیان‘ کے ہر شمارے میں ان کی انفرادیت اور تخلیقیت نمایاںہے۔آپ ’انداز بیان‘ کاکوئی بھی ٹائٹل اٹھاکر دیکھئے ، نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتا ہے اور ساتھ ہی معنویت سے لبریزبھی۔ اس کے علاوہ ’اندازِ بیان‘ میں شامل مواد بھی معیاری ہوتا ہے گویا کہ صوری اور معنوی دونوں اعتبارسے حقانی القاسمی اپنے مجلہ کو سنوارتے اور سجاتے ہیں۔
’اندازِبیان‘ کی سب سے خاص اور منفرد بات اس کے موضوعات ہوتے ہیں۔ ایک شمارہ ایک ہی موضوع پر ہوتا ہے، اسی مناسبت سے اسے یک موضوعی مجلہ قرار دیا گیا ہے۔دراصل حقانی القاسمی اس مجلہ کو ایک اہم مقصد کے تحت نکال رہے ہیں اور وہ مقصد یہی ہے کہ گمنام ادیبوں، ناقدوں اور تخلیق کاروں کی خدمات سے قارئین کو واقف کرایا جائے تاکہ ان کے تخلیقی ، تحقیقی، تنقیدی کام پر بھی کام ہوسکے۔ اس طرح ہمارے اسکالر زکو نہ صرف تحقیق کے لیے نئے موضوعات مل جائیں گے بلکہ اس طرح اردوادب کا بہت سا سرمایہ بھی ضائع ہونے سے محفوظ ہوجائے گا۔اگر دیکھا جائے تو حقانی القاسمی اس مجلہ کو نکال کر بیک وقت کئی جہات پر کام کررہے ہیں ۔مثلاً ایک طرف وہ ان فنکاروںکو گمنامی کے دھندلکو ں میں روپوش ہونے سے بچانا چاہتے ہیں،جنھوںنے اپنے پیچھے اہم فن پارے چھوڑے یا ہنوز وہ ا پنے خونِ جگر سے نئے فن پارے رقم کررہے ہیں، دوسری طرف وہ اردو کے تحقیقی دامن اور اس کی موضوعاتی زمین کو اور زیادہ کشادہ کرنا چاہتے ہیں کہ محققین اور ناقدین میر،غالب اور اقبال کی دنیائوں سے نکل کردوسرے جہانوں کی بھی سیر کریں اور تیسری طرف وہ اردوزبان و ادب کے فروغ کا بھی کام کررہے ہیں۔
اندازِ بیان کا پہلا شمارہ ’ خواتین کی خود نوشت کاجائزہ‘ ہے۔ظاہر ہے کہ یہ موضوع اپنے آپ میں نہایت اہم ہے۔خواتین ہمارے معاشرے کا ایک جزو ہیں بلکہ جزوِ لاینفک۔ان کے بغیر نہ معاشرہ چل سکتاہے اور نہ چلتا ہے۔ زندگی کے تمام شعبے خواتین کی نمائندگی یا حصہ داری کے بغیر ادھورے اور بے رنگ ہیں۔اسی لیے تو اقبال نے کہا تھا: ’’ وجودِ زن سے ہے کائنات میں رنگ‘ ‘۔خالق کائنات نے خواتین کے اندر بھی بھرپور صلاحیتیں رکھی ہیں ۔ کام کرنے کی، لکھنے پڑھنے کی، شعروشاعری کی ۔انھوںنے باضابطہ مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوایا ہے۔وہ اچھی شاعرہ بھی ہوئی ہیں، مصنفہ بھی ، مغنیہ اور مصورہ بھی ۔اتنا ہی نہیں بلکہ اصلاحات کے شعبے میں بھی انھوںنے بڑے بڑے کارنامے انجام دیے ہیں اور کئی انقلابات انہی کی وجہ سے آئے ہیں۔جنگ کے میدانوں میں بھی کتنی ہی خواتین نے دادِ شجاعت دی ہے،لیکن پھربھی بہت سی خواتین کے کارہائے نمایاں پردۂ خفا میں رہے ۔کیونکہ سماج کی حد بندیوں اورمختلف النوع پابندیوں نے بہت سے مقامات پر انھیں منظرعام پر آنے سے روکے رکھا، وہ کارنامے انجام تو دیتی رہیں ، مگر سارے کارنامے سامنے نہیںآسکے۔اردوزبان وادب کے حوالے سے بھی ان کے بہت سے کارنامے ہیں۔ انھوںنے شعروشاعری کے علاوہ ناول بھی لکھے، افسانے اور ڈرامے بھی۔ بلکہ اردو کی نثری وشعری اصناف میں کونسی ایسی صنف ہے جس میں انھوںنے طبع آزمائی نہ کی ہو۔یہ الگ بات ہے کہ بہت سی خواتین کی خدمات ہنوز اندھیرے میںہیں۔اندازِ بیان کے اولین شمارے’ خواتین کی خود نوشت‘ کے ذریعے ہم ایسی بہت سی خواتین اور ا ن کے ادبی کارناموں سے آگہی حاصل کرلیتے ہیں جن سے ہم پہلے واقف نہیں تھے۔یہ شمارہ اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے اور اس کے لیے مدیر حقانی القاسمی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
اندازِ بیان کا دوسرا شمارہ ’ پولس کا تخلیقی چہرہ‘ ہے۔یہ موضوع بڑا عجیب اور منفرد سا لگتاہے اورچونکاتاہے۔کیونکہ جب پولس کی بات آتی ہے تو سخت زبان، سخت رویہ اور سخت سلوک کا تصور بھی ذہن میں چلا آتا ہے۔ زبان کی نرمی، لچک اور شائستگی کا خیال تو ذہن کے کسی بھی گوشے سے ہو کر نہیں گزرتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ تمام ہی پولس والے ایک ہی جیسے ہوتے ہیں ، سبھی شقی القلب اور سخت زبان ہوتے ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے سینوں میں کمزور لوگوں کے لیے دل دھڑکتا ہے اور وہ انسانوں کی پریشانیوں اور مسائل کو دیکھ کرکڑھتے ہیں ۔ بعض دل اور زبان کے لحاظ سے بہت نرم بھی ہوتے ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بہت سے پولس والوں7 نے دل کو چھولینے والی شاعری کی ہے ، سماج کی اصلاح کرنے والے افسانے لکھے ہیں اور عمدہ مضامین قلمبند کیے ہیں ۔کتنے ہی پولس والے اردوکی طرف دیوانہ وار دوڑے چلے آئے ہیں اور اردومیں بہت کچھ لکھنے پر انھوںنے اپنے آپ کو مجبور پایاہے۔ حقانی القاسمی نے اس شمارے میں ایسے ہی پولس والوں کا تذکرہ کیا ہے ، اور ان کی تخلیقات ، تصنیفات اور خدمات کا بیڑہ اٹھایا ہے ۔ یہ رسالہ نہ صرف ہمیں پولس کے ادبی وتخلیقی چہرہ سے روشناس کراتا ہے بلکہ ان کی شبیہ کو بھی کسی حدتک متوازن بنانے اور پیش کرنے کی سعی کرتا ہے۔
یک موضوعی مجلہ انداز ِبیان کا تیسرا اور تازہ شمارہ ’ میڈیکل ڈاکٹر وںکی ادبی خدمات ‘ ہے۔طب وصحت کا پیشہ گزشتہ زمانوں میں بڑا عمدہ اور پاکیزہ متصور کیا جاتاتھا۔ لیکن یہ اس وقت کی بات ہے جب یہ پیشہ خدمت خلق سے عبارت تھا اور اطباء وحکماء مریضوں کے علاج ومعالجہ میں خلوص سے کام لیتے مگر جب اس پیشہ میں تجارت اور بزنس کا پہلو شامل ہوگیا توپھر یہ اہم پیشہ بھی بدنام ہوگیااور اب حکیموں وڈاکٹروں کی شبیہ تاجروں کی شبیہ میں مدغم ہونے لگی۔ بیتے زمانے کے اطباء ’علم الابدان ‘کے علاوہ ’علم الادیان‘ اور دوسرے علوم میں بھی دلچسپی رکھتے تھے اور مختلف موضوعات پر بھی ان کی نظر ہوتی تھی۔بہت سے اطباتوبہترین طبیب ہونے کے ساتھ بڑے شاعر، فلسفی، ریاضی داں ،سائنس داںاور مصنف و محقق گزرے ہیں، لیکن موجودہ عہد کے ڈاکٹر دیگر علوم وفنون میںنہ زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس فرصت ہوتی ہے۔یہ بات بڑی حد تک درست بھی ہے ، لیکن اس سے صدفیصد اتفاق نہیں کیاجاسکتا۔کیونکہ کتنے ہی ڈاکٹرس آج بھی ایسے ہیں جو میڈیکل علوم ومضامین کے علاوہ دوسرے مضامین وعلوم کا بھی گہرا علم رکھتے ہیں۔کتنے ایسے ہیں جن میں شعروادب کا ذوق بھی پایا جاتا ہے، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کی ادبی وعلمی خدمات روشنی میں نہیں ہیں۔عام طورپر ناقدین نے ان کی طرف توجہ مبذول نہیں کی ہے ۔حقانی القاسمی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ ان کی نگاہ میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات تک پہنچی اور انھوںنے ان کی ادبی خدمات کو روشنی میں لانے کے لیے اندازِ بیان کا شمارہ’ میڈیکل ڈاکٹروںکی ادبی خدمات ‘ کے حوالے سے نکالا۔
یہ ایک ضخیم مجلہ ہے 541صفحات پرمشتمل ۔اسی سال (2020)میںسلام الدین خان کے زیر اہتمام عبارت پبلی کیشن ، نئی دہلی سے اس کی اشاعت ہوئی ہے ۔ٹائیٹل نہایت دیدہ زیب ہے اور پورے طورپر اپنے موضوع کی عکاسی کرتا ہے۔کتاب کے سرورق پر مرقوم ہے ’’صلاح الدین پرویز کی یاد میں‘‘۔واضح رہے کہ صلاح الدین پرویز اردو کے ایک معروف ادیب گزرے ہیں ،جنھوںنے اردو زبان وادب کے لیے گویا اپنے آپ کو وقف کیا ہوا تھا۔انتساب ڈاکٹروں کے نام کیا گیا ہے جو اس خصوصی اشاعت کے عین مطابق ہے۔ ’ فہرست‘ کی جگہ ’ تشخیص‘مذکور ہے ۔جس میں جدت بھی ہی اور انفرادیت بھی،نیز معنویت وتخلیقیت بھی۔طبی نقطہ نظر سے ’ تشخیص‘مرض پہچاننے کو کہا جاتا ہے۔لیکن یہاں مدیر ِ موصوف اس سے ان اشخاص کومراد لیتے ہیں جن کا تعلق امراض کی تشخیص سے تھا ،یا ہے۔کیونکہ ا نھیں پر مضامین ہیں۔ اس سے فاضل مدیر کے تخلیقی مزاج کی عکاسی ہوتی ہے۔مجلہ کو دوحصوںمیں تقسیم کیا گیا ہے۔پہلا حصہ ’مرکبات‘ اور دوسرا حصہ’ مفردات‘ ہے۔یہ دونوں الفاظ بھی حقانی صاحب کے ذہن ومزاج کی تخلیقیت اورگہرائی ووسعت کے مظہر ہیں۔گوکہ دونوںخالص طبی اصطلاحات ہیںلیکن یہاں حقانی صاحب نے ان کو ادبی شکل دے دی ہے تاکہ دونوں طرف اشارہ ہوجائے۔دراصل حقانی القاسمی عصر حاضر کے ایسے ناقدوادیب ہیںجن کے یہاں تخلیقیت کا پہلو نمایاں رہتا ہے اور یہی تخلیقیت ان کے تحریری بیانیہ کوپرکشش بناتی ہے یہاں تک کہ وہ ا پنے مضامین وکتب کے اسماء وعنوانات میں بھی تخلیقیت کی چاشنی گھول دیتے ہیں۔ان کے یہاں لفظیات اور تراکیب میںبھی تخلیقی عنصر موجود رہتا ہے۔ساتھ ہی بھرپور معنویت اور تاثیر بھی۔
پیش نظر مجلہ میں سب سے پہلی تحریر حقانی القاسمی کی بعنوان ’ دست مسیحائی ‘ ہے۔جس میں انھوںنے میڈیکل ڈاکٹروںکی ادبی خدمات کاپس منظر بھی پیش کیا ہے اور پیش منظر بھی۔گلکرسٹ کی لسانی وادبی خدمات سے لے کر عہد جدید کے متعددمیڈیکل ڈاکٹروں کے شخصی اور ادبی احوال وکوائف کو انھوںنے مختصر مگر جامعیت کے ساتھ سمیٹ لیاہے۔’دست مسیحائی‘ کے تحت جن ادیب ڈاکٹروں کاتذکرہ ہوا ہے ، ان میں ڈاکٹر ابرار احمد(لاہور)، ڈاکٹر ثروت زہرا، ڈاکٹر زبیرفاروقی العرشی،ارمان نجمی،حسن شکیل مظہری،حنیف ترین،ڈاکٹرسیدمظہر عباس رضوی،صباحت عاصم واسطی،اقبال احمد پیرزادہ، لیفٹنٹ جنرل ڈاکٹر محمودالحسن گجرانوالہ،ڈاکٹر اعجاز حسن خان،ڈاکٹر اشرف الحق، ڈاکٹر قمر الزماں،ڈاکٹر انتخاب اثر،مسلم شہزاد ،ڈاکٹر اسلم حبیب،زویازیدی،متین نیازی،ڈاکٹر کمل شنکر دوبے،ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ،ڈاکٹر زریں حلیم،ڈاکٹر سالک اعظم،ڈاکٹر کیپٹن ایس آرجھا،ڈاکٹر یونس بٹ، نظرامام، عابدمعز،رشید جہاں، شفیق الرحمن، مصطفی کریم، انور سجاد،حسن منظر، آصف فرخی،ڈاکٹر خالد سہیل،بلند اقبال،ڈاکٹر عمران مشتاق،ڈاکٹر نذیر مشتاق، ڈاکٹر ادریس، ڈاکٹر فیروز عالم،ڈاکٹر سید امجدحسین، راج بہادر گوڑ،سیدتقی عابدی،عبدالمعزشمس،ڈاکٹرفیض الرحمن شامل ہیں۔
متذکرہ بالا اسما ء پر ایک نگاہ ڈالنے سے ہی اس بات کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ حقانی القاسمی نے اس مجلہ ’میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات‘‘ نکالنے میں کس قدر ریاضت وجانفشانی سے کام لیا ہے۔یہ مضمون ادیب ڈاکٹروں کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے ذریعے ادیب ڈاکٹروں کی ادبی، تحقیقی،تخلیقی اور تنقیدی خدمات کاپورا منظرنامہ سامنے آجاتا ہے۔علاوہ ازیں یہ مضمون پیش نظر مجلے کے لیے تمہید کی حیثیت بھی رکھتا ہے اوروضاحتی اشاریہ کی بھی۔مضمون کل پچاس سے زائد صفحات پر پھیلا ہوا ہے۔ضخامت کی وجہ یہی ہے کہ حقانی القاسمی نے ڈوب کر لکھا ہے اور موضوع کے کسی پہلوکو تشنہ نہیں چھوڑا ہے ۔
اندازِ بیان بعنوان ’’میڈیکل ڈاکٹروںکی ادبی خدمات‘‘ میں مجموعی طورپر چالیس سے زیاد ہ مضامین ہیں۔حصہ ’مرکبات‘میں کالم (الف)کے ضمن میںجو مضامین شامل اشاعت کیے گئے ہیں، ان کے عنوانات اس طرح ہیں:’ و ہ جنھیں ڈاکٹر قلم کار کہاجاتا ہے‘‘،’’اردو ادب میں ڈ اکٹرطنزومزاح نگار‘‘،’ ’ جامعہ عثمانیہ کے ڈاکٹر‘‘(عابدمعز) ۔کالم (ب) کے تحت کئی ابواب قائم کیے گئے ہیں ۔جن کا اجمال یہ ہے کہ ’’عالم عرب کے ڈاکٹر قلم کار‘‘ کے تحت ابراہیم ناجی ، ڈاکٹر احمد ذکی ابوشادی(شوقی ضیف ترجمہ شمس کمال انجم)، ڈاکٹر نوال سعداوی(ابراراحمد اجراوی)، ڈاکٹر مصطفی محمود(محمد زاہد)پر الگ الگ تحقیقی اور تنقیدی مضامین ہیں ’’باب مصطفی کریم کے ضمن میں دو مضامین ’’ مصطفی کریم کے چنندہ افسانے ‘‘ (ڈاکٹرصادقہ نواب سحر)اور ’’مصطفی کریم ایک نامکمل تعارف ‘‘(ارمان نجمی)ہیں۔ ’باب انور سجاد‘کے ذیل میں دومضامین ’’انور سجاد: بہترین فکشن نگار‘‘(احمدسہیل)،’’انور سجاد:ایک نئی تعبیر‘‘(عمرفرحت)شائع کیے گئے ہیں۔’باب ثروت زہرا‘میںستیہ پال آنند،محمد حمیدشاہد،اور شاہدہ حسن کے مضامین ہیں ، باب عابد معز میںخورشید احمد شفقت اعظمی ،پروفیسر محمد ظہیر قندیل،ڈاکٹر فیروز عالم، پروفیسر فاطمہ بیگم پروین،حکیم وسیم احمد اعظمی،فاروق طاہرکے مضامین ہیں اور باب حنیف ترین میںنظام صدیقی،فاروق نازکی،اسلم حنیف،اورحقانی القاسمی کے مضامین شامل اشاعت کیے گئے ہیں،علی الترتیب باب ظفر حمیدی میںمنظراعجاز،ابواللیث جاوید، باب ارمان نجمی میں فاروق ارگلی،بدرمحمدی اورباب بلند اقبال کے تحت مشرف عالم ذوقی،ہمایوں اشرف کے مضامین شامل ہیں ۔ مفردات کے تحت رشید جہاں(سیما صغیر)،تقی عابدی(محمد رکن الدین)نگہت نسیم(مہوش نور)،عبدالمعز شمس (پروفیسر احمد سجاد)،کمال مدراسی اوراعجاز کمال مدراسی(عابد معز)،سعید نواز(عابد معز)نسیم انصاری(نایاب حسن قاسمی)،فہیم منصوری(عمران عاکف خان)،ضیا عالم(نشا زیدی)،اسلم حبیب (نشاط حسن نشی)،شفیق الرحمن (کنیز فاطمہ)، راشد فریدی(بی محمد دائود محسن)پر مضامین شائع کیے گئے ہیں۔ دوانٹرویوز بھی شائع کیے گئے ہیں۔ایک انٹرویوڈاکٹر عابد معزسے اور دوسرا انٹرویو ڈاکٹر عزیز احمد سے ہے۔
بعد ازاںایک اور ا ہم باب قائم کیا گیا ہے ’’باب اندازِ بیاں‘‘۔ اس باب میںاندازِ بیان کے گزشتہ شمارے پربہت اہم تأثرات ملتے ہیں۔قلم کار حضرات نے اندازِ بیان کے سابقہ شماروں’ خواتین کی خودنوشت‘‘ اور’’پولیس کاتخلیقی چہرہ‘‘ پر گہری نظرڈالی ہے اور مدیرموصوف کی ادبی خدمات کا جائزہ لیا ہے۔تاثر ات پیش کرنے والوںکے نام اس طرح ہیں: احمد علی برقی،پروفیسر شافع قدوائی،شکیل رشید،نایاب حسن قاسمی،مناظر عاشق ہرگانوی،زبیر احمد بھاگلپوری،عبید الکبیر،قیصر زماں، یاسمین رشیدی، آصف انور علیگ۔آخری باب ’ باب انیقہ‘ ہے ۔انیقہ حقانی صاحب کی بیٹی کانام ہے جس کا اسکول میں اچانک انتقال ہوگیا۔حقانی صاحب کے لیے یہ ایک نہایت ہی غمناک سانحہ تھا۔جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی دنیائے اردو ادب میں غم کی لہر دوڑگئی۔ حقانی صاحب کی خدمت میں تعزیت ناموں کا سلسلہ شروع ہوگیا جو مہینوں تک چلتا رہا۔ان میں سے کچھ کو حقانی صاحب نے اس رسالہ میں شامل کردیا ہے جو ادب کا ایک نمونہ نظرآتاہے۔
مذکورہ ا جمالی بحث سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ اندازِ بیان کا تازہ شمارہ ’’میڈیکل ڈاکٹروں کی ادبی خدمات‘‘ کتنا اہم ہے اور ایک نئے پہلوکا کس حد تک احاطہ کرتاہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ اندازِ بیان کے آنے والے شمارے بھی نئے موضوعات اور نئی جہتیں اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہوںگے۔آئندہ شمارہ ’ تاجروںکی ادبی خدمات‘ بھی چونکانے والا موضوع ہے۔جس میں ا ن تخلیق کاروں کی ادبی خدمات کا جائزہ پیش کیا جائے گاجنھوںنے ادب کی تجارت نہیں کی بلکہ تجارت سے ادب کو قوت اورتوانائی بخشی۔