سعودی عرب نے اپنے دہائیوں پرانے اتحادی سعودی عرب کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے تیل کی پیداوار اور سپلائی کم نہ کی تو وہ سعودی عرب سے اپنی فوجیں واپس بلا لیں گے۔امریکا کی جانب سے سعودی عرب پر تیل کی قیمتوں کے معاملے پر روس سے جاری محاذ آرائی ختم کرنے کا مطالبہ کئی ہفتوں سے جاری ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی رہنماؤں کو اس سلسلے میں الٹی میٹم جاری کردیا تھا۔
ذرائع نے خبر رساں ایجنسی ‘رائٹرز’ کو بتایا کہ 2 اپریل کو ٹرمپ نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک تیل برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک) تیل کی پیداوار میں کمی نہیں کرتی، اس وقت تک وہ سعودی عرب سے امریکی افواج کے انخلا کے حوالے سے قانون سازی روکنے میں بے اختیار ہوں گے۔
اس سے قبل کبھی بھی اس 75 سالہ اسٹریٹیجک اتحاد کے خاتمے کی دھمکی کے حوالے سے کوئی بھی خبر رپورٹ نہیں ہوئی اور اس کا بنیادی مقصد امریکا کی جانب سے تیل کی پیداوار کے تاریخی معاہدے کے حوالے سے دباؤ ڈالنا ہے جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں تیل کی مانگ میں کمی ہوئی ہے اور اس تمام پیشرفت کو امریکا کی سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے بریفنگ میں شریک امریکی انتظامیہ کے ذرائع کے مطابق ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو یہ پیغام تیل کی پیداوار میں کمی کے اعلان سے 10 دن قبل دیا تھا اور اس دھمکی کا محمد بن سلمان پر اس حد تک اثر ہوا تھا کہ انہوں نے کمرے میں موجود تمام افراد کو باہر نکلنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ رازداری کے ساتھ گفتگو کو جاری رکھ سکیں۔
ٹرمپ کی ان کوششوں کا مقصد تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں کے بحران کے دوران امریکی تیل کی صنعت کو تباہی سے بچانا ہے جہاں کورونا وائرس کے سبب دنیا بھر کی معیشتوں کو شدید دھچکا لگا ہے۔
یہاں امریکی صدر کے موقف میں بھی واضح طور پر یوٹرن نظر آ رہا ہے جو ماضی میں تیل کی پیداوار کم کر کے تیل کی قیمتیں بڑھانے پر تیل کی کمپنیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں کیونکہ اس کے نتیجے میں امریکی عوام کو مہنگی توانائی و بجلی خریدنی پڑ رہی تھی۔
البتہ اب امریکی صدر خود اوپیک ممالک سے تیل کی پیداوار کم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ایک سینئر امریکی عہدیدار نے رائٹرز کو بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب کو بتا دیا ہے کہ اگر انہوں نے تیل کی پیداوار کم نہ کی تو وہ امریکی کانگریس کو ان پر پابندیاں عائد کرنے سے نہیں روک سکیں گے اور اس کے نتیجے میں امریکی افواج کا سعودی عرب سے انخلا یقینی ہے۔
انہوں نے سعودی اور امریکی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو واضح طور پر پیغام میں کہا گیا تھا کہ ہم اپنی صنعت کا دفاع کر رہے ہیں جبکہ آپ اسے تباہ کر رہے ہیں۔
جب امریکی صدر سے رائٹرز نے بدھ کو ہونے والی گفتگو میں سوال کیا کہ کیا انہوں نے سعودی ولی عہد کو امریکی افواج کے انخلا کی دھمکی دی ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے انہیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے سعودی ولی عہد سے کیا کہا تو ٹرمپ نے جواب دیا کہ سعودی عرب اور روس کو معاہدے تک پہنچنے میں مشکلات کا سامنا ہے، میں نے سعودی ولی عہد سے ٹیلی فون پر بات کی اور ہم پیداوار میں کمی کے معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔
جب سعودی حکومت کے متعلقہ حکام سے اس سلسلے میں رابطے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا البتہ ایک سعودی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ معاہدہ اوپیک اور تیل پیدا کرنے والے تمام ممالک کی خواہشات کی ترجمانی کرتا ہے۔
انہوں نے امریکی اور سعودی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب، امریکا اور روس کا اوپیک اور تیل کی پیداوار میں کمی کے معاہدے میں اہم کردار ہے لیکن معاہدے میں شرکت کرنے والے 23 ممالک کے تعاون کے بغیر یہ ہونا ممکن نہ تھا۔
امریکی صدر کی جانب سے سعودی ولی عہد کو کی گئی کال سے ایک ہفتہ قبل ریپبلیکن سینیٹرز کیون کریمر اور ڈین سولیوان نے ایک قرارداد پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب تیل کی پیداوار کم نہیں کرتا تو سعودی عرب میں موجود امریکی فوجی دستوں، پیٹریاٹ میزائل اور میزائل شکن دفاعی سسٹم کو ہٹا لیا جائے۔
اس موقع پر سعودی عرب اور روس کے درمیان تیل کی قیمتوں پر جاری کشمکش کے بعد اس قرارداد کی منظوری کے لیے دباؤ بڑھنے لگا تھا کیونکہ روس نے اوپیک کے تیل کی سپلائی کے معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے پیداوار کم کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے بعد سعودی عرب نے بھی تیل کی پیداوار تیزی سے بڑھاتے ہوئے عالمی منڈی میں تیل کی بٖڑے پیمانے پر ترسیل شروع کردی تھی۔
12اپریل کو ٹرمپ کے دباؤ کے نتیجے میں امریکا سے باہر تیل پیدا کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ممالک نے تیل کی پیداوار میں کمی کے تاریخ کے سب سے بڑے معاہدے پر اتفاق کرلیا تھا۔
اوپیک، روس اور تیل پیدا کرنے والے دیگر اتحادیوں نے روزانہ کی بنیاد پر 97 لاکھ بیرل پیداوار کم کردی تھی جو عالمی پیداوار کا تقریباً 10 فیصد بنتی ہے اور اس سے سب سے زیادہ نقصان روس اور سعودی عرب کو ہوا کیونکہ آدھی سے زیادہ پیداوار ان ممالک سے کم ہوئی جہاں دونوں ہی ملکوں کو 25، 25 لاکھ بیرل کی پیداوار کم کرنے پڑی۔
عالمی سطح پر پیداوار میں 10 فیصد کمی کے باوجود دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں گرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور امریکی تیل کی قیمتیں گزشتہ ہفتے صفر ڈالر سے بھی نیچے چلی گئی تھیں کیونکہ تیل بیچنے والوں کے پاس اسے رکھنے کی کوئی جگہ نہیں رہی تھی۔
سال کے آغاز میں برینٹ کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل تھی لیکن یہ کم ہو کر 15 ڈالر فی بیرل تک آ گئی تھیں جو 1999 کے بعد سب سے کم قیمت ہے۔
اب تیل کی پیداوار میں کمی اور مختلف ملکوں کی جانب سے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد معمولات زندگی بحال ہونے کے نتیجے میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔
ان مذاکرات کا نتیجہ جو بھی نکلے لیکن فی الحال یہ مذاکرات تیل کی پیداوار کے حامل ممالک پر امریکی اثر و رسوخ کی جیتی جاگتی مثال ہیں۔
امرکی سیکریٹری توانائی ڈین برولیٹ سے رائٹرز نے جب سوال پوچھا کہ کیا ٹرمپ نے سعودی ولی عہد کو امریکی افواج کے انخلا کی دھمکی دی تو انہوں نے کہا کہ امریکی صدر اپنے تیل کی پیداوار کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں جس میں ہماری جانب سے ان کی دفاع کی ضروریات سے دستبرداری بھی شامل ہے۔
امریکا اور سعودی عرب میں اسٹریٹیجک شراکت کا آغاز 1945 میں اس وقت ہوا تھا جب اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ نے سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود سے امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کوئنسی پر ملاقات کی تھی۔
سعودی عرب نے امریکا کو اپنے تیل کے ذخائر تک رسائی دی تھی جس کے بدلے امریکا نے اپنی فوج کے ذریعے ان کے دفاع کا بیڑا اٹھایا تھا۔
اس وقت امریکا کے تین ہزار فوجی سعودی عرب کے مختلف اڈوں پر موجود ہیں اور امریکی بحری بیڑا خطے سے تیل کی برآمدات کا تحفظ یقینی بناتا ہے۔
ہتھیاروں کی فراہمی اور ایران جیسے حریف سے تحفظ کے لیے سعودی عرب مکمل طور پر امریکا پر انحصار کرتا ہے۔
سعودی عرب کی ناکامی اور کمزوری گزشتہ سال اس وقت کھل کر عیاں ہو گئی تھی جب 18 ڈرونز اور 3 میزائلوں نے سعودی عرب کی سب سے بڑی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا اور امریکا نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا۔