سادھوؤں کی لنچنگ اور فرقہ وارانہ جنون

0
93

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

معصوم مرادآبادی

ذراسوچئے، اگر پال گھر میں سادھوؤں کے قتل کا الزام مسلمانوں کے سر ڈالنے کی گھناؤنی سازش کامیاب ہوجاتی تو اس وقت ملک میں کیا صورتحال ہوتی؟ظاہر ہے مسلمانوں کاشکار کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے بھوکے بھیڑئیے ان پر ٹوٹ پڑتے اور مسلمانوں کو اپنی جان ومال اور عزت وآبرو بچانے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرنے پڑتے۔ پہلے سے ہی اپنی انتہاؤں کو پہنچا ہوا زہریلا ماحول مزید زہریلا ہوجاتا اور مسلمانوں کا گھروں سے نکلنا دشوار ہوجاتا۔پال گھر میں بے قصور سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کے ساتھ جس درندگی اور بربریت کا مظاہر ہ کیا گیا ہے ، اسے دیکھ کر انسانیت ایسے ہی لرزاٹھی ہے جیساکہ اس سے پہلے محمداخلاق، پہلو خان، محمد جنید اور تبریز انصاری وغیرہ کی وحشیانہ لنچنگ پر لرزاٹھی تھی۔ ملک میں گذشتہ پانچ سال کے دوران ہجومی تشدد کی جتنی بھی وارداتیں ہوئی ہیں،ا ن سب کاشکار ہونے والے مسلمان تھے، لیکن ان میں سے کسی بھی معاملے میں پولیس اور انتظامیہ نے اتنی سخت کارروائی نہیں کی جتنی کہ پال گھر میں سادھوؤں کی لنچنگ کے بعد محض چند گھنٹوں کے دوران کی گئی ہے۔ اس معاملہ میں 100 سے زیادہ ملزمان کو گرفتار کرلیا گیاہے ۔ مہاراشٹر کے وزیر داخلہ انل دیشمکھ نے ان کے ناموں کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ دیکھ لیجئے اس میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔‘‘مسٹر دیشمکھ نے ملزمان کی فہرست جاری کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہم آج ملزمان کے ناموں کی فہرست واٹس ایپ پر جاری کررہے ہیں۔ دیکھ لیجئے ان 101 لوگوں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے اوریہ فہرست اس لئے جاری کی جارہی ہے کیونکہ اس معاملے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔‘‘
اس سے قبل خود مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے پال گھر سانحہ کے فوراً بعد ایک ویڈیو پیغام میں وضاحت کی تھی کہ ’’پال گھر سانحہ کا کوئی بھی فرقہ وارانہ پہلو نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کرنے والوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’ اس معاملے میں جو کوئی سوشل میڈیا پر فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی میں ملوث پایا جائے گا، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘ ادھو ٹھاکرے نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ انھوں نے اس سلسلہ میں وزیر داخلہ امت شاہ اور یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی فون کال کے جواب میں بتادیا ہے کہ اس سانحہ کا کوئی فرقہ وارانہ پہلو ہرگز نہیں ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پال گھر میں دوسادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کی وحشیانہ لنچنگ کے معاملہ میں بار بار مہاراشٹر حکومت کو یہ وضاحت کیوں کرنی پڑی کہ اس واقعہ کو فرقہ وارانہ عینک سے نہ دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جیسے ہی پال گھر میں ان تین افراد کو ’ چور‘ سمجھ کر ہجومی تشدد میں ہلاک کرنے کی خبر عام ہوئی تو سوشل میڈیا پر سنگھ پریوار کی واٹس ایپ یونیورسٹی نے یہ افواہ پھیلاناشروع کردی کہ پال گھر میں مسلمانوں نے سادھوؤں کو ہجومی تشدد میں ہلاک کردیا ہے اور اس افواہ کو اتنے بڑے پیمانے پر عام کیا گیا کہ چند گھنٹوں میں ہی فرقہ وارانہ صورتحال دھماکہ خیز ہوگئی۔وزیر داخلہ امت شاہ سے لے کر اترپردیش کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ تک کے فون مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے تک پہنچنے لگے اور وہ سادھوؤں کے ساتھ اس درجہ ظلم اور بربریت پر احتجاج درج کرانے لگے۔ یہاں تک کہ سادھوؤں کی سب سے بڑی تنظیم اکھاڑہ پریشد کے صدر مہنت نریندر گری نے سادھو سنتوں سے اپیل کرڈالی کہ’’ اگر وہ خود کو مہاراشٹر میںغیر محفوظ محسوس کررہے ہیں تو اتر پردیش آجائیںاور ہم لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعدسبھی اکھاڑوں کے ممبران کو ساتھ لے کر مہاراشٹر حکومت کا گھیراؤ کریں گے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ پال گھر کے جس قصبے میں یہ واردات ہوئی تھی ، وہاں دور دور تک مسلم آبادی نہیں ہے اور یہ علاقہ برسوں سے بی جے پی کا گڑھ ہے۔یہاں کی گرام پنچایت پر گذشتہ دس سال سے بی جے پی کا ہی قبضہ ہے۔ حتیٰ کہ وہاں کی سرپنچ چترا چودھری بھی بی جے پی کی ہیں۔ اتنا ہی نہیں گرفتار ہوئے بیشتر لوگ بی جے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مہاراشٹر سرکار کی تیزی اور پھرتی کے نتیجے میں سادھوؤں کے قاتلوں کا پتہ لگ جانے کے باوجود سنگھ پریوار کی افواہ ساز انڈسٹری نے اپنا کام جاری رکھااور اس سانحہ کے اصل مجرموں کو بچانے کی خاطر بے گناہوں کو اس میں پھنسانے کی شرمناک کوششیں جاری رکھیں۔وشو ہندو پریشد کے جنرل سیکریٹری ملند پرانڈے نے کہا کہ ’’پال گھر میں کمیونسٹوں کی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ ان کا ہندو لیڈروں کے قتل کرانے کی پرانی تاریخ رہی ہے۔‘‘ غرض یہ کہ جانچ کو بھٹکانے اور اصل مجرموں کو چھڑانے کے لئے تمام اچھل کود کی گئی ، لیکن اس معاملہ میں وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے جس مستعدی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا وہ یقینا قابل تعریف ہے۔ اگر وہاں اس وقت بی جے پی کی سرکار ہوتی تو تمام بے قصور لوگ سلاخوں کے پیچھے ہوتے اور اصل مجرم آرام کی زندگی بسر کررہے ہوتے ۔جیساکہ شمال مشرقی دہلی کے فساد کے معاملے میں ہوا ہے کہ یہاں مرکز ی وزیر داخلہ کے ماتحت پولیس نے ان تمام لوگوں کو فسادیوں کے طور پر حراست میں لے لیا ہے جو دہلی میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مہم چلارہے تھے اور جنھوں نے اعلانیہ فساد بھڑکانے اور’ دیش کے غداروں پر گولیاں برسانے‘ کی باتیں کہی تھیں، وہ پولیس کے تحفظ میں عیش وآرام کی زندگی بسر کررہے ہیں۔دہلی پولیس لاک ڈاؤن میں بھی سی اے اے مخالف سماجی کارکنوں کو گرفتار کررہی ہے اور انھیں سنگین دفعات کے تحت جیل بھیجا جارہا ہے۔
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے ان واقعات کی تفصیل خود بیان کی ہے جن کی وجہ سے دوبے گناہ سادھوؤں اور ان کے ڈرائیور کا بہیمانہ قتل کیا گیا ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ لوگ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ایک دوردراز علاقہ سے ہوکر گجرات جارہے تھے۔ دادر نگر حویلی کی سرحد پر سادھوؤں کو روکا گیا اور انھیں واپس کردیا گیا۔ واپسی میںگڑھ چن چلی علاقہ سے گذرتے ہوئے غلط فہمی کی وجہ سے ان پر حملہ ہوااور ہجوم نے ان کا قتل کردیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا جس گاؤں میں یہ سانحہ ہوا وہاں کچھ دنوں سے رات کے وقت چوروں کے گھومنے کی افواہ پھیلی ہوئی تھی۔اس پورے معاملے کا ایک پہلو یہ ہے کہ یہ واقعہ جس مہاراشٹر صوبے میں ہوا ہے، وہاں اس وقت شیوسینا، کانگریس اور این سی پی کی مخلوط حکومت ہے ۔ بی جے پی کو اس بات کاشدید قلق ہے کہ وہ ملک کی اقتصادی راجدھانی کہی جانے والی ریاست میں اقتدار سے محروم ہے ۔ اسی محرومی کا سبب ہے کہ بی جے پی حلقوں نے اس واقعہ کو مخلوط حکومت کو بدنام کرنے اور اسے ہندومخالف قرار دینے کے لئے استعمال کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکمراں بی جے پی کے ترجمان ایک نام نہاد صحافی ارنب گوسوامی نے اس واقعہ کی آڑ میں کانگریس صدر سونیا گاندھی پر رکیک حملے کئے ہیں۔اطمینان بخش بات یہ ہے کہ پال گھر سانحہ کے اصل مجرموں کو گرفتار کرنے میں ریاستی حکومت نے کوتاہی نہیں کی اور سنگھ پریوار کی واٹس ایپ یونیورسٹی نے جانچ کو بھٹکانے کی جو کوشش کی تھی ،وہ بروقت بے نقاب ہوگئی ورنہ اس واقعہ کا رخ جس اندازمیں مسلمانوں کی طرف موڑنے کی کوشش کی گئی تھی، وہ ایک انتہائی خطرناک سازش تھی۔ کاش ہجومی تشدد میں ہلاک ہونے والے محمد اخلاق، محمد جنید، پہلو خان اور تبریز انصاری جیسے پچاس سے زیادہ مسلم نوجوانوں کے قاتلوں کو بھی اتنی سرعت کے ساتھ گرفتار کیا گیا ہوتا تو آج پال گھر جیسا سانحہ رونما نہیں ہوتا۔ کیونکہ ملک میں اب تک ہجومی تشدد کے مجرموں کے ساتھ جو نرمی برتی گئی ہے، اس کے نتیجے میں لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ کسی کو بھی ہجومی تشدد میں ہلاک کرنا کوئی جرم نہیں ہے اور ایسا کرنے والا قانون کے ہاتھوں سے بچ جاتا ہے۔ملک میں لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کرنا اور انصاف کے دوپیمانے اختیار کرنا پورے سماج کے لئے تباہ کن ہے ۔پال گھر کا سانحہ اس کی تازہ ترین مثال ہے۔
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here