9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
فساد فی الارض 12؎
آیت اللہ سیدحمید الحسن
تمام دنیا میں اچھے لوگ جن کے مزاج میں ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے وہ ہر اس انسان کو جس کے عمل کو اس کے خلاف پاتے ہیں سجائے رہتے ہیں ’آپ انسان ہیں‘ ارے بھائی وہ بھی انسان ہے۔ آپ کا یہ کام بالکل انسانیت کے خلاف ہے وغیرہ وغیرہ۔ اور مذہب بھی یہی سکھاتا ہے۔ مذاہب میں اسلام اور اسلام کیلئے اس کا مقدس قانون قرآن اپنی سب سے پہلی آیت میں یہی سبق سب کو تعلیم دیتا ہے جب اس نے کہا ’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو رحمان ہے رحیم ہے۔ رحمت والا ہے رحمت والا ہے‘ یہ دو دفعہ اس نے کیوں کہا رحمت والا اسے ہم بہت پہلے جب ’قتل قاتل اور اسلام کی (14 قسطیں جو اودھ نامہ میں شائع ہوچکی ہیں) کسی قسط میں لکھ چکے ہیں۔ صرف یاد دہانی کرادیں۔ معاذاللہ کسی تحریف کی نیت سے نہیں لیکن اگر یہی تھا تو قرآن میں یہ بھی ہوتا ’بسم اللہ الرحمان الرحمان‘ یا بسم اللہ الرحیم الرحیم جی نہیں پہلے رحمان پھر رحیم۔ مطلب دونوں کا ایک ہی۔ رحمت کرنے والا۔ ہم اسے سمجھیں یہ رحمت ایک لفظیں دو میں کیا مصلحت ہے؟ مفسرین کے سہارے بات کہہ لیں رحمان اس کی وہ رحمت جو اس کی طرف سے سب کے لئے ہے خواہ وہ اسے مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔ سورج کی روشنی حضرت ابراہیم کے لئے بھی تھی نمرود کے لئے بھی۔ پانی کے فائدے حضرت موسیٰ کے لئے بھی تھے فرعون کیلئے بھی، عرب کی جلتی ہوئی ریت پر جھومتے ہوئے کھجوروں کے درختوں کے سایے ان کے پھل اللہ کی عبادت کرنے والوں کیلئے بھی تھے اور بدنفس ابولہب کوہ، جہالت ابوجہل اور متکبر و مغرور ابوسفیان کیلئے بھی تھے۔
یہ ہوائیں، یہ فضا، یہ کوہسار، یہ سرسبز وادیاں، یہ بیکراں سمندر۔ یہ ان پر کروٹیں لیتی موجوں، یہ ان میں دوڑتی پھرتی خوش رنگ مچھلیاں یہ ان کی تہوں میں موتی، مونگے، یہ ہیرے جواہرات۔ یہ فضائوں میں لاتعداد خوشنما پرندے یہ رنگ برنگی تتلیاں یہ کبھی تقسیم نہیں کی جاسکیں کہ یہ اس قوم کیلئے اس ملک والوں کیلئے اس مذہب والے کیلئے ہیں اور وہ سب فلاں فلاں کیلئے۔ یہی بات جب قرآن کریم نے پہلی بار کہی ’رحمان‘ تو اس کی مراد وہ رحمت جو سب ہی کیلئے ہے۔ شدید گرمی کے دن آنے والے ہیں یہ مضمون آپ کی نظروں سے جب گذرے گا تو 24 اپریل ہوگی ابھی محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 8 جون سے 15 جون کے درمیان مانسون آئے گا۔ جب بھی آئے کسی بھی ملک کا موسمیات کا محکمہ کبھی بھی یہ نہیں کرسکتا کہ مانسون سے کہے۔ خبردار۔ آتو رہے ہو مگر برسنا ہماری مرضی سے جس طرح ہم کہیں اسی طرح آنا، برسنا اور واپس چلے جانا۔ فلاں مسجد پر چرچ پر برسنا فلاں گرودوارے اور مندر پر برسنا اور بس۔ یہ سب کچھ چھپا ہوا ہے ایک لفظ ’رحمان‘ میں۔ کھیتوں پر چلیں یہ کھیت شبراتی کا ہے اور یہ جمن کا وہ کھیت ناتھو رام کا ہے اور وہ رنجیت سنگھ کا، سب نے اپنے اپنے حساب سے گیہوں کا بیج ڈال دیا سب کا بھروسہ کس پر تھا؟ کس پر ہے؟ کسی کھیت کی زمین سے اس کے اندر چھپے بیج نے آواز دی۔ ہم باہر نہیں آئیں گے۔ ہم کو فلاں کے ہاتھ لگ چکے ہیں۔ کورونا کے مریض کے ہاتھوں سے بھی اگر یہ ’دانہ گندم‘ زمیں پر گرا تو وہ بھی دنیا کی زندگی اور صحت کی ضمانت بن کر آئے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ ہم انسان سبزی، ترکاری پر بھی اپنی اپنی تعصب اور نفرت کی نشانیاں لگادیں۔ وہ تو رحمان ہے، وہ تو سب کو اپنی رحمتوں سے نوازنے والا ہے۔ اس نے بھی رنگ تقسیم کئے لیکن یہ بتانے کیلئے نہیں کہ اس کے ذریعہ انسان تقسم ہوجائیں اور انسانیت الگ الگ سبھی جائے۔
زردگاجر، پپیتا، زرد رنگ کے ہوں تم نے انہیں یہ رنگ نہیں دیا سفید شلجم، سفید مولی کو تم نے یہ رنگ نہیں دیئے، ٹماٹر، چقندر سرخ ہیں تو ہوں اور کالی گاجر کالے کسیرو ہم پکارنے لگے رنگ ہم نے نہیں دیئے۔ بھنڈی، لوکی وغیرہ سبز رنگ لے کر آئے ہم نے کب انہیں ایسا بنایا۔ تربوزہ اوپر ہرا، اندر سرخ اور اندر سفید ہے۔ ہم کتنی مثالیں دیں۔ سب جانتے ہیں، سب کہتے ہیں، یہ دنیا ہزاروں سال سے اسی طرح ہے۔ ہم پانچ ہزار سال پہلے جب بے انتہا بھوکے ہوتے تھے تو خود اور اپنے قریبی لوگوں کیلئے جو غذا مہیا کرتے تھے وہ کیا تھی؟ کون جانے۔ لیکن یہ سب ہم ذرا بھی یاد کرلیں تو ’جیو اور جینے دو‘ کی بات پر عمل شروع کردیں گے۔ اس لئے کہ اس قرآن کریم کے سب سے پہلے سورہ سب سے پہلے انسانی پیغام کی سب سے پہلی آیت کا پیغام یہی ہے کہ ہم سب کا مالک ہم سب کا خالق رحمان ہے۔ سب پر رحمت کرنے والا ہے۔ اور جب اس نے اسی جگہ پھر سے کہا ’رحیم‘ وہ رحیم ہے اور رحمت کرنے والا ہے۔ تو اب ہمارا درجہ ذرا اونچا کیا گیا ہمارا عہدہ بڑھایا گیا ہمارا مرتبہ بلند کردیا گیا کہ ’اگر تم ہماری بات مانوگے۔ اگر تم ہمارے اطاعت کرنے والوں میں رہو گے تو اب جو ہم تم پر رحمت کی بات کریں گے وہ کچھ خاص ہوگی۔ کیونکہ ہم اگر تم دونوں کو اپنی رحمتوں کیلئے ایک جیسا کردیں تو انصاف نہ ہوگا اس لئے ہم کو مانو یا نہ مانو ہم تو تم پر اپنی رحمت کی بارش کرتے رہیں گے اس لئے کہ ہم تو جانتے ہیں کہ تمہاری اوقات کیا ہے؟ اور اگر تم نے ہمارے دیئے ہوئے قوانین بتائی ہوئی ان باتوں کو اپنایا جو تم سب کے فائدے کے لئے ہے تو ہم اس دنیا کے بعد کی دنیا میں تم کو جو کچھ دیں گے اس کا تم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔ اور اس لئے وہ رحمان بھی ہے وہی رحیم بھی ہے۔ اس بات کو جو جانتے ہیں جو مانتے ہیں وہ اچھے انسان ہیں اور جو نہیں مانتے وہ قرآنی آیات میں فسادی ہیں، فساد یعنی کسی اچھی بات کو مٹا دینا۔ کسی شئے کو ختم کردینا۔ جب کسی بھی شئے کو بدل ڈالنا اسی شئے کے لئے فساد ہے تو اس کائنات کی سب سے اچھی سب سے خوبصورت سب سے باعظمت مخلوق کیا ہے؟ کون ہے؟ کہاں ہے؟ اور جو اسے مٹادے تو اس سے بڑا فساد کیا ہوگا؟
یہ مخلوق انسان ہے۔ اور یہ مخلوق ہماری اسی زمین پر ہے۔ اور اس لئے قرآن نے ہم ہی سے کہا: لاتفسدوا فی الارض۔ ’زمین پر فساد مت کرو۔‘ اس نے اپنے دسویں سورئہ یونس کی آیت 81 میں کہا : ترجمہ: پھر جب (فرعونی جادوگر اپنی رسیوں کو سانپ بناکر) ڈال چکے تو موسیٰ نے کہا کچھ تم (بناکر) لائے ہو (وہ سب) جادو ہے۔ یقینا اللہ اس سب کو ملیامیٹ کردے گا، یقینا اللہ ہرگز فسادیوں کا کام (کامیاب) درست نہیں ہونے دے گا۔
اللہ والے اور اللہ کے باغیوں کا فرق یہیں پر دیکھ لیں۔ حضرت موسیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’میں ابھی تمہارے اس جادو کو مٹائے دیتا ہوں۔ ہاتھوں مین عصا کی قوت رکھتے ہوئے اظہار قوت میں اپنی ذات اپنی بات کو پیش نہیں کیا بلکہ اسی کا نام لیا جس کے سبب یہ قوت تھی۔
یہاں ہم کو اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ اس واقعہ میں ایک منظر اور اس منظر میں ایک اعلیٰ ترین کردار اور اس اعلیٰ کردار کا ایک قول یاد آگیا۔ ہمارے قارئیں اسے پڑھیں۔
یہ واقعہ آج سے تقریباً ایک ہزار چار سو چونتیس (1434) سال پہلے کا ہے۔بات ہے عرب میں مدینہ اور مکے کے درمیان ایک جگہ کی جسے ’خیبر‘ کہا جاتا ہے۔ یہودی لوگ مدینہ والوں کو بے انتہا مصائب میں مبتلا کئے رہتے تھے اس وقت ان سے حضوؐر کے حکم پر ایک فیصلہ کن لڑائی ہوئی اور اس قلعہ قموص، قلعہ خیبر کو جس میں یہودی بڑے مطمئن اور غرور سے رہتے تھے فتح کرلیا گیا۔ اس واقعہ کا بہت اہم منظر یہ تھا کہ اس کے چاروں طرف کی خندق کو بھی پار کرلیا گیا اور اس قلعہ کے بہت مضبوط، مستحکم، وزنی دروازے کو اکھاڑ لیا گیا یہ سارا منظر جس کردار کے چاروں طرف گردش کررہا تھا جو حضوؐر کے حکم پر اس کام کو انجام دے رہے تھے وہ امیرالمومنین علی ابن ابی طالب تھے۔ اس واقعہ، اس منظر، اس کردار کے ساتھ ان کا جو قول ہم تک پہنچا وہ اس طرح تھا؟
ترجمہ: میں نے قلعہ خیبر کو انسانی قوت سے فتح نہیں کیا بلکہ میں نے اسے فتح کیا ربانی طاقت سے۔ اب حضرت موسیٰ اور فرعون کے درمیان حضرت موسیٰ کی بات دیکھیں اور پھر انہیں حضرت موسیٰ کی قوم کو قلعہ خیبر میں اور ان کے مقابل مولا علی ؑ اور ان کے قول کو دیکھیں تو ہم سمجھ لیں گے۔ ہزاروں سال کے فاصلے اپنی جگہ مگر ’کلمہ حق‘ کا کبھی نہ بدلنا اپنی جگہ۔
یہاں ہم اپنی اس (104) تحریر میں اپنی ایک تقریر کے ایک جملے کو نقل کردینا اپنی خوش قسمتی سمجھیں کہ جسے کبھی جامعہ ناظمیہ کے عشرئہ محرم (میں جسے پڑھتے ہوئے اس سال 51 سال ہوچکے) کی ایک مجلس میں مسلمان اور جہاد کے موضوع پر پڑھتے ہوئے تقریباً 42 سال پہلے ہم نے کہا تھا وہ اس طرح ہے۔
’مولا علی کے اس جملے پر کہ میں نے انسانی نہیں ربانی قوت سے قلعہ خیبر کو فتح کیا کوئی صاحب کہیں کہ ’پھر اس میں فخر کی کون سی بات رہ جاتی ہے یہ قوت جس کو بھی ملتی وہ یہ کام کرلیتا۔ تو ہم نے کہا تھا ’وہ ہاتھ بھی تو لائو کہ جس کی ہتھیلی کی لکیروں میں ربانی قوت کا سمندر کروٹیں لے رہا ہو۔‘
آیئے بات آگے لے چلیں۔ قوت کا فلسفہ یہی ہے اگر ہم نے خود کو کسی بھی دنیاوی قوت پالینے کے بعد قوت و طاقت والا سمجھا تو فساد کا امکان بہت رہے گا اور اگر ہم نے اسی قوت کو کسی غیبی طاقت کی عطا سمجھا۔ اپنے رب، خالق، مالک، اللہ، ایشور، خدا، بھگوان، گاڈ کی طرف سے ملی ہوئی نعمت سمجھا تو ہمارا ہر کام انسانیت کی بھلائی کیلئے ہوگا نہ فساد ہم سے قریب آئے گا نہ ہم فساد سے قریب جائیں گے اور نہ کسی فسادی کی ہمت افزائی کریں گے۔
سنہ سات ہجری میںخیبر فتح ہوا۔ لیکن اس کے بعد تقریباً 28 سال گذر گئے اور وہی امیرالمومنین علی وہی فاتح خیبر اب مکہ مدینہ حجاز سے بہت دور عراق میں ہیں اور خلیج کے دہانے پر بسے ہوئے شہر بصرہ سے چند سو کلومیٹر دور ’کوفہ‘ میں ہیں تمام دنیا کے لوگوں کی افریقہ، ہندوستان، لنکا سب جگہ سے سب کی آمد بصرہ تک اور وہاں سے چند گھنٹوں میں کوفہ تک بہت آسان۔ اور وہ کوفہ اب اسلامک امپائر کا دارالسلطنت ہے اور وہی مولا علی کا پایہ تخت بھی ہے۔ اور وہاں تاریخ کے کتنے ہی ایسے واقعات مل رہے ہیں کہ جس میں وہی 29-28 سال پہلے یہودی بھی ہیں اور سامنے وہی مولا علی ؑ بھی ہیں کیا یہودی یہ نہیں جانتے تھے کہ کل جس نے ہم کو خیبر پر حجاز میں شکست دی تھی آج وہی اس عراق اس کوفے میں سامنے ہیں لیکن کوئی مورخ اس زمانہ کا کوئی ایک چھوٹے سے چھوٹا واقعہ ایسا بتا سکے تو بتائے کہ جس میں امیرالمومنین الحذب ظاہری طور پر بھی تمام اسلامی فوجوں پر حاکم مولا علی ؑ اور کسی یہودی کے درمیان کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا ہو کوئی بھی جس میں’قوت ربانی‘ والے ہاتھ سے کسی کمزور پر کوئی ظلم ہوگیا ہو۔
ظلم کیسا وہاں قاضی شریح کی عدالت میں ایک یہودی کے سامنے مولا علی ؑ ہیں۔ اپنی زرہ کا مطالبہ ہے۔ بات سب کے سامنے عدالت میں اسی قاضی کے سامنے طے ہوگی جسے قاضی بھی مولا علی ؑ نے قرار دیا ہے۔ جو بھی فیصلہ ہو وہ یہ بتائے گا کہ جو اللہ کی اطاعت میں یقین رکھتے ہیں ان کے کسی عمل میں کبھی فساد نہیں ہوسکتا۔ کہیں یہ زرہ ہے کہیں پھر یہودی ہم سفر ہے کہیں پھر یہودی سے اپنی عبا رکھ کر جو سے جانا ہیں۔ ہر جگہ ایک طرف حاکم مطلق دوسری طرف ایک عام یہودی، نصرانی، کوئی بھی ہو۔ فساد وہاں ہرگز نہ ہوگا ظلم کا وہاں کوئی امکان نہیں جہاں انسان خود کو پہلے اپنے رب کا بندہ سمجھے اور سامنے والے کو بھی اسی خالق کی مخلوق سمجھے کہ جو دونوں کا خالق ہے اور اسی لئے اس کا وعدہ ہے۔ اوپر کی آیت میںاعلان ہے یقینا اللہ فسادیوں کو ان کے کام میں (کامیابی) درستی نہیں ہونے دے گا۔ یہ اعلان فرعون کے مہیا کئے ہوئے جادوگروں کے سامنے انہیں کیلئے ہوا اور ایسا ہی ہوا۔ ان کی رسیاں سانپ تو بنیں لیکن واپس رسی نہ بن سکیں اور فنا ہوگئیں سانپ بھی وہ بھی جھوٹے سانپ بن کر بھی کامیاب نہ ہوسکیں اور اللہ کا عطیہ موسیٰ کے ہاتھ میں ایک عصا (چھڑی) اژدہا بھی بنا۔ سامنے کی بل کھاتی ہوئی مخلوق کو نگل بھی لیا اور پھر واپس عصا بن کر حضرت موسیٰ کا سہارا بنا رہا۔
جسے اس پورے واقعہ کو دیکھنا ہو وہ قرآن کے 26 ویں سورئہ الشعراء کو شروع سے پڑھ لے جس کو ہم ان مختصر لفظوں میں کہہ لیں ’آج سے تقریباً چار ہزار سال پہلے کی بات قرآن نے ہم کو اس طرح بتلائی ہمارے رسول کو بتائی ان سے ہم کو سمجھائی گئی۔ کہ جو لوگ حق کو جھٹلاتے ہیں اس کا مذاق اُڑاتے ہیں ان کی تباہی یقینی ہے۔ اور حکم ہوا حضرت موسیٰ کو کہ تم ایسے لوگوں کی طرف جائو انہیں حق کی بات سمجھائو انہوں نے کہا ’پالنے والے مجھے ڈر ہے وہ مجھے جھٹلا دیں گے۔ (ان کے جھٹلانے سے) میرا دم گھٹنے لگے گا میں بات بھی نہ کرسکوں گا تو میرے پاس (میرے بھائی) ہارون کو بھیج دے موسیٰ کی درخواست بارگاہ رب میں قبول ہوگئی ان کے ساتھ حضرت ہارون بھی بھیج دیئے گئے کہ دونوں مل کر (اس وقت کے بادشاہ جو خدائی کا دعویٰ کررہا تھا) فرعون کی طرف (اللہ کے حکم سے) گئے۔ فرعون (شاہی شان و شوکت، درباریوں سے چھلکتا ہوا دربار تکبر و غرور سے اونچائی پر بیٹھا ہوا فرعون۔ اس کے سامنے حضرت موسیٰ آئے۔ فرعون نے کہا اے موسیٰ تم کو تمہاری کمسنی میں ہم نے پالا اور تم نے (ایک قبطی کو مار بھی ڈالا تھا) اور ایسا کام کرچکے ہو۔ موسیٰ نے کہا ہاں ایسا ہوا تھا (اور میں نے قصداً ایسا نہیں کیا تھا) اب رب العالمین اپنے رب اللہ کے حکم سے تم تک آیا ہوں اس نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے۔ فرعون نے سنا اور پوچھا (ہم اس کا تکبر اس کا غرور اس ایک جملے سے سمجھیں۔ کہنے لگا یہ ’رب العالمین‘ عالمین کا رب کیا (چیز) ہے۔ (الشعراء آیت 23 ) حضرت موسیٰ نے بھرے دربار میں بے جھجک سمجھایا۔ (موسیٰ نے) کہا تمام آسمانوں، زمین اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کا پالنے والا (سب کا مالک) اگر تم سب کو اس کا یقین ہو۔ (الشعراء آیت 24 ) فرعون نے اپنے درباریوں کو آواز دی۔ تم نے سنا پھر مذاق اُڑاتے ہوئے کہا یہ دیوانہ ہے۔ موسیٰ نے پھر تکرار سے کہا وہ سب کا رب ہے۔ فرعون نے ’اب اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو اللہ کہا تو میں تم کو ضرور قیدخانے میں ڈال دوں گا‘ (الشعراء آیت 29 ) موسیٰ نے پھر کہا ’اور اگر میں اپنی بات کی تصدیق میں معجزہ دکھائوں۔ اس نے کہا دکھائیں۔ حضرت موسیٰ نے عصا زمین پر ڈالا وہ اژدہا بن گیا۔ اپنا ہاتھ بڑھایا جو چمک رہا تھا (نورانیت سے)۔ فرعون نے درباریوں سے کہا۔ یہ جادو ہے۔ تم سب کیا کہتے ہو۔ سب نے کہا ان کو ان کے بھائی کو کچھ مہلت دو (وقت دو اور ہر جگہ سے اپنے جادوگروں کو بلوائیں۔ ایک معین وقت تک سب آجائیں۔ وقت آیا۔ سب آئے، اپنی رسیاں ڈالیں اور دعا کی (ہم دیکھیں دعا کیا کی؟) فرعون کے جلال کی قسم ہم ہی غالب ہوں گے۔ (الشعراء آیت 44 ) موسیٰ نے اپنا عصا زمین پر ڈالا جس نے ان کے جادو کو نگل لیا۔ تمام جادوگر سجدے میں گرگئے اور کہنے لگے ’سب نے کہا ہم عالمین کے پالنے والے پر ایمان لائے ’رب موسیٰ و ہارون۔ (الشعراء آیت 48 ) موسیٰ اور ہارون کے رب پر (ایمان لائے) ہم دیکھیں فرعون نے کہا تھا یہ رب العالمین کیا ہے؟ اسی زبان میں اسی کے جادوگروں کو کہنا پڑا ہم رب العالمین پر ایمان لائے۔ مہینوں بعد سہی مگر جواب فرعون کو اسی کے دربار میں اسی کے لوگوں سے اسی کے درباریوں کے سامنے انہیں لفظوں میں مل گیا جو آج تک یہ بتاتا ہے کہ ’’اس کی بارگاہ میں دیر ہوتی ہے مگر نہ اندھیر ہوتا ہے نہ اندھیرا باقی رہ جاتا ہے۔ فرعون نے سب کو ڈرایا تم سب کے ہاتھ پیر کاٹ دوں گا۔ تم میری اجازت کے بغیر ایمان کیوں لائے۔ مگر جو حق کی طرف آگئے تھے ان کا ایک ہی جواب تھا ’کوئی پرواہ نہیں ہمیں ہر حال میں اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘ (الشعراء آیت 50 ) اور اسی سورہ کی اسی آیت سے ٹھیک ایک سو ایک آیات کے بعد قرآن نے کہا ’جو لوگ زمین پر فساد پھیلاتے ہیں اور برائیوں کی اصلاح نہیں کرتے۔ ان سے ان کے بارے میں کہا گیا جو صدیوں کے فاصلوں میں فساد کرتے رہے اور عالمین کے پالنے والے کچھ سزائوں کا سامنا کرتے رہے۔ (الشعراء آیت 152 ) اس واقعہ میں حضرت موسیٰ سے اس آیت 151 تک اور اس کے بعد تک ایسے بہت سے لوگوں کا تذکرہ ہماری عبرت کے لئے کہا گیا۔ پہلے کے واقعات بیان کئے گئے۔
حضرت ابراہیم، حضرت نوح،اور قوم نوح، حضرت ہود، حضرت صالح، قوم ثمود، حضرت لوط، قوم لوط، حضرت شعیب اور اصحاب الئیکۃ۔ اور اسی سورہ کی آخری آیت 227 کا یہ آخری فقرہ ایسا ہے کہ کون ہے عالم اسلام کا عالم جو اسے نہ دہراتا ہو۔ یاد نہ کرتا ہو، وقتاً فوقتاً اس کی تلاوت نہ کرتا ہو۔
ویسعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون۔ جن لوگوں نے ظلم کیا انہیں جلدی ہی معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس لوٹنے کی جگہ لوٹائے جائیں گے۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔
کمسنی میں مدرسہ ناظمیہ میں اسماعیل میرٹھی کی کتاب ’اردو کی دوسری یا تیسری میں ایک شعر پڑھا تھا پھر یاد آگیا‘ ظلم کی ٹہنی کبھی پھلتی نہیں۔ نائو کاغذ کی سدا چلتی نہیں۔ یہ شعر بہت کمسنی میں پانچ چھ سال کی عمر میں پڑھا تھا اور اب تو اتنا کہنے کا سلیقہ آگیا ہے کہ کاغذ کی نائو تو کیا چلے گی جب بڑے بڑے جہاز ہمیشہ نہیں چلتے ہمیشہ نہیں رہتے ہمیشہ کام نہیں آتے۔ جب نوح کی کشتی نہ رہی تو اور کوئی سفینہ، جہاز، کشتی کیا باقی رہے گی، جبکہ نوح کی کشتی تو لوگوں کو الٰہی عذاب کے طوفان سے بچانے کا کام کررہی تھی۔ لیکن اس کا بھی نجات دلانے کا کام ایک وقت ایک قوم ایک گروہ تک محدود تھا اور بس۔ سفینہ، جہاز اگر کوئی باقی رہ سکتا ہے تو بس وہی جو ہمیشہ نجات دلانے ہی کیلئے بنے۔ اور ایسا سفینہ اسلامی تاریخ میں ایک کے سوا کوئی دوسرا نہیں۔ وہی جس کے لئے حضوؐر قیمتی مرتبت، پیغمبر اسلام نے فرمایا:
’مثل اہل بیتی کمثل سفینہ نوح من رکبہا نجیٰ ومن ثخلف عنہا غرق و ہویٰ‘ میرے اہل بیت کی مثال اس سفینہ نوح جیسی ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی (منھ موڑا) غرق ہوا ہلاک ہوا۔ ہر جمعہ اودھ نامہ لکھنؤ میں شائع ہونے والے اپنے اس مضمون کی اس قسط 102 میں (زمین پر فساد نہ کرو نمبر 12) میں اس موڑ پر ہمیں ایک بہت محترم شخصیت کی یاد آئی۔ ایک ایسی شخصیت کی جو مذاہب کی دنیا میں بہت جانے جاتے ہیں۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ہم بھی ایک دوسرے کو قریب 42-40 سال سے جانتے ہیں جن کا اسم گرامی ’مراری باپو‘ ہے ہم ان کے بارے میں پھر کبھی ذرا تفصیل سے لکھیں یہاں اتنا لکھ دیں۔ یاد اس لئے آئی کہ چند سال قبل ہم اور وہ مہوا (گجرات) میں ایک بڑے اجتماع میں تھے۔ انہوں نے ڈائس پر لگے بینر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس بڑے اور مشترک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا اس پر جو نام لکھے ہیں وہ آپ لوگ نہیں پڑھ سکتے۔ مجمع میں پوربندر وغیرہ سے آئے ہوئے مختلف مذاہب والوں سے انہوں نے کہا۔ ’یہ نام میں پڑھ کر سناتا ہوں یہ نام ہیں ’محمدؐ، علی ؑ، فاطمہؐ، حسن ؑ، حسینؐ۔ آپ سب بھی پانچ کو مانتے ہیں۔ یہ پانچ نام جو ہیں آپ ان کو اپنے ساتھ لیں۔ تمام وشو (دنیا) میں ان سے بڑے کوئی نام نہیں ان کو آپ ساتھ رکھیں یہ یہاں بھی کام آئیں گے وہاں بھی کام آئیں گے۔ دہلی میں ان کی کتھا ہورہی تھی ہم کو بلایا گیا ہم اپنے فرزند مولانا فرید الحسن صاحب پرنسپل ناظمیہ کالج کے ساتھ گئے۔ ہم نے مختصر تقریر کی پھر مراری باپو نے اپنی کتھا شروع کی اور اس میں انہوں نے ’علی مولا علی مولا‘ ’مولا علی مولا علی‘ اس طرح ورد کیا جو میں سمجھتا ہوں تمام ہندوستان کے مذاہب کی تاریخ میں بالکل منفرد واقعہ ہے۔
یہ سب ہم نے اس لئے لکھا کہ مضمون لکھتے لکھتے ہمیں یہ سب یاد آیا تو خیال آیا اس کا اضافہ اسی مضمون میں کردیں اور اچھا رہے گا کہ جب تمام دنیا اپنے بدترین وقت سے گذر رہی ہے۔ ہمارے ملک میں بھی سب لوگ ’اپنے اپنے گھروں میں ہیں‘ اب اس وقت ملک میں ایک طرح سناٹا ہے، سڑکیں خاموش ہیں، ریلوے اسٹیشن ویران ہیں، تمام ایئرپورٹ سنسان ہیں، نہ ریلوے انجنوں کی سیٹیاں ہیں، نہ ہوائی جہازوں کی گھن گرج ہے، نہ سڑکوں پر موٹروں ٹرکوں کے ہارن ہیں۔ ایسے میں دیکھیں ہم لکھنؤ میں یہ مضمون لکھ رہے ہیں تو ہمارے بہت اچھے بھائی جناب مراری باپو کیا کررہے ہیں۔ جناب مہندر صاحب نے ہم سے خواہش کی کہ وہ ہم سے مراری باپو کی بات کرادیں۔ وہ بیحد خوش اخلاق ہیں۔ شاید پانچ منٹ میں ان کا فون آگیا۔ ہم نے اپنی کہی انہوں نے اپنی بات سنائی۔ ہم دونوں اس پر متفق تھے کہ ’سب کو بہت سختی سے اس پر عمل کرنا ہے۔ گھروں میں رہنا ہے۔ ان کی لفظیں پوری طرح یاد نہیں رہیں لیکن بہت پراثر تھیں جب انہوں نے کہا ہندی الفاظ مین شاید ترجمہ یہی ہوگا۔ ہم سب کو صبر کا شاندار وقار بتاتا ہے ہم سب کو اپنے اپنے گھروں میں اپنی پرارتھنا (عبادتوں) میں سب کے لئے دعا کرنا ہے۔ ہم کو پورے بھارت اور پوری دنیا کے لوگوں کی سلامتی کے لئے دعا کرنا ہے۔ جب ہم ان سے کہا ہم اور آپ مدتوں سے اسی راستے پر ہم خیال ہیں تو انہوں نے کبیر کا ایک دوہا ہم کو سنایا۔ ہم نے ان سے کہا اسے پھر سے دہرائیں مگر پھر بھی مجھے یاد نہ رہ سکا البتہ مفہوم ہمیں یاد رہا وہ اس طرح ہے:
کنوئیں کا پانی ایک ہے پانی اس سے بھرنے والے الگ الگ ہیں
برتن سب کے ہاتھوں میں ہیں جو الگ الگ ہیں مگر پانی سب میں ایک ہے۔
ہم نے اپنے محترم بھائی جناب مراری باپو سے اجازت لی کہ ہم اس طرح کا ایک مضمون لکھ رہے ہیں اس میں آپ کی اپنی آج کی بات شریک کردیں۔ انہوں نے کہا ضرور ہم کو بھی اس کی نقل بھیج دیں۔ ہم نے وعدہ کیا۔ کچھ وقفہ کے بعد انہوں نے کہا ’جے سیارام‘ ہم نے بھی اسی لہجہ میں خدا حافظ کہا۔ ایک عظیم ملک کے دو الگ الگ دھرم کیا واقعی الگ الگ ہیں؟ نفرتوں والے محبتوں کی مٹھاس کیا ہے جان لیں تو کہیں نفرت کو منھ نہ لگائیں
آج کی اس قسط کو ہم یادگاری سمجھیں گے اس بات کیلئے کہ اسی ملک میں جہاں مذاہب میں تعلیمات ایک ہیں اور جہاں مذاہب کے نام پر انسان اور انسان کے درمیان پھوٹ ڈالنے والے اپنی پوری کوشش میں ہیں کہ کچھ لوگوں کی زندگی کو جہنم بنادیں۔ وہاں وہ لوگ بھی ہیں جو انسان اور انسانیت میں یقین رکھتے ہیں۔ جو محبت اور پیار کو زندگی مانتے ہیں اور جو مذہب کو اس کی گہرائیوں تک جتنا بھی جان سکے جتنا بھی سمجھ سکے ایک ہی بات حاصل کرسکے کہ سب ایک ہیں۔ سب ایک دوسرے کیلئے اخلاق، پیار، بھائی چارہ، محبتوں کے چمن سجائو۔ پھول تو سب ہی ہیں، گیندا زرد رنگ کا ہے۔ بیلا سفید رنگ کا ہے مگر گلاب تو سب کو محبوب ہے۔ گلاب تو پھولوں کا بادشاہ بھی ہے پھولوں کی ملکہ بھی۔ اور گلاب صرف زرد نہیں ہوتا صرف سفید نہیں ہوتا۔
گلاب تو ہر رنگ کا ہوتا ہے گلابی، سرخ، سبز، زرد، سیاہ، ہر رنگ کا گلاب ہوتا ہے کہ نہیں۔
ہمارے عظیم ملک بھارت کے ہمارے ساتھیو! آیئے ہم سب بھی مل کر اپنے بھارت کو ایسا گلاب کا پھول بنالیں جس کی خوبصورت پتیوں پر ہر رنگ ہو اور جس کی خوشبو تمام دنیا تک پہنچ سکے۔
آج جب کورونا ایک اندیکھے جرثومہ نے ہم سب کو دہشت زدہ کررکھا ہے۔ تو ہم اپنی اپنی جگہ غور کریں۔ ہم سب کس بات پر عمل کررہے ہیں؟ اپنی حکومت کے ہدایات پر۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں اسی میں ہم سب کی بھلائی ہے، حفاظت ہے، سلامتی ہے۔ جبکہ ہم سب ہی جانتے ہین ہماری یا کسی بھی حکومت کے پاس ابھی تک اس کی کوئی دعا نہیں ہے۔ ہاں اس کی بتائی ہوئی احتیاط کی باتوں مین ہماری نجات ہے۔
اور ہمارے ملک کیلئے سب سے زیادہ محبوب اور بااعتماد وزیراعظم جناب نریندر مودی نے یہ اعلان لاک ڈائون کا کس کے لئے کیا ہم سب کی بھلائی کیلئے؟ تو آیئے بار بار وہ ایک ہی بات سب سے کہہ رہے ہیں کہ ’ہمارے دیش کے ایک سو تیس کروڑ لوگ‘ وہ بار بار ایک ہی بات تمام ملک سے کہہ رہے ہیں ’کورونا مذہبی بھیدبھائو دیکھ کر نہیں آئے گا‘ وہ سب سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں آپ سب ایک رہیں خود ہر صوبہ کے وزیراعلیٰ کی یہی کوشش ہے۔ ہمارے اترپردیش کے وزیراعلیٰ صاحب یوگی آدتیہ ناتھ اپنے عزیزترین باپ، پتا کے آخری مراسم میں شرکت کرنے نہیں جاسکے، آنکھوں میں آنسو تھے۔ دو منٹ کی خاموشی، پچھلی تمام زندگی نفرتوں میں گذر گئی۔ ایک باپ، اس کی گود میں ایک کھیلتا ہوا بچہ، کیا اب بھی ہمیں لکھنا ضروری ہے کہ وہی بچہ بڑا ہوکر ایک یوگی کی سچی شان کے ساتھ اتنے بڑے صوبے اترپردیش کا وزیراعلیٰ بنا تو کس طرح اپنی ذمہ داری پوری کی؟ کہیں ہم سب کی حفاظت کے انتظامات میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔ یقینا یوگی جی کا یہی احساس ان کے پتا کی آتما کے سکون کا سب سے بہتر وسیلہ بنے گا۔
یہ سب ہم نے لکھا۔ آخر میں ایک چھوٹاسا واقعہ لکھیں۔ بڑی نصیحت ہے اس میں۔ ہم یہاں اتنا لکھ دیں ہماری ان 102 قسطوں تک کوئی آیت، کوئی حدیث کوئی واقعہ اگر ہم نے لکھا تو اس کے سچے خوابوں کی ذمہ داری بھی ہماری ہے۔
تو بات کچھ اس طرح ہے۔ حضرت عیسیٰ کہ جن کے کروڑوں ماننے والے آج تمام دنیا میں ہیں راستہ سے گذر رہے ہیں۔ ایک جگہ ایک عورت ایک کمسن بچے کو لئے آگئی جو کئی بیماریوں میں مبتلا تھا۔ نابینا تھا، بہرا تھا، مبروص (سفید) تھا۔ پیروں سے مفلوج تھا عورت نے حضرت عیسیٰ سے کہا ’یا روح اللہ میری کوئی اولاد اس بچے کے سوا نہیں اور یہ ایسا ہے دل میں آیا آپ کے پاس لے آئوں۔ حضرت عیسیٰ نے فرمایا مجھے بس بنی اسرائیل کے مریض لوگوں کے علاج کی ذمہ داری ہے اور تو ان میں نہیں ہے۔
عورت نے کہا برزگوں کے دسترخوان سے سب ہی فائدہ اٹھاتے ہیں یہاں تک کتے بھی ان کے پھیکے ہوئے سے اپنی بھوک مٹاکر فخر کرتے ہیں۔ اے میرے آقا میں بڑی دور سے چل کر آئی ہوں مجھے محروم نہ کریں۔ حضرت عیسیٰ نے سنا، ہنسی آگئی، بچے کے جسم پر ہاتھ پھیرا۔ اسے مکمل شفا مل گئی۔
کیا ہم ذرا فکر کرسکتے ہیں پہلے منع کیوں کیا؟ پھر شفا کیوں دے دی؟ یہ ہم سب کے لئے تھا۔ ’اللہ والے سب کیلئے ہوتے اور سب ہی اللہ والوں کے ہوتے ہیں‘ جب سامنے والا دل سے فریاد کرے تو اس کی دعا اس کی فریاد جس کی بارگاہ میں پہنچتی ہے ان اللہ والوں کا رشتہ وہیں سے بندھا ہوتا ہے وہیں سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اب اگر وہ کسی ضرورتمند کے لئے دعا کرنے میں بھی فرق قائم کرے گا تو وہ اپنے رحمت کرنے والے مالک سے اپنا رشتہ توڑ لینے والا سمجھا جائے گا۔
ہم کتنے بدنصیب شمار ہوں گے کہ جب ہماری حکومتیں تو مذہبی تفریق کے بغیر ہم سب کیلئے رات دن کام کریں اور ہم مذہبی ہوکر انسانی زندگی کیلئے ناسمجھی کی زندگی گذاردیں۔
آج تمام دنیا میں جس وباء کے مقابل لاکھوں انسانی زندگیاں ختم ہوچکی ہیں کل کیا دن آنے والے ہیں انہیں بھلاکر ہم وہی اپنی پرانی تجارت نفرت، حقارت، تعصب کی کرتے رہیں گے۔ تو نہ ہمارا مالک ہمیں معاف کرے گا نہ ہماری آنے والی نسلیں ہمیں معاف کریں گی۔ وہ نسلیں جن میں خود ہماری گود کے پالے ہمارے اپنے بچے بھی ہوں گے۔
میری گذارش ہے، درخواست ہے، بہت مؤدبانہ عرض ہے اپنے تمام میڈیا کے ذمہ داران سے، نصیحت کیجئے، ضرور کیجئے، غلطی کرنے والوں کو ٹوکئے ضرور ٹوکئے لیکن ایسا لگے بات کسی بھی اصلاح کیلئے ہورہی ہے۔ کسی قوم سے انتقام کیلئے نہیں۔ یہ ہم کریں گے تو اسے اصلاح کہیں ورنہ اصلاح نہیں فساد کہلائے گا۔
ماہِ رمضان اس مضمون کے پڑھتے وقت بس شروع ہونے والا ہوگا۔ عبادتیں گھروں میں کیجئے۔ ان دعائوں کے ساتھ کہ ’اے مالک پوری دنیا اور ہمارے ملک کے سب لوگوں کی حفاظت فرما۔ اس وباء کو ختم کر اور ہم تمام ہندوستان کے لوگوں کی اس کی توفیق عطا فرما کہ ہم سب ایک دوسرے کا احترام کریں۔ پھر کوئی اجنبی، کوئی بزرگ، کوئی بے سہارا کوئی کمزور عورت کسی جگہ کسی کے ظلم کا نشانہ نہ بنے۔ سب کی حفاظت تیرے حوالے۔
آخری بات۔ میں عالم تصور میں ایک سبزہ زار میں ہوں۔ بہت خوبصورت جگہ ہے ہر طرف پھول کھلے ہوئے ہیں، ان کے درمیان چند چھوٹے چھوٹے ننھے منے دو یا تین سال کی عمر کے بچے کھیل رہے ہیں۔ بہت ہی پیارے ہیں بڑے خوبصورت ہیں۔
میں نے اس چمن کے اس باغ کے منتظم سے پوچھا ’ان پھولوں کے نام بتائیں گے؟ انہوں نے کہا جی ہاں یہ گیندا ہے، یہ چمیلی ہے یہ بیلا ہے یہ کامنی ہے یہ گلاب ہے۔
میں اُدھر گیا جہاں وہ بچے کھیل رہے تھے ان کے بزرگوں سے ملا۔ بچوں کے نام پوچھے جواب ملا وہ شانتی ہے وہ رام ہے وہ روزی ہے وہ رنجیت ہے۔ وہ رحمان ہے وہ رحمت ہے۔ میں ان بچوں کی طرف گیا۔ میں نے انہیں ان کے ناموں سے پکارنا شروع کیا جس بچہ کا بھی نام پکارا اس نے مجھے مسکراکر پیار سے دیکھا کوئی مسکرایا۔ کوئی کھل کھلاکر ہنسنے لگا۔ میں نے ہر طرف نظر دوڑائی۔ مجھے تو تمام پھولوں سے زیادہ یہ بچے اچھے لگے مجھے ایسا لگا کوئی مجھے ایسی زندگی دے جس میں مجھ سے کہا جائے یہ تمام چمن لوگے یا ان بچوں کا ساتھ؟ میں سمجھوں گا ان بچوں کا ساتھ مل جائے تو یہی میری اچھی سچی زندگی ہوگی۔
میں نے دل ہی دل میں ان بچوں کی سلامتی کی دعا مانگی اور میرے دل نے کہا۔ حقیقی انسانیت یہی ہے۔ اگر تمہارے پاس یہ نہیں یہ پیار نہیں اس پیار میں بھی تم نے بھیدبھائو رکھا تو تم خود کو فسادی سمجھو اور اگر تم نے بچوں سے ان کی معصومیت سے پیار کا رشتہ بنا لیا تو یہی تمہارے کام آئے گا۔ یہاں بھی، وہاں بھی۔
پھر نہ یہاں کا کورونا تمہیں کوئی نقصان پہنچا سکے گا نہ وہاں کی کوئی آفت۔ عالم خیال سے حقیقی دنیا میں واپسی ہوئی تو لگا ہمیں سب کچھ مل گیا۔ سارا جہان مل گیا۔
خخخ