خود کشی

0
144

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

(ڈاکٹر محمد نہال افروز( حیدرآباد

راجیش ایک غریب مزدور تھا ۔وہ دہاڑی مزدوری کرتا تھا،یعنی روز کماتاتھااور روز کھاتا تھا۔ وہ ایک شہر میں سڑک کے کنارے فٹ پاتھ پر جھونپڑی بناکر اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوںاور بیوی کے ساتھ رہتا تھا۔اسے نہ تو دنیا کی خبرہوتی تھی اور نہ ہی دین کی فکر رہتی تھی ۔ اس کے بیوی بچے ہی اس کی پوری دنیاتھی اور ان کا پیٹ پالنا ہی اس کا دین تھا۔ وہ دن بھر کام کرتا تھا اور شام کو گھر آکر اپنے بیوی بچوں میں مست ہو جاتا تھااور صبح پھراپنے کام کی تلاش میں نکل جاتا تھا۔
راجیش کام کی تلاش میں ہر روز شہر کے ایک چوراہے پر جاکر کھڑا ہوجاتا تھا۔وہاں پر راجیش ہی کی طرح بہت سارے دہاڑی مزدورکھڑے رہتے تھے ۔لوگ وہاں پر آتے اور جن کو مزدور کی ضرورت ہوتی تھی،وہ انہیں لے جاتے تھے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ راجیش کو کوئی لے ہی نہیںجاتا تھا،لیکن راجیش گھبراتا نہیں تھا،کیوں کہ ایسا صرف اس کے ساتھ ہی نہیں بلکہ بہت سارے مزدوروں کے ساتھ ہوتا ہے۔
اسی لیے راجیش اپنی دہاڑی میں سے کچھ پیسہ بچا کرالگ رکھ لیتا تھا۔یہ سوچ کر کہ جس دن کام نہیں ملے گا اس دن انہیں پیسوں سے بیوی بچوں کے لیے کھانے کا انتظام کر لیاکرے گا۔راجیش صبح سے شام تک مزدوری کرتا تھااور شام کو مالک سے اپنی دہاڑی لے کرسیدھے بازار پہنچتاتھا۔وہاں سے راشن خرید کر گھر چلا آتا تھا۔یہی راجیش کا معمول تھا۔اس کی زندگی بغیر کسی ٹینشن کے بہت ہی خوش حال طریقے سے گزر رہی تھی۔
ایک دن جب صبح صبح راجیش چوراہے پر پہنچا تو دیکھا کہ وہاں پرمزدور بہت کم ہیں۔ اس نے اس کی وجہ جاننے کی کوشش نہیں کی ،بلکہ اس نے سوچاکہ آج تو کوئی نہ کوئی دہاڑی کے لیے مجھے ضرور لے جائے گا۔ اس کا دل خوشی سے باغ باغ ہو گیا،لیکن ایسا نہیں ہوا جیسا کہ اس نے سوچاتھا۔ تھوڑی دیر میں وہاں پولیس آئی اور مزدوروں کوڈانٹ ڈپٹ کر اپنے اپنے گھروں میں جانے کے لیے کہا۔سارے مزدور اپنے اپنے گھرروں کوچلے گئے۔راجیش بھی گھر واپس چلا آیا۔یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا ۔راجیش تمام مزدورں کی طرح روز صبح چوراہے پر جاتا اور پولیس کی ڈانٹ ڈپٹ کھا کر واپس چلا آتا۔کام نہ ملنے کی وجہ سے جمع کیے ہوئے پیسوں سے وہ اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا رہا۔دھیرے دھیرے جمع کیے ہوئے پیسے ختم ہونے لگے تھے اوراسے آگے کے لیے فکر ہونے لگی تھی۔ کام نہ ملنے کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہنے لگا تھا۔
آج آٹھواں دن تھا ۔راجیش چوراہے پر سے پولیس کی ڈانٹ ڈپٹ اور لاٹھی ڈنڈا کھا کرصبح صبح ہی گھر کر واپس آگیا تو اس کی بیوی نے حیران ہو گر پوچھا۔
’’کیا ہوا۔آج پھر کام نہیں ملا؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کیوں؟کئی دنوں سے آپ خالی ہاتھ واپس آرہے ہیں۔کیا شہر میں کہیں کوئی کام ہی نہیں ہے۔‘‘
’’پتہ نہیں۔اب کوئی چوراہے پر مزدور وں کو لینے کے لیے آتاہی نہیں۔ اوپر سے پولیس والے چوراہے پرمزدوروں کو ٹھہرنے بھی نہیں دیتے۔ان کو ڈنڈے مارتے ہیں۔‘‘
’’گھر میں اناج کا ایک بھی دانانہیں ہے۔ بچوں کو کھانے کے لیے کیادوں؟‘‘اس کی بیو ی بولی۔
’’اتنے دنوں تک کام نہ ملنے کی وجہ سے جمع کیے ہوئے پیسے بھی خر چ ہو گئے ہیں ۔میں بچوں کے لیے کھانا کہاں سے لاؤں۔‘‘ راجیش اداس ہو کر بولا۔
راجیش بہت پریشان ہو گیا تھا۔اسے بچوں کی فکر ہورہی تھی۔ وہ بے بس تھا، مجبور تھا۔اسے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ وہ کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں اس کا بڑا بیٹا بولا۔
’’اماں بہت زور کی بھوک لگی ہے،کھانا دونا۔‘‘
بڑے بھائی کو کھانا مانگتے دیکھ کر دونوں چھوٹے بچے بھی اپنی ماںسے کھانا مانگنے لگے،’’اماں مجھے بھی بھوک لگی ہے۔میں بھی کھانا کھاؤں گا،میں بھی کھانا کھاؤں گا۔‘‘بچے کھانے کی رٹ لگانے لگے۔
راجیش کی بیوی نے پہلے بچوں کی طرف دیکھا،پھراس نے اپنی نظریں راجیش کی طرف گھمائیں۔ اس کی نظریںجیسے راجیش سے سوال کر رہی تھیں کہ آخر کیا دیں بچوں کو کھانے کے لیے۔
راجیش اپنی بیوی سے نظریں نہ ملا سکا اور اٹھ کر باہر جانے لگا۔باہر جاتے ہوئے اس نے بیوی سے کہا ۔ ’’تم گھبراؤ نہیں،میں کھانے کا کچھ انتظام کرتا ہوں۔‘‘
وہ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ کیا کروں۔بچے بھوکے ہیں۔گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔کہاں سے لاؤںمیں ان کے لیے کھانا۔کام تو کہیں مل نہیں رہا ہے۔یہی سب سوچتے ہوئے وہ اسی چوراہے پر پہنچ گیا،جہاں سے وہ دہاڑی کے لیے جاتا تھا۔اس امید پہ کہ شاید کوئی آئے اور مجھے لے جائے۔مجھ سے دہاڑی کروائے اور میں شام کو بچوں کے لیے کھانا لے کے جا سکوں۔
راجیش وہیں چوراہے پر کام کی آس لگائے بیٹھا تھا ۔اچانک پولیس آئی اور اسے پیٹنے لگی۔پولیس والا اسے گالی دیتے ہوئے بولا۔’’سالے مذاق بنا رکھا ہے،کچھ دن گھر میں نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘
پولیس والااس سے آگے اور کچھ بولتا اس سے پہلے وہاں موجود ایک صحافی نے راجیش کو پولیس کی گرفت سے باہر نکالا اور کچھ غصے اورکچھ ہمدردی بھرے لہجے میں اسے ڈانٹتے ہوئے بولا۔
’’تمہیں سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ پورے ملک میں لاک ڈاؤن چل رہا ہے۔ پوری دنیا ایک مہلک مرض میں مبتلا ہے۔ہر جگہ وبا پھیلنے کا خطرہ ہے۔سرکار اس وبا سے لڑنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور تم جیسے لوگ کچھ دن گھر میں نہیں بیٹھ سکتے۔کیا تم ان باتوں سے واقف نہیں ہو؟‘‘
’’صاحب!مجھے نہیں پتہ دنیامیں کیا ہو رہا ہے۔میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ میری دنیابھوکی ہے۔میرے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں۔‘‘
’’کیوں ،کیا ہوا تمہارے بچوں کو۔وہ بھوک سے کیوں بلک رہے ہیں۔‘‘
’’صاحب میں مزدور ہوں ۔دہاڑی مزدور ی کرتاہوں۔ اسی سے بیوی بچوں کا پیٹ پالتا ہوں۔‘‘
’’تویہاں کیا کر رہے ہو۔‘‘
’’صاحب!یہ لیبر چوراہا ہے۔میں یہاں صرف اس لیے آتا ہوں کہ مجھے کام مل جائے اور میں اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں۔میرے بچے بھوکے ہیں۔گھر میں کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔صاحب! میں تو بھوکا سوسکتا ہوں،لیکن بچوں کوبھوکانہیں سلا سکتا…… صاحب!بچوں کو بھوکا نہیں……‘‘ اس کی آوازبھاری ہونے لگی تھی۔
راجیش کی باتیں سن کر صحافی کا دل بھرآیا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔صحافی کو راجیش کی حالت زار پر رونا آیا،لیکن وہ کیا کر سکتا تھا۔اس نے اپنے جیب سے کچھ پیسے نکالے اور راجیش کو دیتے ہوئے بولا۔
’’یہ لو پیسے اور اپنے بچوں کے لیے کھانا لے کر سیدھے گھر جاؤ۔ یہ لاک ڈاؤن ابھی اور کتنے دن چلے گا ،کچھ پتہ نہیں ہے۔ گھر جاؤاوراپنے بچوں کے ساتھ رہو۔ باہرمت نکلو۔ ابھی کچھ دنوں تک تمہیںکہیں کوئی کام نہیں ملے گا۔‘‘
صحافی کی باتیں سن کر راجیش گھبرا گیا۔’’ابھی کچھ دنوں تک تمہیںکہیںکوئی کام نہیںملے گا۔‘‘صحافی کا یہ جملہ بار بار اس کے ذہن پر چوٹ کر رہا تھا۔وہ کبھی بچوں کے بارے میں سوچتا اور کبھی کام کے بارے میں۔اسے اس مصیبت سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔
راجیش وہاں سے اٹھا،لیکن گھر نہیں گیا۔شام ہونے کا انتظار کیا۔جب شام ہو گئی تو وہ بازار کی طرف گیا۔وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا بازار کی تمام دکانیںبندتھیں،لیکن اتنی دکانیںتو کھلی تھیں کہ وہ اپنے منصوبے کو انجام تک پہنچا سکتا تھا۔اس نے صحافی کے دیے ہوئے پیسے سے راشن کی دکان سے دودھ خریدا اور میڈیکل اسٹور سے نیند کی ڈھیر ساری گولیاں خریدیں ۔ پھرراجیش گھر کی طرف چل دیا۔ وہ گھر پہنچا تو اس کے ہاتھ میں دودھ کا پیکٹ دیکھ کر بچوں کے ساتھ اس کی بیوی بھی خوش ہوگئی اور جلدی سے دودھ گرم کرنے لگی۔جب دودھ گرم ہوگیا تو راجیش بولا کہ آج بچوں کو میں اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاؤں گا۔بچوں کوہی نہیں ،تمہیں بھی آج میں ہی دودھ پلاؤں گا۔شوہر کی باتیں سن کر وہ بہت خوش ہوگئی اور دودھ سے بھری پتیلی لا کر راجیش کے پاس رکھ دی۔ راجیش نے چپکے سے پتیلی میں نیند کی پوری گولیاں ملادیں اور سب کو دودھ پلا کرسلا دیا اور خود بھی وہی دودھ پی کرابدی نیند سوگیا۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here