9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
انجینئر منظر زیدی
ہندوستان کی آزادی کے بعد ملک میں مسلسل تیس سال مرکز میں کانگریس کی حکومت رہی۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھارتیہ جن سنگھ حکومت میں نہ آسکی۔ 1977 ء میں پہلی بار بھارتیہ جن سنگھ اور دیگر کانگریس مخالف پارٹیوں نے مل کر جنتا پارٹی بنائی جس کی حکومت بنی جو زیادہ عرصے نہیں چل سکی اور 1980 ء میں پھر کانگریس برسراقتدار آگئی۔ بھارتیہ جن سنگھ کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے تشکیل کیا گیا لیکن بی جے پی بھی کانگریس کو ملنے والے ہندو ووٹوں کو اپنی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی کیونکہ مسلم مخالف پالیسی پر عمل کرنے والی بی جے پی کو بڑی تعداد میں سیکولر ہندو بھی فرقہ پرست پارٹی مان کر ووٹ دینا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ 1984 ء کے الیکشن میں بی جے پی کو پارلیمنٹ میں صرف دو سیٹیں ہی مل سکیں۔ اس کے بعد بی جے پی نے مسلمانوں کیلئے نرم رُخ اختیار کیا اور 1998 ء میں بی جے پی کی حکومت بن گئی جس کے وزیراعظم باجپئی جی تھے۔ ان کے دورِ حکومت میں بھی مسلم مخالف پالیسی نہیں اپنائی گئی۔ یہاں تک کہ ہندوستان اور پاکستان کے مسافروں کی سہولت کے لئے فروری 1999 ء میںدہلی اور لاہور کے درمیان بس چلوائی گئی لیکن بی جے پی کی حکومت 2004 ء میں ختم ہوگئی اور پھر کانگریس برسراقتدار آگئی۔ اس وقت بی جے پی کو لگا کہ مسلم مخالف پالیسی پھر سے اختیار کرنی چاہئے۔
2014 ء کا الیکشن آتے آتے نہ صرف پارٹی کی پالیسی بدلی بلکہ پارٹی کے لوگوں کے کردار بھی بدل گئے۔ پرانے افراد یا تو ختم ہوگئے یا پھر ان کو ایک طرف کردیا گیا۔ جب تک مودی جی اور شاہ جی کی گجرات کے بعد پورے ملک میں مسلم مخالف امیج بن چکی تھی اس لئے پرانے لوگوں کو ایک طرف کرکے مودی جی کو پارٹی کا چہرہ بناکر سامنے لایا گیا اور پارٹی نے انگریزوں کے ذریعہ اپنائی گئی کامیاب پالیسی ’’بانٹو اور راج کرو‘‘ کو اپناتے ہوئے ہندو اور مسلمان کو بانٹنا شروع کردیا۔ اس طرح ہندو اور مسلمان کے درمیان نفرت پھیلاکر فرقہ پرست ہندوئوں کے ساتھ ساتھ (جو پہلے سے ان کے ساتھ تھے) عام ہندوئوں کے ووٹ بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور 2014 ء میں بی جے پی کی حکومت بن گئی جس کے وزیراعظم مودی جی ہوئے۔ تب بی جے پی کو یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ کہیں باجپئی جی کی طرح 2019 ء کے الیکشن میں ہماری حکومت ختم نہ ہوجائے۔ لہٰذا ’’بانٹو اور راج کرو‘‘ کی پالیسی کو آگے بڑھاتے ہوئے پارٹی میں آئی ٹی سیل بنایا گیا جس کا کام یہی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعہ اس طرح جھوٹی آڈیوز اور ویڈیوز بناکر وائرل کی جائیں جس سے ہندو اور مسلمان کے درمیان کشیدگی بڑھے۔
اسی طرح کی بہت سے جھوٹی داستانیں مسلم بادشاہوں اور مسلمانوں کے بارے میں سوشل میڈیا پر میسیج کے ذریعہ پھیلائی جانے لگیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ کبھی گائے کشی کے نام پر اور کبھی بچہ چوری کے نام پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ ہونے لگی اور حکومت ان واقعات پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے خاموش رہ کر ظالموں اور مجرموں کی حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ اس کے بعد سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں جب احتجاج ہوئے تب بھی انہیں مسلمانوں سے جوڑکر نفرت پھیلانے کی سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعہ پوری کوشش کی گئی جس کے نتیجہ میں دہلی میں فساد ہوئے اور مسلمانوں کا کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ پرانے وقتوں میں نواب اور راجائوں کے دربار میں شاعر اور کوی رہتے تھے جو درباری شاعر کہلاتے تھے۔ جن کا کام نواب اور راجہ کی شان میں قصیدے پڑھنا ہوتا تھا۔ اس کے لئے انہیں نواب اور راجائوں کی طرف سے وظیفے دیئے جاتے تھے۔ اسی طرح اب کچھ خاص ٹی وی چینل ہیں جو درباری میڈیا کہلاتے ہیں انہیں بھی کبھی سرکاری اشتہارات کے نام پر کبھی کسی اور شکل میں وظیفے ملتے رہتے ہیں۔ یہ اپنے فرض اور انسانی ہمدردی کو چھوڑکر نفرت کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہ دراصل وہی دکھاتے ہیں جو بی جے پی اور سنگھ پریوار کا ایجنڈہ ہے یعنی کسی طرح بھی مسلمانوں کے خلاف ہندوئوں کے دلوں میں زہر بھرکر ان کے درمیان کشیدگی پیدا کرتے رہیں تاکہ اگلے الیکشن تک ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن برقرار رہے۔ اس میں ان کا ساتھ کچھ پالتو پترکار بھی دیتے ہیں جو اس طرح کی خبریں اخباروں میں شائع کرتے ہیں اور خبر کو خبر نہ رکھ کر نفرت پھیلانے کا ذریعہ بناتے رہیں۔
اس دوران کورونا وائرس اپنے ملک میں پھیل گیا جس نے ہندو اور مسلمان سب کو اپنی گرفت میں لینا شروع کردیا۔ اس بیماری سے لڑنے کے لئے ہندو اور مسلمان ایک ساتھ جدوجہد کررہے تھے۔ پرانی باتوں کو بھول کر ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے۔ یہاں تک کہ دہلی میں ہوئے دنگوں کے دوران جس مسجد کو نقصان پہنچاکر وہاں کی مینار پر بھگوا جھنڈا لہرایا گیا تھا وہ ایک ہندو نے خود مینار پر چڑھ کر اتار دیا۔ مگر یہ ہندو مسلم اتحاد سنگھ پریوار اور درباری میڈیا کو پسند نہیں آیا۔ انہیں لگا کہ پچھلے کئی سال کی محنت برباد ہورہی ہے۔ لہٰذا انہوں نے کورونا سے بھی اپنے مقصد کو پورا کرنے کا جواز ڈھونڈ لیا۔ انہوں نے کورونا کو بھی ہندو اور مسلمان کی سیاست سے جوڑتے ہوئے دربار کی خوشنودی کے لئے نظام الدین میں واقع مرکز کے خلاف بولنا شروع کردیا۔ چوبیس گھنٹے مخصوص خبروں کو بار بار دہراتے رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کچھ زہر فشانی کرنے والے لیڈروں کو اسٹوڈیو میں بلاکر بحث و مباحثہ کراکے نفرت پھیلانے کے مقصد کو پورا کیا جاتا رہا۔ اس بحث میں حصہ لینے والے سیکولر افراد کو بولنے کا کم موقع دیا جاتا ہے یا اینکر درباری میڈیا کا فریضہ ادا کرتے ہوئے ان کی آواز دبا دیتے ہیں۔ اس پر درباری میڈیا خاموش رہا کہ دیئے اور موم بتی جلانے کے نام پر لوگ انار اور پٹاخے چھڑانے لگے جس سے جے پور میں ایک اپارٹمنٹ میں آگ لگ جاتی ہے۔ حیدر آباد میں بی جے پی کا ممبر اسمبلی مشعل ہاتھ میں لے کر جلوس نکال رہا تھا۔ بہار کے پوروی چمپارن کے گائوں میں آگ لگ گئی جس میں کئی گھر جل کر راکھ ہوگئے۔
نئی دہلی میں انڈیا گیٹ پر لاک ڈائون کے دوران دو بسیں جن میں تقریباً ایک سو سے زیادہ غیرملکی شہری تھے، وہ گھومتی ہوئی پائی گئیں۔ ٹریفک پولیس سے جب ان کے بارے میں سوال کیا گیا تو اس نے بتایا کہ ان ٹورسٹ کے پاس اجازت نامہ ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں محکمہ صحت کی پرنسپل سکریٹری پلوی جین گوول اپنے بیٹے کی امریکہ سے آنے کی بات چھپاکر وزیراعلیٰ اور افسران کے ساتھ سردی، بخار اور چھینک کے باوجود میٹنگ کرتی رہیں جبکہ وہ خود کورونا سے متاثر تھیں۔ بعد میں محکمہ صحت کے گیارہ افسران و ملازمین کورونا متاثر پائے گئے۔ مہاراشٹر میں وزارتِ داخلہ کے پرنسپل سکریٹری اویناش گپتا نے آٹھ اپریل کو ایک تجارتی خاندان کو پانچ کاروں کے ذریعہ کھنڈالہ سے مہابلیشور چھٹی منانے کے لئے لاک ڈائون کے دوران فیملی ایمرجنسی بتاکر جانے کی اجازت دے دی۔ ان سب پر ان درباری چینل نے شور نہیں مچایا۔ کیونکہ ان کا مقصد تو اس طرح کی خبریں ڈھونڈنا ہے جس سے عوام میں مذہبی منافرت پھیلاکر انہیں تقسیم کیا جاسکے۔ ملک کے عوام کورونا سے جنگ کے معاملوں میں حکومت کی ناکامیوں اور بغیر مناسب تیاری کے لاک ڈائون کو لے کر سوال اٹھانے لگے تھے۔
ان تمام سوالات کی طرف سے توجہ ہٹانے کے لئے درباری میڈیا کو نظام الدین مرکز کا موضوع ہاتھ لگ گیا۔ اگر تبلیغی جماعت نے کوئی غلطی کی ہے تو اس پر کارروائی ہونی چاہئے مگر جس طرح میڈیا تبلیغی جماعت کا نام لے کر معصوم لوگوں کو اور پوری قوم کو بدنام کررہا ہے اور سماج کو دو حصوں میں بانٹ رہا ہے وہ غلط ہے یہ صحیح ہے کہ کورونا کے سلسلے میں ملک کے موجودہ حالات کے مدنظر مرکز کو یہ اجتماع نہیں کرانا چاہئے تھا۔ اگر تاریخیں پہلے سے طے تھیں تو انہیں ملتوی کیا جاسکتا تھا۔ کم سے کم جو لوگ دوسرے ممالک سے آرہے تھے انہیں تو اطلاع دے کر روک دینا چاہئے تھا۔ مگر کیا یہ غلطی صرف مرکز سے سرزد ہوئی ہے۔ ملک کے حالات کے پیش نظر دہلی پولیس، جو مرکزی حکومت کی ماتحت ہے، کو مرکز کو اجتماع کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی۔ مہاراشٹر سے بھی تبلیغی جماعت نے 14 ، 15 مارچ کو اجتماع کرنے کی اجازت مانگی تھی مگر مہاراشٹر سرکار نے اجازت نہیں دی۔ جب ممبئی پولیس نے اجازت نہیں دی تو دہلی پولیس نے کیسے اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ جو لوگ باہر سے آرہے تھے ان کی ویزے کینسل کردینی چاہئے تھے اور اگر پھر بھی وہ آگئے تھے تو انہیں ایئرپورٹ پر اچھی طرح چیک کرکے اور کوارنٹائن کرنے کے بعد مرکز جانے کی اجازت دینی چاہئے تھی۔ جبکہ ملک میں کورونا کا سب سے پہلا مریض کیرالہ میں 30 جنوری کو ملا تھا۔ یہ انڈیا میں کورونا وائرس کی پہلی موت تھی۔ تبھی سے باہر سے آنے والوں پر سختی کرنی چاہئے تھی۔ اس کے علاوہ صرف مرکز میں ہی اجتماعی میں بھیڑ اکٹھا نہیں ہوئی تھی بلکہ وشنو دیوی کے مندر میں بھی بڑی تعداد میں لوگ جمع تھے جو بعد میں وہاں پھنسے رہے۔ اسی طرح مرکز میں بھی کافی افراد پھنسے رہے۔
کچھ قومی ٹی وی چینل اور ان کے اینکروں کے ذریعہ کس طرح جھوٹی اور بے بنیاد خبروں کی تشہیر کی گئی ان کی چند مثالیں پیش ہیں:
۱۔ ایک مشہور قومی ٹی وی چینل کے مشہور اینکر دیپک چورسیا ٹوئٹ پر لکھتے ہیں:
’’پریاگ راج میں جماعت پر تنقید کرنے والے ایک نوجوان کو گولی مار دی گئی۔ محمد سونا پر گولی مارکر قتل کرنے کا الزام ہے۔ تنقید کرنے پر گولی مارنا، اتنی حیوانیت آتی کہاں سے ہے۔‘‘ پریاگ راج پولیس کو اس کی تحقیقات کرکے صفائی دینا پڑی۔
^^Fkkuk dks’kEHkh esa ,Q-vkbZ-vkj- 127@2020 iathd`r dj uket+n o vU; 8 yksxksa dks fgjklr esa fy;k x;kA e`rd vkSj vfHk;qDr i{k ikl iM+ksl ds jgus okys gSaA buesa ls fdlh dk Hkh lEca/k rCyhxh tekvr ls gksus dh ckr çdk’k esa ugha vkbZ gSA**
۲۔ قومی ٹی وی چینل پر خبر آئی ’’رامپور منہارن، سہارنپور میں نان ویج نہ ملنے پر جماعتیوں نے کھانا پھینک دیا اور کھلے میں ہی ضروریات سے فارغ ہوئے‘‘ اس خبر کے تعلق سے علاقہ کے ایس ڈی ایم شری ایس این شرما نے بتایا کہ جین انٹر کالج میں بنائے گئے کوارنٹائن وارڈ میں مختلف صوبوں سے آئے جماعتیوں کو رکھا گیا ہے۔ سہارنپور پولیس نے اس معاملہ میں کہا کہ-
voxr djkuk gS] fofHkUu lekpkj i=ksa] U;wt pSuyksa ,oa lks’ky ehfM;k IysVQkeZ ij çdkf’kr dh tk jgh [kcj ^^Dokj.Vkbu fd;s x;s tekvfr;ksa us [kkus esa ukuost u feyus ij fd;k tedj gaxkek] tekfr;ksa us [kqys esa gh dj Mkyk ‘kkSp** dh lR;rk dh tkap o vko’;d dk;Zokgh djus gsrq Fkkuk çHkkjh jkeiqj] euhgkju dks funsZ’k fn;s x;s Fks ftuds }kjk tkap dh xbZ rks tkap esa fofHkUu lekpkj i=ksa] U;wt pSuyksa ,oa lks’ky ehfM;k IysVQkeZ ij çdkf’kr dh tk jgh mDr [kcj iw.kZ:i ls xyr ,oa vlR; ikbZ xbZA vr% lgkjuiqj iqfyl mDr [kcj dk iw.kZr% [k.Mu djrh gSA
۳۔ قومی چینل ذی نیوز نے خبر دی کہ اروناچل پردیش میں تبلیغی جماعت سے متعلق گیارہ افراد کورونا وائرس سے متاثر ہیں۔ اروناچل پردیش کو پولیس نے خود اس خبر کی تردید کی اور کہا:
This is to clerity that Arunachal Pradesh has got only one Covid-19 positive case till date. The reporting by Zee News is false and does not carry any authenticity.
۴۔ فروز آباد کے بارے میں ایک قومی ٹی وی چینل نے خبر لگائی ’’فیروز آباد میں چار تبلیغی کورونا سے متاثر پائے گئے۔ انہیں لینے پہنچی میڈیکل ٹیم پر ہوا پتھرائو‘‘ اس خبر کی فیروز آباد پولیس نے تردید کرتے ہوئے کہا۔
vkids }kjk vlR; ,oa Hkzked [kcj QSykbZ tk jgh gS tcfd tuin fQjkstkckn esa u rks fdlh esfMdy Vhe vkSj u gh ,EcqysUl xkM+h ij fdlh rjg dk iFkjko fd;k x;k gSA
۵۔ میڈیا کے ذریعہ جھوٹی خبر پھیلانے کے بارے میں سنکلپ شرما ڈپٹی کمشنر آف پولیس نوئیڈا نے کہا:
Peoples who had come in Contact with the positive case, were quarantined as per laid procedure. There was no menthion of Tabligi Jamat. You are misquoting and spreading fake news.
اس طرح جھوٹی خبروں کو پھیلانے سے جو مقصد درباری میڈیا اور سنگھ پریوار حاصل کرنا چاہتے تھے وہ کورونا کو استعمال کرکے پورا ہورہا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں مسلم مخالف لہر دوڑ گئی۔ ملک کے الگ الگ حصوں میں مسلمانوں کا سوشل بائیکاٹ ہونے لگا۔ جب قومی ٹی وی چینل جو 90 فیصد گھروں میں پہنچتے ہیں، چوبیس گھنٹے تبلیغی جماعت کی کوریج چلاتے رہیں گے۔ تبلیغی جماعت کے بہانے مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرتے رہیں گے تو اور کیا ہوگا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ راجستھان میں ایک حاملہ عورت کو اسپتال میں داخل کرنے سے ڈاکٹروں نے منع کردیا کیونکہ وہ مسلمان تھی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کا بچہ پیٹ میں ہی مرگیا۔ ایک مسلمان پھل والے کو صرف اس لئے پریشان کیا گیا کہ وہ مسلمان تھا۔ بعد میں اس پر ایف آئی آر بھی درج کرادی گئی۔ پہلے گائے کشی کے نام پر ماب لنچنگ ہوتی تھی اب جماعتی کے نام پر ماب لنچنگ ہورہی ہے۔ کرناٹک کے سابق وزیراعلیٰ ایچ ڈی کمار سوامی کے آبائی گائوں میں ایک آدمی منادی پیٹ کر اعلان کررہا ہے کہ اس گائوں میں مسلمانوں کو رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ کسی کو ان کی مدد کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے اور جو کوئی ایسا کرے گا اس پر پانچ ہزار سے دس ہزار تک جرمانہ عائد ہوگا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ڈائرکٹر مائیکل ریان نے کہا ہے کہ:
This does not help having Covid-19 is not anybody’s fault. Every case is a victim. Please don’t profile the case on the basis of racial, relegions and ethic lines.
ان کا یہ پیغام ہندوستان کے لئے ہے مگر درباری میڈیا کے کسی چینل نے یہ خبر نہیں دکھائی۔ انٹرنیشنل لیول پر ہندوستان کی بدنامی ہورہی ہے ان درباری میڈیا کی وجہ سے جو جھوٹی اور بے بنیاد خبریں ٹی وی کے ذریعہ پھیلا رہے ہیں۔
جس کورونا کی وجہ سے ہندو اور مسلمان ایک دوسرے سے قریب آنا شروع ہوئے تھے اسی کورونا کا سہارا لے کر قومی میڈیا نے درباری صحافت کے فرائض انجام دیتے ہوئے ہندو اور مسلمان کو ایک دوسرے سے پھر دور کردیا۔ یہی ان کا اور ان کے آقائوں کا مقصد تھا۔
Mob. No. 7991207188 ۔
خخخ