9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
(آبیناز جان علی(موریشس
رابطے میں رہنا اور میل جول بڑھانے کوانسان کی بنیادی ضرورتوں میں شمار کیا جاتاہے۔ کووڈ ۱۹ کی روک تھام کے لئے قومی قفل بندی نے اس اہم ضرورت پر پابندی لگادی ہے۔ چنانچہ پوری دنیا اب پہلے سے زیادہ انٹرنیٹ اور اس پر دستیاب روابط کے ذرائع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گویا اپنی پیاس بجھا رہی ہے۔ انٹرنیٹ سے اسے موجودہ حالات کی خبروں کے ساتھ ساتھ یہ بھی معلوم پڑرہا ہے کہ اس کے احباب اس مشکل وقت میں اپنا وقت کیسے صرف کر رہے ہیں۔
والدین کولاک ڈائون میں بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر ستانے لگی۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے موریشس کی وزارتِ تعلیم کی پہل سے ۱۶ اپریل سے قومی ٹیلی ویژن پرپہلی سے نویں جماعتوں کے لئے مختلف مضامین کے اسباق مقررہ نظامِ اوقات کے تحت نشر کئے جارہے ہیں۔ یہ ویڈیوز گذشتہ تین سالوں میں نئے نظامِ تعلیم کا نصاب تیار کرتے وقت بنائی گئی تھیں اور عین وقت پر کام آگئیں۔ نیجی ریڈیو نے بھی اس ضمن میں قدم بڑھایا۔ثانوی کلاسز کے لئے اسکولوں نے آن لائن پورٹلزاور ویب سائیٹ کے ذریعے نوٹس اور ہوم ورک اپلوڈ کردئے۔
کچھ اساتذہ سوشل میڈیا کے مختلف گروپس پر معلوماتی مضامین اپلوڈ کر رہے ہیں۔ کچھ یوٹیوب پر بھی کلاسرز کی ریکارڈنگ کرکے ویڈیوز لگا رہے ہیں۔ نیز واٹس آپ گروپ، زوم، گوگل کلاس روم، مائکروسافٹ ٹیم جیسے آپلیکیشن کی مدد سے باقائدگی سے درس و تدریس کا کام جاری ہے۔ اساتذہ کو اپنے اسکول پرنسپل کو ورک پلان بھی بھیجنا ہے۔ وزارتِ تعلیم کی کرم فرمائی سے کینڈا کے ماہر نے۸ اپریل کو فاصلاتی تعلیم اور ای۔لرننگ کے موضوع پر ویبینار کا انعقاد کیا۔
ان تمام انتظامات کے باوجود کچھ مسائل بھی سامنے آرہے ہیں۔ لاک ڈائون کا فیصلہ اتنا اچانک لیاگیا کہ بعض اساتذہ کے اشیائے درس و تدریس اسکول میں ہی بند پڑے رہ گئے۔ ایسے میں انہیں از سرِ نو سبق تیار کرنے پڑ رہے ہیں۔ کچھ اسکولوں میں پہلے سے آن لائن پورٹلز یا ویب سائیٹ موجود نہیں تھے۔ اب ضرورت کے مطابق ای۔لرننگ پلیٹ فارم کا قیام ہورہا ہے۔ بعض استاد اس نظام سے پوری واقفیت نہیں رکھتے۔ ہر نئی چیز وں سے وابستہ خوف کو عبور کرنے کے لئے اور نئی عادت اپنانے میں وقت لگتا ہے۔
دوسری طرف گھر بیٹھے والدین کو بھی نصاب پر نظر ڈالنے کا وقت مل گیا۔ مقامی اخبار میں ایک مضمون پڑھنے کو ملا جہاں والدین نے صدائے احتجاج بلند کیا کہ نصاب میں بچوں کو جو مثالیں دی جارہی ہیں وہ موجودہ وقت سے مناسبت نہیں رکھتیں۔ مثال کے طور پر عصرِ رواں میںمعاشرے میں مرد اور خواتین کے کردار میں نمایاں تبدیلیاں پیش آئیںہیں اور نصاب اس نمایاں فرق کی عکاسی سے عاری ہے۔ کچھ والدین ویڈیوز کی کوتاہیاں پکڑنے کے لئے تعینات ہیں۔ آخر ان کے بچوں کے مستقبل کا سوال ہے۔
اس صورتِ حال میں چند اہم سوالات ذہن میں دستک دے رہے ہیں۔ کیا بچے اپنی کلاس پر دیانت داری سے توجہ دے رہے ہیں؟ کیا کلاس کے مقررہ وقت پر بچے اپنے کمپیوٹر کے سامنے واقعی موجود ہیں؟ فاصلاتی تعلیم کے لئے نظم و ضبط انتہائی ضروری ہے۔ کیا بچوں کے ناپختہ اذہان اس کے لئے تیار ہیں؟ نیز معاشرے کے پسماندہ طبقے کے پاس ٹیکنالوجی دستیاب نہیں۔ ان کے بچوں کا پھر کیا ہوگا؟ دیجیٹل کلاس روم اصل کلاس کی کس حد تک تلافی کرسکتا ہے؟
ذرائع ابلاغ کے توسل سے نشر ہونے والے اسباق میں بچوں کی تفہیم کی رفتار کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا جاسکتا۔ جو لوگ ٹیکنالوجی کے استعمال سے زیادہ واقف نہیں وہ آگے آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ کلاس میں بھی اپنی رائے کم دیں گے۔ اگر انٹرنیٹ کی رفتار تیز نہیں تب بھی مسائل آسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ موریشس میں انٹرنیٹ کی فیس کی ادئگی ملتوی کی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کمپنیوں نے اپنے دام کم کر دئے ہیں۔
سبق کو آسان اور دلچسپ بنانے کے لئے اور طلبا ء و طالبات کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لئے الگ الگ موضوعات کو سبق میں شامل کرنا بہتر ہے۔ کمزور طلباء و طالبات کے لئے مختلف سبق تیار کیا جا سکتا ہے اور یہ سبق میل کے ذریعے ان کو بھی بھیجا جا سکتا ہے جو طے شدہ وقت پر آن لائن نہیں آپائے۔ طلباء و طالبات کو اپنا کیمرہ آن رکھنے کی تائید کریں تاکہ ہر وقت ان کی موجودگی پر نظر رکھی جاسکے۔ سنجیدہ ماحول پیدا کرنے کے لئے اصول بنائے جائیں۔ کلاس کے دوران بات چیت یا چیٹنگ پر روک تھام لگادی جائے۔ سائبر بولی کی طرف سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ کلاس کے دوران پیغامات بھیجنے پر پابندی لگائی جائے۔ بچوں کی نگرانی کے لئے والدین کو شامل کیا جائے۔ طلباء میں ایک کپتان کا انتخاب کیا جائے جو نوٹس کی تقسیم اور گروپ کے ساتھ رابطے کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوسکے۔
بجلی چلی جائے یا نیٹ ورک جام ہوجائے ، ایسے حالات کے بارے میں پہلے سے سوچنا چاہئے۔ جیسے ویڈیوز ریکارڈ کر کے واٹس آپ کی جائے یا آن لائن اپلوڈ کی جائے۔ سبق تیار کرنے میں وقت لگتا ہے۔ چنانچہ اساتذہ کو اعتدال سے کام لینا چاہئے۔ جہاں تک ہوسکے سبق کو آسان اور عام فہم بنایا جائے۔ اساتذہ کو ایسی جگہ منتخب کرنی چاہئے جہاںلوگوں کا آنا جانا نہ ہو اور ماحول کا شور پریشان نہ کرے۔ موبائل اور کمپیوٹر دونوں کا استعمال کریں۔ اگرایک کی بیٹری ختم ہوجائے تودوسرے کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔
چھوٹے بچوں کو دس منٹ کی کلاس کے بعد کام دیں تاکہ ان کی دلچسپی برقرار رہے۔ بڑوں کو چالیس منٹ تک مسلسل کلاس دی جاسکتی ہے۔ کام کی اصلاح کے بعد سبق جاری رکھیں۔ نوٹس دیتے وقت سب سے کمزور طالب علم کی رفتار کی طرف دھیان دیں۔ طلباء و طالباب کو پروجیک بنانے کو دیں جو لاک ڈائون کے بعد نمائش کے لئے اسکول میں پیش کیا جاسکتا ہے۔ طلباء و طالبات کو نفسیاتی اور جذباتی سہارا دیں۔ اس وقت سب کی اپنی اپنی پریشانیاں ہیں۔ گھر پر گیس ختم ہورہا ہے۔ راشن کم پڑ رہا ہے۔ نکلنے پر احتیاط برتنی ہے۔ ذہنی تنائوایک الگ مسئلہ ہے۔ چونکہ اساتذہ بھی قفل بندی سے متاثر ہیں اس لئے انہیں پورا تعاون دیا جائے۔ انہیں پرنسپل ، منیجروں اور ڈائریکٹروں کی رہنمائی اور ہمدردی کی ضرورت ہے۔
یہ ٹیکنالوجی پر دسترس پانے کا عمدہ موقع ہے۔ نئے آپلی کیشن اور سافٹ ویئرسے روشناس ہونے کا وقت ہے۔ ٹیکنالوجی کے صحیح استعمال سے کام کو زیادہ دلکش بنایا جاسکتاہے۔ یہ وقت نیا تجربہ حاصل کرنے کا ہے۔ اس لئے اساتذہ کو مثبت رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مشکل حالات پر ہر طرح سے قابو پانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اب تک تین سو چوبیس لوگ وبا متاثر ہوچکے ہیں جن میں سے پینسٹھ لوگ صحت یاب ہوگئے ہیںاور نو لوگوں کی جانیں گئیں۔