9807694588موسی رضا۔
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
محمد حیدر رضا مصباحی
راقم کو شروع سے لگتا رہا ہے کہ یہ کورونا ہندی مسلمانوں کے جانی نقصان (عمومی سطح پر) کا سبب بنے نہ بنے، یہ الگ بات ہے. تاہم کچھ کے حق میں ایمانی خسارے کے لیے، اس کے لقمہ تر بننے کا خدشہ ضرور ہے. اور یکے بعد دیگرے ملک کے مختلف حصوں سے جو تصویریں سامنے آ رہی ہیں، اس سے میرا شک رفتہ رفتہ یقین میں بدلنے لگا ہے.
گزشتہ دنوں، مہاراشٹر کے اقلیتی امور کے وزیر، نواب ملک کی طرف سے اعتراض جتانے کے بعد، بی ایم سی (برہن ممبئی میونسپل کارپوریشن) نے اپنا وہ شرم ناک فیصلہ واپس لے لیا، جس میں کہا گیا تھا کہ بلا تفریقِ مذاہب، کورونا سے مرنے والے انسان کو نذرِ آتش کیا جاے گا. لیکن اس کے باوجود حال ہی میں ممبئی کے مالونی میں اس وبا سے موت پر ایک مسلمان کو قبرستان کے ٹرسٹیوں نے دفنانے سے منع کرتے ہوے، جلا دیا.
یو پی کے بلند شہر میں چند مسلمانوں نے ‘اظہار یک جہتی میں ایک ایسے غیر مسلم کی آخری رسومات تک ادا کر ڈالیں، وہ بھی “رام نام ستیہ ہے” کی صداؤں کے بیچ، جس کے رشتے دار لاک ڈاؤن کے سبب نہیں پہنچ سکے تھے. سوال یہ بھی ہے کہ کیا میت کے محلے میں اس کے دوسرے ہم مذہب لوگ نہیں تھے جو اس کام کو انجام دے سکتے؟
بہار کے مدھوبنی میں صرف پانچ لوگوں کی جماعت پر پولیس نے لاٹھی چارج کر مسجد میں تالا ڈال دیا. جب کہ 4-5 افراد کی جماعت کی حکومت نے اجازت دے رکھی ہے.
“مشتے نمونہ از خروارے” کے طور پر یہ بس چند واقعات ہیں جو یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ کس طرح اس ملک کے اندر کورونا سے ‘جنگ کے نام پر، مسلمانوں کی مذہبی زندگی میں روڑے اٹکانے کی مسلسل اور منظم کوششیں جاری ہیں. اس لیے وہ روشن خیال حضرات جو لاک ڈاؤن کے دوران نماز با جماعت پر مکمل پابندی کی مانگ کر یہ سوچ رہے تھے کہ اس سے وہ حکومت اور باشندگانِ وطن کی خوشنودی حاصل کر لیں گے، ایسے لوگ خود فریبی کے دلدل میں پھنسے ہیں. انہیں دشمنی آپ کی مسلمانی سے ہے. اس لیے وہ تب تک آپ سے خوش نہیں ہو سکتے، جب تک آپ اپنے دین سے ہاتھ دھو کر ان کے دھرم میں رنگ نہ جائیں.
یہ تو کورونا سکے کا بس ایک رخ ہے. دوسرا رخ بھی اس سے کچھ کم خطرناک نہیں. اور وہ ہے کورونا سے ‘جنگ میں مختلف حیلوں بہانوں سے، ہندو ریتی رواج کو فروغ دینے کی بہت ہی سوچی سمجھی کوشش. چناں چہ سب سے پہلے گزشتہ 22 مارچ کو ڈاکٹروں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے نام پر عوام سے تالیاں ٹھکوائی گئیں، تھالیاں پٹوائی گئیں اور گھنٹیاں بجوائی گئیں. اُس موقع پر جنتا کرفیو کو جس طرح پیروں تلے کچلا گیا، سب نے اسے ملاحظہ کیا. اور وہ بھلا ایسا کیوں نہ کرتے کہ مصائب و آلام کے دفع کے لیے ان کا ایک مذہبی شعار رواج پا رہا تھا.
اس مقام پر یہ نقطہ بھی قابلِ غور ہے کہ یہ سارا کھیل ہوا تو تھا ڈاکٹرز اور دوسرے طبی عملہ کی خدمات کے اعتراف میں. جب کہ کسی بھی خاص میدان کے ماہرین کو سب سے اچھا خراج کام کے تئیں ان کو سہولیات فراہم کرنا ہوتا ہے. اور یہاں یہ بے چارے اتنے محروم القسمت ہیں کہ ضروری طبی اسباب کے لیے گہار لگاتے لگاتے تھک جاتے. مگر ان کی کوئی نہیں سنتا. جس طرح گھنٹی بجوانے اور تالی پٹوانے سے بھوک سے بلک رہے انسان کا پیٹ نہیں بھر سکتا، اسی طرح ان کاموں سے، خالی بیٹھے لوگوں کا کچھ وقت کے لیے دل تو بہل گیا تھا؛ ڈاکٹروں کا کچھ بھلا نہیں ہو سکا. گزشتہ دنوں معروف خبر رساں ادارہ “رائٹرز” نے خبر دی کہ سہولیات کی قلت کے باعث ڈاکٹرز رین کوٹ (Rain Coat) پہن کر علاج کرنے پر مجبور ہیں. ایک دوسرے واقعے میں یو پی کے ایمبولینس ڈرائیورز ہی ہڑتال پر چلے گئے تھے.
اس سلسلے کی ایک نئی مصیبت مودی کی اس اپیل سے آن پڑی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ 5 اپریل کو رات کے 9 بجے 9 منٹ کے لیے، اظہارِ ‘یک جہتی’ کے نام پر پورے ملک میں لائٹ آف کر، دیا، موم بتی، روشن کی جاے یا موبائل فلش لائٹ آن کیا جاے. چناں چہ یہ ڈرامہ بھی ہوا اور بہت دھوم دھام سے ہوا. اور اب یہ تو سب نے دیکھ ہی لیا کہ پچھلی بار کی طرح اس دفعہ بھی گلیوں اور سڑکوں پر نکل کر کس طرح لوگوں نے طوفانِ بد تمیزی مچایا؛ یہاں تک کہ ملک کے مختلف مقامات سے بھیانک آگ زنی تک کی خبریں موصول ہوئیں.
اور اس میں کچھ بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے. کیوں کہ خوشی کے موقع پر یا پھر نیک فال کے طور پر مصیبت کی تاریکی دور کرنے لیے ہندو دیو مالا میں دھوم دھام سے دیا روشن کرنے کی بڑی پرانی روایت ہے. اور ہاں! 9 بجے، 9 منٹ کو بھی نظر انداز مت کیجیے گا. ہندوؤں کے یہاں 9 کے عدد کی اہمیت کے لیے نوراتری کا حوالہ دینا ہی کافی ہے. یہ در اصل موسمِ خزاں میں طاقت کی دیوی “درگا” کے اعزاز و اکرام کا ایک تہوار ہے جسے مسلسل 9 راتوں تک منایا جاتا ہے.
یہاں یہ نقطہ دھیان میں رکھنے کا ہے کہ وزیرِ اعظم نے جب ملک میں 21 روزہ لاک داؤن کے نفاذ کا اعلان کیا تھا تو بس 4 گھنٹے پہلے. جب کہ یہ بات بدیہی ہے کہ کسی کو بھی ضروری سامان اکٹھا کرنے کے لیے کم سے ایک آدھ دن کا وقت تو مطلوب ہوتا ہی ہے. لیکن ہندو تہذیب کے فروغ کے لیے تھالی، تالی، گھنٹی بجانے اور ایسے ہی دیا، موم بتی روشن کرنے کی اپیل، مقررہ ایام سے کئی دن پہلے ہی کر دی گئی تھی؛ کہ مبادا قلتِ وقت لوگوں کی تیاری میں مخل نہ ہو جاے.
آر ایس ایس کا جو منصوبہ ہے، اس کے پیشِ نظر یہ اندازہ لگانا قطعاً غلط نہیں کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کو اس طرح کے چیلنجز کا سامنا اور بھی کرنا پڑ سکتا ہے. ایسے میں ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے؟ تو میرے خیال سے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہاں اس قسم کی ہر اسکیم کی مخالفت ضروری ہے، ورنہ ‘یک جہتی کے نام پر ڈر ہے کہ آہستہ آہستہ عوامِ مسلمین ان کے فریب میں آتے چلے جائیں گے. اور جن علاقوں میں مسلم اقلیت میں ہیں، وہاں فی الحال علی الاعلان مخالفت کی بجاے، ان کی حمایت کیے بغیر سکوت سے کام لیں تو بہتر ہے کہ سانپ بھی مر جاے اور ڈنڈا بھی نہ ٹوٹنے پاے. ورنہ اپنی اکثریت کے جنون اور مذہبی غلبے کے نشے میں چور یہ لوگ، کہیں مسلم برادری کو نقصان نہ پہنچا دیں.
اب رہی یہ بات کہ نریندر مودی کورونا لاک ڈاؤن کے دوران مسلسل اس طرح کی اپیلیں کیوں کر رہے ہیں؟ تو مجھے لگتا ہے اس کے متعدد اسباب ہیں:
پہلی بات تو یہ ہے کہ اس مہاماری سے جنگ میں اس طرح کے مذہبی کھیل سے سرکار کی ناکامی پر بڑے اچھے طریقے سے پردہ پڑ جاتا ہے. دوسری بات، ہو سکتا ہے مودی اس طرح کی اپیل کے ذریعہ اپنی مقبولیت کا اندازہ لگاتے ہوں. اور سب سے بڑی اور خطرناک بات یہ ہے کہ پہلے ہی میڈیا اور آئی ٹی سیل کی کوششوں سے کورونا کو مسلمانوں سے جوڑ کر ہمارے خلاف نفرت کا بازار گرم کیا جا چکا ہے. مودی شاطر سیاسی بازی گر ہیں. ان کی یہ اپیل گرم لوہے پر ہتھوڑا مارنے کی مانند ہے. اس کے ذریعہ اکثریت کو مسلمانوں کے خلاف مزید متنفر کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ اظہارِ ‘یک جہتی’ کے نام پر بھی ہمارا ساتھ نہیں دیتے. اور اس طرح بآسانی انہیں یہ باور کرا لیا جاے گا کہ مسلمانوں کو تو بھارت اور بھارت کی ہر شی سے بس نفرت ہی ہے. لیکن ان بدھوؤں کو کون سمجھاے کہ ہندوستان جیسے کثیر المذاہب ملک میں اس مقصد کے لیے کوئی ناقابلِ اعتراض چیز ہونی چاہیے تھی (اگر یہ ڈراما کرنا ہی تھا)، نہ کہ کسی خاص مذہب کی کوئی علامتی شی.
چلتے چلتے یہ بھی بتا دوں کہ تبلیغی جماعت کے خلاف نفرت کی جو مہم میڈیا نے چلائی تھی، اس کا رجحان آنا شروع ہو گیا ہے. راجستھان میں ایک حاملہ عورت کو ڈاکٹرز نے ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنے سے صرف اس لیے منع کر دیا کہ وہ مسلم تھی. نتیجتاً اس کے بچے نے پیدا ہوتے ہی دم توڑ دیا. اور ہاں! اس خاتون سے کسی نے نہیں پوچھا تھا کہ وہ تبلیغی جماعت سے تو نہیں. بس اس کا مسلم ہونا ان ڈاکٹروں کے انکار کے لیے کافی تھا.
شعبہ تعلیمات، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی