بھوک اور بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

0
146

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔ 

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


 

 

جاوید اختر بھارتی

یقیناً بیماری اور شفا دونوں اللہ ہی کی طرف سے ہے اور اللہ پر توکل کرنا بھی ضروری ہے لیکن بغیر اسباب کے نہیں مطلب اپنے ذریعے جو کچھ احتیاطی تدابیر کرسکتے ہو کرو اس کے بعد اللہ پر بھروسہ کرو اور اپنے ذریعے کئے گئے احتیاطی تدابیر کے کارآمد ثابت ہونے کی دعا کروآج پوری دنیا کرونا وائرس جیسی مہلک بیماری کی زد میں ہے اور ہندوستان میں بھی اس کے اثرات پھیلنے لگے اس وائرس سے بچنے کیلئے حکومت نے احتیاطی اقدامات کرتے ہوئے ملک کو لاک ڈاؤن کیا ہے جس پر عمل کرنے کے لئے حکومت و انتظامیہ عوام سے اپیل بھی کررہی ہے اب عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرے غلط افواہیں پھیلا نے سے پرہیز کرے اس لئے کہ جان ہے تو جہان ہے جان بوجھ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی نہ تو کوئی مذہب اجازت دیتا ہے اور نہ دنیا کا قانون اجازت دیتا ہے نہ ہی کوئی سماج اجازت دیتا ہے لاک ڈاؤن کی وجہ سے پریشانی کا سامنا ضرور ہے لیکن انفرادی پریشانی سے اجتماعی راحت بہت بڑی چیز ہے اس سے سماج پوری طرح صاف شفاف ہوگا صحت مند معاشرہ وجود میں آئیگا ساتھ ہی ہمیں بیجا تنقید کا کسی کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے کیونکہ تنقید برائے تنقید سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے، نفرت کا کا بازار گرم ہوتا ہے، بغض و حسد کا دھواں اٹھتا ہے اور یہ کبھی کبھی وبال جان ثابت ہوتا ہے اس لئے ہمیشہ اپنی سوچ کا دائرہ وسیع رکھتے ہوئے تنقید برائے تعمیر و اصلاح کا اظہار کرنا چاہیے اور آج اسی کی ضرورت ہے تاکہ اس بیماری کے بحران سے نجات حاصل ہوسکے۔
آج ہمارا ملک انتہائی دشوار کن حالات سے گزر رہا ہے لیکن ملک کی میڈیا کو شائد اس بات کا احساس نہیں ہے یاکہ پھر جان بوجھ کر ایک خاص مذہب کے خلاف منافرت کا ماحول پیدا کررہی ہے اپنے وقار اور معیار کو پیروں تلے روند رہی ہے اور اپنے قلم کو فرقہ پرستی، تعصب وتنگ نظری کی چادر میں لپیٹ رہی ہے، عوامی مقبولیت سے محروم ہوتی جا رہی ہے جو پوری طرح قابل مذمت ہے ساتھ ساتھ کچھ جاہل قسم کے لوگ ہیں جو حکومت و انتظامیہ کے ساتھ ساتھ سماج و معاشرے کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنتے ہیں جو بغیر کسی معلومات کے مذہبی بنیادوں پر شدت دیکھاتے ہیں اور ہر مذہب میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں انہیں پہلے اچھی طرح مذہبی معلومات حاصل کرنا چاہیئے لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریبوں کے سامنے اور زیادہ پریشانی ہے لیکن اسی میں کچھ ایسے بندے ہیں جن کے سینوں میں ملک و ملت کا درد ہے اور آج ان کا ہاتھ اونچا ہے آج کے اس غمگین حالات میں عوامی سطح پر حکومت و انتظامیہ کا تعاؤن ہونا چاہئے ایک دوسرے کے تئیں لوگ جتنی نیک نیتی کے ساتھ مستعد ہونگے اتنا ہی جلد ملک کو اور عوام کو درپیش مسائل سے باہر نکالنے میں آسانی ہوگی اللہ نہ کرے کہ کوئی اس مرض میں مبتلا ہو مگر کسی کو اس طرح کی پریشانی کا سامنا ہو تو وہ طبی ماہرین کی مدد حاصل کرے اور اس کے قریبی لوگوں کا بھی فرض بنتا ہے کہ اسے نیک مشورہ دے اور کوئی بھی طبی ماہرین کی ٹیم کسی بھی علاقے میں پہنچے تو سب سے پہلے اس علاقے کے لوگ انسانیت کا ثبوت دیں اس ٹیم کا استقبال کریں اور انکی باتوں کو بغور سنیں اور جانکاری حاصل کریں اور فضول ادھر ادھر ہجوم نہ لگائیں اور فضول باتیں بھی نہ کریں اور لوگ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بیماری بیماری ہوتی ہے لاپرواہی سے مہاماری بن جاتی ہے بیماری کبھی بھی ذات، برادری، مذہب، مسلک پوچھ کر نہیں لگتی اور اسی لیے ہرجگہ بھیڑ لگانا ممنوع قرار دیا گیا ہے چاہے وہ مذہبی مقام ہو یا غیر مذہبی ہرگز ہرگز آپ بلا ضرورت گھروں سے باہر نہ نکلیں اور ایک دوسرے کی مدد کیلئے ہمہ وقت تیار رہیں یاد رکھیں کہ کرونا وائرس کی کوئی بھی کارگر دوا ابھی تک دنیا کے کسی ملک نے ایجاد نہیں کی ہے بلکہ سپر پاور طاقتیں بھی لرزہ براندام ہیں اس لیے احتیاطی تدابیر اور رجوع الی اللہ یہی دو راستہ ہے انسان ہونے کے ناطے، اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے اور مسلمان ہونے کے ناطے آخر کیا بھول ہوئی ہے کہ ہم اللہ کے اس عذاب کے چپیٹ میں ہیں یاد رکھئیے صرف مذہبی چشمے سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ہر حال میں احتیاط ضروری ہے خود نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تمہاری بستی میں کوئی وبا پھیل جائے تو اپنی بستی چھوڑ کر نہ بھاگو اور دوسری کسی بستی میں وبا پھیلے تو تم اس بستی میں جانے سے پرہیز کرو صرف اتنا ہی نہیں بلکہ مستند تاریخوں میں ملتا ہے کہ سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ ایسی بستی سے گذر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رفتار تیز کرو اس علاقے سے جلدی نکلو یہ وہ علاقہ ہے جہاں قوم ثمود و قوم عاد پر عذاب نازل ہوا تھا کچھ صحابہ کرام نے کنواں دیکھ کر پڑاؤ بھی ڈالدیا تھا اور کنوے سے پانی نکال کر آٹا بھی گوندھ لیا تو نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کنوؤں کا پانی استعمال نہ کرنا اس پانی سے گوندھا ہوا آٹا اونٹو کو کھلادو اپنے آدھے چہرے کو کپڑے سے باندھا اور جلدی چلنے کا حکم دیا اسی بنیاد پر بڑے بڑے علماء کرام کہتے ہیں کہ آفت بلا، وبا سے بچنے کیلئے احتیاطی اقدامات کرنا دین کا حصہ ہے اسباب پر نظر بھی رکھنا ہے جتنی تدبیریں ہوسکے خود کرنا ہے اور یہ سب کرتے ہوئے اللہ تبارک و تعالیٰ پر توکل کرنا ہے بہت مشہور واقعہ ہے کہ ایک لومڑی کنوے کے پاس پہنچی تو تو کنوے کا پانی اوپر آگیا یہ منظر دیکھ کر ایک متقی صوم و صلاۃ کا پابند شخص پیاس کی حالت میں اسی کنوے پر پہنچتا ہے تو پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے وہ اللہ کا بندہ کہتا ہے کہ اے اللہ کیا میں اس لومڑی سے بھی گیا گذرا ہوں کہ پانی مجھے دیکھتے ہی نیچے چلا گیا تو ارشاد ربانی ہوا کہ نہیں بلکہ تجھے ہم نے انسان بنایا ، اشرف المخلوقات بنایا، ہاتھ پاؤں دیا، دل اور دماغ دیا، عقل اور شعور دیا تو ان سب کا استعمال کر اور اپنی پیاس بجھا لومڑی عقل و شعور سے محروم ہے اس لیے اس کے لیے میرا حکم تھا کہ پانی تو اوپر اجا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ ایک انسان کے لیے احتیاط، اسباب، توکل سب کا استعمال کرنا ضروری ہے صرف کسی ایک چیز کا نہیں ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے انسان کے کام آئے خدمت خلق کا مقام بہت بلند ہے اور یہ بھی ہمیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ بھوک کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، بیماری کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، انسانیت کی سرحد نہیں ہوتی ایک انسان کے سامنے دوسرا انسان بھوکا رہے اور وہ بھرپیٹ کھانا کھائے تو وہ بے غیرت ہے اس پر لعنت ہے رسول اللہ نے اپنے مال غنیمت کا حصہ یتیموں کو دیکر خالی ہاتھ گھر پہنچے مگر یہ نہیں پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے، عمر فاروق نے اپنے بیٹے کے ہاتھوں سے تربوز چھین کر ایک بھوکے غریب بچے کو دیدیا لیکن یہ نہیں پوچھا کہ تمہارا مذہب کیا ہے فرمان رسول ہے کہ تم بھر پیٹ کھاکر سوجاؤ اور تمہارا پڑوسی بھوکا سوئے تو تم مومن نہیں یہاں بھی مذہب کی شرط نہیں لگایا تو اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ نہ بھوک کا کوئی مذہب ہے اور نہ بیماری کا کوئی مذہب ہے اور انسانیت کا شامیانہ بہت وسیع ہے اور بہت بلند ہے بس دلوں کے جذبات کو نیکی ، خلوص ہمدردی، وفا سے مزین کرنے کی ضرورت ہے اور سینوں میں ملک و ملت کا سچا درد پیدا کرنے کی ضرورت ہے تبھی ہم اس جان لیوا وائرس سے مقابلہ کر سکیں گے اور صاف شفاف معاشرہ تشکیل دے پائیں گے ۔
سابق سکریٹری یوپی بنکر یونین، مئو یوپی
رابطہ 8299579972

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here