محقق اول محمود شیرانی کے تبصرے: ایک جائزہ

0
180

[email protected] 

9807694588موسی ضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


ڈاکٹر جہاں گیر حسن

تاریخ اُرد و زبان و ادب کے گلستان میں کچھ شگفتہ اور سدابہار شخصیات ایسی ہیں جن پر کبھی خزاں کا گزر نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ تروتازہ رہتی ہیںاور اپنی خوشبو ئے تازہ سے فضا ئے اُردو کو ہمیشہ معطر ومعنبربنائے رکھتی ہیں۔ ایسی ہی نادر الوجوداور عظیم شخصیات میں سے ایک دُرّ نایاب حافظ محمود خاں شیرانی (۱۹۴۶-۱۸۸۰)کی شخصیت ہے جنھیں اُردو مدرسۃ التحقیق کا معلم اوّل تسلیم کیا جاتا ہے۔لیکن چوں کہ اُنھوں نے تحقیقی مضامین کے ساتھ متعدد اخبارات ورسائل میںبہت سارے قیمتی تبصرے لکھے ہیں، بنابریں تنقید و تبصرے کے میدان میں بھی اُنھیں ایک خاص اور ممتازمقام حاصل ہے، چنانچہ ہم یہاں اُن کی تبصراتی خدمات کے سلسلے میں ہی کچھ بحث کریںگے ۔
سردست یہ جان لینا انتہائی لازم ہے کہ محمودشیرانی کے تبصرے اُن کی کتاب’’مقالات محمود شیرانی‘‘کی نویں جلد میں تنقیدوتبصرہ عنوان کے تحت شامل ہیں۔ اِس عنوان کے تحت جو بھی مضامین معرض وجود میں آئے ہیں وہ اپنی ساخت اور فنی اصول کے لحاظ سے اولاً تبصرے ہیںاُس کے بعد کچھ اور۔ چوںکہ تبصرے کا تنقید سے گہرا رشتہ ہوتاہے اس لیے اُن کے تبصروں سے اُن کے تنقیدی نظریات و رجحانات کو سمجھنے میں بھی کافی مدد ملتی ہے۔
’’مقالات محمودشیرانی‘‘ کی نویں جلد میں جو تبصرے شامل ہیں اُن میں کچھ تبصرے تین سطروں پر مشتمل ہیں،کچھ چار،کچھ پانچ،کچھ چھ سطروں پر، اورکچھ بارہ سطروں پر مشتمل ہیں،یہاں تک کہ کچھ تبصرے ایک صفحہ،دو صفحات یاپھربائیس صفحات پر مشتمل ہیں۔
تنبیہ: محمودشیرانی نے اپنے تبصروں میں جس اختصارو طوالت کو جگہ دی ہے وہ مجوزہ تبصراتی اصول پسندی کی کسوٹی پر کس حد تک پورا اُترتاہے اِس سے قطع نظر ہمارا ماننا یہ ہے کہ اگراِفادی پہلووں کوپیش نظر رکھاجائے تو جب جہاں اور جس وقت جس قدر ضرورت محسوس ہو،اُس اعتبار سے تبصروں کو مختصرومطول رکھا جاسکتا ہے ، اور ہمارے خیال سے اِس میں کچھ حرج بھی نہیں ہے۔
’’مقالات محمودشیرانی‘‘ کی نویںجلد میں سب سے پہلاتبصرہ طوطی ہندجناب اَمیر خسرو کی اہم اور تاریخی تخلیق ’’مطلع الانوار‘‘ پر ہے جس کو مولوی محمدمقتدیٰ خاں شروانی نے مرتب کیاہے۔ یہ تبصرہ چار صفحات پر مشتمل ہے۔ مبصر موصوف نے اِس کی ابتدا اُردو کے دیگر تبصروں کے بالمقابل منفرداوراییک جدا گانہ انداز میں کی ہے، مثلاً:
’’بہ تنقید و نگرانی جناب مولوی محمد مقتدیٰ خاں صاحب شروانی، مطبع مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں سنہ ۱۹۲۶ء میں طبع ہوئی۔ انتساب وفہرست ۵صفحے ، مقدمہ ۶۶صفحے، کتاب۲۳۸صفحے، کل ۳۰۹صفحات قیمت قسم اول ۸روپیہ، قسم دوم ۶روپیہ ، قسم سوم (غیر مجلد)۳روپیہ۔ یہ مثنوی سلسلہ کلیات خسرو میں شائع ہوئی ہے۔ سلسلہ مذکور ملک میں اس قدر مشہور ہو چکا ہے کہ تعریف سے مستغنی ہے۔ لہٰذا اس قدر کہنا کافی ہے کہ اس سلسلے کی جملہ خوبیاں اس مثنوی میں بھی موجود ہیں۔ کاغذ اعلی، خط جمیل، طباعت حسین، یہ وہ اوصاف ہیں کہ مطبوعات مطبع مسلم یونیورسٹی میں موجود پانے کے ہم خوگر ہیں۔ اس سلسلے کی اور کتابوں کی طرح ایک عالمانہ مقدمہ شروع میں موجود ہے جس میں جناب مولوی محمد مقتدیٰ خاں صاحب نے اس مثنوی کے محاسن پر ایک غائر نظر ڈالی ہے۔‘‘(مقالات محمود شیرانی، جلد:۹،ص:۵۴۱، مرتّبہ:مظہر محمود شیرانی ، ناشر:مجلس ترقی ادب، کلب روڈ لاہور، جون ۱۹۹۹ء)
اِس اقتباس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے ہے کہ اِس کا بیانیہ انداز و اسلوب عام تبصراتی لحاظ سے یکسرالگ تھلگ ہے۔ اِس کی ایک انفرادی حیثیت یہ بھی ہے کہ مبصر موصوف نے کتاب کے تمام پہلو وںپراِنتہائی وضاحت و شراحت کے ساتھ بحث کی ہے اور جو کچھ اپنا فیصلہ سنایاہے وہ محقق ومدلل ہے، بنابریں اِسے ایک تحقیقی تبصرہ کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طورپرمبصر لکھتے ہیں:’’ ہم نے دیباچے سے یہ معلوم کرنا چاہا کہ متن کون سے نسخے پر مبنی ہے اور اختلافی نسخے کس ایک نسخے سے لیے گئے ہیں۔‘‘ غرض کہ تحقیق کے مختلف پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے مبصرموصوف نے مفصّل اور غائرانہ نظر ڈالی ہے۔ اس کے بعد تقریباً دوصفحات میں کتاب کے مشمولات و جزئیات پرسیر حاصل بحث کی ہے اور اخیر میں مطالعے کی سفارش کرتے ہوئے یہ جملہ تحریر کیاہے کہ ’’ہم کو یقین ہے کہ شائقینِ زبانِ فارسی ان جواہر ریزوں کو دست بدست لیںگے۔‘‘
تنبیہ:اس میں دورائے نہیں کہ یہ ایک تبصراتی تحریر ہے مگر اِس میںدیے گئے حواشی اصول تبصرہ کے یکسر خلاف ہیں۔
دو تین تبصروں کے بعد ایک تبصرہ سید محمد قادری کی کتاب’’ اَرباب نثر اردو‘‘پر ہے جو کل ۲۶؍سطروں پر مبنی ہے۔اس تبصرے کی ابتدا عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد کے تعارف اورمذکورہ یونیورسٹی کی مہمات سے ہوتی ہے۔پھراَصل کتاب پرتبصرہ کرتے ہوئے بتایا جاتا ہے کہ یہ کتاب فورٹ ولیم کالج کے اردو نویسوں کا تحقیقی و تنقیدی تذکرہ ہے۔ مزیدآگے مذکورہ کتاب کی جزئیات و مشمولات پر اجمالاًبات کی جاتی ہے اور اخیر میں کتاب پڑھنے کی سفارش کرتے ہوئے مبصرموصوف کتاب کی ظاہری ساخت کچھ اِس انداز میں بیان کرتے ہیں، مثلاً:
’’ہم اس کی تالیف پر مولف کو مبارک باد دیتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اردو ادب کے سلسلے میں خدا ان کو مزید علمی کوششوں کی توفیق دے اور کامیاب کرے۔ کتاب مجلد ہے اور کتابت و طباعت کے اعتبار سے بھی خوب ہے۔ قیمت دو روپے۔ ملنے کا پتہ مکتبہ ابراہیمیہ امدادباہمی، اسٹیشن روڈ، حیدرآباد (دکن)۔‘‘ــ(حوالہ سابق ،ص: ۵۴۹)
اگلا تبصرہ ایک پانچ سطری تبصرہ ہے جومولوی محمد علی خاں اثرکی کتاب’’اِنشائے جدید‘‘ پر ہے۔یہ تبصرہ فنی اِعتبار سے کچھ خاص نہیں ہے بلکہ اِسے محض ایک اشتہاری تبصرہ کہا جاسکتا ہے۔ایک تبصرہ ’’ہندوستانی فونٹیکس‘‘ پرمرتکز ہے جو لسانیات سے متعلق ہے اور ڈاکٹر محی الدین قادری زورکی تصنیف ہے۔ یہ تبصرہ ڈھائی صفحات پر مشتمل ہے۔ تبصرے کی شروعات تعارف ِ کتاب اور اُس کی اہمیت سے ہوتی ہے،مثلاً:
’’یہ کتاب دکنی اردو کے صحیح تلفظ کے بیان پر شامل ہے۔جس کا جنوبی ہند میں رواج ہے۔ موجودہ دور میں تجوید کا مطالعہ ایک نیا فن ہے جس کی بنیاد یورپ میں گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے پڑی ہے۔ سر زمین ہندوستان میں یہ علم بہت قدیم ہے اس کے متعلق دو ہزار سال سے زیادہ کی پرانی تصنیفات موجودہ ہیں۔ قدمائے ہند کو اس علم کا موجد کہنا کچھ بے جا نہ ہوگا۔ اہل یورپ نے اس فن کے مطالعے میں دیگر علوم اور مشینری سے بھی کام لیا ہے اور دن رات وہاں اس کا مطالعہ ترقی پر ہے۔‘‘(حوالہ سابق ،ص:۵۶۴)
اس تبصرے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ مبصر موصوف نے لسانیات پر مشتمل دیگر ہندوستانی کتابوں کے بالمقابل خوب صورت موازنہ پیش کیا ہے اورپھراُن کتابوں کے درمیان مذکورہ کتاب کی فنی اور ادبی حیثیت کیا ہے اُس پرفیصلہ کُن بحث کی ہے۔نیز جزئیات و مشمولات اور ابواب کی تقسیم پر مفصل روشنی ڈالی ہے۔ اخیر میں کتاب کے بارے میں اپنی مجموعی رائے کا اظہار کیا ہے اور اِن الفاظ میں کتاب پڑھنے کی تلقین وسفارش کی ہے، مثلاً:
’’چوں کہ اس وقت ہندوستانی زبان میں فن تجوید کا مطالعہ نہایت محدود ہے اس لیے یہ کتاب ایک خاص کمی کو پورا کرتی ہے۔ ہندوستانی زبان سے ہر تعلیم یافتہ شخص واقف ہے اور اس میں ہندوستان ہی کا تلفظ بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کتاب کے ذریعے ہرشخص نہ صرف ہندوستانی تلفظ کا مطالعہ بلکہ فن تجوید کے ابتدائی ا صولوں کا مطالعہ بھی کر سکتا ہے۔ ان الفاظ کے ساتھ اس کتاب کو علم دوست اصحاب کے سامنے پیش کیا جاتا ہے تاکہ وہ بھی اس سے لطف اٹھائیں۔‘‘(حوالہ سابق ،ص:۵۶۶)
’’مغل اور اُردو‘‘ نواب نصیر حسین خیالؔ کی تالیف لطیف ہے اورتاریخ اُردو میںایک اہم کتاب کی حیثیت سے متعارف ہے۔اِس تبصرے میں عنوان کے نیچے بریکیٹ میں دوتاریک پہلو درج ہے جس سے انداز ہ ہوتا ہے کہ کتاب مذکور کاجائزہ تحقیقی نقطہ نظر سے لیا گیا ہے۔ یہ ایک طویل تبصرہ ہے جو ساڑھے اِکیس صفحات پر مشتمل ہے۔مبصر موصوف نے اپنے اِس تبصرے کا آغازمصنف کے شخصی تعارف سے کیاہے اورساتھ ہی یہ واضح کیا ہے کہ مذکورہ کتاب کیسے وجود میں آئی ۔ مزید اِس پہلوپربھی روشنی ڈالی ہے کہ۱۶۸؍ صفحات پر مشتمل اِس کتاب میں مغل تاجدار بابر سے بہادر شاہ ظفر تک کے حالات ِاُردو درج ہیںجو دراصل مصنف کے طویل تالیفی منصوبے داستان اردو کا ایک حصۂ محض ہے۔مبصر اپنی رائے کااظہار یوں کرتے ہیں:
’’اس مقصد میں خیالؔ صاحب کو کس حد تک کامیابی ہوئی؟ ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کتاب کا موجودہ سرمایہ معلومات واطلاعات اس کی انتہائی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے۔ آخری دور کے چند مغل بادشاہوں اور شہزادوں مثلاً شاہ عالم، جہاں دار شاہ، بہادر شاہ اور میرزا سلیمان شکوہ کے ذوق شعر و سخن (اردو) سے قطع نظر کیجئے تو اُردو زبان سے مغل فرماں روائوں کی وابستگی ایک افسوس ناک لا تعلقی بن جاتی ہے۔‘‘ (حوالہ سابق ،ص:۵۸۲)
مزید محمود شیرانی نے تحقیقی نقطہ نظر سے یہ ثابت کیا ہے کہ بابر سے اورنگ زیب تک مغل فرماں روائوں کا اردو سے کچھ تعلق نہ تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ بلکہ یہ قدرتی نتیجہ ہے ان سیاسی، لسانی اور ذہنی و فکری انقلابات کا جو ہندوستان کی سر زمینوں میں پرورش پا رہے تھے اور پنجاب سے لے کر دکن تک کی فضائوں کو محیط تھے۔‘‘(حوالہ سابق ،ص:۵۸۲)
پھر تقریباً ۲۰؍ صفحات میں مذکورہ کتاب کے مشمولات و جزئیات پر محققانہ انداز میںمفید بحث کی گئی ہے، لیکن اخیر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بحث ادھوری رہ گئی ہے۔ کیوں کہ اختتام پر نہ تو کوئی مجموعی رائے دی گئی ہے اور نہ ہی کتاب پڑھنے کے لیے کوئی سفارش ہی کی گئی ہے۔منجملہ اپنی بعض کمیوں کے باوجودیہ تبصرہ معلوماتی اورقابل تقلیدہے، نیز بیباکی اور صداقت ودیانت کابہترین نمونہ ہے۔
’’ باپ کا خط بیٹی کے نام‘‘ ہندوستان کے اولین وزیراعظم مسٹرجواہر لعل نہرو کے خطوط کا مجموعہ ہے اوراس کی ایک منفرد اَدبی اور تاریخی حیثیت ہے۔ اس مجموعہ خطوط پرمبصر موصوف نے اُنیس سطروں میںایک تبصرہ پیش کیا ہے، جس کی شروعات مصنف کے شخصی تعارف اور اِس بات کی وضاحت سے ہوتی ہے کہ جواہر لال نہرو کے یہ خطوط کس طرح وجود میں آئے۔ بعدہٗ اِن خطوط کی اہمیت و افادیت کی تعیین کی جاتی ہے اورپھر ایک پیراگراف میںاجمالی طورپر اِس مجموعے کے مشمولات کا ذکر ہوتا ہے۔ اخیر میں مبصر موصوف اِس مجموعہ خطوط سے متعلق اپنی مجموعی رائے پیش کرتے ہیں اوراِس کے ساتھ ہی کتاب خوانی کی سفارش کچھ اس انداز میںکرتے ہیں، مثلاً:
’’انگریزی خطوط ہماری نظر سے نہیں گذرے لیکن اردو ترجمے کے مطالعے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ باوجود اپنی سادگی اور عام فہم زبان کے اس سے اچھا اردو ترجمہ ممکن نہ تھا۔ کتاب ۱۸۳صفحات پر مشتمل ہے اور دو روپے میں منیجر کتابستان الہ آبادسے طلب کی جاسکتی ہے۔‘‘(حوالہ سابق ،ص:۵۰۶ )
غرض کہ اِن تمام تبصراتی تجزیوںسے واضح ہوتا ہے کہ محمود شیرانی کے اِن تبصروں میں فن تبصرہ اور اصول تبصرہ کوباقاعدہ ملحوظ نہیں رکھاگیاہے کہ اُن کے بعض تبصرے تنقیدی نوعیت کے ہیں،بعض تحقیقی انداز میںہیںاور بعض بالکل اشتہاری ہیں۔ اس کے باوجوداُن کے تبصروںکو یکسر مسترد نہیں کیاجاسکتا، کیوںکہ اُن کے تبصرے بیشتراصول تبصرہ پر کھرے اُترتے ہیں ،مثال کے طورپر اُن کے تبصروں میں علمی اور سنجیدہ زبان کا ہونا۔اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرنا اور ہر طرح کے تعصب سے پاک و صاف ہونا۔ زیرنظر کتابوں کادیگرہم موضوع کتابوں سے معتدل موازنہ کرنااورپھرمذکورہ کتاب کی اہمیت وافادیت کی تعیین کرتے ہوئے مطالعے کی سفارش کرنا۔ عامی اوربازاری زبان و اسلوب سے تبصرے کومحفوظ رکھنا۔ حق گوئی اور بیباکی کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا ہونا۔ اختلافاتی مقامات پرمدلل و ممثل طریقے سے اپنی بات رکھنا۔ محاسن و معائب کے اظہارمیں کسی بھی طرح کے بخل اور جانبداری سے کام نہ لینا۔حقانیت کاکھلے دل سے اعتراف کرنا۔ نیزصاحب کتاب و مصنف کی شخصیات سے بالکل مرعوب نہ ہونا۔یہ وہ بنیادی خصوصیات ہیں جن کی بناپر ہم کہہ سکتے ہیں کہ محمودشیرانی کے چھوٹے بڑے تمام تر تبصرے اُردو تبصرہ نگاری میں گراں قدر اِضافہ ہیں۔
سیدسراواں،وایا:چرواں ضلع کوشامبی(الہ آباد)

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here