یہ نہ تھی ھماری قسمت

0
205

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

تقدیس نقوی

جیسے ہی ماہ ذوالحجہ کا چاند دیکھا ہم نے بے اختیارانہ اپنے قریب کھڑے ہوئے میر صاحب کو گلے لگا لیا. انھوں نے حیرت سے پوچھا کہ آخر بغل گیری میں اتنی عجلت کی کوئ خاص وجہ ہے جبکہ ماہ ذوالحجہ میں روئت ھلال کے پورے نو دن بعد عید ملی جاتی ہے. ہم نے ان کی چٹکی لیتے ہوئے کہا کہ جنا ب بکرا عید پر احباب سے گلے ملنے سے پہلے بکروں سے گلے ملا جاتا ہے. وہ برا مان کر کہنے لگے کہ پورے شہر میں آپ کو کیا میں ہی اکیلا بکرا نظر آرہا ہوں. ہم نے انکا دل رکھنے کے لئے کہا کہ جناب آج کل کے سیاسی ماحول میں تو ہم سب ہی بکرے بنے ہوئے ہیں وہ بھی اپنی ریوڑ سے بچھڑے ہوے. اپ ہی بتائیں کہ ہم میں اور قربانی کے بکروں میں کیا فرق ہے ؟ الیکشن سے قبل قربانی کے بکروں کی طرح ہمارے گلے میں بھی پھولوں کے ہار ڈالے جاتے ہیں یا نہیں ؟ اور پھر جب وقت قربانی یعنی ووٹنگ قریب ہوتا ہے تو سربازار بکروں کی طرح ہماری نیلامی ہوتی ہے یا نہیں؟ کئی بار تو یوں بھی ہوتا ہے کہ بولی کوئ لگاتا ہے اور قیمت کوئ اور وصول کرتا ہے. بقولے :
بیچ کر ہم کو کسی اور نے قیمت لے لی
خود کو سونپا تھا جنھیں وہ رہے سودا کرتے
ہماری طرح طرح کی بولیاں لگائی جاتی ہیں. کبھی زبان کے نام پر تو کبھی مذھب کے نام پر. اور کوئی بھی صاحب حیثیت خریدار بکروں کی طرح ہماری گردن پر جب چھری چلاتا ہے تو ہماری آہ و زاری کا سننے والا کون ہوتا ہے؟
اور مزید یہ کہ بکروں اور ہماری قوم میں یہ مماثلت بھی ہے کہ دونوں اپنی گردن پر چھری چلتے وقت تک اپنی میں ‘ نہیں بھولتے.
گفتگو کی سنجیدگی کا اندازہ کرتے ہوئے میر صاحب نے بات کا رخ موڑتے ہوئے پوچھ ہی لیا کہ آخر ہمارا کہاں کا ارادہ ہے؟
ہم نے انھیں مطلع کیا کہ جناب عید کی مناسبت سے بس ایک عدد بکرا خریدنے کے لئے ‘بکرا نمائش گاہ کی طرف کوچ کرنے کا قصد کیا ہے. میر صاحب نے ہماری جانب بڑی حیرت سے دیکھا.
بکرا خریدنے کے لئے چلے ہیں اس دور میں جناب ؟ یہ منہ اور بکرا ہمارا مطلب ہے مسور کی دال
میر صاحب نے محاورے کو بھی نان ویج بناتے ہوئے ہمارے اوپر پھبتی کسی.
جناب نہ آپ کے پاس اتنا خطیر بنک بیلنس نہ کوئی خاندانی جائداد کہ جس کا کوئی قطعہ اراضی بیچ کر ہی کسی بکرے کی رجسٹری اہنے نام کراسکیں ‘ نہ ہی کسی سیاسی لیڈر سے آپکی قرابت داری اور نہ ہی آپ کی کوئ لاٹری نکلی ہے ۔ پھر جناب کس بوتے پر یہ کوہ گراں اٹھانے چلے ہیں؟ ”
میر صاحب کی بات میں وزن تھا. ہم ابھی اپنی اس کم مائیگی کے بارے میں سوچ کر دل برداشتہ ہو ہی رہے تھے کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم کسی سیاسی لیڈر سے ہی اپنی قرابت داری یا دوستی ہوتی جو اس کٹھن وقت میں ہمارے کام آتی اچانک ہمیں اپنے پڑوسی حضرت مولوی مقتدا صحرائ صاحب کا خیال آیا اور ہم بلا تاخیر میر صاحب کے ہمراہ انکے آستانے پر پہنچ گئے.
موصوف حال ہی میں مولویت کے روکھے سوکھے جدّی پشتی پیشہ میں ناکامی کے بعد شھر کی سیاست میں داخل ہوئے تھے جس سے انکی مولویت بھی بہ دوش سیاست اب خوب چل پڑی تھی. اک جانب اگر انھیں مسجدوں میں اپنے پرجوش اور جذباتی مواعظ کےذریعے خوب بھیڑ اکٹھا کرنے کا فن آگیا تھا تو دوسری جانب وہ سیاسی جلسہ گاہوں میں کھڑے ہوکرمخالف سیاستدانوں کی بخییں ادھیڑ نے لگے تھے. کیونکہ یہ امتزاج آج کل مذھبی رہنماؤں کے لئے کامیابی کی ضمانت تصور کیا جاتا ہے اس لئے کامیابی مولوی مقتدا صحرائ کے گھر خود چل کر آگئی.
اس سے قبل بے چارے نے بہت چاہا تھا کہ اپنے آباو اجداد کی پیروی کرتے ہوئے دین کوسیدھے سادے انداز کے ساتھ لوگوں تک پہنچا تے رہیں مگر وائے ہو ان دنیا والوں پرجن کو انکی یہ ادا اک آنکھ نہ بھائ اور نتیجتا” انکی اس روکھی سوکھی زندگی میں فاقوں تک کی نوبت آگئی.
لوگ ان سے کہنے لگے کہ جناب آپکے مواعظ زمینی حقیقتوں سے کوسوں دوراور عوامی مفادات سے عاری ہوتے ہیں. آپ ذرا اپنے معاصر مذھبی رہنماؤں کو دیکھئے. وہ آج کل قومی مسائل کو سلجھانے میں رات دن کتنے کوشاں نظر آرہے ہیں. ہر ایک نے اسی خاطر اپنی اپنی ایک سیاسی پارٹی بنائ ہوئی ہے یا کم ازکم کسی نہ کسی بڑی چھوٹی سیاسی پارٹی سے الحاق کیا ہوا ہے . جس کے توسط سے وہ قوم کے مسائل پارلیامنٹ تک لیجانے کی سعئ پیہم کررہے ہیں. روز وشب ٹی وی چینلوں پر بحث ومباحث میں حصہ لیکر قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی غرض سے خوب چیخ چیخ کر اپنی بات ملک کے کونے کونے میں پھیلانے کی ان تھک کوشش کررہے ہیں. ایسے پیچیدہ اور سنگین قومی مسائل جیسے رویت ہلال عید اوقاف کی مجلس عاملہ میں عہدوں کے لئے انتخابات میں ہورہی دھاندلیاں قومی نوجوانوں کے لباس کی قطع و برید سے شریعت کولاحق خطرات ‘ مذھبی قومی رہنماؤں کے مخالف ٹی وی چینلوں اور اخبارات کا بائیکاٹ ‘ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگوانے کے قواعد و ضوابط وغیرہ کو وہ اپنی تبحر علمی اور تقوی اور پرہیزگاری کے سبب چٹکیوں میں حل کردیتے ہیں.
دوسری اقوام اور خصوصا” سرکاری اہلکاروں پر اپنی قوم کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے لئے اپنے ناموں کے ساتھ طویل القاب اور ٹائٹل آویزاں کروانے پر با دل نا خواستہ راضی ہوتے ہیں. تاکہ علمی اعتبار سے ترقی یافتہ دوسری اقوام کے سامنے اپنی قوم کو سبکی اور خفت کا سامنا نہ کرنا پڑے. اگر کسی کو بحالت مجبوری کوئ مناسب لقب ہاتھ نہیں لگتا تووہ کسی ایسی انجمن یا تنظیم کہ جو کبھی عالم وجود میں آئی ہی نہ ہو کی سرپرستی یا صدارت کے ٹائٹل پر اکتفا کرتے ہوئے اسے اپنے نام کے ساتھ جوڑکر قوم کو سرخرو کرنے کا فوری طور سے بندوبست کردیتے ہیں. کچھ مذھبی رہنما تو آج بھی اپنے اباوآجداد کے ماضی میں کئے گئے کارناموں اور ان کی خاندانی وراثت کے سہارے ہی قوم کی رہنمائی کا بھرم رکھے ہوئے ہیں. اور ایک آپ ہیں کہ بس گھر سے مسجد اور مسجد سے گھر. لوگوں کی کہی ہوئ یہ بات مولوی صاحب کے دل کو لگ گئ.مولوی مقتدا صحرائ بھی ان مذھبی رہنماؤں کی تاسی کرتے ہوئے اب عوام میں اس قدر مقبول ہورہے تھے کہ آج بھی انکے ڈرائینگ روم میں بہت لوگ جمع تھے اور قومی مسائل پر بحث چھڑی ہوئ تھی . وہاں اس پر اظہار خیال کیا جارہا تھا کہ اس سال سب سے مہنگا اور قیمتی بکرا کس مومن نے خریدا ہے ؟ عید مِلن پارٹی میں سب سے زیادہ کس سخی نے اپنے یہاں سرکاری افسران اور غیر مسلم سیاستدانوں کو مدعو کیا ہے تاکہ سماج میں بھائ چارہ کو فروغ دیا جاسکے وغیرہ وغیرہ. مولوی مقتدا صحرائ نے اپنےا رد گرد لگے مجمع میں ہمیں یوں خاموش تماشائ بنے بیٹھ دیکھ کر پوچھا کہ ہم لوگ کس ارادہ سے نکلے ہیں.
عید قریب ہے اسلئے ایک عدد بکرے کی جستجو میں نکلے تھے. حضور اگر مدد فرمادیں تو نوازش ہوگی
ہم نے اہستگی سے اپنی حاضری کا مقصد بیان کردیا. اور موجودہ حالات کے پیش نظر ان کے اثر ورسوخ کا واسطہ دیکر ان سے اس کار دشوار میں مدد چاہی. دراصل ہمارا اشارہ بکروں کے اس کوٹے کی جانب تھا کہ جو خفیہ طور سے کچھ سیاستدانوں کو اس سال دیا گیا تھا.
ہمارا جواب سن کر مولوی صاحب صوفے پر اچانک اچک کر بیٹھ گئے اور گویا ہوئے:
لاحول ولا قوہ . آپ کیا اب شھر میں فرقہ وارانہ فسادات کروائینگے ؟
ایک لمحے کے لئے تو ہم بھی سہم سے گئے کہ کہیں ہم نے سہوا” ہی سہی کوئ ایسی بات تو نہیں کہہ دی تھی کہ جوقانونا” قابل گرفت ہو یا سماج کے کسی طبقے کے حساس مزاج پر گراں گزرے جس کے سبب بس تھوڑی ہی دیر میں ایک ھجوم ہمارے ہاتھ پاؤں توڑ کر ہمیں شھر کی سڑکوں پر کھینچتا پھرنے لگے گا جو کہ آج کل بہت عام سی بات ہے. اس خیال سے ہی ہمارے پورے جسم میں اک جھر جھری سی آگئی.
ہمارے اترے ہوئے چہرے پر ترس کھاتے ہوئے مولوی صاحب ہمارے تھوڑا قریب آکر بہت اہستگی سے کہنے لگے کہ آج کل اس طرح کی بات یوں سر عام نہیں کی جاتی ہے . نقص امن کا خدشہ ہے. آج کل یہ بہت حساس مسئلہ ہے. ہمارے استفسار پر مولوی صاحب نے وضاحت فرمائ کہ حکام نے بکروں کی فروخت کو منظم اور قانونی بنانے کی غرض سے ایک ‘بکرا کمیٹی تشکیل دی ہے جس کی صدارت شھر کے ایم پی صاحب کررہے ہیں. اب بکرا صرف اسی شخص کی تحویل میں دیا جائیگا کہ جس کے پاس اس کمیٹی کا اجازت نامہ موجود ہوگا. اور وہ بھی ایک قرعہ اندازی کے زریعے ہی حاصل ہوسکیگا.
یہ کہہ کر وہ ہمیں علیحدہ ایک کمرے میں لے گئے جہاں انھوں نے ہمیں کچھ ‘شرائط کے ساتھ ایک رقعہ ‘بکرا کمیٹی کے نام مرحمت فرمایا. ہمارے ان سے دیرینہ تعلقات کے لحاظ میں شرائط بہت زیادہ مہنگی نہ تھیں. فرمانے لگے کہ اپنی کھال ہماری مسجد ہی کو عطیہ کیجئےگا .انکا مطلب بکرے کی کھال سے تھا. ہم نے انکا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا تو فرمانے لگے:
اسکی کوئ ضرورت نہیں ہے . مگر آپ کے پاس کوئ بیگ نظر نہیں آرہا ہے ” مولوی صاحب نے ہمیں ٹٹولتے ہوئے ہوچھا. جناب بکرا بیگ میں کس طرح آئیگا” ہم نے متحیر ہوکر دریافت کیا.
میرے بھائ بکرے کے لئے نہیں. اس کی قیمت کے لئے. اپ کوئ چکن خریدنے تو نہیں جارہے ہیں” مولوی صاحب ایک قہقہ لگاتے ہوئے بولے.
کل ہی چودھری رفیق نے ڈیڑھ لاکھ کی رقم خرچ کی ہے اس نیک کام پر. اور ناچیز سے ہی اس بکرے پرنظر بد سے دور رہنے کی دعا دم کرائ تھی .مزید یہ کہ عید کے دن بکرے کو سجانے کی غرض سے پندرہ بیس ہزار روپے کے ہالینڈ سے منگوائے گئے مخصوص پھولوں کے ہاروں کا انتظام الگ کیا ہے.آج کل اسے کسی مساج پارلر بھی لیکر جارہے ہیں. بتا رہے تھے کہ موصوف کی حنا نقش کاری کے لئے شھر کے کسی بڑے مشھور سیلون پر بکنگ کی کوشش کررہے ہیں مگر ابھی تک کامیابی نہیں ملی کیونکہ انھیں ایام مبارک میں شھر کے شرفاء اور روساء کی مستورات جن میں انکی خود کی اہلیہ اور بیٹیاں بھی شامل ہیں کی آرائش و زیبائش کا اہتمام بھی انھیں سیلونوں میں کیا جاتا ہے.اللہ انکی توفیقات میں ترقی عطا فرمائے.
مولوی صاحب نے گویا ہماری جیبیں تلاش کرتے ہوئے ہمیں خبردار کیا. توکیا وہاں بکروں کے منی کیورmini cure اور پیڈی کیور pedi cure کا بھی کچھ معقول انتظام ہے ؟ ” میر صاحب ہمارے کان میں آہستہ سے منمنائے. ہم نے انھیں اپنی کہنی کے ٹھوکے سے خاموش رہنے کی تنبیہ کی.
لیکن حضور یہ سب اتنے بڑے بڑے اخراجات آخر کس نیکی میں شمار کئے جاینگے ؟ دین کی خاطر اپنی قوم کے اتنے بڑے بڑے کارناموں کے متعلق سن کر اپنی خفت اور شرمندگی مٹانے کے لئے ہم نے مولوی صاحب کو شرعی محاذ پر گھیرنے کی کوشش کی.
بھئ فی سبیل اللہ جتنا خرچ کیا جائے کم ہے. یوں بھی یہ ہرایک کا اپنا اپنا ذاتی معاملہ ہے اور اپنی اپنی choice ہے.” مولوی صاحب نے ہمارے سوال کی سنجیدگی بھانپتے ہوئے اپنا پلا جھاڑنے کی کوشش کی.
جناب دین کے معاملے میں ہر ایک کی اپنی اپنی choice ہی نے تو ہماری قوم کا بیڑہ غرق کیا ہے” میر صاحب اس بار اپنی آواز تھوڑی اونچی کرکے بولے اور یہ کہتے ہوئے کہ عجیب ‘ بکرا گیری ہورہی ہے آج کل مولوی صاحب کا جواب سنے بغیر وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے.
اخر کار جیسے تیسے کرکے ہم نے مولوی صاحب سے رخصت لی اور نو تشکیل ‘بکرا کمیٹی کے دفتر پہنچ گئے. وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مولوی صاحب کا دیا ہوا رقعہ کیا تھا گویا فری پاس تھا. ہمارے لئے نہ کسی قرعہ اندازی کا جھنجٹ ہوا اور نہ کوئی رسمی کاروائ جبکہ کمیٹی کا ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا. فورا” ہی ایک ‘بکرا الاٹمنٹ لیٹر بکرا نمائش اتھارٹی کے نام ہمارے حوالے کردیا گیا جو ہم لیکر سیدھے بکرا نمائش پہنچ گئے. اس مخصوص نمائش میں کہ جو بکروں ہی کے لئے آراستہ کی جاتی ہے ہم ہر سال آتے رہے تھے اور اسکے چپہ چپہ سے واقف تھے مگر اس بار وہاں پہنچ کر ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی. پوری نمائش میں ہمیں ایک بھی بکرا نظر نہ آیا. پہلے تو یہ گمان ہوا کہ ہم شاید کسی غلط حصے میں آگئے ہیں مگر معلوم کرنے پر لوگوں نے بتایا کہ ہم یوں تو صحیح جگہہ پہنچے ہیں مگر موجودہ سیاسی حالات سے بالکل ہی بے خبر لگتے ہیں. ایک معقول سے صاحب جن کے گلے میں ایک آئ ڈی کارڈ بھی پڑا ہوا تھا نظر آئے. ہم نے ان سے بکروں کے بارے میں دریافت کیا . وہ ہنس کر کہنے لگے کہ جناب اپ کیا یہاں بچوں کے کھلونے خریدنے کے لئے آئے ہیں کہ جن کے اسٹال کھلے میدان میں لگادئے جاتے ہیں. وہ دن ہوا ہوئے کہ جب بکروں کو کھلے عام جہاں چاہا بیچ لیا اور جہاں چاہا چھری پھیر دی. پھر دورایک بڑے ہال کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ وہاں جاکر دیکھئے کتنی ٹائٹ سیکورٹی میں ضلع انتظامیہ اور پولیس کی نگہداشت میں بکروں کی نمائش کی جارہی ہے.اس بڑے ھال کے مین گیٹ پر پہنچنے پر پہلے ہماری جامہ تلاشی لی گئی گویا ہم بکرے دیکھنے کے لئے نہیں بلکہ کسی وزیر کو دیکھنے کے لئے وہاں آئے ہیں اور پھر ہمیں آگے ایک کاؤنٹر پر بھیج دیا گیا.صاحب کاوئنٹر نے پہلے اوپر سے نیچے تک ہمارے سراپے کا جائزہ لیا اور پھر گویا ہوئے :
اپنے ساتھ مکمل دستاویزات لائے ہیں ؟
کون سے دستاویزات ؟ ” ہم نے بڑی حیرت سے پوچھا.
یہ لیجئے لسٹ ” یہ کہہ کر انھوں نے ایک لسٹ ہمیں تھما دی. اس لسٹ کے مطابق ہمیں اپناآدھار کارڈ، راشن کارڈ ‘ ہیلتھ کارڈ، بنک اسٹیٹمنٹس، انشورنس کارڈ، مقامی ایم ایل اے یا ایم پی کی سفارش، پولیس کلیئرنس، کریڈٹ کارڈ اور بکرا کمیٹی کا الاٹمنٹ لیٹر دکھانے تھے. لسٹ کے ساتھ ہی ایک Affidavit کا فارم بھی لگا ہوا تھا جس میں ہمیں یہ declare کرنا تھا کہ ہم پچھلے دو تین سالوں میں کن کن ملکوں کا سفر کرچکے ہیں اور ہمارے اوپر کوئ فوجداری کا مقدمہ تو نہیں چل چکا ہے وغیرہ وغیرہ. جناب ہم یہاں کوئ پاسپورٹ ایپلائی کرنے نہیں آئے ہیں صرف ایک عدد بکرا خریدنے کے لئے آئے ہیں وہ بھی پالنے کے لئے نہیں بلکہ عید پر قربانی کے لئے ” ہم نے طولانی لسٹ دیکھتے ہوئے احتجاج کیا. ہم بھی یہاں پاسپورٹ بانٹنے کے لئے نہیں بٹھائے گئے ہیں . نئی پالیسی کے مطابق بکرا خریدنے کے لئے اپکو یہ تمام دستاویزات دکھانا لازمی ہیں. اور ہاں اندر جانے سے قبل برابر کے کیبن میں بیٹھے ہیلتھ افیسر صاحب سے اپنا ہیلتھ چیک آپ ضرور کرا لیجئے گا ” انھوں نے ایک کیبن کی جانب ہماری رہنمائی کرتے ہوئے کہا.
ہمارا ہیلتھ چیک آپ کس لئے ؟ اگر ہیلتھ چیک اپ ضروری ہے تووہ بکروں کا ہے نہ کہ بکرا خریدنے والوں کا” ہمیں بھی آس بے جا کاروائ پر طیش آگیا. ” جناب آپ سے اگر بکروں کو کوئ انفیکشن لگ گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا.؟ عید کے دن پورے شھر میں آپ ہی اس کا گوشت تقسیم کرتے پھر ینگے اور اسکا خمیازہ پبلک بھکتے گی. آخر صحت عامہ کی ذمہ داری بھی تو حکومت پر ہی ڈالی جاتی ہے” انھوں نے اپنی شھری ذمہ داری نبھاتے ہوئے ہمیں زیر کرنے کی کوشش کی.اب اتنا سب کچھ سننے کے بعد میر صاحب کو روکنا بہت مشکل تھا. طیش میں آکر کہنے لگے ” جناب وہ دن دور نہیں کہ جب چکن کی قربانی پر ہی گذارا کرنا پڑیگا حضوراس کا فیصلہ کرنے کا آپکو کس نے اختیاردیا ہے ؟ گو کہ بظاہر یہ ایک شرعی مسئلہ ہے مگر آج کل یہ حکومت کی ذمہ داری ہے وہ ہی پوری کریگی جیسے آج کل کررہی ہے. بس تھوڑا انتظار فرمائیے. ہم میر صاحب کوسمجھاتے ہوئے بغیر بکرا لئے واپس گھر کی طرف چل پڑے۔
٭٭٭

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here