ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

0
163

تقدیس نقوی

ابھی آصفہ پر ڈھائے گئے مظالم کی داستان پڑھتے ہوئے آنسو خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ ایک اور دل سوز خبر سورت گجرات سے آگئی کہ جہاں پھر ایک کمسن بچی کی دنیا اجاڑکر کسی درندے نے اسے بھی انتہائ بے رحمی کے ساتھ موت کی آغوش میں سلاد یا. آصفہ اور اس بے نام بچی کے ساتھ کئے گئے مظالم میںبظاہر کوئی فرق نظر نہیں آرہا. دونوں کی لاشوں کو بے گور وکفن درندوں کی غذا بنانے کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا. بس اگر کوئی فرق ہے تو اتنا کہ کیونکہ سورت کی کم سن بچی کی ابھی تک شناخت نہ ہونے کی مجبوری میں اس پر ذیادتی اور قتل کے گھناونے جرم کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں ابھی کچھ اور وقت لگ سکتا ہے جبکہ آصفہ کے بارے میں یہ فیصلہ پہلے ہی کیا جاچکا ہے.
کیونکہ ایسی دل دہلانے والی خبروں کا سلسلہ ہنوزجاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہیگا اس لئے میں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ان تمام کم سن بچیوں اور تمام ایسی دیگر بے بس ولاچار بیٹیوں اور بہنوں پر ہورہے مظالم کے خلاف پرزور احتجاج کروں یا نہ کروں اور قلم اٹھاؤں یا ابھی اور ٹھر جاؤں. یہ تذبذب کی کیفیت شاید اس لئے بھی مجھے کسی ایسے کام سے روک رہی تھی کہ اب روز بروز میری حق و باطل میں تفریق کرنے کی صلاحیت کند ہوتی جارہی ہے.انصاف اور ظلم دونوں کسی نے جیسے آپس میں گڈ مڈ کردئیے ہوں. یوں بھی ہر سمجھدار آدمی کو اپنے حالات اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اچھی طرح سمجھ بوجھ کرہی کوئ اقدام اٹھانا چاہئے. اکثر جذبات کے اثر میں اٹھائے گئے اقداماتکے بڑے نقصان دہ نتائج ہوتے ہیں. ہم جیسے عوام میں روز آفزوںاسی سمجھ بوجھ اور ہوشیاری کے سبب آج کل کسی مظلوم کی حمایت کرنے کے لئے کھڑا ہوجانا نری حماقت تصور کی جاتی ہے.کوئی ایسا ہمدردانہ قدم اٹھانے سے قبل ہم پہلے اپنے داہیں بائیں دیکھتےہیں اپنے گُرد و نواح میں دوسرے لوگوں کے تاثرات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں’ اپنی ذاتی اور اجتماعی مصلحتوں کو سود و زیاں کی میزان پر تولتے ہیں اور پھر جب تک کسی فیصلے پر پہنچتے ہیں تو اتنا وقت گذر چکا ہوتا ہے کہ پھر کسی کو ہماری حمایت یا ھمدردی کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کیونکہ ہم ایسے معملات میں ہمیشہ جان بوجھ کر دیر کردیتے ہیں.اور اس کی ہمیں کچھ ایسی پرواہ بھی نہیں ہے کیونکہ ہمارا احتساب کرنے والا یہاں کون ہے بھلا ؟
جہاں سماج کا ایک پڑھا لکھا طبقہ خصوصا” وکلاء ایک جانب مجرموں کی حمایت کرتے ہوئے اس بات ہر مصر ہو کہ یہ ایک فرقہ وارانہ معاملہ ہے جبکہ قانون کے رکھوالے ذمہ دار اہلکار مستند ثبوت لیکرمظلومہ کے لئے انصاف مانگتے ہوئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہوں تو وہاں عام ادمی اس معاملے کی حقیقت کی تہ تک پہنچنے میں کچھ وقت تو لیگا ہی. شاید یہ سب کچھ اسی نیت سے کیا گیا ہو کہ عوام دو طبقات میں بنٹ جائیں اور مجرموں کی شناخت کرنا مشکل ہوجائے.یہ پہلا اتفاق ہے کہ اس ھندوستان کی تاریخ میں کم سن بچیوں کی عصمت دری کرنے والوں کی حمایت میں جلوس نکالے جارہے ہیں کہ جہاںماضی میں عدالت میں جانے سے پہلے ایسے مجرموں کا منہ کالا کرکے پوری آبادی میں گھمایا جاتا تھا.لیکن شاید اب ان جیسے مجرموں کے مزید منہ کالا کرنے کی گنجائش نہیں رہی ہوگی. خیر ہمیں اس سے کیا لینا دینا. قانونی معاملات میں زیادہ دخل دینا بھی ٹھیک نہیں ہے.
مگرا یک بار پھر خیال آیا کہ کیا واقعی اب وہ وقت آچکا ہے کہ میں بھی اپنی آواز کسی نہ کسی طور سے ان بچیوں کے خون ناحق کو انصاف دلانے کے لئے بلند ہورہی آوازوں کے ساتھ ملاوں.اب دیکھیں پوری دنیا میں فی الحال جو بھی قابل قدرو ستائش ہر طرف احتجاج کی آوازیں بلند ہورہی ہیںانھیں بھی تو آخرکار ایک پر اثر تحریک کی شکل لیتے لیتے کئی ماہ گذر گئے.اب اگر ہم کچھ دن اور دیر کررہے ہیں تو کیا غلط کررہے ہیں. یوں بھی آج کی مصروف زندگی کے غل غپاڑے میں ضمیر کی آواز سننا کوئ آسان کام تو نہیں ہے. ہر ایک شخص یہی سوچ رہا ہے کہ ایک میری آواز یا چند ھمدردانہ جملے اگر نہ ہونگے تو کیا فرق پڑیگا. جب اس ملک کی حکومت اور صاحب اقتدار طبقہ مسلسل خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے تو اگر ہم بھی خاموش رہیں گے تو کسی کو کیا فرق پڑتا ہے. یہ مانتے ہوئے کہ صاحب اقتدار حضرات کی اہنی اپنی مجبوریاں اور سیاسی مصلحتیں ہوسکتی ہیں تو اب اگر ہم جیسے عام آدمی سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں تو یہ کوئ قابل گرفت بات تو نہیں ہے.اب ہم لوگ حکومت سے زیادہ سمجھدار اور معاملہ فہم تو نہیں ہوسکتے.
لیکن جب آپنے ضمیرپر کچوکے لگاتی ہوئی ایک غیر مانوس سی آواز کو بار بار دبانے میں ناکام رہا تو اقرباء اور احباب نے بھی ڈرایا کہ تمہیں ایسے حساس معاملات پر کچھ کہنے اور لکھنے سے پرہیز کرنا چاہئیے. تمہاری بھی بیٹیاں اور بہنیں ہیں کل کو تمہارے اس احتجاج کے رد عمل میں کچھ ایسا ویسا ہوگیا تو ان کا کیا ہوگا.اب آصفہ ہی کا معاملہ لے لیجئے. چند انصاف پسند لوگوں کو چھوڑکر اب سب لوگ اسے فرقہ واریت کی عینکوں سے دیکھ رہے ہیں. تو اب ایسے کسی سانحے پر کیا کسی مسلم کا احتجاج جانبدارانہ اورقابل اعتراض تصور نہ کیا جائیگا ؟ جس کے سنگین نتائج بھی نکل سکتے ہیں. اور جناب اس کے رد عمل میں اگر اپ پر کسی خاص طبقہ کی حمایت کرنے کا الزام لگادیا گیا تو آپکی سنوائ کون کریگا. اب اپ کہیں کہ چیف منسٹر تھوڑی ہیں کہ قانونی چارہ جوئ سے بچنے کے لئے معافی مانگ کر معاملہ رفع دفع کردیا جائیگا. ان لوگوں کا حال نہیں دیکھ رہے جو ننھے ننھے ہاتھوں میں شمعیں جلائے نامعلوم راستوں پر نکل تو کھڑے ہوتے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ وہ اپنے گھر سہی سلامت واپس پہنچ بھی پائیں گے کہ نہیں کیونکہ ان میں بہت سی آصفہ جیسی یا اس سے بھی کم عمر کی بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں.
لیکن ساتھ ہی میرے دل کے کسی گوشہ میں ایک سوال سر آٹھا اٹھاکر ھمدردوں اوربہی خواہوں کی میرے سر پر ڈالی گئی ھمدردانہ نصیحتوں کی چادر نوچ نوچ کر میرے وجود کو اس بھیڑ میں عریاں کررہا تھا کہ جس میں ہر مذھب وملت و مکتب فکر اور سماجی طبقے کے لوگ نتائج کی پرواہ کئے بغیر ان مظلوموں کی حمایت میں نکل کھڑے ہوئے ہیں. اور وہ سوال یہ تھا کہ اگر یہ صرف ایک مسلم بچی کا معاملہ ہے تو اس کا قانونی کیس لڑنے والی وکیل دیپیکا سنگھ رجاوت تو ھندو ہے پھر وہ ایک بے سہارا غریب مسلم لڑکی کے لئے اپنی جان کیوں خطرے میں ڈال رہی ہے؟ اسے تو روزانہ سماج کے طاقتور اور صاحب اقتدار طبقے سے دھمکیاں بھی موصول ہورہی ہیں. کیا اسکی اپنی زندگی خطرے میں نہیں ہے ؟ کیا اسکے اپنے سگے رشتہ دار اور بہنیں نہیں ہیں.؟ چلئے وہ سرپھری سہی مگر جموں کے اے ڈی جی مسٹر الوک پوری اور ڈی جی پی مسٹر آیس پی وید بھی دونوں ہی ھندو ہیں مگر یہ جانتے ہوئے بھی کہ مظلومہ مسلم تھی وہ دونوں اپنے ہی لوگوں کی سخت مزاحمت کے باوجود بھی اس کیس کو کورٹ تک لے گئے. اور اسپیشل جانچ کرنے والے وہ دو پولیس اہلکار کہ جنھوں نے تفتیش کو صرف دس دن میں مکمل کردیا وہ بھی ھندو ہی ہیں اور وہ مسٹر آنند مہندرا کہ جن کے بیان نے کتنے ہی سوئے ہوئے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر اس ظلم کے خلاف آواز آٹھانے کے لئے ایک نیا جوش بھر دیا ہے وہ بھی تو ہندو ہی ہیں تو اب اس معاملے کو انسانیت کا معاملہ کہا جائے یا فرقہ واریت کا ؟ . خیر وہ جانیں اور انکا کام جانے ہمیں کیا. کبھی کبھی لوگ دماغ سے زیادہ دل سے سوچنے لگتے ہیں.
لیکن اگرغور کیا جائے تو ہمارے بہی خواہ شایدکچھ ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہے تھے کیونکہ آج بھی جو لوگ ہمت اور جرئت کا مظاہرہ کرتے ہوے علی الاعلان ان مظالم کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں انھیں بچانے والا کون ہے . کون ہے کہ جو انھیں اس احتجاج کی پاداش میں مل رہی ان دھمکیوں سے کہ جو انھیں طاقتور اور صاحب اختیار لوگوں سےہر روز مل رہی ہیں تحفظ فراہم کریگا ؟مس دیپیکا راجوت کو ایک دو سیکورٹی گارڈ مہیا کرانے سے کیا عمر بھر کا تحفظ حاصل ہوجائیگا ؟ شاید یہی سوچ کر ان سب کو بھی اس کارواں میں شامل ہوتے ہوتے اتنا وقت لگ گیا ہوگا. مگر اب مزید دیر کرنا انکے بس میں نہیں تھا. وہ اپنے زندہ ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوچکے ہیں. یہ کمبخت ضمیر کی آواز ہی کچھ ایسی پراثر ہوتی ہے کہ جب سنائ دینے لگتی ہے تو پھر کسی کے دانشمندانہ مدلل نصیحتیں سب بے سود ہوجاتی ہیں.لیکن ہم جیسے عوام میں کتنے ہی لوگ ابھی بھی اسی کشمکش میں مبتلا ہیں کہ کیا وہ وقت اچکا ہے کہ ہم سب ایک ساتھ مل کر ظلم کے خلاف کھڑے ہوئے اس کارواں میں کسی نہ کسی طرح شامل ہوجائیں.
یوں بھی ہم جیسے بے چاروں کے پاس کون سی طاقت اور لاؤ لشکر ہے کہ جو وہ اس بے حد پیچیدہ اور حساس معاملے سے تن تنہا نپٹ پائیں گے ان کے لئے یہی کہنا کیا کافی نہیں ہے کہ بھئی یہ معاملات حکومت سے متعلق ہیں وہی اس سے نپٹنے ہمارا کام ووٹ دینا ہے اور ان سیاستدانوں کو کسی نہ کسی نئے نعرے کے ساتھ منتخب کرنا ہے .اب اسکے بعد یہ سب ان کی ذمہ داری بنتی ہے باقی اللہ اللہ خیر سلا. لیجئے عوام کی بھی جان یہ کہہ کر چھوٹ گئی.
شاید ہمارے جیسے لوگوں کے سامنے اپنے ضمیر کی اؤاز کو ابھی بھی دبانے کے لئے کچھ سوالات منہ کھولے کھڑے ہیں جن کا جواب تلاش کرنے کے سبب ہمیں اس کارواں میں شامل ہونے میں دیر ہورہی ہے.کوئ ہے کہ جو بتائے کہ سماج میں تیزی سے رستے ہوئے اس ناسور کا علاج کیا ارباب حل وعقد کی مسلسل خاموشی اور جانبدارانہ مصلحتوں کے پردوں کے پیچھے چھپے رہنے سے ہوسکتا ہے؟ اگر ملک کے صاحب اقتدار حضرات ان مظالم کے خلاف ایک اپنا ھمدردانہ چند جملوں پر مشتمل بیان جاری کرنے میںاتنی دیر کرسکتے ہیں کہ جب تک پوری دنیا کے کونے کونے سے اس ظلم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں تو کیا ہماری خاموشی کا کوئی جواز نہیں دیا جاسکتا.
پھر بھی ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں دیر کردینے کے متعدد جواز دینے کے باوجود میرےدل میں کہیں ایک نامعلوم سی بے چینی اور کسک سی ہے کہ کہیں میرے مزید دیر کرنے میں کہیں اور کوئی آصفہ کسی حیوان کی ہوس کا شکار نہ بن رہی ہو اور میں افسوس کرتا رہ جاؤں کیونکہ:
ہمیشہ دیر کردیتا ہوں میں

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here