کیٹس کی نظم اوڈ ٹو نائٹینگیلکا تنقیدی جائزہ

0
239

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

محمد عادل فرازؔ

جان کیٹس(1795-1821) انگریزی ادب کاایک بڑا شاعراور رومانی تحریک کی ایک عظیم شخصیت ہے۔اس کے یہاں حسنِ فطرت کا بیان اس قدر دیکھنے کو ملتا ہے کہ اسے فطرت کا عاشق قرار دیا جا سکتا ہے۔اس کا کمال یہ ہے کہ وہ مشاہدۂ کائنات کا سہارا لے کر جیتے جاگتے مناظر پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہے۔وہ زمین اور اس کی خوبصورتی میں شعریت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اس کا قول ہے:
“The Poetry of Earth is Never Dead”
(زمین کی شعریت لازوال ہے)
کیٹس حسن کا دلدادہ ہے، یہی اس کا مذہب ہے،اس کے نزدیک حسن سے بڑی کوئی حقیقت نہیں ہے۔اس بات کی ترجمانی کے لئے اس کا یہ قول پیش کیا جاسکتا ہے:
“Beauty is Truth, Truth Beauty”
(حسن حقیقت ہے اور حقیقت ہی حسن)
کیٹس نے اپنی تخلیقات کے ذریعہ حسن فطرت کوایک بے مثال مصوری کی طرح پیش کیا ہے۔اوراس نے اپنے تخیلات کے زور پرلازوال فن پارے تخلیق کئے ہیں۔
ڈونر(Downer) ایک انگریزی نقاد کیٹس کے قصائد (Odes) کے مطابق خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ’’کیٹس کے قصائد سے پہلے انگریزی ادب میں اس طرح کے قصائد کا وجود نہیں تھا۔یہ کہنا حقیقت پر مبنی ہوگا کہ اس نے ان قصائد کے ذریعے ایک نئے طرز کے گیت کو جنم دیا ہے۔وہ اپنے قصائد میں کوئی ثانی نہیں رکھتا اور اس کے قصائد اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک انگریزی شاعری مطالعہ میں رہے گی۔‘‘ کیٹس کے قصائد کاباقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد اس کی تخلیقات کے نکات و رموزایک کے بعد ایک بہتر طریقے سے آشکار ہوتے جاتے ہیں۔اس کے قصائد میںایک اعلیٰ فن پارے کی تمام تر خصوصیات پائی جاتی ہیں۔اس کے قصائد میںحسن کی لطافت و نزاکت،رومانیت ،غم کی مختلف کیفیات ،زندگی کے مختلف تجربات ،خوشی و انبساط ،ماحول کی بہترین مرقع کشی دیکھنے کو ملتی ہے۔
اے۔سی۔سیون برن (A.C.Sewin burne) اس کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے’’اتنی خوبصورت،دلفریب اور دلکش نغموں کی شاعری اس سے قبل نہ تو دیکھی گئی اور نہ دیکھی جاسکتی ہے۔‘‘
مڈلٹن مَری(Middleton Murry) کے مطابق ’’مجھے کیٹس کے خوبصورت قصائد کی تعریف کرنے میں خوشی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اس نے شاعرانہ اظہارِ خیال استادانہ اور کامل طریقے سے کیا ہے۔یہ پختگی اور حیرت انگیزشادمانی اور حوصلہ افزاء مربوط تصور کیٹس کی شاعری کا طرۂ امتیاز ہے۔وہ اپنے فن کا ماہر ہے اس لئے شیکسپیر کے علاوہ اس کا کوئی ثانی نہیں۔‘‘
کٹیس کے قصائد کو انگریزی ادب کے نقادوں نے فن کے اعلیٰ پیمانے پر پرکھا ہے۔اس کے شاہکار قصائد میںاوڈ ٹو نائٹینگیل(Ode to Nightingale) ، اوڈ ٹو آٹم(Ode to Autumn) ،اوڈ ٹومیلانِکلی(Ode to Melancholy) ،اوڈ ٹوسائیکی (Ode to Psyche)،اوڈ ٹو گریشین اَرن (Ode to Grecian Urn)،اوڈ ٹو انڈولِنس(Ode to Indolence) کا شمار ہوتا ہے۔
اگروہ صرف ان چھ قصائد کے علاوہ کچھ بھی تخلیق نہ کرتا تب بھی اس کا مقام انگریزی ادب کے ممتاز شعراء میں ہوتا۔
کیٹس نے صرف فلسفیانہ شاعری ہی نہیں کی بلکہ اس نے اپنی زندگی میں جو تجربات کئے اور جو کچھ بھی محسوس کیا اس کو بنا کسی مبالغے کے اپنی شاعری کے پیکر میںڈھال کرسچائی کے ساتھ پیش کیا۔کیٹس کی شاعری کا مکمل جائزہ لینے کے لئے اس کے ان چھ قصائد کا مطالعہ کرنا ضروری ہے ۔اختصار کا خیال رکھتے ہوئے اس کی صرف ایک شہرۂ آفاق نظم ’’اوڈ ٹو نائٹینگیل‘‘کا تنقیدی جائزہ لینا مقصود ہے۔
کیٹس کی نظم اوڈ ٹو نائٹینگیل آٹھ بندپر مشتمل ایک شہکار تخلیق ہے۔جس کے بیشتر اشعار رنج و غم میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اس کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کی ترجمانی کرتے ہیں۔اس نظم میں شاعرنے ایک خوش آہنگ بلبل سے مخاطب ہو کر اپنے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔وہ بلبل کی آواز سنتا ہے اور ایک الگ ہی دنیا میں گم ہو جاتا ہے۔اس کے ذہن پر ایک نشہ طاری ہوتا ہے۔اور وہ بے خودی کے عالم میں چلا جاتا ہے۔جو اس کو مادی دنیا کی سرحد سے نکال کر ایک نئے عالم کی سیر کراتی ہے۔اس بے خودی کے عالم میں اس کو منفرد خیال آتے ہیں،وہ مختلف جذبات و احساسات سے گزرتا ہے۔کبھی وہ ان حالات میں ایک خوشی کا اظہار کرتا ہے تو کبھی وہ انسانیت کی مجبوری اور پریشان حالی کو دیکھ کر حیران و پریشان نظر آتا ہے۔ کبھی وہ زندگی کی ان الجھنوں سے نکلنے کے لئے فرانس کی شراب پینے کا خواہش مند نظر آتاہے تو کبھی اپنی شاعری کا سہارا لے کر وہ اس کرب ا ور بیچنی سے نکلنا چاہتا ہے۔در اصل اس کا یہ قصیدہ مجبور اور بے کس انسان کی لاچاری اوراس کی بے بسی کا نوحہ ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ کیٹس کی ذاتی زندگی کی بھی ترجمانی کرتا ہے۔وہ رنج و غم جو اس نے اپنے باپ اور بھائی کے کھونے کے بعد اُٹھائے،خاص طور سے اس کے بھائی کا خاندانی بیماری میں دنیا سے چلے جانے پر وہ جن احساسات سے گزرا،ان سارے مصائب کی جھلک اس قصیدے میں دیکھنے کو ملتی ہے۔وہ بار بار اس نظم میں اپنی موت کو یاد کرتا ہے کیوں کہ اس کا خیال ہے کہ صرف موت ہی اس کو ہمیشہ کے لئے اس رنج و غم کی دنیاسے آزاد کرا سکتی ہے۔اور یہ ہی اس کی تمام تر مصیبتوں کا مداوا بھی ہو سکتی ہے۔کہیں نہ کہیں وہ اپنی زندگی سے مایوس نظر آتا ہے۔کیٹس اپنی اس اوڈمیں بلبل اور انسان کی زندگی کا موازنہ بھی کر رہاہے ۔نظم کے آخر میں شاعر اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر نکل آتا ہے اور خود سے سوال کرتا ہے کیا وہ بیدار ہو گیا ہے یا ابھی تک خیالات کی دنیا میں گم ہے۔
کیٹس کی مذکورہ نظم کے آغاز میں واضح ہے کہ شاعر جب بلبل کو درخت کی شاخوں پر نغمہ زن دیکھتا ہے ۔تو اس پرایک کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ جیسے وہ شراب کے نشے میں ہے۔اور وہ ایک سرور کی دنیا میں ڈوبتا چلا جاتا ہے ۔وہ بلبل سے مخاطب ہوکر کہتا ہے مجھ کو معلوم ہے تو ایک ایسی سندر پری کی مانند ہے جس کے دیدار سے لوگوں کی جوانی لوٹ آتی ہے۔اے بلبل !جب تو گلستانوں،اور بیابانوں میںنغمہ زن ہوتاہے تو سارے عالم میں ایک سرور و مستی چھا جاتی ہے۔آج پھرتو پیڑوں کی چھاؤں کے تلے ندی کے کنارے گاتا ہوا بڑا بھلا معلوم دیتا ہے۔اے بلبل !میں تیری خوشیوں کا دشمن نہیں ہوں اور نہ تجھ سے حسد کرتا ہوں۔بلکہ تیری سریلی آواز مجھ کو تسکین دیتی ہے اور میرے زخموں کے لئے مرہم کا کام کر رہی ہے۔میںتیری خوشی سے لبریز نغموں میں اپنے دکھ کو فراموش کرنا چاہتا ہوں۔
نظم کے دوسرے حصّے میںشاعر شراب کی افادیت اور اس سے پیدا ہونے والے سرور کی افزائش کو بیان کرنا چاہتا ہے۔وہ خواہش کرتا ہے کہ کاش مجھ کو وہ کہنہ شراب مل جائے جس کو زمین کی گہرایئوں میںدبا کر تیار کیا گیا ہو،کیوں کہ اس شراب کا ایک قطرہ ہی میری کیف و مستی میں مزید اضافہ کر دے گا ۔یا پھر ایسا ممکن ہوجائے کہ مجھے فرانس میں تیار ہوئی شراب کا ایک جام مل جائے،جس سے میرے تخیلات میں ایک نئی دینا آباد ہوجائے۔اور شاعری کی دیوی مجھ پر مہربان ہونے لگے۔یا پھر ایسا معجزہ ہو کہ ندی میںبہہ رہے پانی میںشراب کی سی تاثیرپیدا ہوجائے۔جس کو پی کر میںایک نئی سرور و کیفیت کی دنیا میں گم ہو جائوں۔اور میں تیرے ساتھ ایک نئی دنیاکی سیر پر نکل جائوں جہاں میرا کوئی آشنا نہ ہو ۔یعنی شاعر سرور کی کیفیت میں ڈوب کر دنیا کو بھلا دینا چاہتا ہے۔وہ اس نشۂ شراب سے اپنے غموں کا علاج تلاش کرنا چاہتا ہے۔
نظم کے تیسرے حصّے میں وہ بلبل سے مخاطب ہوکر کہتا ہے کہ اے بلبل! تجھے میرے درد و غم کی دنیا کا کیا احوال معلوم ہو تو ایک نادان پرندہ ہے میں ایک حساس انسان ہوں میرا دل غموں سے مملو ہے۔اس لئے میں اس دنیا سے راہِ فرار اختیار کرنا چاہتا ہوں۔ میں اس مجازی دنیا سے بہت دور ایک ایسے عالم کی سیر کرنا چاہتا ہوں جہاں مجھے رنج و الم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فراغت مل جائے کیوں کہ یہ وہ دنیا ہے جہاں قدم قدم پر مصائب در پیش ہیں ۔یہ وہ دنیا ہے جہاں لوگ بیمار ہوتے ہیں،ضعیف ہوتے ہیں،قدم قدم پر زندگی کے نئے نئے مسائل سے آشنا ہوتے ہیں۔جب کوئی نوجوان اور حسین و جمیل دنیا کے رنج و غم میں اسیر ہوتا ہے تو اپنے عہدِ جوانی کے دنوںکو کھو بیٹھتا ہے۔ یہ وہ دنیا ہے جہاں غم کا چشمہ ہر لمحہ رواں دواں رہتا ہے نہ جانے اس کی لہروں کی تغیانی میں کتنے لوگ اپنا سب کچھ گنوا دیتے ہیںاور ہمیشہ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔کوئی ایسا شخص دیکھنے سے نہیںملتا جو فسردہ نہ ہو۔گویا کہ شاعر نے نظم کے اس حصہ میںبلبل سے مخاطب ہو کردنیا کی بے ثباتی اور اس سے حاصل ہونے والے رنج وغم کی ترجمانی کی ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی بھی طرح اس دنیا کے مصائب سے نجات حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔جب تک انسان اس دنیا کو ترک کر کے کسی دوسری دنیا کے سفر پر نہیں نکل جاتا۔یعنی جب تک عالم فانی سے عالم جاوِدانی کاسفر طے نہیں کرتا تب تک اس کے غم کا مداواممکن نہیں ہے۔
نظم کے چوتھے حصہ میںشاعر بلبل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے اے بلبل!تیری دلکش آواز میں وہ جادو ہے جو مے اور مینا کی مستی میں نہیں۔آج تیری آواز کے جادو نے مجھے گرویدہ بنا لیا ہے اور میںاسی سرور و مستی کی کیفیت میں تیرا ہم سفر بننا چاہتا ہوں تو جہاں جہاں پرواز کرئے گا میری فکر وہاں وہاں تیرے ساتھ پرواز کرتی ہوئی نظر آئے گی۔میرا ایسامقدر کہاں کہ مجھ کواس روم کے دیوتا کا ساتھ نصیب ہو جو مے کا خدا کہلاتا ہے ۔میرے لئے تو وہ خدمت تو انجام دے سکتا ہے کیوں کہ تیری سریلی آواز عجب نشاط افروز اور روح پرور ہے۔اے بلبل !میں ذہنی کشمکش میں گرفتار ہوں آج میں ایسی دنیا میں گم ہونا چاہتا ہوں جہاں خوشی کا عالم ہو،رات رنگیں ہو،ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی پر کیف ہوں،اور آسمان پر ستارے اپنے پورے آب و تاب کے ساتھ چمک رہے ہوں۔آسمان سے زمین تک ایک نور ہی نور کا سماں ہو جس کے ذریعے پریوں کے حسین قافلے زمین پر کیف و مستی کے ساتھ اتر رہے ہوں۔اورمیں اس کی گرفت میں آ کرایک نئے سرود آمیزعالم کی سیر پر نکل جاؤں۔
نظم کے پانچویں حصہ میںشاعر ایک نئی دنیا میں چلا جاتاہے جو اس نے اپنے خیالات کی بنیاد پر بسائی ہے۔پھر وہ ایک بار اپنے آپ سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیسے زمین پر بکھرے ہوئے شاداب پھول ہیںجو میرے قدموں کو چوم رہے ہیں۔ اے میرے خدا میں کس دلکش حسین دنیا میںآ گیا ہوں۔میں کس قدر خوش نصیب ہوں کہ ایک جاذب دنیا میرے پیروں تلے آگئی ہے۔اس دنیا کا ہر ذرہ ایک عجب دلکشی لئے ہوئے ہے ،ماحول عطر بیز ہے اور ٹھندی فضائیں میرے دل کو سکون دے رہی ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے اشجار رقص کناں ہیں۔تتلیاںاور بھنورے عاشق کی طرح پھولوں کے ارد گرد گھوم رہے ہیں۔او ر یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے میرے قدم جنت کی وادیوں میں داخل ہو گئے ہوں۔شاید یہ پرسکون ماحول میرا نجات دہندہ ہو۔ اورمجھے ماضی کے غموں اور تلخیوں سے آزاد کر دے۔
نظم کے چھٹے حصے میںشاعر اپنی موت کو یاد کرتا ہے اور بلبل سے مخاطب ہو کر کہتا ہے اے بلبل !میں تجھے آج اپنے غم کی داستان سناناچاہتا ہوں۔مجھ کو ہر لمحہ اپنی موت کا خیال ستاتا ہے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ صرف اور صرف موت ہی مجھ کو میرے تمام تر مصائب سے نجات دلا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ میری شاعری غم و یاس کے آہنگ میں ڈھلتی جا رہی ہے اور میرے وجود کو ایک ناگن کی طرح ڈس رہی ہے ۔اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ایک دن میں ان تکالیف سے آزاد ہو جائوں گاجو میرے سینے میں پیوست ہیں۔لیکن مجھے یہ بھی افسوس رہے گا کہ میں اس دنیا سے دور جا کر تیری دلکش اور سریلی آواز سے محروم رہوں گا۔ہاں جب بھی میرے مرقد پر مرثیہ خوانی ہوگی تو کہیں نہ کہیں تیری یادوں کے دئے جگمگا اُٹھیں گے۔
نظم کے ساتویں حصے میںشاعر پھر ایک بار بلبل سے ہم کلام ہو کردنیا کے ظلم و جور کی طرف اشارہ کر تاہے۔کس طرح آج کل انسان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ایک دوسرے سے جنگ پر آمادہ ہیں ہر طرف انسانیت ذلیل و خوار ہو رہی ہے۔لیکن اے بلبل! تیری آزاد دنیا میںیہ آلام،یہ تکالیف نہیں ہیں۔یہاں شاعر قاری کے ذہن پر ایک سوال قائم کرتا ہے اور یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا انسان آج جانوروں سے بھی زیادہ گر گیا ہے۔شاعرنظم کے اس حصے میں ایک تلمیح بھی پیش کی ہے وہ ایک بیوہ عورت کانام لیتا ہے جس کا ذکر انجیل مقدس میں آیاہے اور کہتا ہے۔اے بلبل !تیرے نغموں میں وہ جادو ہے جس کو سن کر ’رتھ‘ جیسی غم زدہ عورت بھی اپنے غموں کوبھلا دیتی ہے۔اس کے علاوہ شاعر نظم کے اس حصہ میں دنیا کے بسنے اور اجڑنے کے فلسفے کو بھی بیان کر تا ہے۔وہ بلبل سے کہتا ہے یہ کھنڈرات جوآج ویران نظر آتے ہیں ایک وقت تھا کہ یہاں شیش محل تعمیر تھے۔چاروں طرف دریا رواں دواں تھے۔خوش نمااور دلکش نظارے تھے ۔لیکن آج یہاں صرف ویرانی برستی ہوئی نظر آتی ہے۔
نظم کے آٹھویں اور آخری حصے میں شاعراپنے تصورات کی دنیا کو الوداع کہہ کر اپنی تمام باتوں سے گریز کرتاہوامعلوم دیتا ہے۔ اب وہ بلبل کے خیالی تصور کو بھی بھلا دینا چاہتا ہے ،اس کی خوش لحن آواز کی سحر انگیزی سے آزاد ہو کر دنیا میں بلند ہو رہی حقیقی آواز پر لبیک کہنا چاہتا ہے۔نظم کے آخر میں قاری خود سے سوال کرتا ہے کہ کیا میں حقیقت میں بیدار ہو گیا ہوں یا ابھی تک خیالات کی دنیا میں گم ہوں۔
المختصر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شاعر نے اس نظم میںبلبل سے مخاطب ہو کر تمام عالمِ انسان کومسلسل جدو جہد کرنے اور دنیا کے مصائب کو برداشت کرنے کاپیغام دیا ہے۔وہ اس طرف بھی توجہ دلاتا ہے کہ دنیا کرب و بے چینی کی جگہ ہے اور اس کے مصائب سے نجات صرف موت ہی دلا سکتی ہے۔شاعرنے جس طرح نظم میںخطابیہ لہجہ اختیار کیا ہے اور فطرت کی حسین منظر کشی کی ہے اس کی مثال کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔
9358856606

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here