کیفی اعظمی ایوارڈاور کیفی

0
207

ڈاکٹر ریشماں پروین

ایوارڈ کا ذکر ًاتے ہی اکثر ہمارے ذہن ودماغ میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ ایوارڈ ملنے کا مطلب یہ ہے کہ فلاں ایوارڈ کسی فرد کو ایک مخصوص میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے کے لیے یا اس کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے دیا گیا۔لیکن ایک ایسا ایوارڈ جو فنکار کی خدمات کے اعتراف کے ساتھ قومی اتحاد ویکجہتی اور عوامی فلاح وبہبود کی ترغیب بھی دے رہا ہو اور جس کے انتخاب سے لے کر اس کے حقدار تک اسی مقصد کو خصوصاً پیش نظر رکھا گیا ہو۔ یقینا بے مثل ہے۔ کیفی اعظمی ایوارڈ ایسا ہی ایوارڈ ہے۔ اس ایوارڈ کے لیے ہر سال دو شخصیات کو منتخب کیا جاتا ہے۔ ان شخصیات کا انتخاب ایک مخصوص Criteria کے تحت کیا جاتا ہے اور اس معیار پر کھری اترنے والی شخصیت کو اس ایوارڈ سے سرفراز کیا جاتا ہے۔
مشہورومعروف ترقی پسند شاعر کیفی اعظمی صرف نظریاتی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ نہیں تھے بلکہ انھوں نے عملاً بھی اپنے کاموں کے ذریعہ اس کی نمائندگی کی۔ کسان، مزدور، عوام، نچلا طبقہ، گاؤں، کھیت، اتحاد ویکجہتی ان کی شاعری کے خصوصی موضوعات رہے۔ اپنے گاؤں ’مجواں‘ کی ترقی کے لیے انھوں نے خود کو وقف کردیا۔ ایسے شخص کوہربرس یاد کیا جانا اور اُن کے نام سے ایوارڈ دیا جانا یقینا تحسینی عمل ہے۔ یہ ایوارڈ کیفی اعظمی اکیڈمی کی طرف سے ہربرس 10 مئی کو کیفی کی برسی کے دن دیا جاتا ہے۔ جس کی Chief patern محترمہ شبانہ اعظمی، صدر پروفیسر شارب ردولوی اور جنرل سکریٹری سید سعید مہدی ہیں۔ 2006 میں اس اکیڈمی کی بنیاد رکھی گئی اور اس وقت سے آج تک اکیڈمی ہرسال سماج میں نمائندہ خدمات انجام دینے والی شخصیات کو اس ایوارڈ سے سرفراز کر رہی ہے۔ اکیڈمی کے قیام کی محرک کیفی کی گفتگو کا ذکر کرتے ہوئے سید مہدی لکھتے ہیں:
’’کیفی کا خیال تھا کہ ملک میں خوشحالی، نعروں اور زبانی لفاظی سے نہیں پیدا ہوسکتی۔ اس کے لیے حسن عمل اور مختلف زبانوں، مختلف تہذیب، اور مختلف فکر کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کربات چیت سے، عام رائے سے راستہ ہموار کرنا پڑے گا۔ ہندی، اردو اور دیگر زبانوں کی تصانیف کا دوسری زبانوں میں ترجمہ ہو۔ جس کے ذریعہ عوام کو معلوم ہو کہ دوسرے لوگوں کے خیالات کیا ہیں؟ اس کی ضرورت ہے۔‘‘
(سووینر صفحہ ۱کیفی اعظمی اکیڈمی 2017)
اسی مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کیفی اعظمی اکیڈمی قائم کی گئی جس میں اردو، ہندی اور دیگر زبانوں کے نمائندہ وماہرین شامل ہیں۔ اب تک اس ایوارڈ سے 25 لوگ سرفراز کیے جاچکے ہیں، جس میں ہندی، اردو کے ادباء وشعراء، صحافی، سماجی خدمات انجام دینے والے، مُصوّر تھیٹر اور ترجمہ کی دنیا کی اہم ترین شخصیات شامل ہیں، اِمسال جن دو اہم شخصیات کو یہ ایوارڈ دیا جارہا ہے وہ ہندی، اردو کی نمائندہ شخصیتیں ہیں۔ مشہور ومعروف ترقی پسند شاعر صحافی، فلم اور ٹی وی کے اسکرپٹ نویس، نغمہ نگار حسن کمال، اور ہندی ادب کے نمایاں نام ترقی پسند ادیب شاعر راجیش جوشی اس سال کیفی اعظمی ایوارڈ 2018 سے سرفراز کیے جارہے ہیں۔
کیفی کے خیالات اور ان کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے سجّاد ظہیر نے کیفی کے مجموعہ کلام ’جھنکار‘ کے پیش لفظ میں انھیں ’سرخ گلاب‘ کا خطاب دیا تھا۔ انھوں نے اس پیش لفظ میں کیفی کی زندگی، شاعری، ترقی پسند تحریک سے ان کی گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا:
’’کیفی کی شاعری قدیم وجدید دونوں قسم کی ادبی غلاظتوں سے پاک ہے۔ اس کا خیال ونصب العین صاف ومتعین ہے۔ اس کا طرزِ بیان سیدھا اور براہِ راست، اس کی تشبیہیں واستعارے نئے اور دلکش ہیں۔ وہ اشتراکیت کا پرجوش حامی ہے، سوویت، روس کا گہرا دوست ہے اور ہندوستانی کمیونسٹ پارٹی کا رکن بھی ہے۔ اس کے خیال ومقصدِحیات، اس کی زندگی اور عمل میں تضاد نہیں۔ اگر وہ انقلاب اور مزدور راج کے گُن گاتا ہے تو اسے اس کا حق ہے۔ اس لیے کہ اس نے اپنی زندگی محنت کشوں کی خدمت اور ان کی جدوجہد میں شرکت کے لیے وقف کردی ہے۔ اس کی گفتار وکردار میں ہم آہنگی سے اس کے کلام میں خلوص اور سچائی کا عنصر پہلے سے زیادہ ہوگا۔‘‘
سجاد ظہیر کی اس رائے سے اختلاف ممکن نہیں۔ کیفی اپنی گفتار وکردار میں ہم آہنگی کی وجہ سے ملک وقوم کے لیے مخلص وغم خوار تھے۔ انھوں نے ہمیشہ ایک سو شلسٹ ہندوستان کا خواب دیکھا، اپنے مجموعۂ کلام ’سرمایہ‘ میں کیفی نے لکھا تھا:
’’اپنے بارے میں یقین کے ساتھ صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ میں محکوم ہندوستان میں پیدا ہوا۔ آزاد ہندوستان میں بوڑھا ہوا اور سوشلسٹ ہندوستان میں مروں گا۔ یہ کسی مجذوب کی بڑیا دیوانے کا خواب نہیں ہے۔ سوشلزم کے لیے ساری دنیا میں اور خود میرے اپنے ہی ملک میں ایک مدت سے جو عظیم جدوجہد ہو رہی ہے، اس سے ہمیشہ جو میرا اور میری شاعری کا تعلق رہا ہے اس یقین نے اسی کوکھ سے سے جنم لیا ہے۔‘‘ (سرمایہ، ص:۹)
اور اس ایقان کو کیفی نے کبھی ختم نہیں ہونے دیا، نظم ’چراغاں‘ میں ان کی رجائیت پسندی صاف جھلکتی ہے۔
ایک دو ہی نہیں چھبیس دئیے
ایک اک کرکے جلائے میں نے
ایک دیا نام کا آزادی کے
اس نے جلتے ہوئے ہونٹوں سے کہا
چاہے جس ملک سے گیہوں مانگو
ہاتھ پھیلانے کی آزادی ہے
اک دیا نام کا خوشحالی کے
اس کے جلتے ہی یہ معلوم ہوا
کتنی بدحالی ہے
پیٹ خالی ہے مرا جیب مری خالی ہے
ایک دیا نام کا یکجہتی کے
روشنی اس کی جہاں تک پہنچی
قوم کو لڑتے جھگڑتے دیکھا
ماں کے آنچل میں ہیں جتنے پیوند
سب کو اک ساتھ ادھڑتے دیکھا
دور سے بیوی نے جھلاّ کے کہا
تیل مہنگا بھی ہے ملتا بھی نہیں
کیوں دئیے اتنے جلا رکھے ہیں
اپنے گھر میں نہ جھروکا نہ منڈیر
طاق سپنوں کے سجا رکھے ہیں
آیا غصہ کا اک ایسا جھونکا
بجھ گئے سارے دئیے
ہاں مگر اِک دیا نام ہے جس کا امید
جھلملاتا ہی چلا جاتا ہے
اپنی نظم نئی صبح میں وہ کہتے ہیں:
سحر کے آئینہ میں دیکھتا ہوں حسنِ مستقبل
اتر آتی ہے چشم شوق میں کیفی کرن جیسے
رجائیت پسندی کیفی کی شاعری میں ضد کی طرح ابھرتی ہے، ان کی نظم نوجوان کا مصرعہ یاد کیجیے: ’ہم وہ دیپک ہیں جو آندھی میں جلا کرتے ہیں‘ یہ وہ رنگ ہے جو کیفی کی شاعری سے زندگی سے کبھی الگ نہیں ہوا۔ اسی نظم کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے:
ہم وہ راہی ہیں جو منزل کی خبر رکھتے ہیں
پاؤں کا نٹوں پہ، شگوفوں پہ نظر رکھتے ہیں
کتنی راتوں سے نچوڑا ہے اُجالا ہم نے
رات کی قبر پہ بنیادِ سحر رکھتے ہیں
یہی ضد، امید اور ہمت بقول راجیش جوشی کیفی اعظمی کو عوام سے قریب کردیتی ہے اور ان کی شاعری ہر دل کی آواز بن جاتی ہے۔
10مئی 2018 کو دیا جارہا کیفی اعظمی ایوارڈ کیفی کے اسی مشن کو آگے بڑھانے کے سلسلے کا نام ہے۔
ایسو سی ایٹ پروفیسر شعبہ اردو
کھن کھن جی گرلس پی ج ی کالج لکھنو
rr

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here