کنور محمدا شرؔف

0
264

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

(عارف نقوی (برلن

پروفیسر ڈاکٹر کے ۔ایم ۔ اشرف کا شمار علمی و ادبی دنیا کی مایہ ناز شخصیتوں میں اور اردو ادب کے روشن ستاروں میں ہوتا ہے۔ وہ بہترین دانشور اور عالم، ایک عظیم تاریخ داں، زبردست مقرر اور جنگِ آزادی کے دلیر مجاہد ہی نہیں ،بلکہ ایک درد مند و خوش مزاج انسان بھی تھے اور جس محفل میں بیٹھ جاتے تھے اسے اپنی شوخ مزاجی اور خوش بیانی سے گلزار کر دیتے تھے۔
اشرف نے ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۲ء تک برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے ہندوستانی تاریخ خصوصاًمغلیہ عہد کی تاریخ کے بار ے میں درس و تدریس کا کام انجام دیا اور انڈالوجی کے بہت سے طالبعلموں کی جانکاری و فہم و ادراک کی نشو نما میں مدد دے کرانھیں اس قابل بنایا، کہ وہ بعد میں خود اپنی شناخت تسلیم کرا سکیں،۔مثلاً کارل فشر جو بعد میں ہندوستان اور پاکستان میں ڈپلو میٹ اور سفیر کے عہدوں پر فائز ہوئے۔ ۱۹۶۱ء میں جب میں ہندوستان سے برلن آیا تو ڈاکٹر کے۔ایم۔ اشرف، سنیل سین گپتا اور سبرتا چٹرجی ان چند پرانے واقف کاروں میں تھے ، جن سے برلن میںدوبارہ مل کر مارل تقویت حاصل ہوئی۔اشرف برلن مجلس کے صدر بھی تھے اور انھیں کی کوششوں سے برلن کے گرونائو نامی علاقے میں ایک سڑک کو مشہور بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگورؔکے نام سے منسوب کیا گیا تھا۔بعد میں جب ہم لوگوں نے ہندوستانیوں کی کوآرڈی نیٹنگ کمیٹی بنائی تو وہ اس کے بھی صدر بنے ، جس کا جنرل سکریٹری سنیل سین گپتا کو اور مجھے اسسٹنٹ سکریٹری منتخب کیا گیا۔اشرف جی ڈی آر کی ایک تنظیم سائوتھ ایسٹ ایشیا سوسائٹی کے نائب صدر بھی چنے گئے، جس کے صدر ایک معروف پروفیسر ایرش کورنس تھے۔
میں جرمن زبان کو سیکھنے کے لئے لائپزگ چلا گیا تھا ، جہاں آر غیر ملکی اسکالروں کو ہرڈر انسٹی ٹیوٹ میں جرمن زبان سکھائی جاتی تھی۔ وہاں جرمن زبان کا کورس پورا کرنے کے بعد ہی کوئی اسکالر کسی یونیورسٹی یا ادارے میں اپنا کام شروع کر سکتا تھا۔ وہیںمیری ملاقات کے ایم اشرف کی بھتیجی بانو سے بھی ہوئی، جو میڈیسین پڑھ رہی تھی۔۱۹۶۲ء میں میں نے برلن آ کر ہمبولٹ یونیور سٹی کے تھیٹر انسٹی ٹیوٹ میں ڈاکٹر منتز کی رہنمائی میںجرمن ڈرامے پر ریسرچ شروع کر دی تھی۔ ۱۹۶۳ء سے میںنے ہمبولٹ یونیورسٹی کے شعبہء انڈالوجی میں،جسے ابتداء میں انڈین کُنڈے کہا جاتا تھا، اردو اور ہندی پڑھانے کا کام بھی شروع کر دیا تھا اور بعد میںباضابطہ لکچرر کی پوسٹ پر کام کر نے لگا تھا۔ یہاں تک کہ ۱۹۶۹ء میں جب میں ریڈیو برلن انٹرنیشنل میں مدیر کی حیثیت سے کام کرنے لگا ، تب بھی یونیورسٹی میں پارٹ ٹائم پڑھاتا تھا اور یہ سلسلہ ۱۹۹۲ء میں ریٹائر ہونے کے بعد بھی چلتا رہا۔ کئی سال میں نے شہر ایر فورٹ کی یونیورسٹی میں بھی جا کر اردو پڑھائی ۔لیکن اس وقت تک کے ایم اشرف نہیں رہے تھے۔ ۱۹۶۲ء کی گرمیوں ہی میں وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ ڈاکٹر اشرف ہمبولٹ یونیورسٹی میں اردو درس و تدریس سے منسلک تھے۔ حلانکہ ان کا اردو پڑھانے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ ہمبولٹ یونیورسٹی میں تاریخ کے وزیٹنگ پروفیسر تھے۔وہاں اردو کا پہلا لکچرر مجھے مقرر کیا گیا تھا۔ حالانکہ جہاں تک اردو زبان اور ادب کا تعلق ہے تو شاید اشرف کا علم اورمعلومات مجھ سے بہتر تھیں۔ لکھنے کا اندازبھی نہایت دلچسپ تھا۔ جس کی مثالیں ان کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے مجھے لکھے تھے۔
بدقسمتی سے آج اسی برلن میں، جہاں ایک زمانہ میں بڑے بڑے علماء مثلاً انڈالوجسٹ پروفیسر والٹر روبنؔ وغیرہ احترام سے کنور محمد اشرف کا نام لیتے تھے،انہیں فراموش کر دیا گیا ہے۔ گذشتہ ۳۶ برس سے ان کی روح فریڈریش فیلڈے نامی مشہور قبرستان میں سو رہی ہے، مگر وہاں جاکر اگر بتّی جلانا تو درکنار، بہتوں کو ان کا نام تک یاد نہیں ہے۔
اور یہ صرف انہیں کے بارے میں نہیں، بلکہ ڈاکٹر ذاکر حسین کو جنھوں نے اسی یو نیورسٹی سے ۱۹۲۶ء میں ڈاکٹریٹ کی تھی اور بعدمیں ہندوستان واپس جاکرجامعہ ملیہ اسلامیہ کے وائس چانسلر اور اس کے بعد صدر جمہوریہ کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ اورڈاکٹر عبدالعلیم کو جنھوں نے ۱۹۳۲ء میں برلن یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی تھی، اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں عربی شعبہ کے صدراور بعد میں یونی ورسٹی کے وائس چانسلر بنے تھے، ( جن کے با رے میں برلن یونی ورسٹی کے Iranian Philology کے پروفیسر RH Snaeder نے لکھا تھا: ’’ ڈاکٹر عبدالعلیم ، جنھوں نے میرے عربی و فارسی سیمیناروں میں شرکت کی ہے، ایک بہترین اسکالرہیںاور عربی و فارسی زبانوں اور لٹریچر خصوصاً تھیو لوجیکل و شاعرانہ ادب کی وسیع جانکاری رکھتے ہیں۔ان کی ڈاکٹریٹ I´jza-ul-Quran بہت ہی اہم تحقیقی مواد اور کام کا مجموعہ ہے۔‘‘ ) اور دیگر بہت سی اہم شخصیتوں کو فراموش کر دیا گیا ہے۔
ڈاکٹر کے ایم اشرف سے میرا قریبی تعلق چند برس رہا ۔ پہلی بار میں نے ان سے تب ملاقات کی تھی، جب میں ۱۹۶۸ء میں طلباء کی ایک کل ہند کانفرنس میں شرکت کے لئے لکھنئو سے راجستھان کے شہر اُودے پور گیا تھا اور ان کی جوشیلی تقریر کو سن کر دنگ رہ گیا تھا۔ مگر بعد میں جب کھانے پر ان کے ساتھ بیٹھا تو لگتا تھا ان کے مہنہ سے پھول جھڑ رہے ہیں۔
دلّی میں جب میںبنّے بھائی (سجّاد ظہیر) کے ساتھ ہفتہ وار عوامی دور میں کام کر رہا تھا تو وہ اکثر وہاں آ جاتے تھے بنے بھائی سے ملنے کے لئے اور ہمارے دفتر میں کچھ دیر بیٹھ کر اپنے دلچسپ فقروں سے ہمیں ہنساتے تھے۔ وہ ان دنوں جرمنی جانے کی تیاری کر رہے تھے۔
ہندوستان سے بر لن آنے کے بعد جن جانی پہچانی شخصیتوں سے سب سے پہلے میری ملاقات ہوئی ان میں ڈاکٹر کے ایم اشرف ، سنیل سین گپتا، سبرتا چٹرجی ، زلبر اسٹائن، مسز رابے شامل تھے۔ جیسا کہ میں نے بتایااشرف ہمبولٹ یو نیورسٹی میں مہمان پروفیسر تھے اور برلن مجلس کے صدر تھے۔وہ انڈین کوارڈینیٹنگ کمیٹی کے بھی صدر تھے جس کا میں لائپزگ سے نائب صدر تھا۔ میں لائپزگ میں جرمن زبان سیکھ رہا تھاتاکہ جرمن ڈرامے پر ریسرچ شروع کر سکوں۔ میںاکثر اشرف سے ملنے برلن آتا تھا۔ کبھی کبھی ان کی بھتیجی بانو بھی میرے ساتھ ہوتی تھی، جو لائپزگ میں میڈیسین پڑھ رہی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہر بار جب میں واپس جانے لگتا تھا، تو وہ میری جیب میں زبردستی پچاس مارک کاایک نوٹ رکھ دیتے تھے۔( غالباً ان کا خیال تھا کہ طالبعلم تنگدستی کا شکا ر رہتے ہیں)۔
ان کے بعض خطوط آج بھی میرے پاس محفوظ ہیں، جن میں ۴ جون ۱۹۶۲ء کے ان کے خط کی ایک خاص تاریخی اہمیت ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ’’۔۔۔۔۔۱۶؍ جون کو برلن مجلس کا جلسہ ہے۔ ۔۔۔تم اگر ۱۰ ؍ کو آ رہے ہو تو مضمون کا فیصلہ بھی ہو جائے گا (ان کا اشارہ میری تھیسس کی طرف تھا)۔پروفیسر روبن برلن سے باہر ہیں۔ لیکن تمہیں اپنی عرضی بہرنوع بھیج دینی چاہئے۔سلور اسٹائن منتظر تھا۔۔۔۔‘‘
میں ان کے مشورے کے مطابق ان سے ملنے کے لئے ۸؍ جون کو لائپزگ سے برلن آیا اور یہاں آنے کے بعد یہ پتہ چلا کہ ایک دن قبل جب وہ ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے تو ملک الموت نے آ کر ان کی روح قبض کر لی۔ اور پھر انھیں برلن کے ضلع فریڈرش فیلڈے کے مشہور قبرستان میں ،جہاں روزا لکسمبرگ جیسی بہت سی عالمی شہرت کی ماہرانقلابی شخصیتیں سو رہی تھیں،ہماری نظروں کے سامنے سپردخاک کر دیا گیا۔ ان کی یاد میں ہمبولٹ یونیورسٹی میں تعزیتی جلسہ کیا گیا۔ ڈاکٹر ہورسٹ کروگر نے اشرف کے مضامین کو جمع کر کے اور ان کے بارے میں مضامین لکھواکراکا ڈیمی کی طرف سے ایک ضخیم نمبر شائع کیا۔ پھروقت کے ساتھ سب نے انھیں بھلا دیا۔
اس موقع پر میں ان کے چند خطوط کا حوالہ دینا چاہوں گا جو انھوں نے مجھے لائپزگ کے پتہ پر لکھے تھے۔
اپنے ۲۵؍ اپریل ۶۲ء کے مراسلہ میں وہ مجھے برلن سے لکھتے ہیں:
’’ڈیر عارف
مجھے بھی تمھاری طرح ان جرمنوں کی بوکھلاہٹ پر غصّہ آتا ہے۔ یہ ہمارا ہی جگر ہے کہ ہم ایں گونہ ہزاراں دیدہ است۔یہ محض پیچش کے خوف سے مرے جا رہے ہیں۔ یہاں ہیضہ۔ طاعون، ملیریا، ٹائفائڈ، چیچک اللہ کے فضل سے کون سی ممکن وبا ہے جس سے ہمیں سابقہ نہ پڑتا ہو۔‘‘(اس زمانہ میں جی ڈی آر میں پیچش کی وبا پھیل گئی تھی اور اسکول کالج وغیرہ کچھ دنوں کیلئے بند کر دئے گئے تھے۔ )
وہ آگے لکھتے ہیں:
’’ میں نے تمھارے موضوع تحقیق کے باریمیں سوچا۔ اقبال وغیرہ کے موضوع ’کوہ کندن اور کاہ برآوردن‘کی مثال ہیں۔ ایسا کیوں نہ کرو کہ نئے انقلابی ڈرامے اور ناول نویسوں کے ٹکنیک پر لکھو اور مقالہ منظور ہو جانے کے بعد ایک باب ہندوستانی افسانہ نگاروں کی خامیوں پر لکھ کر اس میں شامل کر دو۔ تاکہ ہندی یا انگریزی میں ہندوستان میں شائع ہو کر مفید بن سکے۔
ہمارے گرامی قدر مصنف خدا جانے کس عالمِ ناسوت یا لاہوت میں ہیں کہ ان کا لکھا ہوا یا وہ سمجھیں یا خدا سمجھے۔‘‘
اسی خط میں وہ آگے لکھتے ہیں:
’’ میری بلّی آج کل ذرا انتظار کی منزل میں ہے۔ یہ اولاد سوویٹ باپ سے ہو گی۔ آپ کو اس کا خیال رہے ۔ جرمنی میں بلّے بالعموم رجولیت سے محروم کردیے جاتے ہیں۔ غم نداری بز بخر۔ آپ بھی کوئی کتاّ یا بلّی کیوں نہیں پالتے یا کم ازکم کسی دوست لڑکی کےPet سے آشنائی کیوں نہیں کرتے! گرمیوں میں ہندوستان کی سی بو آنے لگی ہے۔ صرف یہ کہ یہان فالودہ، لسّی، شربت، فیرنی کچھ نہیں ہے،وہی مہمل شراب جو جاڑوں کے لئے تھی اب بھی ہے۔‘‘
اپنے ۳۰؍ مئی ۶۲ء کے خط میں ڈاکٹر اشرف مجھے لکھتے ہیں:
’’ آپ کا خط مجھے کل ملا۔ زیلٹرصاحب (لائپزگ یونیورسٹی کے استاد) کا کوئی دعوت نامہ اب تک موصول نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ ۲۹؍ کے اجلاس میں میری شرکت پروفیسر روبن کے عیوض کی سی تھی۔ چنانچہ میں نے لائپزگ آنے کا خیال ترک کر دیا۔ ۴ ؍جون کو برلن مجلس کی کمیٹی کا جلسہ (اشرف مشرقی برلن میں ہندوستانیوں کی انجمن برلن مجلس کے صدر تھے) اور ۵ ؍کو مجھے ڈاکٹر سے اپنی شکایت کے بارے میں مشورہ کرنا ہے۔ اس کے بعد میں اگر انسٹی ٹیوٹ مناسب خیال کرے تو کسی دن آسکتا ہوں۔(جاری)
جاوید (جاوید اشرف)کے خط سے معلوم ہوا کہ کلپنا اور جوشی (پی سی جوشی اور ان کی بیگم)ابھی ماسکو میں ہیں اور کچھ دن رہیں گے۔ جوشی اس وقت ایک سینی ٹوریم میں ہیں اور دو ہفتے بعد وہ اور کلپنا برلن آنا چاہتے ہیں۔البتہ میرا ارادہ وسط ماہ میں لندن جانے کا ہے۔
اس سال معلوم ہوا کہ جرمنی بلکہ سارے یوروپ میں گرمیاں نہیں آئیں گی۔ اس لئے آپ ہندوستانی گرم دلی کو محفوظ رکھئے اور یہ کافی نہ ہو تو حضرت پیر دستگیر سے دعا کیجئے۔ یہاں stoveجلانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے یعنی میں بیگار بھگتتا ہوں۔ میں غالباً ۱۶؍ جون تک یہاں ہوں۔ آپ کے برلن آجانے کا فیصلہ کب تک ہو گا۔‘‘
بہرحال جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں،جب میں کے ایم اشرف سے ملاقات کے لئے ۸؍ جون کو برلن پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک دن قبل حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث ان کاانتقال ہو گیا ہے۔
اشرف کا پورا نام کنور محمد اشرف تھا۔ وہ ۲۵ ؍نومبر ۱۹۰۳ء کو علیگڑھ کی تحصیل ہاتھرس میں دریاپور نامی ایک قصبہ میں ایک راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ راجپوتوں کے بارے میں عام طور سے مشہور ہے کہ وہ اپنی خاندانی شجاعتوں پر فخر کرتے ہیں اور بہت خوددار ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک بار ہندوستان کے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے مہنہ پر اشرف نے کہا تھا:
’’ میں آپ سے زیادہ ہندوستانی ہوں۔ میں راجپوت ہوں ۔‘‘
دراصل اشرف اپنی نوجوانی کے دنوں میں نہرو اور مو لانا آزاد کے سکریٹری کی حیثیت سے، جب وہ دونوں کانگریس کے صدر تھے، کام کر چکے تھے اوران سے اچھی طرح سے واقف تھے۔
اشرف کے ذہنی ارتقاء پر کئی باتوں نے خاص اثر ڈالا تھا:
ان کا خاندانی پس منظر اور راجپوتی مشترکہ ہندو مسلم کلچر
پہلی جنگ عظیم کے اثرات برطانوی نوآبادیاتی غلامی سے نجات کے لئے ملک گیر تحریک
مولانا عبید اللہ سندھی کی ’حذب اللہ ‘ تحریک
مولانا محمد علی اور شوکت علی کی خلافت تحریک
ہجرت تحریک
گاندھی جی کی نان کوآپریشن تحریک اور پھر چوری چورا کے واقعہ کے بعد تحریک کو واپس لینے کا ان کا فیصلہ
ہندو مسلم فسادات
مارکسوادی دانشوروں مثلاً سکت والا سے لندن میں ملاقات
مولانا حسرت موہانیؔ اور بیگم حسرت موہانی کے کردار کا تاثر اور حسرت موہانی و اقبال کے کلام کا مطالعہ
مہاراجہ الور سے دوستی اور ان کے ساتھ سبق آموزذاتی تجربات۔ بعد میں مہاراجہ کے خلاف میواتی کسانوں کی لڑائی کی حمایت۔
برٹش میوزیم میں میڈیول تاریخ، خصوصاً مسلم تاریخ کا گہرا مطالعہ۔اور آخر میں برلن کے پرگامان اور اسلامی میوزیم سے ان کا ایک طرح کا عشق، جہاں وہ مجھے بھی لیکر گئے تھے اور ہر چیز کے بارے میں کسی گائڈ سے بہتر بتا رہے تھے۔ اشرف نے خود لکھا ہے:
’’ اسے میری خوش قسمتی سمجھئے کہ ہوش سنبھالتے ہی میں نے اپنے سماجی ماحول سے دلچسپی لینا شروع کی اور مجھے اس عہد کی
بعض تحریکوں اور مشاہیر کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔‘‘
پہلی جنگِ عظیم کے دوران ان کے والد کو درّہِ دانیال اور مشرقی افریقہ کی مہم پر جانا پڑا۔ جنگ ہی کی وجہ سے اشرف نے
اخبارات میں دلچسپی لینا شروع کی اور مسجد میں باقاعدہ جا کر نمازیں اور تراویح پڑھیں اور شبینہ میں شرکت کی۔
اسی زمانہ میں انھوں نے مولوی اسطفے کریم کے ساتھ مل کر ’حذب اللہ‘ تحریک کے لئے کام کیا۔ جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں :
’’ ہر اتوار کی صبح مولوی اسطفے کریم کے گھر پر جلسے ہوتے تھے ۔ان میں حسرت موہانی کی غزلیں اور بعد میں اقبال کی نظمیں پڑھی جاتی تھیں۔ خصوصاً حسرت کا یہ شعر تو بہت ہی مقبول تھا:
ہے مشقِ سخن جاری چکّی کی مشقت بھی عیش دل و جان ہے کرم یار پہ موقوف
حسرت ؔموہانی
غالباً تیسرے ہفتے سورہ صفؔ اور سورہ جمعہؔ کا درس شروع ہوا۔‘‘
حذب اللہ تحریک کی بنیاد عبداللہ سندھی نے رکھی تھی ،جنھوں نے پہلی جنگِ عظیم کے دوران کابل میں ایک متوازی ہندوستانی سرکار قائم کی تھی (جس میں راجہ مہندر پرتاپ شامل تھے ) اور انگریزوں کے خلاف جہاد کا نعرہ دیا تھا۔ اشرف کے ساتھی مولوی اسطفے کریم ؑعبداللہ سندھی کے شاگرد تھے اور ’’ ایک خفیہ جماعت مجاہدین کے ممبر تھے۔‘‘
اشرف لکھتے ہیں:
’’ تھوڑے دن بعد ہم سب نے بھی جہاد کا حلف لیا اور حذب اللہ کے ممبر بن گئے ۔ یوں سمجھئے ہمارا سیاسی سفر شروع ہو گیا۔‘ ‘
وہ حسرت موہانی اور بیگم حسرت موہانی سے کس قدر متاثر تھے اس کا اندازہ ان کے ان الفاظ سے ہو جاتا ہے۔ :
’’ اسطفے کریم کی تعلیم جہاد کے بعد جب حسرت اور بیگم حسرت عملی نمونے کے طور پر سامنے آئے تو ایک زمانہ تک اس کسوٹی
پر کوئی دوسرا رہنما پورا نہ اتر سکا۔‘‘
اشرف لکھتے ہیں:
’’ جنگِ عظیم کے بعد ہماری جدو جہد آزادی کا ایک نیا اور انقلابی دور شروع ہوا۔ہم جیسوں کے لئے اس کی ابتداء تحریک ہجرت
سے ہو چکی تھی۔ میں نے بھی اپنا نام مہاجرین کے پہلے قافلے کے لئے دیا تھا مگر حسن اتفاق سے جس ہفتہ قافلہ روانہ ہونے والا تھا میرے
والد جنگ سے صحیح سلامت واپس آ گئے اور میں شریک نہ ہو سکا۔‘‘
تحریک خلافت اور گاندھی جی کی ستیہ گرہ سوراج تحریک کا حوالہ دیتے ہوئے اشرف بتاتے ہیں:
’’ میں نے پرچار کا کام گاندھی جی اور محمد علی کی آمد سے بہت پہلے سے شروع کر دیا تھا اور جب انگریز پرنسپل نے والدین کو بلا کر
طالبعلموں کو ہموار کرنے کی کوشش کی تو میں نے مرادآباد کے اپنے ایک حزب الہی دوست کو اپنا والد قرار دے کر ترک موالات کی
حمایت میں کالج کی مسجد میں تقریریں کیں اور ایک مہینے تک کسی کو یہ گمان نہیں ہوا کہ یہ حضرت میرے دوست ہیں والد نہیں۔‘‘
سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے جب اشرف کو پولیس کی مدد سے کالج سے نکلوا دیا گیا تو انھوں نے جامعہ ملیہ میں داخلہ لیا۔ جہاں
جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں:
’’ خود مولانا محمد علی ہمیں انگریزی اور تاریخ کا درس دیتے تھے اور وہاں سے جتھے ملک کے مختلف حصوں میں جاتے تھے۔‘‘
اشرف نے علی گڑھ ہی سے MA اور LLB کی ڈگریاں حاصل کیں اورجبمہاراجہ الور مسلم یونیورسٹی کی جوبلی میں شرکت کے لئے آئے تو ان سے اشرفؔ کی دوستی ہو گئی ۔ مہاراجہ نے انھیں گرمی کی تعطیلات میں الور آنے اور شیر کے شکار میں شریک ہونے کے لئے دعوت دی۔
مہاراجہ الور کے بارے میں اشرف لکھتے ہیں:
’’ پہلی ملاقات میں مہاراجہ مجھے بہت بھائے ۔ میں ہندو مسلم تفرقہ سے دل برداشتہ، یہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی بلکہ مسلک ’’ صلح کل‘‘ پر عامل۔ میں مذہب کی رسموں سے متنفر ، یہ روح تصوّف و ویدانت کے دلدادہ۔ مجھے برطانوی حکومت سے بغض، یہ دبی زبان سے
ہندوستانی سوراج کے حامی اور بیماری کے زمانہ میں مولانا محمد علی کا علاج بھی کرا رہے تھے۔۔۔‘‘
مہاراجہ نے اشرف کو ریاست میں ملازمت کی پیشکش بھی کی اور طے یہ ہوا کہ وہ پہلے انگلستان جا کر دو سال تعلیم حاصل کریں۔
چنانچہ ۲۷ ۱۹ء میں انھوں نے لندن جا کر بیرسٹری اور پی ایچ ڈی کی پڑھائی کا کام شروع کیا۔ ایک سال کے بعد انھیںاور مولانا محمد علی کو مہاراجہ کی جوبلی کی دعوت میں شرکت کے لئے الور میں بلا لیا گیا۔ اشرف بتاتے ہیں:
’’ جوبلی جشن کا غالباً تیسرا دن تھا کہ میں اور مہاراج ان کی نئی ہسپانوی سویزاؔ گاڑی میں وجے مندر محل سے شہر کی جانب روانہ
ہوئے۔ خود مہاراج موٹر چلا رہے تھے۔ اور کوئی تیسرا ہمارے ساتھ نہ تھا۔ محل سے نکلے ہی تھے کہ مہاراج نے ایکسیلیٹر دبادیا اور موٹر ۸۰ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے لگی۔ مہاراج بالعموم اسی رفتار سے موٹر چلاتے تھے۔ سڑک سیدھی اور صاف تھی۔ دونوں طرف سرکاری باغات کی مٹّی کی چاردیواری نظر آتی تھی۔ دور سڑک پر بیچ میں ایک باوردی کانسٹبل کھڑا ہوا ہمیں اشارہ دے رہا تھا کہ چلے آئو۔ صورت یہ تھی کہ
اگر مہاراج کانسٹبل سے بچکر چلتے ہیں تو موٹر کے مڈگارڈ کا باغ کی چاردیواری سے گھس کر خراب ہو جانے کا ڈر ہے۔ اگر باغ سے بچتے ہیں تو کانسٹبل کی زندگی اندیشہ میں ہے۔ میں یوں بھی تیز موٹر کا عادی نہیں ہوں۔ میری نگاہ راستے پر جمی ہوئی تھی۔ میں نے آناً فاً میںصرف یہ دیکھا کہ ہم کانسٹبل کو روندتے ہوئے ۸۰ میل کی رفتار سے گزرے۔ مہاراج نے بس ایک نظر مڑ کر لاش کو دیکھا اور واپسی پر
بیوہ کے لئے پانچ روپے کا وظیفہ مقرر کر دیا۔ بات آئی گئی ہو ئی۔ شہر کے دھرماتما لوگوں نے البتہ مہاراج کی دریا دلی اور انسان دوستی کی
داد دی۔‘‘
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد اشرف مہاراجہ الور کا ساتھ چھوڑ کر بیماری کے بہانے علی گڑھ واپس آگئے۔
۲۹ء کے آخر میں وہ دوبارہ لندن چلے گئے۔ جس کے بارے میں وہ خود لکھتے ہیں:
’’ میری زندگی کے یہ غالباً سب سے مسرت انگیز دن تھے اس لئے کہ اب سب افسانے ختم ہو چکے تھے۔‘‘
’’ اب لندن آتے ہی میں ان رفیقوں سے ملا جو میری طرح فاقہ مستی میں دن گزار رہے تھے اور مجھ سے بہت پہلے اور ان دلخراش اور عبرت انگیز تجربوں سے دوچار ہوئے بغیر ہی ایک حکیمانہ فلسفہء زندگی تک پہنچ چکے تھے۔‘‘
لندن میں سکت والا ؔ اور بعض ہندوستانی طلباء سے،جو مارکسوادی خیالات سے متاثر تھے، ملاقاتوں نے اشرفؔ کے ذہنی ارتقاء پر بہت گہرا اثر ڈالا ۔ وہ اشتراکیت کی طرف مائل ہوئے۔
(شاہ پورجی سکت والا ۱۹۲۰ء سے ۱۹۳۰ء تک برطانوی پارلیمنٹ کے ممبر رہے تھے۔ وہ ابتداء میں لیبر پارٹی کے پہلے ہندوستانی ممبر پارلیمنٹ تھے اور بعد میں پہلے کمیونسٹ ممبر پارلیمنٹ ہوئے اور برطانیہ میں آنے والے ہندوستانیوں، خصوصاً طلباء کی بہت مدد کرتے تھے۔)
اس بار جب اشرف لندن آئے تو انھیں مہاراجہ کی سرپرستی حاصل نہ تھی ۔ سخت مالی تنگی کا سامنا تھا۔ مگر انھوں نے نہایت ہی محنت کے ساتھ اپنی تعلیم اور تحقیقی کام کو مکمل کیا۔ بتایا جاتا ہے جب برٹش لائبریری کھلتی تھی تو وہ وہاں پہنچنے والوں میں سب سے پہلے اور وہاں سے جانے والوں میں سب سے آخری فرد ہوتے تھے۔ اشرف نے لندن کی یونیورسٹی میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ Medival Indi کے لوگوں کی سماجی و تہذیبی زندگی پر ان کی تھیسس تاریخی تحقیق کا ایک بہترین شاہکار مانی جاتی ہے۔

۱۹۳۲ء میں وہ ہندوستان واپس آئے اور تحریک آزادی میں مختلف حیثیتوں سے سرگرم رہے۔ انھوں نے الور کے مہاراجہ کے خلاف میواتی کسانوں اور دستکاروں کی مسلح لڑائی میں بھی شرکت کی ۔ وہ مہاراجہ کے دوست اور پھر ان کے مشیر خاص اور سرکاری مہمان خانہ اور محلوں اور بھنڈاروں کے نگراں رہ چکے تھے اور مہاراجہ کی خوبیوں و کمزوریوں اور جاگیردارانہ نظام کے عیبوں و سنگدلی سے اچھی طرح سے واقف تھے، چنانچہ اس جدو جہد میں ان کے رول کی ایک خاص اہمیت تھی۔ جس کے بارے میں چودھری عبدالحئی، جو اس جدو جہد میں ان کے ساتھ شریک تھے، لکھتے ہیں:
’’ میں ۳۴ ۔۱۹۳۳ء میں الور تحریک کے دنوں میں ڈاکٹر اشرف سے پہلی بار ملا۔۔۔۔:
’’ وہ ایک مفکر اور منطقی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے جنرل بھی تھے۔ سید مطلبی میوات میں سب تحریکوں میں ان کا دااہنا ہاتھ تھے اور مجھے
بھی سب واقعات میں ساتھ رہنے کا شرف حاصل تھا۔
۱۹۴۷ء سے قبل میوات کے لوگوں کے ذہنوں میںہندو مسلم فسادات کا کوئی تصور بھی نہیں تھا۔ الور تحریک کے بعد ڈاکٹر اشرف کو اس بات کی
بہت فکر تھی کہ میوات میں نہ صرف ہندو مسلم اتحاد قائم رہے بلکہ اس کا دائرہ وسیع ہو اور جہاں تک ہو سکے لوگوں کو اس علاقہ کے اجارہ داروں سے دور رکھا جائے۔
الور تحریک ایک خود رو بیداری کا حصّہ تھی، جس میں الور کے پسماندہ لوگوں نے اقتصادی و سماجی حقوق کو منوانے کے لئے کوشش کی۔یہ تحریک کسانوں کی تحریک تھی، جو مسلمانوں کے مذہبی حقوق کے لئے جدو جہد کے روپ میں شروع ہوئی۔۔۔اپنے آخری روپ
میں اس تحریک میںمال گزاری اور ٹیکسوں کے خلاف میو کسانوں اور غریب بنکروں و محنت کش عوام کی مانگ کو شامل کر لیاگیا۔ ۔۔ الور کے لوگ سرکار کے معاشی استحصال سے تنگ آ چکے تھے۔ مہاراجہ جے سنگھ سوائی نے ٹیکس چار گنا بڑھا دئے تھے۔‘‘
’’اشرف الور تحریک کے مرکزوں، فیروز پور جھرکہ وغیرہ اور بہت سے میو گائوں میں گئے۔ انھوں نے مسلح لوگوں سے ملاقات کی ، جو ضرورت پڑنے پر مہاراجہ کی فوجوں سے لڑنے کے لئے تیار تھے۔ انھوں نے ان کی توپوں اور بارود اور بندوقوں کا معائنہ کیا ۔ اور انھیں
بتایا کہ کس طرح بہتر بارود بنائی جا سکتی ہے ، ہتھیاروں کی کیسے دیکھ بھال کرنی چاہئے اور مسلح جنگ میں کس قسم کے دائوں پیچ ضروری ہوتے ہیں۔ اور یہ کہ دشمن فوجیوں کو یکجا نہیں ہونے دیناچاہئے۔ یہ لڑائی کا اصلی گُر ہے۔ میو لوگوں کو مشکل سے یقین آتا تھاکہ ایک پڑھا لکھا شخص جنرل ہونا تو درکنار، لڑ بھی سکتا ہے۔ مگر وہ اشرف کے مشوروں سے بہت متاثر ہوئے۔ اشرف نے ان کی تنظیمی قوت کو اُبھارا۔ انھوں نے ان کو الور کی سرکار کی کمزوریوں سے آگاہ کیا اور انکی ہمت بڑھائی۔ ڈاکٹرکے ایم اشرف کی آمد کے بعد تحریک میں ایک نئی جان پڑ گئی ۔ جبکہ تحریک میں ڈاکٹر اشرف کی شرکت سے مہاراجہ بہت پریشان ہوا۔
۳۴ ۔ ۱۹۳۳ء میں مہاراجہ کو عہدہ سے ہٹانے کی مانگ نے سارے ہندوستان کو حیرت میں ڈال دیا۔ ۔۔مہاراجہ کو دو سال کے لئے ہندوستان سے بے دخل کر دیا گیا۔ مالگزاری کو ایک چوتھائی کم کر دیا گیا، بعض غیر ضروری ٹیکس منسوخ کر دئے گئے اور دیگر ٹیکسوںمیں مناسب کمی کی گئی۔ ‘‘
۱۹۳۴ء میں اشرف کو کانگریس سوشلسٹ پارٹی کی نیشنل ایکزیکیٹیو کا ممبر چنا گیا۔ جس میں جے پرکاش نارائن، اچاریہ نریندر دیو، ای ایم ایس نمبودری پد، ڈاکٹر زیڈ اے احمد، سجاد ظہیر، اشوک مہتا اور رام منوہر لوہیا بھی تھے۔ ۱۹۳۶ء میں وہ کانگریس کے سکریٹریوں میں سے ایک مقرر ہوئے اور جواہر لعل نہرونے جو کانگریس کے صدر تھے اشرف کو مسلم عوام سے رابطہ کے پروگرام کا انچارج بنایا۔
ڈاکٹر اشرف کو،جو کہ بہترین مقرر بھی تھے ،آل انڈیا کانگریس کمیٹی میں کمیونسٹ گروپ کے ترجمان کی حیثیت حاصل تھی۔
جب مولانا آزاد کانگریس کے صدر تھے تو اشرف ان کی درخواست پر مولانا کے سکریٹری بھی مقرر ہوئے ۔
دوسری جنگِ عظیم کے زمانہ میں انھیں گرفتا رکر لیا گیا اور ’’دیولی‘‘ نامی بدنام کنسنٹریشن کیمپ میں قید میں رکھا گیا۔ جہاں انھوں نے
۳۰ (تیس) دن کی بھوک ہڑتال کی ۔ جس کا ان کی صحت پر بہت برا اثر پڑا۔ ۱۹۴۳ء میں جب وہ جیل سے باہر آئے تو انھیںسی پی آئی نے اپنے ہیڈ کوارٹر میں کام کرنے کے لئے بمبئی بلالیا۔
۱۹۴۶ء میں وہ دہلی میں منتقل ہو گئے اور سی پی آئی کے کمیون میں رہنے لگے جہاں انھیں کھانے کے ساتھ ۸ روپئے ماہوار الائونس کے ملتے تھے۔ اسی زمانہ میں اشرف نے ہندوستانی مسلمانوں کی سیاست پر اپنی مشہور کتاسب لکھی۔
دلّی ہی میں انھیں ۱۹۴۷ء کے فسادات کی ہولناکیاں دیکھنی پڑیں۔ یہاں تک کہ دریا گنج کا علاقہ چھوڑ کر جامع مسجد کے پاس منتقل ہونا پڑا۔ جس کے بارے میں انھوں نے اپنے ایک دوست سے کہا:
ٍ ’’ یہ میری زندگی کا سب سے کربناک لمحہ ہے۔‘‘
وہ کچھ عرسے تک دلی کے ایک روزنامہ ’’نیا دور‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ جو زیادہ دن نہیں چل سکا۔
اشرف ؔکچھ عرصے پاکستان میں جا کر بھی رہے۔ جہاں غیر قانونی طورپر آنے کے الزام میں انھیں جیل میں رکھا گیا۔ اس عرسے میںان کی صحت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور انھیں رہا کر دیا گیا۔ مگر اب ہندوستان انھیں شہریت دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اور اس میںدو برس لگ گئے۔ حالانکہ جواہر لعل نہرو اور مولانا آزاد سے ان کی ذاتی واقفیت تھی۔ البتہ اس وقت کے کشمیر کے وزیر اعلی بخشی غلام محمد نے ان کی مدد کی اورکشمیری عوام کی تاریخ کو تیا رکرنے کا کام انھیں سونپا۔
دو سال بعد انھوں نے دلی یونیورسٹی کے ’’کروڑی مل کالج‘‘ کے شعبہء تاریخ کی صدارت کا عہدہ سنبھالا۔
یہ وہی دور تھا، جس کا میں نے شروع میں حوالہ دیا تھا، جب وہ کبھی کبھی بنے بھائی (سجاد ظہیر)سے ملنے کیلئے ہمارے عوامی دور کے دفتر میں آجایا کرتے تھے اور اپنے طنز و مزاح اور دلچسپ جملوں سے ہماے چھوٹے سے ایڈیٹوریل رُوم کو خوشگوار بنا دیتے تھے۔

جیسا کہ میں ذکر کر چکا ہوں۱۹۶۰ء میں برلن آنے کے بعد اشرف نے برلن کی ہمبولٹ یو نیورسٹی میں مہمان پروفیسر کی حیثیت سے میڈیول ہسٹری پر لکچر دئے اور جرمن اسکالرس کے سامنے برصغیر کی وسیع تاریخ اور تہذیب کی تصویر پیش کی اور انھیں بتایا کہ ہندوستان کی تاریخ صرف ویدک دور تک ہی محدود نہیں ہے۔وہ اتنے مقبول تھے کہ جی ڈی آر کی سائوتھ ایسٹ ایشیا سوسائٹی کے نائب صدر چنے گئے، جس کے صدر پروفیسر ایرش کورنس تھے۔اشرف نے جی ڈی آر (مشرقی جرمنی) میں رہنے والے ہندوستانیوں کی زندگی میں بھی دلچسپی لی اور برلن مجلس کے صدر کی حیثیت سے اس بات کی کوشش کی کہ برلن کی ایک سڑک کو رابندر ناتھ ٹیگور کا نام دیا جائے۔چنانچہ مشرقی برلن کے علاقے Grunau میں جہاں ہمبولٹ یونیورسٹی برلن کے شعبہء انڈالوجی کے صدر معروف انڈالوجسٹ پروفیسر والٹر روبن رہتے تھے ، کے ایم اشرف، والٹر روبن اور برلن مجلس کے اراکین کی موجودگی میں ایک سڑک کو رابندر ناتھ ٹیگور کا نام دیا گیا۔
بعد میں ہم نے جی ڈی آر میں رہنے والے ہندوستانیوں کی ایک ’’کوارڈی نیٹنگ کمیٹی‘‘ قائم کی جس کا صدر ڈاکٹرکے ایم اشرف کو، سکریٹری سنیل سین گپتا کو اور اسسٹنٹ سکریٹری عارف نقوی کو (مجھے) چناگیا۔بدقسمتی سے اس پودے کے پروان چڑھنے سے قبل ہی ڈاکٹر اشرف اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔اور اپنی یادیں ہمارے پیچھے چھوڑ گئے۔ خصوصاً انکی دلکش شخصیت، مسکراتا چہرہ، لطیفے اور پرلطف باتیں۔ان کی زندہ دلی اور شوخیوں میںبرلن آنے کے بعد بھی کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
مجھے یاد ہے ایک بار میں لائپزگ سے ان سے ملنے کے لئے برلن آیا تھا۔ ان کی بھتیجی بانوؔجو لائپزگ میں میڈیسین پڑھتی تھی
میرے ساتھ تھی۔ اشرف نے مجھ سے کچھ پینے کے لئے پوچھا اور پھر لال شربت کا ایک گلاس پیش کر دیا۔ میں نے کہا میں شراب
نہیں پیتا ہوں۔ بولے یہ شراب نہیں ہے۔ چیری کا جوس ہے۔ میں کچھ جھجھکا۔ اشرف اور بانو دونوں نے یقین دلایا، کہ یہ شراب نہیں
ہے۔ پھر میں نے جیسے ہی ایک گھونٹ حلق سے نیچے اتارا دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے (میں نے اشرف کو پہلی بار اس طرح سے ہنستے ہوئے دیکھا تھا۔) ’’ پی لی نا شراب‘‘ ۔ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ نکلا۔ مجھے ایسا لگا جیسے میرے رگ وپے میں مرچیں دوڑ گئی ہوں۔ بعد میں انھوں نے بہت یقین دلایا کہ یہ شراب نہیں چیری کا عرق تھا۔ مگر مجھے یقین نہیں آتا تھا، جب تک کہ میں نے جرمنی میںبغیر الکوہل پئے جانے وانے مختلف شربتوں کے بارے میں پوری جانکاری نہیں حاصل کر لی اور ان کا خود سے تجربہ نہیں کر لیا۔
بہر حال پروفیسر ڈاکٹر کے ایم اشرف کی زندگی، ان کے تحقیقی کاموں، ان کی سیاسی و سماجی خدمات اور قربانیوں، ان کے دلچسپ خطوط، میڈیول ہسٹری پر ان کی تحقیق، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں مسلمان علماء اور مسلم قوم پرستوںکی قربانیوں پر تحقیقی کام وغیرہ پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے اور کہا گیا ہے۔ آج بھی جب میںبرلن کی ہمبولٹ یونی ورسٹی میںجاتا ہوں ، تو اشرف ؔکی مسکراتی ہوئی تصویر سامنے آجاتی ہے ۔ حالانکہ وہ وہاں عمارت کے کسی حصّے میں نصب نہیں کی گئی ہے، اسی طرح جیسے ڈاکٹر ذاکر حسین اور ڈاکٹر عبدالعلیم کی تصویر نظر نہیں آتی۔ نا ہی کبھی ان کے وطن ہندوستان سے اس کے لئے کبھی آواز اٹھائی جاتی ہے۔

( ڈاکٹر اشرف کے بارے میں یہ مقالہ(چند ابتدائی عبارتوں کو چھوڑ کر) کراچی سے نکلنے والے رسالے ارتقاء میں شائع ہوا تھا اور میں نے ۱۸ مئی ۲۰۰۸ء کو برلن میں ایک تقریب میں پڑھا تھا،جو پروفیسر ڈاکٹر کے ایم اشرف کی یاد میں ارد و انجمن کی طرف سے منعقد کی گئی تھی۔)
Arif Naqvi
Rudolf-Seiffert-Str. 58
10369 Berlin
Phone: 0049 – 30 – 9725036
Mobile: + 0049 – 1778250484
E-mail: naqviarif a yahoo.com

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here