ٹریننگ

0
96

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔


شاداب اختر فلاحی

ہفتہ کا دن تھا،رات کے گیارہ بج رہے تھے،میرے بڑے بھائی کا فون آیا کہ مجھے کل ٹریننگ کے لئے لکھنئو جانا ہے،جس کے لئے پہلے سے کئی بار ذکر ہوچکا تھاسفر کے مشکلات کو دیکھتے ہوئے میں تھوڑا شش و پنج میںتھا ،میری کم گرئی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے فورا کہا کہ تم فکر مت کرو وہاں رہنے کے لئے ہاسٹل اور کھانے کے لئے پورا انتظام ہوگا،کسی بات کی کوئی پریشانی نہیں ہوگی،وہاںکا پتہ میں ایس ایم ایس کردوںگابحرحال تمام تر مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی مشکل سے میں نے ہمت جٹایا اور صبح کا انتظار کرنے لگا اورنیند سے بیدار ہونے کے بعدمیں نے معمولات کے مطابق سارا کام نپٹایا اور لکھنئو جانے کی تیاری میں لگ گیا ،آخر دن تمام ہوا اور شام کو کچھ ضروری سامان سفر لے کر نکل گیااور ایڈریس کے لئے بھیا کو فون کیا انہوں نے کہاتم کہا ں ہو میں جواب دیا راستے میںبس اسٹیشن پہنچنے والا ہوںپھر انہوں نے زمانہ حال سے آگاہ کراتے ہوئے کہا کہ روڈویز کی بس پر سوار ہونا پرائیویٹ والے کئی مرتبہ چیٹینگ کردیتے ہیںاور ہاں لکھنئو میں چنہٹ ایک جگہ ہے جہاں اتر نا ہے ۔جب میں بس اسٹیشن پہنچا تو رات کے سات بج رہے تھے،اور اسٹیشن پر ایک جن رتھ بس کھڑی تھی جس کو لکھنئو ہوتے ہوئے کانپور جانا تھا ، اسلئے بس میں لکھنئو اور کانپور دونوں جگہ کے مسافر سوار ہورہے تھے ،چونکہ عیدالاضحی اور رکشا بندھن کے موقع پر باہر نوکری کرنے والے لوگ کھر آئے تھے جن کو اپنے کام پر واپس جانا تھا اس لئے بس بہت جلد مسافروں سے بھر گئی، اس موقع کو غنیمت جان کر کنڈکٹر تھوڑاتلخ لہجہ ہوکرمسافروں کو بار بار اس بات کا احساس دلارہا تھا کو صرف لکھنئو اور کانپور کے لوگ سوار ہوںگے کیوںکہ نان اسٹاپ بس ہے بیچ میں کہیں نہیں رکے گی گورکھپوربائی پاس ہوکر نکل جائے گی مگر اتنی تیز رفتار زندگی میں کنڈکٹر کی کوئی کہاں سننے والا تھا دوچار لوگ جبرا سوار ہوہی گئے کیوں کہ ان کا گورکھپور جانا ضروری تھا اسلئے کی ان کو وہاں سے دوسری جگہ کے لئے ٹرین پکڑنا تھا،ان میں ایک صاحب میرے پاس والی سیٹ پر بیٹھ گئے اور جی پی ایس میپ کے ذریعہ ٹرین کا لوکیشن ٹریک کرنے لگے جیسے جیسے ان کے ٹرین کا وقت قریب ہوریا تھا اور بس کی سست رفتاری کو دیکھ کر وہ کنڈکٹر سے بحث و مباحثہ کرنے لگے لیکن بحر حال اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور بس ٹھیک دس بجے گورکھپور پور پہنچی شاید یہی ان کے ٹرین کا بھی وقت تھا۔
گرمی کا موسم اور لمبا سفر تھا اسلئے لوگوں نے اے سی بس کا انتخاب کیا مگر افسوس کہ جتنا سست رفتار بس تھی اس سے کہیں زیادہ خراب اس کا اے سی تھاتقریبا ۶۵ کلو میٹر سفر طے کرنے بعد بس کا اے سی پوری طرح خراب ہوگیا اور بس چاروں طرف سے پیک ہونے کی وجہ مسافر گھٹن محسوس کرنے لگے ،اور جب برداشت کی حد ہوگئی نو دوچار لوگ اپنی سیٹ سے اٹھ کر آگے آئے اور بس کنڈکٹر سے بحث ومباحثہ کرنے لگے اسی دوران پیچھے سے آواز آئی اے سی چلائو ورنہ اے سی کی پیسہ واپس کرو جب بحث و مباحثہ گرمی آگئی تو بس کو رات کے اندھیرے میں کھڑا کرکے بس ڈرائیور نے اے سی بنانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہ ملی بالکل جب کوئی صورت نظر نہیں آیا تو نزاع کی شدت میں کمی آئی اور اوپر کی کھڑکی کھولنے پر لوگ راضی ہوگئے۔
رات کاگیارہ بج رہا تھا سارے مسافر خواب آغوش میں چلے گئے تھے اور بس میں بالکل سناٹا سا چھا گیا تھا اسی دوران میری بھی آنکھ لگ گئی ،چونکہ بیٹھ کر سونے کی عادت نہ تھی اسلئے میری آنکھ برابر کھلتی رہتی تھی بس اپنی منزل کی طرف روادواں تھی رات کو تقریبا ۱بجے بس ایک ڈھابے پر رکی جس کا نام ’’سواگتم‘‘ تھاکچھ مسافر بس سے نیچے اترے اور ضروریات سے فارغ ہوکر کچھ کھانا وغیرہ کھائے اور دوبارہ بس میں سوار ہوگئے ۔
بارہ بنکی پہنچتے پہنچتے ساڑھے تین بج گئے تھے اور ڈرائیور کو بھی نیند آنے لگی تھی ،کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ بس راستے کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے چلی گئی جو فی الحقیقت صحیح تھا،کیوں کہ بس کنڈکٹر نے زورسے ڈرائیور کو کہا ابے گاڑی دیکھ چلاکیسے گاڑی جھپ رہی ہے،کنڈکٹر نے بس رکواکر ڈرائیور کے منھ پر پانی کا چھینٹ مارا اوردوبارہ بس روانہ ہوگئی خدا خدا کرکے سفر ختم ہوا اور ساڑھے چار بجے چنہٹ فلائی اوور پر چڑھنے سے قبل اتر گیا،کچھ دیر وہیں کھڑا رہا اور بھی کئی مسافر اترے تھے جو اپنی منزل کی طرف جانے لگے اور کچھ اینے قریبی کے آنے کا انتظار کررہے تھے،میں رفتہ رفتہ پل کے نیچے گیا جہاں ایک ای رکشہ والا مسافر کے انتظار میں کھڑا تھا،میرے موبائل پر ایس ایم ایس آگیا تھا میں نے موبائل نکال کر رکشے والے سے کہا بھیا مجھے ’’جل کرسی انوسندھان ‘‘جانا ہے جو ملہور میں ہے رکشے والا پندرہ منٹ کے اندر جل کرسی انوسندھان کے گیٹ پر چھوڑ دیا میںنے اسے قول کے مطابق دس روپئے اپنی جیب سے نکال کر دے دیا ،گیت بند تھا اسلئے میں تھوڑا پریشان ہوا لیکن رکشہ والے میری پریشانی کو دور کرتے ہوئے کہا کہ وہاں گیٹ کیپر ہوگا جو کہنے پر گیٹ کھول دیگا،جب میں نے واچ مین سے کہا کہ میں ٹریننگ کے لئے آیا ہوں تو اس نے جواب دیا یہاں پرآج کی تاریخ میں کوئی ٹریننگ نہیں ہے بڑے صاحب نے اس کی کوئی اطلاع نہیں دی ہے،ٹریننگ کے لئے پہلے سے ساری تیاریاںہوجاتی ہیں، اور یہاں پر اس کی کوئی تیاری نہیں ہے،ایسا کریں آپ اس کے شاخ پر جائیں ہو سکتا ہے کہ آپ کی ٹریننگ وہاں پرہو۔
پرنسپل ایم ایس آر بسڈیلا معین الدین ،دیوریا

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here