واصف فاروقی کےدو شعروں کا عروضی تجزیہ

0
172

[email protected] 

9807694588موسی رضا۔

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ڈاکٹر ہارون رشید

واصف فاروقی بین الاقوامی شہرتوں کے حامل شاعر اور ناظم مشاعرہ ہیں۔ان کا شعری سفر تقریباپچاس برسوں پر محیط ہے۔انھوں نے دنیا کے ہر اس شہر میں اپنی شاندار موجودگی درج کرائی ہے،جہاں اردو/ہندی بولنے اور سمجھنے والے موجود ہیں۔بدلتے وقت کے ساتھ جو تبدیلیاں زبان و ادب میں رونما ہوتی رہی ہیں،واصف فاروقی نے ان کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ایسے وقت میںکہ جب اردو دنیا کو شمس الرحمن فاروقی اور پروفیسر گوپی چند نارنگ کے ورود نےاردوادب اور تنقید کو شخصیت پرستی کا شکار بنا دیا ہے ،واصف فاروقی نے اپنے ضمیر کی آواز کو، اپنے حقیقی تجربات و مشاہدات کو،سچے محسوسات قلبی و سماجی اور صادق جذبات کو شعری اظہار کا لباس فاخرہ عطا کیا ہے۔معاصر شعری دنیا میں میں لہجے کی شگفتگی،خیال کی تازگی،زبان کی شگفتگی،احساس کی تابندگی،جذبے کی پاکیزگی ،فکر کی بالیدگی اور اسلوب کی دلبستگی جیسے عناصر بذات خود واصف فاروقی کے شعری اور فنی تشخص کا شناخت نامہ ہیں۔وہ اردو زبان کے ایک ایسے نقیب ہیں جن کے بارے میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد نے واصف فاروقی کے شعری مجموعہ “ریشم”کے اجراکے وقت گنگا پرشاد ہال امین آباد میں کہا تھا:۔
“مشاعروں کے حوالے سے بھی زبان و ادب کی ترویج واصف فاروقی کا اہم کارنامہ ہے۔واصف فاروقی کے دور میں ایسا نہیں ہے کہ شعروادب کا فروغ نہیں ہے،کیونکہ ہماری زبان کا ادب اس لائق ہو چکا ہے کہ وہ عالمی ادب سے آنکھیں ملا رہا ہے۔لیکن زبان کی سطح پر کام کرنے کی ضرورت تھی ،اس کے لیے واصف فاروقی نے مشاعرہ کے اسٹیج سے نہ صرف شاعری بلکہ نظامت کے حوالے سے بھی معاصر نسل کی تربیت اور اردو زبان کی اشاعت و ترویج بھی کی ہے۔”
سوشل میڈیا آج ایک طاقتور میڈیا کے روپ میںاپنی جگہ متعین اور مستحکم کر چکا ہے۔شعرا و ادبا نے بھی سوشل میڈیا کو ایک طاقتور میڈیم کی حیثیت سے اپنا یا۔اس سے قطع نظر کی سوشل میڈیا پر بے بحرے اور نا شاعروں کی بھی بھرمار ہے اور ان کا ایک حلقۂ احباب بھی ہے جو بے سوچے سمجھے واہ واہ کی صدائیں بلند کرنے لگتا ہے۔لیکن اس بھیڑ میں کچھ ایسے شعرا و ادبا بھی ہیں جن کی معتبریت عالمی سطح پر مسلم الثبوت ہے۔انہی میں ایک نام واصف فاروقی کا بھی ہے۔جو وقتا فوقتا اپنی غزلیں ،قطعات اور اشعار فیس بک پر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔اور ان کے حلقہ احباب میں بھی ایسے لوگ ہیں جو صرف واصف نوازی ہی کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو خود بھی شاعر ہیں اور شعر کی سمجھ بھی رکھتے ہیں اور ایسے بھی ہیںجو شعرکے مفہوم اور اس کے تکنیکی پہلوؤں سے ذرا بھی واقفیت نہیں رکھتے۔بلکہ اگر کوئی تنقیدی پوسٹ کر دے تو فورا بھڑک بھی جاتے ہیں۔خود واصف فاروقی بھی کبھی کبھی ایسی شرارتیں کرتے ہیں جن میں لوگ الجھ جاتے ہیں ۔حال ہی میں واصف فاروقی نے فیس بک پر”اہل فن نظر انداز فرمائیں” کے نوٹ کے ساتھ ایک مطلع اور شعرپیش کیا ۔
سب پہ ہے اس کی دسترس اور بس
ایک چھوٹا سا وائرس اور بس
اب ہےآزادیوں میں موت کا خوف
گھر بنائے گئے قفس اور بس
حسب روایت واہ واہ شروع ہوئی۔لیکن سلیمان اختر ہاشمی نے قافیہ کی طرف ہلکا سااشارہ کیا۔جو حضرات تکنیکی پہلووں پر نظر رکھتے تھے انھوں نے تلاش و تحقیق شروع کی کہ اس میں وہ کون سا پہلو ہے جس کے لئے پہلے معذرت کر لی گئی ہے۔(یہ الگ بات ہے کہ دانستہ غلطی کے لئے معذرت کوئی معنی نہیں رکھتی)سب سے پہلے بارہ بنکی کے ماہر فن صغیر نوری نے تفصیلی تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا:۔
محترم جناب واصف فاروقی صاحب کے مندرجہ ذیل اشعار خاکسار کی نظر سے گزرے۔
سب پہ ہے اس کی دسترس اور بس
ایک چھوٹا سا وائرس اور بس
اب ہے آ زادیوں میں موت کا خوف
گھر بنائے گئے قفس اور بس
مطلع میں جو قافیہ استعمال ہوا ہے اس میں حرف را کی تکرار ہے یا یہ کہا جائے کی را کی قید ہے ۔مناسب یہ تھا کہ اس تکرار کو شعر میں بھی بر قرار رکھتے۔
اس کا پہلا، دوسرا اور چوتھا مصرع ایک وزن اور بحر میں ہیں جس کا وزن اور تقطیع یہ ہے
سب پہ ہے/فاعلن۔اس ک دس/فاعلن۔ترس /فعل۔اور بس/فاعلن
ایک چھو/فاعلن۔ٹا س وا/فاعلن۔ئرس/فعل۔اور بس/ فاعلن
گھر بنا/فاعلن
ہے گئے/فاعلن
قفس/ فعل
اور بس/فاعلن ۔۔۔بحر متدارک مثمن مخلع
تیسرا مصرع
اب ہ آزا/ فاعلاتن
دیوں م مو/مفاعلن
ت ک خوف/فعلان۔۔۔بحر خفیف مسدس مخبون ابتر
اس طرح میری نظر میں تیسرے مصرعے کی بحر بدل گئی ہے۔اس تجزیہ کے بعد انھوں نے یہ وضاحت بھی کی کہ انھوں نے ردیف کے “اور”کو مخفف نہیں پڑھا ہے کیونکہ اور کو اسی جگہ مخف کیا جا سکتا ہے جہاں وہ بطور عطف استعمال ہوا ہو۔
صغیر نوری نے اپنے اس تجزیہ کی روشنی میںجو نتائج نکالے (قافیہ کی بحث سے الگ)اس کی روشنی میں واصف فاروقی کا تیسرا مصرعہ یا دوسرے شعر کا پہلا مصرع دوسرے مصرعوں کی بحر سے الگ ہو جاتا ہے۔جو ایک بڑا عیب ہے۔سوال یہ تھا کہ کیا اسی غلطی کے لئے اہل فن سے واصف فاروقی نے نظر انداز کرنے کی بات کہی تھی۔ظاہر ہے کہ واصف فاروقی جیسا معتبر اور اہل نظر شاعر ایسی غلطی دانستہ نہیں کر سکتا تھا۔ معروف شاعر اور ادیب عثمان اترولوی نے ہر مصرعہ میں ایک لفظ بڑھاتے ہوئے لکھا کہ میں اگر ان اشعار کو کہتا تو یوں کہتا۔یعنی انھیں بھی واصف فاروقی کے شعروں کی بحر کھٹک رہی تھی۔آخر واصف فاروقی کو صفائ دینی پڑی انھوں نے پہلے قافیہ پر اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا:۔
“ان مصرعوں کو پوسٹ کرتے وقت مجھے دسترس وائرس اور قفس کے قوافی کے استعمال پر اس حد تک احساس توتھا ہی کہ میں نے اہلِ فن سے اسے نظرانداز کرنے کی گزارش کرتے ہوئے معذرت کی تھی۔(کیونکہ)دسترس اور وائرس کا استعمال جائز ہے اس لئے کہ یہ ایطا اساتذہ کے یہاں بھی موجود ملتا ہے۔حرفِ روی “ر”کی قید سے آزادی کے لئے ایک مطلع آزاد قوافی میں کہہ کر غزل کہنے کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے۔لیکن یہاں ایک مطلع اور ایک شعر میں میں نے یہ اہتمام ضروری نہیں سمجھا۔(پھر)ایک مطلع اور ایک شعر ہم ربط نہیں ہیں اس لئے اسے قطعہ نہ کہا جا ئےتو بہتر ہے۔لیکن کم و بیش پچاس برس کے شعر گوئی کے سفر میں خود پر اتنا یقین تو ہے ہی کہ بحر کا کا عیب میری شاعری میں نظر نہیں آئے گا”
اگر واصف بھائی نے اہل فن سے معذرت نہ کی ہوتی تو یہ گفتگو شروع ہی نہ ہوتی۔فن کے تئیں واصف بھائی کی ایمانداری کی دلیل ہے( کہیں مطلع میں ر کی تکرار اور بعد کا قافیہ بغیر “ر “کے ہونے کی وجہ سے لوگوں کو کھٹک نہ جائے)اس لئے انھوں نے پہلے معذرت کر لی۔اور بعد میں ان کا جواب اس شکایت یا اعتراض کو پوری طرح رد کر دیتا ہے ۔کیونکہ یہ غلطی اس وقت ہوتی جب پوری غزل سامنے ہوتی،صرف ایک مطلع اور ایک شعر سے یہ طے نہیں کیا جاسکتا تھا کہ “ایطا” ہو گیا۔
صغیر نوری صاحب نے اپنے تفصیلی تجزیاتی گفتگو کو مذکورہ اشعار کی تقطیع کر کے دوسری طرف موڑ دیا۔اورپہلے دوسرے اور چوتھے تین مصرعوں کی بحرایک اور تیسرے مصرع کی بحر کو الگ قرار دے دیا ۔اور بنیاد بنایا لفظ “اور “کو۔ان کا کہنا ہے کہ “اور”اگربطور عطف استعمال ہو تو مخفف کیا جا سکتا ہے۔ورنہ نہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مذکور ہ اشعار میں “اور”بطور عطف نہیں ہے۔انھوں نے پہلے ،دوسرے اور چوتھے مصرعے کے اوزان فاعلن،فاعلن،فعل،فاعلن بحر متدارک مثمن مخلع میں بتایا اور تیسرے مصرعے کو فاعلاتن،مفاعلن،فعلان بحر خفیف مسدس مخبون ابتر میں بتایا۔
اس عروضی تجزیہ میں دو قباحتیں ہیں۔پہلی یہ کہ فعل،بسکون لام بیت کے درمیان میں نہیں آ سکتا۔بحر متدارک مثمن مخلع کے اوزان (فاعلن فاعلن فاعلن فعل) ہوں گے۔اس لئے ان کی تقطیع غلط ٹھہرتی ہے،دوسری یہ کہ بحر خفیف مخبون میں فعلان ابتر نہیں ہوتا۔بلکہ قصر (مقصور) ہے ۔اب رہا سوال یہ کہ “اور” کا واؤ کہاں مخفف ہوگاکہاں نہیں اس کا کوئی قاعدہ کسی کتاب میں نہیں ملا۔اگر کسی بھائی کے پاس کوئی حوالہ ہو تو مجھے ضرور بتائیں تاکہ میں استفادہ کر سکوں۔فی الحال معائب سخن اور محاسن سخن پر تفصیلی کتاب” نکات سخن” کے مصنف مولانا حسرت موہانی کی غزل کے دو شعر پیش ہیں۔
تجھ سے ملتے ہی وہ کچھ بیباک ہو جانا مرا
اور ترا دانتوں سے وہ انگلی دبانا یاد ہے
کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونہ دفعتاً
اور دوپٹے سے ترا وہ منہ چھپانا یاد ہے
ان اشعار میں “اور “حرف عطف نہیں ہے لیکن پھر بھی مخٖفف نظم ہوا ہے۔اب رہ جاتی ہے ۔مذکورہ اشعار کی اصل تقطیع تو وہ بھی حاضر ہے۔چاروں مصرعےعروضی اعتبا ر سے ایک ہی وزن و بحر میں ہیں۔
سب پہ ہے اس/فاعلاتن۔۔ک دس ترس/مفاعلن۔ار بس/فعلن ۔ایک چھوٹا/فاعلاتن۔۔س وائرس/ مفاعلن۔۔اربس/فعلن۔
اب ہے آزا/فاعلاتن۔۔دیوں م مو/مفاعلن۔۔ت کا خوف/فعِلان (مقصور)۔گھر بنائے/فاعلاتن۔گئے قفس/ مفاعلن۔۔ار بس/فعلن ۔
اس طرح سےچاروں مصرعے بحر خفیف مسدس مخبون محذوف میں ہیں تیسرے مصرع میں فعلن کی جگہ فعلان جو بظاہر مسبغ یا مذال نظر آرہا ہے وہ اصلا فاعلاتن کا مقصور ہے اور بالکل درست ہے۔پہلا دوسرا اور چوتھا مصرعہ ،فاعلاتن مفاعلن فعلن میں ہے بحر خفیف مخبون محذوف۔اس کے باوجودتھوڑی دیر کے لئے صغیر نوری کے واؤ کےقاعدے کو مان بھی لیں تو بھی ایک دوسری تقطیع بھی ہو سکتی ہے ۔فاعلاتن مفاعلن فاعلن یعنی بحر خفیف مسدس محذوف میں بھی ہوسکتی ہے ۔اس طویل عروضی تجزیے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ واصف فاروقی کے چاروں مصرعے ایک ہی بحر میں ہیں اور اس میں کوئی عروضی خامی نہیں ہے۔
9956779708

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here