نقاب

0
200

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عطیہ بی
صبح کی سنہری دھوپ میرے چہرے پر بکھر گئی اور میں اپنے خوابوں کی حسین خواب گا ہ سے بھرپور انگڑائی لیتی ہوئی باہر آگئی۔ لڑکھڑاتے قدموں سے میں واش بیسن  کے پاس کھڑی ہوئی نیند کا خمار کچھ اس قدر طاری تھا مانو میں نے کوئی نشہ کر رکھا ہو۔ پانی کے چھیٹے پڑتے ہی اس نشے سے باہر آگئی اور اپنی بالکنی سے باہر کا نظارہ کرنے لگی گارڈن میں لگے خوشنما پھولوں کی کشش بار بار ان کی طرف دیکھنے پر مجبور کر رہی تھی۔ میں دیکھتے ہی دیکھتے کسی سوچ میں گم ہوگئی۔ میرے خیالات میں وہ منظر گھومنے لگا جب میری ملاقات عارف سے ہوئی۔عارف جو نہایت شریف، سمجھدار شخص تھا اس کی شرافت اور دوسروں سے جدا عادتوں نے میرے اندر اس کے لئے سوچ کا ایک نیا انداز پیدا کر دیا۔ اس کی انسان دوستی کی میں قائل ہوتی چلی گئی اس سے میری پہلی ملاقات ایسے ہی سہانے موسم میں ہوئی تھی مگر اس شخص نے مجھ سے صرف حسب ضرورت بات کرکے اپنی راہ لی۔ بس یہی بات جو اسے دوسروں سے جدا کرتی تھی مجھے بہت پسند آئی۔ اسی طرح ملاقاتوں کا سلسلہ گاہے بگاہے بڑھتا گیا لیکن بات ہمیشہ مختصر رہتی۔ عارف میں مجھ کو جو بات سب سے اچھی لگی وہ اس کی تہذیب اور شرافت تھی وہ نہ تو دوسرے لڑکوں کی طرح ادھر ادھر گھومنا اور نہ کسی سے دل لگی کی باتیںبس اپنے کام سے کام۔ مگر نہ جانے کیوں مجھ سے وہ بات کر لیا کرتا اور مجھے بھی اس سے بات کرکے بہت اچھا لگتا۔یہ مجھے کیا ہو رہا تھا پتہ نہیں؟
شاید مجھے عارف سے محبت ہونے لگی تھی؟ مجھے لگا کہ میںنے ایک صحیح انسان کو پہچان لیا ہے۔ یہی ہے وہ جس کا مجھے ہمیشہ سے انتظار تھا۔ دن بدن ہماری بات چیت بڑھنے لگی اور میں اس کی ہر بات پر آنکھ بند کرکے بھروسہ کرنے لگی۔دن گزرتے گئے ہماری دوستی اور گہری ہوتی گئی اس کا تھوڑی دیر کے اتنظار سے میں بے چین ہو جاتی۔ بات ہوتی تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کہوں اور جب دور تو یہ سوچتی کہ ابھی بہت باتیں کرنی باقی ہیں۔
مگر ایک اچھی بات یہ تھی ہم جب بھی ملتے کبھی کوئی ایسی بات نہیں ہوئی جو عموماً آج کل کے عاشقوں میں ہوتی ہے۔ یوں ہی دن گزرتے گئے اور محبت اور گہری ہوتی گئی۔
ایک دن میں جب گھر پہونچی تو امی نے مجھے روکتے ہوئے کہا’’پروین کل تم آفس مت جانا کل تم کو لڑکے والے دیکھنے آرہے ہیں اس بات  کو سنتے ہی میرے پورے جسم میں سرسراہٹ پیدا ہو گئی اور میں بے چین ہو اٹھی بنا کسی سے کچھ کہے میں کمرے میں چلی گئی۔
اچانک ہوئے اس حادثے کو میں سمجھ نہیں پارہی تھی۔ کہ میں کیا کروں۔ آنکھوں کے آنسؤوں نے سیلاب کا رخ اختیار کر لیا تھا۔
’’میں کیا کروں‘‘
’’میں کہا جائوں‘‘
’’ یا اللہ یہ کیا ہو رہا ہےــ‘‘؟
’’امی ابو کو کس طرح بتائوں کہ میں شادی نہیں کر سکتی میںکسی اور کو پسند کرتی ہوں اور میں اسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ دماغ سن ہوگیا کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
اگر والدین کی عزت رکھتی ہوں تو محبت کو کس طرح قربان کروں۔ عارف کو کس طرح بتائوں کہ میری شادی کسی اور سے ہو رہی ہے۔ کیا گزرے گا اس پر جب اس کو یہ پتہ چلے گا وہ تو ٹوٹ ہی جائے گا۔
بڑی ہمت کرکے میں عارف کو فون تو کیا مگر کہوں گی کیا؟
یہ سمجھ نہیں پارہی تھی۔ فون کی گھنٹی بجی اور میرا دل اسی رفتار سے تیزی سے دھڑکتا رہا۔
اچانک دوسری جانب عارف کی آواز آئی۔
’’ہلو کون‘‘
’’میں پروین میں تم سے اسی وقت ملنا چاہتی ہوں عارف‘‘
’’خیریت تو ہے کیا ہوا‘‘
’’ بس مجھے اسی وقت تم سے ملنا ہے۔ مل کے ہی بتائوں گی‘‘
’’کیا کوئی خاص کام ہے؟ اتنی بے تابی کیسی ہے‘‘
’’ ہاں بہت خاص ہے میرا تم سے ملنا بہت ضروری ہے، میں تم سے ملنے آرہی ہوں‘‘
کہتے ہوئے میں نے فون رکھا اور میں عارف سے ملنے گھر سے نکل پڑی۔
ہم جہاں ملتے تھے اسی جگہ میں عارف کا انتظار کر ہی رہی تھی کہ مجھے عارف کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔
’’ کیا بات ہے پروین تم نے اس وقت مجھے کیوں بلایا ہے کیا ہوا‘‘
میں اپنی زبان سے کیسے کہوں کہ میری شادی ہو رہی ہے لوگ مجھے دیکھنے آنے والے ہیں عارف یہ سن کر تو پوری طرح ٹوٹ ہی جائے گا۔ میری زبان لڑکھڑانے لگی۔
’’کیا بات ہے بولوبھی‘‘ عارف نے تیز آواز میںکہا۔‘‘
’’میری شادی طے ہو رہی ہے عارف کل مجھے دیکھنے کچھ لوگ آرہے ہیں۔مگر میں تم سے محبت کرتی ہوں میں کسی اور سے شادی نہیں کر سکتی ہوں‘‘
یہ سنتے ہی عارف خاموش ہو گیا۔ مگر اس کے چہرے پر سناٹا تھا کوئی تعبیرات نظر نہیں آتے تھے۔
تھوڑی دیر بعد وہ اچانک مجھ سے بولا دیکھو تم میری وجہ سے اپنے والدین کی عزت کو دائوں پر نہ لگائو تم وہی شادی کر لو جہاں تمہارے والدین چاہتے ہیں۔ میں بھی تم کو بہت پسند کرتا ہوں اور شاید تمہارے علاوہ میں کسی اور کے ساتھ زندگی گزارنے کے بارے میں سوچ نہ سکوں۔ مگر تم شادی کرلو یہ میری تم سے التجا ہے۔
میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے اسے دیکھتی ہی رہ گئی کہ یہ کیا کہہ رہا ہے۔
کل تک تو عارف مجھ سے شادی کرنے کو بے چین ہو اکرتا تھا۔ کسی اور کی بات سن کر اس کے چہرہ کا غصہ صاف عیاں ہوجاتا مگر آج جیسے اسے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ میں نے تو سوچا تھا کہ وہ یہ کہے گا میں تمہارے گھر اپنے والدین کو بھیجوں گا رشتہ کے لئے مگر ایسا کچھ عارف نے نہیں کہا۔
عارف نے بڑی معصومیت سے کہا میں جانتا ہوں تم حیران ہو کہ میں کیا کہہ رہاہوں مگر بات تمہارے گھروالوں کی عزت کی ہے اس لئے تم شادی کرلو۔ میں بت بنی سب سنتی رہی۔
اس کے آگے میرے پاس کچھ نہیں تھا اور میں خاموشی کے ستھ وہاں سے چلی آئی ۔
میرے آنسوں تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ او ر نیند کوسوں دور جا چکی تھی۔
آج میری زندگی کا نیا دن تھا مگر حالات وہی پرانے تھے۔ میں گھروالوں سے خوش ہونے کا دکھاوا کر رہی تھی۔ میں خود کو سمجھانے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی کہ عارف کتنا شریف النفس شخص ہے میرے والدین کے لئے اس نے اپنی محبت کی قربانی دے دی دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں مگر دل پھر بھی ماننے کو تیار نہ تھا۔
اچانک دروازہ پر دستک ہوئی میں چونک کر دروازے کی جانب دیکھنے لگی اور مجھے امی نظر آئیں۔ امی نے اندر آتے ہی مجھے ہوشیار کیا۔
اُٹھو مہمان آگئے ہیں جلدی تیار ہو جائو۔
’’ جی امی‘‘ میں نے کہہ تو دیا مگر میں کیسے باہر جائوں گی مجھ سے یہ نہیں ہوگا کہتے ہی میں پھر سے بستر پر دھنس کے بیٹھ گئی۔
میرے اندر سے پھر ایک آواز آئی اٹھو پروین تمہارے اس طرح زد کرنے سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا نہ گھروالوں کو اور نہی ہی اس شخص کو جس سے تم بے پناہ محبت کرتی ہو اپنے والدین کی خاطر تم باہر چلو اور یہ خیال آتے ہی میں خود کو باہر جانے کے لائق کرنے لگی۔ تبھی مجھے ایک جانی پہچانی آواز نے اپنی طرف مائل کیا۔
یہ آواز رضی بھائی کی تھی جو ہمارے پڑوسی تھے اور یہ رشتہ بھی وہی لے کر آئے تھے امی ابو سے تو انہوں نے اس رشتہ کی بڑی تعریف بھی کی تھی۔
’’ارے بھائی جان کچھ نہیںہوتا یہ تو آج کل کا رواج ہے۔ ہر لڑکالڑکی کو دیکھنا چاہتا ہے۔ لڑکا ضد کر رہا تھا کہ وہ لڑکی کو دیکھے گا۔‘‘
’’مگر رضی بھائی یہ ہمارے گھر کا رواج نہیں شادی سے پہلے کیسے!‘‘
اماں چھوڑئیے کہاں فضول کی باتیں لے کر بیٹھے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے اب تو لڑکی اور لڑکے کو اکیلے ملنے کے لئے بھیج دیتے ہیں یہاں تو لڑکا سب کے سامنے ملنا چاہتا ہے اب مہمان آچکے ہیں اب کوئی ہنگامہ نہ کھڑا کیجئے۔ رشتہ بہت اچھا ہے چلئے جلدی چلئے۔ ابو کا چہرہ اتر گیا اب وہ بے بسی کے عالم میں باہر نکل گئے۔ مگر مجھے باہر سے کوئی جانی پہچانی آواز بار بار متوجہ کر رہی تھی اور میں بار بار اسے اگنور کر رہی تھی۔
میں سب کچھ بھول کر باہر جانے کی تیاری کرنے لگی تھی شاہین (میری چھوٹی بہن )بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی۔
’’ نہ جانے رضی بھائی ان جاہلوں کو کہاں سے لے آئیں ہیں ہوں گے اپنے گھر کے بڑے آدمی‘‘
’’کیا ہوا شاہین کیوں بڑبڑا رہی ہو۔‘‘
ارے آپا جو لوگ آئیں ہیں بالکل جاہل اور لالچی ہیں۔ کہتے ہیںآپ اپنی بیٹی کے ساتھ جو کچھ بھی کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں وہ آپ کی خوشی ہے کچھ زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بس اپنے داماد کو ایک اچھی سی گاڑی دے دیں تویوں تو ہم کو کوئی کمی نہیں بس داماد آپ کا ہے تو لوگوں کے بیچ اس کی شان بنی رہے گی۔ تو آپ کا ہی نام ہوگا۔
بتائیے یہ کوئی بات ہے آپا بتائیے مگر میں مٹی کی مورت بنی اس کی بات کو بڑے بے پرواہی سے سنتی رہی اور کوئی بھی جواب نہ دیتے ہوئے اپنے کام کرتی رہی۔
مگر شاہین کی زبان بند ہونے کا نام نہ لے رہی تھی۔
’’ اور سنئے لڑکا کیا بولتا ہے! دیکھئے مجھے لڑکی خوبصورت چاہئے جو سوسائٹی میں میرے ساتھ آ جا سکے۔ بے چارے امی ابو خاموشی کے ساتھ ان کی سب شرطیں سن رہے ہیں۔ میں نے اس کی یہ بات سن کر بھی کوئی جواب نہ دیا پروین نے مجھ کو پکڑتے ہئوے کہا ۔’’ آپا! کیا آپ کو یہ رشتہ منظور ہے۔‘‘
میرے چہرہ پر سنّاٹا تھا ، بس زبان نے حرکت کی۔
’ اگر امی ابو یہی چاہتے ہیں تو یہی صحیح۔‘‘ اور یہ کہتے ہئوے میں شاہین کے ساتھ چائے کی ٹرے لے کر بظاہر نمونہ بنی باہر نکل آئی ۔ جیسے میںکوئی سامان ہوں۔
آئو ، بیٹا آئو بیٹا یہاں بیٹھو۔ امی نے مجھے پاس ببلاتے ہوئے کہا۔
یہ ہے میری بیٹی پروین امی نے لڑکے والوں سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔
میں نے جیسے ہی احترام سے سلام کے لئے چہرہ سامنے کیا میرے پیروں تلے زمین کھسک گئی۔
غش سا طاری ہو گیا۔ میرے سامنے وہ شخص بیٹھا تھا جو میری زندگی تھا۔
جس کو میں بے پناہ محبت کرتی تھی جس کو آج تک میں نے دنیا میں سب سے شریف انسان سمجھا وہ شخص اتنا خود غرض اور لالچی ہو گا یقین نہیں ہو رہا تھا میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے عارف کو صرف دیکھتی ہی رہ گئی۔
کیا یہ وہی انسان ہے جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتا تھا میرے بنا جینا اس کے لئے مشکل تھا میرے والدین کی عزت اس کی زندگی کا سرمایا تھی کیا یہ وہی ہے جو آج یہاں ایک لالچی بھیڑئیے کی شکل میں بیٹھا ایک لڑکی کی زندگی کا فیصلہ کر رہا ہے۔
عارف مجھے دیکھ کر سٹپٹا گیا اور گھبرا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ اور ہاتھ میں پکڑا چائے کا پیالا گھبراہٹ میں ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ لگتا تھا اس کی کوئی چوری پکڑی گئی ہو۔
’’تم، تم یہاں کیا کر رہی ہو‘‘ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا۔
’’میں وہی ہوں عارف صاحب آپ جس کا سودا کرنے  آئے ہیں۔ ‘‘ ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں سبھی لوگ جو ابھی تک اس بات سے انجان تھے ، عارف کی شکل دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
جی امی یہ نہایت شریف انسان ہیں قربانی کا جذبہ ان کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔
مگر میں آپ کے لائق نہیں آپ باہر جا سکتے ہیں ، اللہ حافظ۔
عارف اپنے والدین کو ساتھ لیکر یوں بھاگے جیسے ان کے چہرے پر پڑے نقاب کو  سر محفل کسی نے نوچ کر پھینک دیا ہو۔
عطیہ بی
وزیر گنج لکھنؤ
��
Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here